خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ جولائی 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرؓ کا دَورِخلافت تیرہ ہجری سے تئیس ہجری تک، تقریباً ساڑھےدس سال پر محیط تھا

حضرت عمرؓ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ہر فتح کے وقت مسلمانوں میں موجود ہوتے تھے۔ اگرچہ آپؓ باقاعدہ جنگ میں حصّہ نہ لیتے تاہم

مدینے سے ہی مسلمان کمانڈروں کو ہدایات بھجواتےرہتے اور روزانہ کی بنیاد پران سےآپؓ کی خط وکتابت جاری رہتی

چار مرحومین : مکرم فتحی عبدالسلام مبارک صاحب، مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ خلیل مبشر احمد صاحب سابق مبلغ انچارج کینیڈا و سیرالیون، مکرمہ سائرہ سلطان صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب اور مکرمہ غصون المعاضمانی صاحبہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ جولائی 2021ء بمطابق 16؍وفا 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 61؍جولائی 1202ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت سرفراز باجوہ صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کےدَورِخلافت کا ذکر چل رہا تھا۔آپؓ کا دَورِخلافت تیرہ ہجری سے تئیس ہجری تک، تقریباً ساڑھےدس سال پر محیط تھا۔اس زمانےکی فتوحات کی وسعت کےمتعلق شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ کے مفتوحہ علاقوں کا کُل رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس مربع میل بنتا ہے۔ ان مفتوحہ علاقوں میں شام،مصر،عراق، ایران،خوزستان،آرمینیا، آذربائیجان، فارس،کرمان،خراسان اور مکران وغیرہ شامل ہیں۔

حضرت عمرؓ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ہر فتح کے وقت مسلمانوں میں موجود ہوتے تھے۔ اگرچہ آپؓ باقاعدہ جنگ میں حصّہ نہ لیتے تاہم مدینے سے ہی مسلمان کمانڈروں کو ہدایات بھجواتےرہتے اور روزانہ کی بنیاد پران سےآپؓ کی خط وکتابت جاری رہتی۔ سیّد میر محموداحمد صاحب فتوحاتِ ایران و عراق کے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے عہدِخلافت میں عراقی افواج کی کمان حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھ میں تھی لیکن اپنے عہدِ خلافت کے آخر میں آپؓ نے شامی جنگوں کی اہمیت کے پیشِ نظر ان کو شام جانے کا حکم دیا اور عراق کی کمان حضرت مثنّٰی بن حارثہ کے سپرد فرمادی۔جب حضرت ابوبکرؓ بیمار ہوئے اور اسلامی فوج کو پیغامات موصول ہونےمیں تاخیر ہونے لگی تو حضرت مثنّٰی اپنے نائب مقرر کرکے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور وصیت فرمائی کہ ان کی وفات کے معاً بعد مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دےکر ایک لشکر حضرت مثنّٰی کے ساتھ روانہ کردیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ متواتر تین روز تک وعظ فرماتے رہےلیکن لوگ ایران کی شان و شوکت کےسبب خائف رہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ عراق کی فتح حضرت خالدؓ کےبنا ممکن نہیں لیکن چوتھے روز حضرت عمرؓ نے اس زور سے تلقین فرمائی کہ لوگوں کےدل دہل گئے چنانچہ اس ترغیب کےنتیجےمیں پانچ ہزار کا لشکر تیار ہوگیا۔

