تابوت سکینہ
اس زمانے میں تابوت سکینہ یعنی خلافت حقہ اسلامیہ مسیح موعود کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اور یہ اب تاقیامت رہے گا اوراس کو ماننے والے ہی امن و آشتی کی زندگی گزاریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی نوید سنائی ہے کہ ’’امن است در مکان محبت سرائےما‘‘
جماعت احمدیہ کا موقف
آیئے اب ان آیات میں بیان شدہ عظیم الشان مضمون کو سمجھنے کے لیے اہم نکات پر باری باری غور کرتے ہیں۔ ان آیات میں اہم نکات یہ ہیں:
1…بنی اسرائیل کے سرداروں کا یہ مطالبہ کہ ہمارے اوپر ایک بادشاہ مقرر کیا جائے جس کی کمانڈ میں ہم دشمنوں کے ساتھ جنگ کریں۔
2…حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سردارانِ بنی اسرائیل سے کہنا کہ کیا تم اپنی اس بات سے بھاگ تو نہیں جاؤ گے؟ جس کے جواب میں سرداروں کا کہنا کہ نہیں ہم اس کے ماتحت ہو کر جنگ کریں گے اور آخری فتح حاصل کر کے دم لیں گے۔
3…طالوت کا بادشاہ مقرر کیا جانا اور اس کی حاکمیت تسلیم کرنے سے بنی اسرائیل کا انکار۔
4…طالوت کی بلحاظ علم و جسمانی وسعت برتری کا ذکر جس کی وجہ سے اللہ نے اسے بادشاہ بنایا ہے۔
5…طالوت کی بادشاہت کی نشانی یہ ہو گی وہ تمہارے پاس ایک تابوت لائے گاجسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، جس میں سکینت ہو گی اور آل موسیٰ اور آل ہارون کا ترکہ ہو گا۔
بنی اسرا ئیل نے جب دشمنوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے ایک با دشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی تو ان کے امتحان کے مدنظر اللہ تعالیٰ نے ان کی منشا کے خلاف ایک شخص کو با دشاہ مقرر کر دیا جس سے اُن کی مخفی ایما نی کمزوری ظاہر ہو گئی اور انہوں نے اعتراض کر نے شروع کر دیے کہ اسے کیوں بادشاہ بنا دیا گیا ہے۔ اپنے اعتراض کو تقویت دینے کے لیے کہا: (1)ہمارے مقا بل پر اسے کوئی ظاہری وجاہت حاصل نہیں۔ ہم اعلیٰ خا ندان سے تعلق رکھتے ہیںاور یہ ادنیٰ خا ندان میں سے ہے اس لیے بادشاہت ہمارا حق ہے نہ کہ اس کا۔ (2) مالی لحاظ سے بھی ہم اس سے بہتر ہیں یہ غریب ہےجبکہ با دشاہت کے لیے دولت ایک اہم ضرورت ہو تی ہے۔ پس ہم اسے با دشاہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰٮہُ عَلَیۡکُمۡ۔
اُن کے نبی نے پہلی بات کا جواب دیا کہ طالوت کی برتری کی پہلی وجہ یہ ہےکہ اسے اللہ تعالیٰ نے چنا ہے اس لیے اُسے مخا لفت کے با وجود کامیابی نصیب ہو گی۔
دوسرے سوال کا جواب دیاکہ
زَادَہٗ بَسۡطَۃً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ۔
خدا تعا لیٰ نے اسے علمی لحاظ سے بہت فراخی عطا فرمائی ہے۔ علم کے لفظ سے اس طرف اشارہ فر ما یاکہ دنیا میں مال علم کے ذریعہ ہی کما یا جا تا ہے اور علم اسے تم سے بہت زیا دہ حاصل ہے ورنہ بیو قوف آدمی تو اپنے با پ دادا کی کما ئی کو بھی تبا ہ کر دیتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے اسے جو علم بخشا ہے اس کے ذریعہ وہ بہت کچھ مال کما لے گا۔ طالوت کی علمی بر تری سے اس طرف بھی اشارہ فر ما یا کہ صرف دولت کی وجہ سے کو ئی حکومت کا اہل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے تنظیمی صلا حیتوں اور حکومتی اوصاف کا بھی پا یا جا نا ضروری ہو تا ہے۔ چنانچہ طالوت میں یہ تمام خصوصیات تم سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ مزید مخفی جو ہر اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے۔ پھر فرمایا کہ طالوت کا جسم بھی خوب مضبوط ہے اور اس کی جسما نی طاقتیں اعلیٰ درجہ کی ہیں۔ اس میں ہمت، استقلال، ثباتِ قدم، قوتِ برداشت، قربانی اور شجا عت کا مادہ پا یا جاتا ہے۔ یعنی طالوت مضبوط اور دلیر ہے۔
الفرقان جنوری 1956ء میں مکرم ملک محمد مستقیم صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری کا تحریر کردہ ایک مضمون ملا جس میں انہوں نے تابوت سکینہ والی آیت پر مختصر نوٹ دیتے ہوئے لکھا:
