حج بیت اللہ اور عید الاضحی کے مسائل اور طریقہ کار
عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔لہٰذا جس شخص کو اِستطاعت ہو، اُسےقربانی ضرور کرنی چاہیے۔ …حج کی مالی استطاعت رکھنے والا شخص اگر صحت یا قدرتِ سفر نہ رکھتا ہو، یا اُسے راستے کا امن نصیب نہ ہو تو وہ مالی وسعت کی وجہ سے اپنے اس فریضہ کو کسی اور شخص کے ذریعہ بھی ادا کروا سکتا ہے
10؍ذوالحجہ
اس دن فجرمزدلفہ میں بہت سویرے ادا کرکے مشعرالحرام کے قریب جاکر ذکر الٰہی، تکبیرات اور تلبیہ کرنا قرآن کریم کا حکم اور سنتِ نبویﷺ ہے۔ سورج نکلنے سے پہلے جب کچھ روشنی ہوجائے تو منیٰ کی طرف چل پڑتے ہیں اور آتے ہوئے راستے سے ستّر کنکریاں لے لیتے ہیں۔ جب منیٰ پہنچتے ہیں تو سب سے پہلے جمرۃ العقبہ کو رمی کرتے ہیں۔العقبہ نامی ٹیلے کو اللہ اکبر کہتے ہوئے سات کنکریاں مارتے ہیں۔ پہلی کنکری مارنے کے ساتھ تلبیہ کہنے کا وجوب ختم ہوجاتا ہے۔اس رمی کے بعد قربان گاہ جا کر قربانی کرتے ہیں۔ حجاج کے لیے عید کی نماز نہیں ہے۔ وہ قربانی کے بعد بال کٹوا کر یا سر منڈوا کر احرام کھول دیتے ہیں۔ اس موقع پر عورتیں اپنے سر کی ایک دو مینڈھیاں کاٹ کر احرام کھولتی ہیں، اُن کے لیے سارے بال کٹوانا یا سر منڈوانا نہیں ہے۔احرام کھولنے کے بعداسی دن حجاج منیٰ سے مکہ آکر بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔یہ طواف بھی حج کا ایک اہم اور بنیادی رُکن ہے۔ اس کو طوافِ زیارت اور طوافِ افاضہ کہتےہیں۔ طوافِ زیارت کے بعد حج کرنے والے کے لیے وہ سب اشیا جائز ہوجاتی ہیں جو احرام کی وجہ سے اس کے لیے ممنوع تھیں۔ طوافِ افاضہ سے فارغ ہوکر منیٰ واپس آجاتے ہیں۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (10؍ذوالحجہ کو)فجر کی نماز ادا کرکے قصواء پر سوار ہوئے اور مشعر الحرام آگئے۔ آپؐ نے قبلہ کی طرف رُخ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لا الٰہ الّا اللّٰہ کہا اور اس کی توحید بیان کی۔آپؐ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ روشنی ہوگئی۔ آپؐ سورج طلوع ہونے سے پہلے(منیٰ کی طرف) روانہ ہوئے۔ وادئ محسّر سے گزرتے ہوئے آپؐ نے سواری کو تیز کرلیا۔ (مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان واقع اس وادی کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ واقعہ اصحاب الفیل یہیں ہوا تھا۔لہٰذا یہاں سے جلدی سے گزرنا مسنون ہے)آپؐ نے وہ راستہ لیا جو جمرۂ کبریٰ(یعنی جمرۃ العقبہ) پر جا نکلتا ہے۔ آپؐ نے اسے سات کنکریاں ماریں۔ہر کنکری کے ساتھ آپؐ اللہ اکبر کہتے۔ پھر آپؐ قربانی کرنے کی جگہ پر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ سے قربانی کے تریسٹھ جانور ذبح کیے پھرجو رہ گئے تھے حضرت علیؓ کے سپرد کیے۔آپؐ نے انہیں اپنی قربانی میں شریک کیا تھا۔ آپؐ نے ہر قربانی میں سے ایک حصہ کے بارے میں فرمایاتواُسے ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا۔ پھر آپؐ دونوں نے اس میں سے کھایا اور شوربا پیا۔ پھر رسول اللہﷺ سوار ہوئے اور بیت اللہ کا طوافِ افاضہ کیا۔اور نمازِ ظہر پڑھائی۔پھر آپؐ بنو عبد المطلب کے پاس آئے جو زمزم پر پانی پلا رہے تھے۔ انہوں نے آپؐ کو ایک ڈول پیش کیا اور آپؐ نے اس میں سے پانی پیا۔
(مسلم، کتاب الحج، باب حجة النبيﷺ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان دونوں ہاتھوں سے خوشبو لگائی۔ اس وقت بھی جب آپؐ نے احرام باندھا اور احرام کھولتے وقت بھی، جب آپ نے طوافِ زیارت سے پہلے احرام کھولا۔
(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الطیب بعد رمی الجمار والحلق قبل الافاضۃ، روایت نمبر1754)
’’حج تمتع‘‘یا ’’حج قِران‘‘ کی صورت میں قربانی کرنا واجب ہے۔اگر قربانی کی توفیق نہ مل سکے تو دس روزے رکھنے واجب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ
(البقرة:197)