تیرہ ہجری میں ایک جنگ ہوئی جسے جنگِ نمارق اور کسکر کہا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایرانی دربار رؤساءاور امراء کے باہمی اختلافات کے سبب سے مشکلات کاشکار تھا ۔ایسے میں رستم کی شکل میں ایک نئی شخصیت کا ظہور ہوا جو جلد ہی ایرانی دربار کی طرف سے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا۔ رستم ایک بہادر اور صاحبِ تدبیر انسان تھا جس نے مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں میں اپنے کارندوں کے ذریعے بغاوت کروادی اور حضرت مثنّٰی سے مقابلے کےلیے ایک لشکر روانہ کیا۔ ان حالات میں حضرت مثنّٰی نے پیچھے ہٹ جانا ہی مناسب خیال کیا۔ دوسری جانب رستم نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور ایک زبردست لشکر تیار کرکے دو مختلف راستوں سے مسلمانوں کے مقابلے کےلیے روانہ کیا۔ایک لشکر جابان کی قیادت میں کوفے کے نزدیک نمارق مقام پر اترا جبکہ دوسرا لشکر نرسی کی سرکردگی میں کسکر جا پہنچا۔ کسکر کا شہر بغداد اور بصرے کے درمیان دریائے دجلہ کے غربی کنارے پر آباد تھا۔ نمارق میں حضرت ابوعبید اور جابان کے لشکر آمنےسامنے ہوئے اور ایک زبردست معرکہ ہوا جس میں ایرانی لشکر نے شکست کھائی۔یہاں اسلامی اخلاق کا ایک عالی شان نمونہ یہ دیکھنے میں آیا کہ جابان جسے ایرانی لشکر میں بادشاہ کی سی حیثیت حاصل تھی اس نے گرفتار ہونے پر اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ گرفتار کرنے والے سپاہی اسے پہچانتے نہ تھے خاموشی سے فدیہ ادا کیا اور رہائی حاصل کرلی۔ جب دیگر مسلمانوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے جابان کو دوبارہ گرفتار کرلیا لیکن حضرت ابوعبید نے یہ برداشت نہ کیا کہ ایک شخص جس کو مسلمان سپاہی ایک دفعہ فدیہ لےکر رہا کرچکا ہو اسے دوبارہ قیدی بنایا جائے۔ گویا مسلمانوں نے زبردست جنگی فوائد کے حصول کےلیے بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سےنہیں چھوڑا۔

معرکہ سقاطیہ تیرہ ہجری میں ہوا۔ نمارق سے شکست کھاکر ایرانی لشکر کسکر کی طرف بھاگا جہاں ایرانی کمانڈر نرسی پہلے سے ایک لشکر لیے مسلمانوں کے مقابلے کےلیے تیار تھا۔ یہاں سقاطیہ کےمیدان میں ایک زبردست معرکےکےبعد اللہ تعالیٰ کےفضل سےمسلمانوں کو فتح ہوئی۔

جنگِ باروسما یہ بھی تیرہ ہجری کی ہے۔ یہ مقام کسکر اور سقاطیہ کے درمیان تھا جہاں ایرانی جرنیل جالینوس سےمقابلہ ہوا۔ بصرہ اور کوفےکےدرمیان کی بستیوں کو ارضِ سواد کہاجاتا تھااور باروسما اور باقُسیاثا ان بستیوں میں سے دو بستیاں ہیں۔ابوعبید باقُسیاثا پہنچے اور مختصر لڑائی کےبعد ایرانی افواج نے شکست کھائی۔

دریائے فرات کےکنارے مسلمانوں اور ایرانیوں کےدرمیان جنگِ جِسر تیرہ ہجری میں ہوئی۔مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت ابوعبید ثقفی تھے جبکہ ایرانیوں کی طرف سے بہمن جاذویہ سپہ سالار تھا۔مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار اور ایرانی فوج تیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی جبکہ ایرانی لشکرمیں تین سَو ہاتھی بھی تھے۔دریائے فرات کےدرمیان حائل ہونے کی وجہ سے دونوں لشکر لڑائی سےرکے رہے یہاں تک کہ فریقین کی رضامندی سے دریائے فرات پر ایک پُل تیارکیاگیا ۔ جسر ،پُل کو کہتے ہیں اور اسی وجہ سے اس جنگ کو جنگِ جسر کہا گیا۔پُل کی تیاری کےبعد حضرت ابوعبید نے دریا عبور کرکے اہلِ فارس کے لشکر پر حملہ کردیا۔اس حملےکے نتیجے میں پہلے تو ایرانی افواج منتشر ہونے لگیں تاہم بہمن جاذویہ نے جب اپنے ہاتھی آگے بڑھائے تو مسلمانوں کی صفیں بےترتیب ہوگئیں۔ ایسے میں حضرت ابوعبید نے ہاتھیوں کی سونڈیں کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور خود آگے بڑھ کر ایک ہاتھی کی سونڈ کاٹ دی۔ باقی مسلمان لشکر نے بھی اس پر عمل کیا، بڑے زور کا رَن پڑا حضرت ابوعبید کے علاوہ چھ مزید اشخاص اسلامی فوج کا عَلَمسنبھالتے ہوئے یکےبعد دیگرے شہید ہوتےچلے گئے۔ آٹھویں کمانڈر حضرت مثنّٰی تھے جنہوں نے اسلامی فوج کو دوبارہ منظم کرکے بھرپورحملہ کیا۔ حضرت مثنّٰی بھی زخمی ہوئے لیکن آپ مردانگی سے لڑتے ہوئے دریائے فرات عبور کرکےواپس آگئے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے چار ہزار آدمی شہید ہوئےجبکہ ایرانیوں کے چھ ہزار آدمی مارے گئے۔اس شکست کے ضرر رساں نتائج سے مسلمان یوں محفوظ رہے کہ ایرانی اراکینِ سلطنت میں باہمی اختلاف پیدا ہوگیا اور بہمن جاذویہ کو واپس جانا پڑا۔