’’تورات میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے پاس ایک صندوق تھا جس میں الواح موسیٰؑ و دیگر تبرکات بنی اسرائیل از قسم من و سلویٰ رکھے تھے۔ اس صندوق کو تابوت سکینہ کہا جاتا ہے اور لشکر کشائی کے وقت بغرض فتح بنی اسرائیل اس کو ہمراہ اٹھا کر لے جاتے تھے اور اس کی برکت سے فتح و کامرانی حاصل کرتے تھے۔ اسی تابوت سکینہ کی یادگار کے طورپر عموماً ابتدائی یہودیوں کے گھروں کے باہر ایک کھمبا زمین میں گاڑا جاتا تھا اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بکس یا صندوقچا لٹکا دیا جاتا تھا۔ اس میں تورات کی دس سے پندرہ آیات لکھی ہوئی ڈال دی جاتی تھیں اور گھر سے باہر نکلتے اور داخل ہوتے وقت اہل خانہ کا ہر فرد اس کو بوسہ دیتا تھا۔ اور اس طرح برکت حاصل کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس رسم کو ترک کر دیا گیا مگر اب بھی یہود جو اپنے تئیں اہل کتاب یعنی Orthodoxکہتے ہیں، اس پر عمل کرتے ہیں اور اپنی دیگر روایات کی بھی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ یہ صندوقچہ اس گھر کی حفاظت اور خدا وند کے وعدہ کی یادگار ہے جب خدا وند مصری لوگوں پر عذاب لاتا تھا اور بنی اسرائیل کے گھر وں کو چھوڑدیتا تھا۔ غرض تابوت سکینہ وہ صندوق ہے جس میں تورات کا نسخہ رکھا تھا اور اس کے ذریعہ بنی اسرائیل ہدایت اور نور حاصل کرتے تھے۔ ‘‘
حضرت پیر معین الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخزن معارف میں لکھتے ہیں:
’’اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَ اٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔
تابوت کے معنی صندوق کے بھی ہوتے ہیں لیکن لسان العرب اور مفردات میں اس کے معنے دل کے بھی لکھے ہیں اور
فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ
کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں دل ہی مراد ہے کیونکہ سکینت دل میں ہوتی ہے نہ کہ صندوق میں۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ۔
اور پھر جس طرح یہاں اس تابوت سے متعلق
تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ
کے الفاظ آئے ہیں اور جس سکینت کے اس میں ہونے کا ذکر گیا ہے اسے ملائکہ کے ساتھ ملایا ہے دوسری جگہ دل پر نازل ہونے والی سکینت کے ساتھ
وَ اَنْزل جُنُوْدًا لَمْ تَرَوْھَا
فرمایا ہے اور جس طرح اس کے متعلق اِنَّ لِیْ ذٰلِکَ لِآیَۃ فرمایا ہے اس کے متعلق
إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً
بھی فرمایا ہے اس کے متعلق بھی
وَلِتَکُوْن آیَۃً لِلْمُؤمِنِیْنَ
فرمایا ہے۔ اس لیے یہاں تابوت سے مراد دل ہی ہے۔
بائبل میں جو کشتی یا صندوق کا ذکر ہے دوسروں کو سکینت دینا تو درکنار وہ تو اسرائیلیوں کو بھی شکست سے نہ بچا سکا۔ اور ساؤل جو اسے اپنے ساتھ لے گیا تھااسے بھی شکست اور حسرت ناک انجام سے پناہ نہ دے سکا۔
تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ
سے بھی ظاہر ہےکہ تابوت سے مراد دل ہے کیونکہ ظاہر میں ملائکہ لوگوں میں چلا پھرا نہیں کرتے۔ پس
تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ
سے مراد ان کے قلوب کو تقویت دینا ہے۔
وَ بَقِیَّۃ بَقَاء
کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کا پہلی حالت پر قائم رہنا۔
اَلْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ
کے الفاظ باقی رہنے والے نیک اور مناسب حال اعمال کے لیے قرآن میں آتے ہیں۔
فُلَانٌ بَقِیَّۃُ قَوْمِہٖ
کے معنے ہوتے ہیں وہ شرفاء قوم میں سے ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے
وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُوْنَ
سے وہ قوت قدسیہ کا اثر مراد لیاہےجو موسیٰ اور ھارون کی اولاد میں ورثہ بہ ورثہ چلا آیا۔
حضرت زکریا نے اپنے بیٹے کے لیے
یَرِثُنِیۡ وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ
کی دعا کی تھی اس کے بھی یہی معنے تھے کہ وہ ان کے اعمال حسنہ و خوبیوں کا وارث ہو، نہ یہ کہ ان کی جائیداد کا کیونکہ حضرت یعقوبؑ کو وفات پائے تقریباً ایک پشت گزر چکی تھی۔ پس
وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ
سے مراد وہ اخلاق فاضلہ ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے اَتباع سے ظاہر ہوئے تھے اور مراد یہ ہے کہ تمہارے دل بھی ان خوبیوں کے وارث ہوں گے۔ ‘‘
حضرت ملک غلام فرید صاحب رضی اللہ عنہ انگریزی ترجمہ میں ان آیات کی ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
Taboot means
1: A chest or box
2: Chest or breast or bosom, or the ribs with what they contain as the heart etc. (lane)
3: The heart which is the store house of knowledge, wisdom and peace (Mufrdat)
Commentators have differed about the significance about the word
and the Bible mentions it as an Ark or Chest and the description given in the Quran definitely shows that he word has been used here in the sense of heart or bosom. The description of the Taboot in the verse “where in there will be tranquility from their Lord” cannot apply to an Arch for, far from granting peace and tranquility to others. The arch spoken of by the bible could neither protect the Israelites against defeat nor could it protect itself as it was carried away by the enemy even Saul who took with him the arch during the complaint suffered crushing defeat, so much so that even the enemy pitied him and he met with an ignominious end. Such an arch could not be a source of tranquility to the Israelites what God bestowed upon them where hearts full of courage and perseverance so that after the said tranquility descendent upon them, they successfully resisted the attacks of the enemy and inflicted heavy defeats on them.
(Single volume translation of the holy Quran by Malik Ghulam Fareed Sb. Page 131)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تابوت سکینہ پر کھل کر بات کی اور اس آیت سے معارف کے موتی نکال کر
یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا
پر بنیاد رکھتے ہوئے نہایت عالمانہ اور ایمان افروز تفسیر فرمائی چنانچہ فرماتے ہیں:
’’بَقِیَّۃ: یہ لفظ ایسی چیز پر بولا جاتا ہے جو اعلیٰ درجہ کی ہو۔ چنا نچہ جب کہیں
فُلاَنٌ بَقِیَّۃُ قَوْمِہ ٖ
تو اس کے معنے ہو تے ہیں
ھُوَ مِنْ خِیَارِھِمْ۔
وہ قوم کے شرفاء اور اچھے لو گوں میں سے ہے۔
قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اِن معنوں میں استعمال ہوا ہے چنا نچہ فر ماتا ہے۔
وَالْبٰقِیٰتُ الصَّلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌمَّرَدًّا (مریم آ یت 77)
یعنی اچھے اور نیک اعمال خدا تعا لیٰ کے حضور ثواب حا صل کر نے کے لحا ظ سے بھی اور انجا م کے لحا ظ سے بھی سب سے بہتر شے ہیں۔
قر آن کریم میں یہ لفظ عقل پر بھی بو لا گیا ہے جیسے آتا ہے
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِكُمْ اُولُوْا بَقِيَّـةٍ يَّنْـهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِى الْاَرْضِ ( ہود آ یت 117)
یعنی کیوں ان قوموں میں سے جوتم سے پہلے زما نہ میں تھیں ایسے عقل مند لوگ نہ نکلے جو لو گوں کو ملک میں بگاڑ پیدا کر نے سے روکتے۔ چو نکہ عقل خیر ہی کے معنے رکھتی ہے اور انسان کے لیے مفید ہوتی ہے اور وہ اس کے ذریعہ سے با قی رہتا ہے۔ اس لئے اُسے بھی بقیہ کہتے ہیں۔
تَرَ کَ اٰلُ مُوْ سٰی وَاٰلُ ھٰرُوْن۔
تر کہ سے مراد عام طور پر ورثہ ہو تا ہے لیکن تر کہ سے مراد دوسروں کی اعلیٰ صفا ت کا حامل ہو نا بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
یَرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقَوْ بَ( مریم آ یت 7)