یعنی جو شخص عمرہ کا فائدہ (ایسے) حج کے ساتھ (ملا کر) اُٹھائے تو جو قربانی بھی آسانی سے مل سکے (کردے) اور جو (کسی قربانی کی بھی توفیق) نہ پائے (اس پر) تین دن کے روزے تو حج ( کے دِنوں) میں (واجب) ہوں گے اور سات (روزے) جب تم (اپنے گھروں کو) واپس لوٹ آؤ۔ یہ پورے دس ہوئے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’میرے نزدیک یہ روزے ایام تشریق یعنی گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں ذوالحجہ کو رکھنے چاہئیں اور فِي الْحَجِّ سے مراد اس جگہ فِي أَیَّامِ الْحَجِّ ہے۔ باقی سات روزے گھر پر بھی رکھے جا سکتے ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ435تا436)
11، 12، 13؍ذو الحجہ
یہ دن منیٰ میں ہی گزارتے ہیں۔زوال کے بعد تینوں جمرات کو رمی کرتے ہیں۔ سب سے پہلے جمرۃ الاولیٰ جو مسجد الخیف کے پاس ہے اسے سات کنکر مارتے ہیں۔ اس کے بعد جمرۃ الوسطیٰ کو اور پھر جمرۃ العقبہ کو سات کنکر مارتے ہیں۔12؍ ذوالحجہ کو بھی اسی طرح زوال کے بعد رمی کی جاتی ہے۔اس کے بعد اختیار ہے چاہے تو 13؍ذوالحجہ کو رمی کرنے کے لیے منیٰ میں مقیم رہے اور چاہے تو
فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ:204)
’’پھر جو شخص جلدی کرے (اور) دو دِنوں میں (ہی واپس چلا جائے) تو اُسے کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے اُسے (بھی) کوئی گناہ نہیں۔‘‘کی رُخصت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے 12؍ذی الحجہ کو رمی کے بعد مکہ آجائے۔ یعنی 12؍یا 13؍ذوالحجہ کو رمی کرنے کے بعد مکہ آکر طواف الوداع یعنی واپسی کا طواف کیا جاتا ہے۔ یہ طواف اُن کے لیے ہے جو مکہ کے باشندے نہیں ہوتے۔ طواف الوداع سے فارغ ہوکر حجاج زمزم کا پانی پیتے، دہلیز کعبہ کو چومتے، ملتزم پر اپنا سینہ رکھ کر رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں اور غلافِ کعبہ کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ پھر باادب طور پر پچھلے پاؤں ہٹتے ہوئے آخری نگاہ ِشوق کعبہ پر ڈالتے اور واپس آجاتے ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن چاشت کے وقت رمی کی اور اس کے بعد (یعنی 11، 12، 13؍ذوالحجہ کو) آپؐ نے رمی سورج ڈھلنے پر کی۔
(صحيح البخاري، كتاب الحج، باب رمي الجمار)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس جمرہ پر رمی کرتے جو منیٰ کی مسجد سے متصل ہے (یعنی جمرۃ الاولیٰ) آپؐ اس پر سات کنکریاں پھینکتے۔ہر کنکری پھینکنے پر اللہ اکبر کہتے۔پھر آپ آگے بڑھ جاتے اور قبلہ رُخ ہوکر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کھڑے ہوکر دعا کرتے اور دیر تک وقوف کرتے پھر آپ دوسرے جمرہ پر آتے اوروہاں بھی سات کنکریاں پھینکتے۔ہر دفعہ آپ کنکری پھینکنے پر اللہ اکبر کہتے۔پھر بائیں جانب اس جگہ نشیب میں جاتے جو وادی سے متصل ہے۔ قبلہ رُخ ہوکر ہاتھ اُٹھا کرکھڑے دعا کرتے۔ پھر اس جمرہ کے پاس آتے جو عقبہ کے پاس ہے اور اس پر سات کنکریاں پھینکتے۔ ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے۔ پھر فارغ ہوکر وہاں سے واپس چلے آتے اور وہاں وقوف نہ کرتےتھے۔
(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب الدعاء عند الجمرتین، روایت نمبر1753)
حج کے ایام عبادات اورذکر الٰہی کے لیے مخصوص ہیں۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی کبریائی بیان کرتے رہنا ہی حج کا شعار ہے۔روایات میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منٰی میں اپنے خیمہ میں بھی تکبیرات دُہراتے رہتے تھے، اور اسی طرح مسجد والے مسجد میں اور بازاروں والے بازاروں میں تکبیرات دُہرایا کرتے تھے، یہاں تک کہ منیٰ تکبیرات سے گونج اُٹھتی تھی۔
(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر أیام منی)
حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ عورتیں مردوں کے پیچھے ان کے تکبیرات کہنے کے ساتھ تکبیرات کہا کرتی تھیں۔