حضرت عمرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدرج ذیل مرحومین کا ذکرِخیر اور نمازِجنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

1۔مکرم فتحی عبدالسلام مبارک صاحب: آپ کا تعلق مصر سے تھا اور آپ گذشتہ دنوں 75برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے ۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کے والد نقش بندی طریقے کے پیروکار تھےجن کو 88برس کی عمر میں بفضل تعالیٰ بیعت کی توفیق ملی۔فتحی صاحب نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا، قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی۔ مصری فضائیہ سے منسلک رہے جہاں ایک غلط الزام کی پاداش میں قید کیے گئے۔1998ءمیں مکرم مصطفیٰ ثابت صاحب کےذریعے احمدیت کی تعلیمات سے تعارف ہوا۔ بھرپور غورو فکر، مطالعے اور دعا کےبعد 2001ء میں حضورعلیہ السلام کو بطور امام مہدی قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ فتحی صاحب نے بہت سی علمی خدمات کی توفیق پائی۔ کتب کے تراجم کیے، ایم ٹی اے العربیہ کےپروگراموں میں حصّہ لیا۔ مقامی جماعت میں لمباعرصہ سیکرٹری تبلیغ رہے۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ، خلافتِ احمدیہ اور قادیان دارالامان سے بہت گہرا عشق رکھتے تھے۔ حضورِانورنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا تھا کہ یدعون لک ابدال الشام و عباد اللّٰہ من العرب۔ یعنی تیرے لیے ابدال شام کےدعا کرتے ہیں اور بندے خدا کےعرب میں سے دعا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ خدا جانے یہ کیا معاملہ ہےاور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو واللّٰہ اعلم بالصواب۔ حضورِانور نے فرمایا ہم نےتو دیکھ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کےفضل سے جہاں جہاں بھی عرب جماعتیں قائم ہورہی ہیں وہاں فتحی صاحب کی طرح عربوں میں مخلصین پیدا ہورہے ہیں۔

2۔ مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ خلیل مبشر احمد صاحب سابق مبلغ انچارج کینیڈا و سیرالیون جوگذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کو طویل عرصہ اپنے واقفِ زندگی خاوند کے ساتھ جوش اور ولولے سے خدمتِ سلسلہ کی توفیق ملی۔ مرحومہ بڑی مہمان نواز، عبادت گزار،مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والی نیک خاتون تھیں۔

3۔ مکرمہ سائرہ سلطان صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب۔ ان کی گذشتہ دنوں وفات ہوگئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔انہیں لجنہ پاکستان میں مختلف خدمات کی توفیق ملی۔ خلافت کی وفادار، مہمان نواز، نہایت درجہ غریب پرور ،نفاست پسند، صوم و صلوٰة کی پابند، تہجد گزار، دعا گو خاتون تھیں۔

4۔ مکرمہ غصون المعاضمانی صاحبہ : ان کا تعلق شام سے تھا اور اس وقت ترکی میں تھیں۔آپ انتالیس سال کی عمرمیں وفات پاگئیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ مرحومہ 2016ءمیں صدر لجنہ اسکندرون مقرر ہوئیں اور اس خدمت پر آخری دَم تک متعین رہیں۔ مرحومہ لمبے عرصے سے بیمار تھیں لیکن اس کے باوجود ہمہ وقت خدمتِ دین میں مصروف رہتیں۔شامی خواتین کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں انہیں بہت کام کرنے کا موقع ملا۔

حضورِانورنے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کےلیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button