یعنی اے خدا مجھے اپنے پاس سے وارث دے جو میرا بھی وارث ہو اور سارے بنی اسرائیل کا بھی۔ سارے بنی اسرائیل کا وارث تو وہ ظاہری طورپر نہیں ہو سکتا تھا۔ پس مراد یہی ہے کہ اٰلِ یعقوب کی جو نیکیاں ہیں وہ اس میں بھی پیدا ہوں اور وہ ان کا وارث ہو۔ اس لحاظ سے اس آ یت کے معنے یہ ہو ں گے کہ جو نیک دستور پہلے لو گ چھوڑ گئے ہیں اُن کا وارث ہو۔
تَحْمِلُہٗ: حَمَلَہٗ عَلٰی کَذَا کے معنے ہیں اَغْرَاہُ اُسے کسی کام پر اکسا یا۔ اِسی طرح اس کے معنے اٹھا نے کے بھی ہیں۔
تفسیر: ۔ گذشتہ آیات میں اس زمانہ کے نبی طالوت پر اعتراض کر نے والوں کو یہ جواب دیا تھا کہ
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ۔
یعنی مخفی طاقتوں کواللہ تعالیٰ ہی جا نتا ہے۔ اور جب اس نے طا لوت کو چنا ہے۔ تو یقیناً وہ تم سے افضل ہے۔ دوسرے دولت کے زور سے بادشاہت نہیں ہو تی بلکہ عمل اور قربانی کی طا قت سے ہوتی ہے۔ سوان دونوں باتوں میں وہ تم سے بڑھا ہوا ہے۔ وہ تم سے زیادہ علوم جا نتا ہے اور خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے جسم کو انتہائی ابتلاؤں میں ڈالنے کے لئے تیار ہے۔ اب اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کے نبی نے انہیں کہاکہ اس انتخاب کے منجا نب اللہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمہیں ایک ایسا تا بوت ملے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہو گی اور اس چیز کا بقیہ ہوگا جسے موسیٰؑ اور ہارونؑ کی آ ل نے اپنے پیچھے چھوڑا۔ اور فرشتے اُسے اُٹھائے ہو ئے ہوں گے۔
مفسرین نے تا بوت سے مراد بنی اسرائیل کا وہ خاص صندوق لیا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے اندر تورات کا اصل نسخہ اور موسٰیؑ اور ہارونؑ کے تبرکات محفوظ تھے۔ اور بنی اسرائیل سفر و حضر میں اُسے اپنے سا تھ رکھتے تھے۔ کیو نکہ وہ اُسے بڑا متبرک سمجھتے تھے۔
بائبل میں بھی اس تا بوت کا ان الفاظ میں ذکر آ تاہے:
’’وے شطیم کی لکڑی کا ایک صندوق بنا ویں جس کی لمبا ئی اڑھا ئی ہا تھ اور چوڑائی ڈیڑ ھ ہاتھ اور اونچا ئی ڈیڑھ ہاتھ ہووے۔ ‘‘
(خروج 10/25)
مگر تعجب ہے قرآن کریم تو کہتا ہے کہ اس تا بوت کو فرشتے اٹھا ئے ہوئے ہو ں گے۔ مگر بائبل بتا تی ہے کہ ایک دفعہ دشمن نے ایسا حملہ کیا کہ وہ یہ بات بھی اٹھا کر لے گئے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’اور جب لوگ لشکر گاہ میں پھر آئے تھے تب اسرائیل کو بزرگوں نے کہا کہ خداوند نے ہم کو فلستیوں کے سامنے کیوں شکست دی۔ آؤ ہم خدا کے عہد کا صندوق سیلاسے اپنے پاس لے آ ئیں تا کہ وہ ہمارے درمیان ہو کے ہم کو ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں سے رہا ئی دیوے۔ سو انہوں نے سیلا میں لو گ بھیجے تا کہ وہ رب الا فواج کے عہد کے صندوق کو جو دو کروبیوں کے درمیا ن دھرارہتا ہے وہاں سے لے آویں اور عیلی کے دونوں بیٹے حفنی اور فیخاسں خدا کے عہد کے صندوق کےپا س وہاں حاضر تھے۔ اور جب خدا وند کے عہد کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا۔ تو اسرائیلی خوب للکارے۔ ایسا کہ زمین لرز گئی اور فلستیوں نے جو للکارنے کی آ واز سنی تو بولے کہ ان عبرا نیوں کی لشکر گاہ میں کیسی للکا رنے کی آ واز ہے۔ پھر انہوں نے معلوم کر لیا کہ خدا وند کا صندوق لشکر گاہ میں آ پہنچا۔ سو فلستی ڈر گئے کہ انہوں نے کہا۔ خدا لشکر گاہ میں آ یا ہے۔ اور بولے ہم پر وا ویلا ہے اس لئے کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہ ہوا۔ ہم پر واویلا ہے۔ ایسے خدا ئے قادر کے ہاتھ سے ہمیں کون بچائے گا۔ یہ وہ خدا ہے جس نے مصریوں کو میدان میں ہر ایک قسم کی بلا سے مارا۔ اے فلستیو! تم مضبوط ہو اور مردانگی کرو۔ تا کہ تم عبرانیوں کے بندے نہ بنو جیسے کہ وے تمہارے بندے بنے بلکہ مرد کی طرح بہادری کرو اور لڑو۔ سو فلستی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے اپنے خیمے کو بھاگا۔ اور وہاں نہا یت بڑی خونر یزی ہوئی کہ تیس ہزار اسرائیلی پیادے مارے پڑے۔ اور خدا کا صندوق لُو ٹا گیا۔ ‘‘
(1سموایل باب 4آیت 3 تا 11)
سو اگر تو یہاں تا بوت سے مراد وہی تا بوت ہو۔ تو وہ ان کے لئے کسی خوشی کا موجب نہیں ہو سکتا تھا۔ اور نہ ہی اس سے ان کو کوئی تسلی ہو سکتی تھی کیو نکہ اس کی مو جو دگی میں وہ شکست کھا چکے تھے۔ حا لا نکہ اس سے پہلے ان کو تا بوت پر اس قدر یقین تھا کہ جب ان کے سب سے بڑے کا ہن کو معلوم ہوا کہ تا بوت دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے تو وہ گر پڑا اور وہیں مر گیا۔ لیکن قرآن کر یم نے جس تا بوت کا ذکر کیاہے اس کے متعلق کہا ہے کہ وہ ان کے لئے تسکین کا مو جب ہو گا۔ پس یہ تا بوت وہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس تابوت سے یقیناً کچھ اور مراد ہے اس غرض کے لئے جب ہم لغت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ تا بوت کے عام معنے تو صندوق کے اور کشتی کے ہوتے ہیں (اقراب) لیکن استعارۃً اُسے دل کے معنے میں بھی استعمال کیاجاتا ہے۔ جس کی تائید اس امر سے ہو تی ہے کہ عربی زبان میں انسانی قلب کو
بَیْتُ الْحِکْمَۃِ اور وِعَاءُ الْحِکْمَۃِ اور صَنْدُوْقُ الْحِکْمَۃِ کہنے کے علا وہ تَا بُوْتُ الْحِکْمَۃِ بھی کہتے ہیں (مفردات راغب) اسی طرح لسان العرب کا یہ حوالہ بھی اس کی تائید کر تا ہے کہ
مَا اَوْدَعْتُ شَیْئًا تَا بُوْتِیْ فَقَدْ تُہٗ
مَیں نے اپنے تا بوت یعنی دل میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی کہ بعد میں اسے گم کر دیا ہو۔ یعنی مَیں مستقل مزاج ہوں۔ جو بات دل میں بیٹھ گئی سو بیٹھ گئی۔ نیز تا ج العروس میں لکھا ہے.
اَلتَّا بُوْتُ اَلْاَ ضْلَاعُ وَ مَا تَحْوِیْہِ کَا لْقَلْبِ وَالْکَبِدِ وَغَیْرِ ھِمَا تَشْبِیْھًا بِالصَّنْدُوْقِ الَّذِیْ یُحْرَزُ فِیْہِ الْمَتَا عُ۔
یعنی تا بوت کے معنے پسلیوں والے حصۂ جسم کے ہیں جس میں دل اور جگر وغیرہ اعضا ہیں۔ اور اس حصہ جسم کو تا بوت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی صندوق کی طرح ہو تا ہے جس میں سا مان محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اور کسی علمی یا ایما نی یا راز کی بات کو تا بوت میں رکھنے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ گو یا وہ سینہ میں لکھی گئی ہے۔ اور ایسی محفوظ ہو گئی ہے جیسے کوئی چیز صندوق میں رکھ دی جائے۔
وَ فِیْ اَحْکَامِ الْاَسَاسِ اَلتَّا بُوْتُ:
اَلْقَلْبُ اور کتاب احکام الاساس میں بھی تا بوت کے معنے دل کے لکھے ہیں۔ اسی طرح مفردات میں لکھا ہے: قِیْلَ عِبَارَۃٌ عَنِ الْقَلْبِ وَالسَّکِیْنَۃِ وَعَمَّا فِیْہِ مِنَ الْعِلْمِ۔ یعنی کبھی لفظ تابوت کو استعارۃً دل کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے الفاظ قر آنیہ صاف دلا لت کر رہے ہیں کہ اس جگہ تا بوت سے مراد دل ہے۔ کیو نکہ فر ماتا ہے اس تا بوت میں تمہارے ربّ کی طرف سے سکینت ہے۔ اب یہ ظا ہر ہے کہ سکینت دل میں ہوتی ہے نہ کہ صندوق میں۔ اسی طرح اس تابوت کے متعلق فرماتا ہے تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ۔ فرشتےاُسےاٹھائے ہوئےہوں گے۔ اگر تابوت سے ظاہری صندوق مرا دلیا جا ئے تو یہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہو گا۔ کیو نکہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے کہ
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَہُمُ الۡہُدٰۤی اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا۔ قُلۡ لَّوۡ کَانَ فِی الۡاَرۡضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمۡشُوۡنَ مُطۡمَئِنِّیۡنَ لَنَزَّلۡنَا عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوۡلًا۔ (بنی اسرائیل آیت95-96)
یعنی مخالفین کو ہدا یت پر ایما ن لا نے سے صرف یہ بات روکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بشر رسول کیوں بھیجا ہے۔ تو کہہ کہ اگر زمین میں فرشتے امن سے چلتے پھرتے تو ہم فر شتوں کو رسول بنا کر بھیجا کر تے۔ اس آ یت سے ظاہر ہے کہ ملا ئکہ اس طرح لو گوں میں چلتے پھر تے نہیں ہیں جس طرح انسا ن چلتے پھر تے ہیں۔ پس چو نکہ ظاہری تا بوت کی صورت میں ما ننا پڑتا ہے کہ فر شتے اُسے اُ ٹھا کر ساتھ سا تھ لئے پھر تے تھے۔ اور یہ قرآنی تعلیم کے خلا ف ہے۔ اس لئے تا بوت سے مراد اس جگہ دل ہی ہیں جنہیں فرشتے اٹھا تے تھے اور ہمت بڑھا تے تھے۔ کیو نکہ حَمَلَہ‘ عَلٰی کَذَا کے معنے اَغْرَاہُ کے ہیں یعنی اُکسانا اور جوش دلانا ہے(اقرب) پس معنے یہ ہو ئے کہ اَتباعِ طالوت کو فر شتے قر بانیوں پر آ ما دہ کر یں گے۔ اور ان کی نصرت ہر شخص کے سا تھ ہو گی۔ چنانچہ مؤرخین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ طا لوت کا لشکر بہت ہی کم تھا اور ایسے قلیل التعداد لشکر کا کثیر افواج پر غا لب آ نا سوائے خاص نصرت ِالٰہی اور ملائکہ کی تائید کے نا ممکن تھا۔
ضمنی طور پر اس آ یت سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ملائکہ سے فیوض حا صل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قا ئم کر دہ خلفا ءسے مخلصا نہ تعلق قا ئم رکھا جا ئے اور ان کی اطاعت کی جا ئے۔ چنا نچہ اس جگہ طا لوت کے انتخاب میں خدا ئی ہاتھ کا ثبوت یہی پیش کیا گیا ہے کہ تمہیں خدا تعالیٰ کی طر ف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نز ول ہو گا۔ اورخداتعالیٰ کے ملا ئکہ اُن دلوں کو اٹھا ئے ہوئے ہوں گے۔ گو یا طا لوت کے ساتھ تعلق پیدا کر نے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہو جائے گا۔ تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی۔ تمہارے ایمان اور یقین میں اضا فہ ہو جا ئے گا۔ ملا ئکہ تمہاری تا ئید کے لئے کھڑے ہو جا ئیں گے اور تمہارے دلوں میں استقا مت اور قر با نی کی رُوح پھو نکتے رہیں گے۔ پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملا ئکہ سے تعلق پیدا کر دیتا اور انسا ن کو انوارِ الٰہیہ کا مہبط بنا دیتا ہے۔
…بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْ سٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْنَ سے مراد وہ اخلاق فا ضلہ ہیں جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہا رونؑ کے متبعین اور آ پ کے مقربین سے ظاہر ہو تے تھے۔ اور آ یت کا مفہوم یہ ہے کہ تمہارے دل ان خو بیوں کے وارث ہو ں گے جو آ لِ مو سیٰؑ اور آل ہارون نے چھوڑی ہیں۔ یہ ویسا ہی فقرہ ہے جیسے حضرت زکریاؑ نےدُعا کر تے ہوئے کہا تھاکہ الٰہی مجھے ایک ایسا لڑکا عطا فرمایا یَرِ ثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَجو میرا اور آلِ یعقوب کا وارث ہو۔ اور مطلب یہ تھا کہ ان کے اخلا ق حسنہ اور خوبیوں کا وارث ہو نہ یہ کہ اُن کی جا ئیداد کا وارث ہو۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو وفات پا ئے قریباً ایک سو پُشت گذر چکی تھی۔ غرض بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْنَ سے یہ مراد ہے کہ طا لو ت کے ساتھیوں میں وہی اخلا ق فا ضلہ اللہ تعا لیٰ پیدا کر دے گا جو آل مو سیٰؑ اور آ ل ہا رون میں تھے۔
آ ل مو سیٰ و آل ہا رون سے یہ مراد نہیں کہ ان دونوں کی الگ الگ اُمتیں تھیں۔ یہ بات تو با لبداہت با طل ہے ایک قوم میں اور ایک وقت میں اور ایک شریعت پر عمل کر نے والی دو اُمتیں کس طرح ہو سکتی ہیں۔ اس کا مطلب اہل یعنی اقارب سے ہے اور مراد یہ ہے کہ ان دونوں نبیوں کی اولادوں میں جو خو بیاں تھیں وہ ان میں بھی آ جائیں گی۔ اگر کہو کہ اہل میں خوبی ہو نا ضروری نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بَقِیَّۃٌ کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ اس جگہ خو بیاں مراد ہیں۔ دوسرے با ئبل کی کتا ب خروج باب 40آ یت 12تا15سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنا یا جائے اور نہ صرف اس کی عزت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کر نا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جا ئے۔ اور عبا دت گا ہوں کا انتظام ان کے سپرد کیا جا ئے۔ چنا نچہ لکھا ہے:
’’جیسے ان کے باپ کو مسح کر ے۔ ویسے ہی ان کو بھی مسح کر نا۔ تا کہ وہ میرے لئے کاہن کی خدمت سر انجام دیں۔ اور ان کا مسح ہو تا ان کے لئے نسل در نسل ابدی کہا نت کا نشان ہو گا۔‘‘
پس بے شک ہر اہل میں خو بیوں کا مو جود ہونا ضروری نہیں مگر مو سیٰؑ اور ہارونؑ کے متعلقین اور ان کے خا ص متبعین میں اللہ تعا لیٰ نے اعلیٰ درجہ کے اخلا ق یقینی طور پر ودیعت کر دئیے تھے۔ اور طا لو ت کے خدائی انتخاب کا یہ ثبوت بتا یا گیا تھا کہ اللہ تعا لیٰ نے روحا نیت آل مو سیٰؑ اور آل ہارون میں رکھی تھی اور جن بلند اخلا ق اور کر دار کا انہوں نے مظاہرہ کیا تھا وہی تقویٰ اور وہی روحا نیت اور وہی بلند اخلا قی طا لوت کے ساتھیوں میں بھی پیدا کر دی جائے گی اور یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ جس شخص کی انہوں نے متا بعت اختیار کی ہے وہ خدا تعالیٰ کا فر ستادہ ہے۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد 2صفحہ558تا563)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’پھر ایک اور نشان بتایا کہ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ تمہیں ایسے دل (قلب) عطا ہوں گے کہ ان میں تسلی ہو گی یعنی اس کے زمانہ میں لوگوں کے قلوب میں ایک خاص سکینت و اطمنان نازل ہو گا۔
وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ:
اور یہ وہی قوت قدسیہ کا اثر ہے جو موسیٰؑ اور ہارونؑ کی اولاد میں ورثہ بہ ورثہ چلا آیا ہے کہ لوگ ان کے ساتھ آرام پاتے اور ان کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں اور خود بخود لوگوں کے دل ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ انہیں ایک خاص جذب دیا جاتا ہے۔ ان کی تقریر میں ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا فیصلہ دیتے ہیں تو دشمن بھی اس وقت مان جاتے ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ382)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام آخرالزماں علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ کا خطاب دیا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل غلام کی حیثیت سے تمام انبیاء علیہم السلام کا پرتو قرار دیا۔ جہاں آپؑ نے اپنے اشعار میں اس کا ذکر فرمایا وہاں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اب یہ تابوت سکینت میرے ذریعہ اتارا گیا ہے۔ یعنی میری پیروی کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پس خلفائے احمدیت یہی پیغام چاردانگ عالم میں پہنچا رہے ہیں کہ اس زمانے میں تابوت سکینہ یعنی خلافت حقہ اسلامیہ مسیح موعود کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے اور یہ اب تاقیامت رہے گا اور اس کو ماننے والے ہی امن و آشتی کی زندگی گزاریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی نوید سنائی ہے کہ
’’امن است در مکان محبت سرائےما۔‘‘
چنانچہ آپؑ نے فرمایا:
میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے
میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار
پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا رُوئے صلیب
گر نہ ہوتا نامِ احمد جس پہ میرا سب مدار
دشمنو ہم اس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی
کیا کرو گے تم ہماری نیستی کا انتظار
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
حرفِ آخر
پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اچھی حکومت کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ اس میں تابوت سکینہ ہوگا یہاں تابوت سکینہ سے مراد Efficient Cabinetہے یعنی لائق اور قابل کابینہ۔ ایسی وزرات جو اہل ملک کی اس طریق سے راہ نمائی کرے کہ اس میں ٹھنڈک اور تسکین ہو، اس پر خود بھی عوام کو اعتماد ہو اوروہ ہر محکمہ جو اُن کے سپرد ہو اُس کے اہل اور قابل ہوں۔ بیرونی اور اندرونی یا خارجی اور داخلی پالیسی ایسی ہو کہ ہمسایہ اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ایسے معاہدات ہوں جن سے وزرات کی دانشمندی واضح ہو اور ان کی بدولت تعلقات اس طرح اُستوار ہوں کہ تجارت اور حفاظت کی ضمانت ہو۔
اندرونی طورپر ایسے وسائل مہیا ہوں کہ امن اور خوشحالی کے قدم بوس ہو۔ ملک سے باہر اس عوام کی عزت اور شہرت ہو۔ ملک کے اندر لوگ اپنی وزرات پر نازاں ہوں۔ یہ وزرات ایسے قوانین کی موجد اور معمار ہوں کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرکے عوام کے لیے باعث اطمینان ہوں۔ ایسی اصلاحات کا نفاذ کریں جو غریب اور امیر کے لیے یکساں نفع رساں ہوں اور ایسا نظام پیش کریں جس کا استقبال عوام ذوق شوق سے کریں اور جس سے اُن کی اہلی زندگی خوش گوار بن جائے اور قومی زندگی قابلِ رشک نمونہ کا جنم لے۔
عوام کی تسکین اور اطمینان کا ثبوت یہ ہے کہ بھوک اور بیکاری نہ ہو۔ تن پوشی اور رہائش کے لیے کپڑا اور مکان حاصل ہو۔ تعلیم و ترقی کے ذرائع اور صحت عامہ کے وسائل مہیا ہوں اور امن کا قیام ضرب المثل ہو، قوم اپنی محنت اور خود اعتمادی سے زندگی بسر کرے۔ عوام پر اتنا بوجھ نہ ہو کہ وہ دب کر رہ جائیں اور اتنی آسانی نہ ہو کہ تعیش پسند بن جائیں۔ آزادیٔ ضمیر ہو کہ حق کو بے خوف و خطر قبول کرسکیں اور بے راہ روی نہ ہو کہ ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر بداخلاقی کا نمونہ بن جائیں۔ مناسب پابندی اور واجب آزادی ان کے شامل حال ہو کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانیں اور ملک کی تعمیر میں حصہ دار ہوں۔
الغرض حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کے طریق بتاتے ہوئے آٹھواں طریق یہ بیان فرماتے ہیں:
’’آٹھواں طریق ملائکہ سے فیض حاصل کرنے کا یہ ہے کہ خلیفہ کے ساتھ تعلق ہو۔ یہ بھی قرآن سے ثابت ہے۔ جیسا کہ آتا ہے:
وَ قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ اِنَّ اٰیَۃَ مُلۡکِہٖۤ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمُ التَّابُوۡتُ فِیۡہِ سَکِیۡنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوۡسٰی وَ اٰلُ ہٰرُوۡنَ تَحۡمِلُہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔ (البقرۃ: 249)
کہ ایک زمانہ میں ایک نبی سے لوگوں نے کہا کہ ہمارے لئے اپنا ایسا جانشین مقرر کر دیجئے جس سے ہم دنیاوی معاملات میں مدد حاصل کریں۔ لیکن جب ان کے لئے ایک شخص کو جا نشین مقرر کیا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ اس میں وہ کون سی بات ہے جو ہمارے اندر نہیں ہےجیسا کہ اب پیغامی کہتے ہیں۔ نبی نے کہا۔ آؤ بتائیں اس میں کون سی بات ہے جو تم میں نہیں۔ اور وہ یہ کہ جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے ان کو فرشتے تسکین دیں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ خلافت کے ساتھ وابستگی بھی ملائکہ سے تعلق پیدا کراتی ہے۔ چونکہ بتایا گیا ہے کہ ان کے دل فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ تابوت کے معنے دل اور سینہ کے ہیں۔ فرمایا خلافت سے تعلق رکھنے والوں کی یہ علامت ہو گی کہ ان کو تسلی حاصل ہو گی اور پہلے صلحاء اور انبیاء کے علم ان پر ملائکہ نازل کریں گے۔ پس ملائکہ کا نزول خلافت سے وابستگی پر بھی ہوتا ہے۔‘‘
(ملائکۃ اللہ، انوارالعلوم جلد 5 صفحہ 561)
پس تابوت سکینہ سے مراد ایسے دل ہیں جن میں اطمینان اور سکون بھر جاتا ہے اور اس کا طریق کار اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا کہ
اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔
(الرعد: 29)
کہ سنو! اللہ ہی کے ذکر سے دل اطمینان پکڑتے ہیں۔
ایسے ہی دل اور نفوس ہیں جنہیں اللہ ربّ العزت کی طرف سے یہ نوید سنائی جاتی ہے کہ
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً۔ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ۔ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ
اے نفس مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف لَوٹ جا، راضی رہتے ہوئے اور رضا پاتے ہوئے۔ پس میرے بندوں میں داخل ہوجا۔ اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
٭…٭…٭