(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر أیام منی، روایت نمبر971)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ ان ایام میں وہ بازار بھی تکبیرات کہتے ہوئے جایا کرتے تھے اور لوگ بھی انہیں دیکھ کر ان کے ساتھ ساتھ تکبیرات کہنے لگ جاتے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ (حج سے واپسی پر) لوگ ہر سمت سے روانہ ہوجایا کرتے تھے۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ہرگز واپس نہ جائے یہاں تک کہ آخر میں بیت اللہ کی زیارت نہ کرلے۔
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب وجوب طواف الوداع)
احصار
حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد کسی ایسی روک کے پیدا ہوجانے کی صورت میں کہ مکہ مکرمہ پہنچنا اور مناسکِ حج ادا کرنا ممکن نہ رہیں،الله تعالیٰ فرماتا ہے:
فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ
(البقرة:197)
یعنی اگر تم (کسی سبب سے حج اور عمرہ سے)روکے جاؤ تو جو قربانی میسر آئے (ذبح کرو) اور جب تک کہ قربانی اپنے مقام پر (نہ) پہنچ جائے اپنے سر نہ منڈواؤ۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:
’’قِران اور تمتع دونوں میں قربانی واجب ہے لیکن اکیلے عمرہ یا حج میں واجب نہیں بلکہ مستحب ہے اور اگر ان میں سے کسی کی نیت کرکے جائے اور کسی وجہ سے روکا جائے تو اُس پر قربانی واجب ہوگی اور جب تک قربانی ذبح نہ ہو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ سر نہ منڈوائے۔ ہاں اگر قربانی مکہ مکرمہ میں بھیج سکتا ہو تو بھیج دے اور پھر جب تک قربانی وہاں پہنچ نہ جائے اس وقت تک سر نہ منڈوائے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ435)
حج بدل
حج کی مالی استطاعت رکھنے والا شخص اگر صحت یا قدرتِ سفر نہ رکھتا ہو، یا اُسے راستے کا امن نصیب نہ ہو تو وہ مالی وسعت کی وجہ سے اپنے اس فریضہ کو کسی اور شخص کے ذریعہ بھی ادا کروا سکتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر خثعم قبیلہ کی ایک عورت آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! فریضہ حج اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر ایسے وقت میں مقرر ہوا ہے کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہے، وہ اونٹنی پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں (تم اس کی طرف سے حج) کرلو۔
(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب وجوب الحج وفضلہ، روایت نمبر1513)
عید الاضحی
10، 11، 12؍ذوالحجہ کے مبارک ایام میں اللہ تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرنے والے صرف حجاج کرام ہی نہیں ہوتے بلکہ کل عالَم میں بسنے والے مسلمان بھی قربانیاں پیش کرنے کا موقع پاتے اور اللہ تعالیٰ کا قُرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’یہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے قرب اور ملاقات کا موجب ہیں اُس شخص کے لیے کہ جو قربانی کو اخلاص اور خدا پرستی اور ایمان داری سے ادا کرتا ہے اور یہ قربانیاں شریعت کی بزرگ تر عبادتوں میں سے ہیں اور اسی لیے قربانی کا نام عربی میں نَسِیْکَۃ ہے اور نُسُک کا لفظ عربی زبان میں فرمانبرداری اور بندگی کے معنوں میں آتا ہے اور ایسا ہی یہ لفظ یعنی نُسُک اُن جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی زبان مذکور میں استعمال پاتا ہے جس کا ذبح کرنا مشروع ہے۔‘‘
(ترجمہ عربی عبارت ’’خطبہ الہامیہ‘‘، روحانی خزائن جلد16صفحہ33)
قربانی کا حکم
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ؕ فَاِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡاؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ (الحج:35)
اور ہر ایک قوم کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریق مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان چوپایوں پر جو اللہ نے ان کو بخشے ہیں، اللہ کا نام لیں۔ (پس یاد رکھو کہ) تمہارامعبود ایک ہی معبود ہے۔ پس تم اُسی کی فرمانبرداری کرو اور جو (خدا کے سامنے) عاجزی کرنے والے ہیں اُن کو خوشخبری دے دے۔
عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔لہٰذا جس شخص کو اِستطاعت ہو، اُسےقربانی ضرور کرنی چاہیے۔ حضرت مخنف بن سُلیمؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفات میں تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اے لوگو! ہر گھر والوں پر سال میں ایک قربانی کرنا لازم ہے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا،باب ما جاء فی ایجاب الاضاحی،روایت نمبر2788)
حضرت عبد الله بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا۔ آپؐ قربانی ہر سال کیا کرتے تھے۔
(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی،باب الدلیل علی أن الأضحیۃ سنۃ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی، باب الاضاحی واجبۃ ھی أم لا)
حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ہم اپنی قربانی کے جانوروں کی پرورش کرکے انہیں فربہ کیا کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال کر موٹا کیا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب فی أضحیۃ النبیؐ بکبشین)
قربانی کے لیے جانور
قربانی کے لیے اونٹ، گائے، بکری، بھیڑ، دُنبہ وغیرہ میں سے کوئی سا جانور نر ومادہ ذبح کیا جاسکتاہے۔ان کی عمر کے بارے میں احادیث سے یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ مُسِنَّہ یا اس سے بڑا جانور ہی قربان کرنا چاہیے۔ مُسِنَّہ سے مراد ایسا جانور ہے جس کے اگلے دو دانت گِرنے کے بعد دوبارہ آگئے ہوں۔اسے عرفِ عام میں دوندا یعنی دو دانت والا کہتے ہیں۔اس لحاظ سے اونٹ کی عمر تین سال سے زیادہ، گائے کی دوسال سے زیادہ اور بھیڑ، بکری، دُنبہ وغیرہ کی صورت میں ایک سال سے زیادہ قرار پاتی ہے۔دُنبہ وغیرہ کے متعلق یہ اجازت بھی ہے کہ اگر مُسِنَّہ نہ ملے تو چھ ماہ سے بڑا، اچھا پلا ہوا بھی جائز ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الأضاحی، باب سنّ الأضحیۃ۔ مؤطا امام مالک،
کتاب الحج، باب العمل فی الھدی حین یساق)
قربانی کا جانور کمزور اور عیب دار نہیں ہونا چاہیے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ قربانی کے لیے دو بڑےبڑے، موٹے، سینگوں والے، سیاہ وسفید اور خصی مینڈھے خریدتے تھے۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی، باب اضاحی رسول اللہﷺ،روایت نمبر3122)
آنحضورﷺ نے لنگڑے، کان کٹے، سینگ ٹوٹے، کانے، بیمار اور لاغر جانور کو قربانی میں ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی، باب ما لا یجوز من الاضاحی)
(سنن النسائی، کتاب الضحایا، باب ما نھی عنہ من الاضاحی العوراء)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم قربانی کے جانور کی آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کریں۔
(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی، باب ما یکرہ من الاضاحی)
لیکن اگر عيب خريدنے كے بعد پیدا ہو تو ایسےجانور کی قربانی کرنے میں حرج نہیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے قربانی کے لیے ایک مینڈھا خریدا۔بعد ازاں ایک بھیڑیے نے اس پر حملہ کردیا اور اس کی سرین یا کان میں سے کچھ حصہ کھا گیا۔ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: (کوئی حرج نہیں) اس کی قربانی کرلو۔
(سنن ابن ماجہ، کتاب الاضاحی، باب من اشتری أضحیۃ صحیحۃ فأصابھا عندہ شیئ)
(مسند احمد بن حنبل، مسند ابی سعید الخدریؓ، جزء3 صفحہ32)
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ایک موقع پر قربانی کے جانوروں میں ایک ایسی اونٹنی دیکھی جس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہوئی تھی۔ آپؓ نے فرمایا:
اگر تو یہ خریدنے کے بعد ایسی ہوئی ہے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر خریدنے سے پہلے ہی یہ ایسی تھی تو اسے بدل لو۔
(السنن الکبری للبیہقی، کتاب الضحایا، باب الرجل یشتری أضحیۃ وھی تامۃ ثم عرض لھا نقص، جزء9صفحہ486)
اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات آدمی شریک ہوتے ہیں۔اضطراری حالات میں ایک اونٹ میں دس بھی شریک ہوسکتے ہیں۔جبکہ بھیڑ بکری وغیرہ ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کی جاتی ہے۔ہاں نیتًا اپنے ساتھ پورے خاندان کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی، باب فی الاشتراک فی الاضحیۃ)
(سنن ابن ماجہ، باب من ضحی بشاۃ عن اھلہ)
یکم ذوالحجہ سے 10؍ذوالحجہ تک حجامت بنوانے اور ناخن کاٹنے سے رُکنا
امّ المومنين حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو تو چاہیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاٹنے سے رُکا رہے (جب تک کہ قربانی نہ کرلے۔) ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب ذوالحجہ کا چاند نکل آئے تو جس کے پاس قربانی ہو، چاہیے کہ وہ اپنے بال اورناخن نہ کاٹے، جب تک کہ قربانی نہ کرلے۔
(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ وھو مرید التضحیۃ أن یأخذ من شعرہ أو أظفارہ شیئا)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں ان کو چاہیے کہ ذوالحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہیے کیونکہ عام لوگوں میں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔‘‘
(الفضل22؍ستمبر1917ءصفحہ4،فرمودات مصلح موعودؓدربارہ فقہی مسائل، صفحہ113)
تکبیرات کہنا
آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کا یہ طریق تھا کہ عید الاضحی کےان ایام میں کثرت سے تکبیرات
(اَللّٰہُ أَ كْبَرُ، اللّٰہُ أَ كْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰهُ أَ كْبَرُ، اللّٰهُ أَ كْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ)
دُہرایا کرتے تھے۔ اُٹھتے، بیٹھتے، کام میں لگے ہوئے، ایک دوسرے سے ملتے ہوئے، غرض ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی کبریائی بیان کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر ان دنوں میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات کہنا مسنون ہے۔ حضرت علی ؓاور حضرت عمارؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 9؍ ذوالحجہ کی فجر سےایام التشریق کے آخریعنی 13؍ذوالحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیرات دُہرایا کرتے تھے۔
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب صلاۃ العیدین، روایت نمبر1111)
نمازِ عید وخطبہ عید
آنحضورﷺخوشی ومسرت کے اس دن غسل کرکے عمدہ لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔(معرفۃ السنن والآثار، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب الزینۃ للعید) اور طلوعِ آفتاب کے بعد اوّل وقت میں عید کی نماز ادا کرنا آپؐ کا طریق تھا۔ اس بارے میں آپؐ کا فرمان ہے کہ عید الاضحی کی نماز، عید الفطر سے نسبتًا جلدی پڑھا کرو۔
(مسند الشافعی، کتاب العیدین صفحہ74)
دونوں عیدوں کی نماز ایک جیسی ہے۔ یعنی بغیر اذان اور اقامت کہے، خطبہ سے قبل دو رکعتیں اس طرح ادا کی جاتی ہیں کہ تکبیر تحریمہ کے بعد پہلی رکعت میں قراءت سے قبل سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہی جاتی ہیں۔ ان تکبیرات میں سے ہر تکبیر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں اور آخری تکبیر پر ہاتھ باندھ کر قراءت بالجہر کی جاتی ہے۔
(موطأ امام مالک، كتاب العيدين)
(سنن الترمذی،ابواب العیدین، باب فی التکبیر فی العیدین)
(سنن ابی داؤد، کتاب العیدین، باب التکبیر فی العیدین)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عیدین کے موقع پر جب نماز سے فارغ ہوجاتے تو صحابہؓ صفوں میں ہی بیٹھے رہتے۔ آپؐ اُن کی طرف رُخ کرکے کھڑے ہوجاتے اور خطبہ دیا کرتے تھے۔ آپؐ وعظ ونصیحت کرتے اور احکام سے آگاہ فرمایا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب العیدین، باب الخروج الی المصلی، روایت نمبر956)
قربانی کا وقت
آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کے تعامل سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی کا مسنون وقت 10؍ذوالحجہ نمازِ عید کے بعد سے لے کر 12؍ذوالحجہ کو سورج غروب ہونے سے پہلے تک ہے۔ بعض روایات کے مطابق 13؍ذی الحج کو بھی قربانی کرنا درست ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، جزء4صفحہ82)
حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (عید الاضحی کے) ایک موقع پر فرمایا ہم اپنےاس دن میں پہلا کام جو کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم نماز (عید) پڑھتے ہیں پھر وہاں سے لوٹ کر قربانی کرتے ہیں۔جس نے ایسا کیا اُس نے ہمارے طریق کے مطابق عمل کیا اور جس نے (نمازِ عید) سے پہلے ذبح کرلیا تو وہ صرف گوشت ہے جو اُس نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا ہے۔ اس کا قربانی سے کچھ تعلق نہیں۔
(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب سنۃ الأضحیۃ، روایت نمبر5545)
ذبح کرنے کا طریق
حضرت عبد الله بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اپنی بکری کو لٹا کر اُس کی گردن پر اپنی ٹانگ رکھے ہوئےاپنی چھری تیز کررہا تھا اور وہ بکری یہ دیکھ رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: تم نے یہ پہلے کیوں نہ کرلیا۔ کیا تم اسے دو دفعہ مارنا چاہتے ہو۔
(المعجم الاوسط للطبرانی، جزء4صفحہ53)
حضرت شداد بن اوسؓ بيان كرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے احسان کرنا فرض کیا ہے۔اس لیے جب تم ذبح کرو تو اچھے طریق سے ذبح کیا کرو۔ چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک اپنی چھری کو تیز كرلیا کرے تاکہ اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاسکے۔
(صحيح مسلم،کتاب الصید والذبائح، باب الأمر باحسان الذبح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک ایسا مینڈھا لانے کا ارشاد فرمایا جو سینگوں والا ہو، اور اس کے پاؤں، اس کی آنکھوں کے حلقے اور اس کا پیٹ کالے رنگ کا ہو۔چنانچہ ایسا مینڈھا لایا گیا تو آپؐ نے اس کی قربانی کی۔ آپؐ نے فرمایا: عائشہ! اپنی چُھری لاؤ اور اُسے پتھر پر رگڑ کر تیز کردو۔وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپؐ نے وہ لے لی اور مینڈھے کو پکڑ کر اُسے پہلو کے بل لٹایا اور ذبح کرتے ہوئے کہا: بسم اللہ (اللہ کے نام کے ساتھ) اے اللہ! محمدؐ اور محمدؐ کی آل اور محمدؐ کی اُمت کی طرف سے قبول فرما لے۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب ما یستحب من الضحایا)
ذکر ملتا ہے کہ آپؐ نے ذبح کرنے کے لیے اُسے قبلہ رُخ اور بائیں کروٹ پر لٹایا تھا۔
(بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، شرح باب ما یستحب من الضحایا،جزء9صفحہ538تا540)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چتکبرے مینڈھے قربان کیے۔میں نے دیکھا کہ آپؐ نے اپنا قدم اُن کے پہلو پر رکھا اور
’’بِسْمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرُ‘‘
کہتے ہوئے آپؐ نے اُن دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔
(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب من ذبح الاضاحی بیدہ،روایت نمبر5558)
ذبح کرنے کا طریق یہ ہے کہ داڑھ کے نیچے گردن کے اوپری حصہ کی رگیں کاٹی جاتی ہیں۔اونٹ کو ذبح کرنے کی بجائے نحر کیا جاتا ہے یعنی اس کے کھڑے ہونے کی حالت میں اس کی گردن کے نچلے حصے میں سینہ کے پاس سے رگیں کاٹی جاتی ہیں۔ اونٹ کو بٹھا کر ذبح کرنا سنتِ نبویﷺ کے خلاف ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس سے گزرے جس نے اپنی قربانی کا اونٹ ذبح کرنے کے لیے بٹھایا ہوا تھا۔ آپؓ نے فرمایا:اسے کھڑا کر کے باندھ لو۔ آنحضورﷺ کی سنت یہی ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب نحر الابل مقیدۃ، روایت نمبر1713)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اونٹ کو اس حالت میں نحر کیا کرتے تھے کہ اُس کی (اگلی) بائیں ٹانگ (اکٹھی کرکے) بندھی ہوتی تھی اور وہ اپنے باقی تین پاؤں پر کھڑا ہوتا تھا۔
(سنن ابی داؤد،کتاب المناسک، باب کیف تنحر البدن،روایت نمبر1767)
قربانی سے قبل کچھ نہ کھانا
حضرت بریدہ بن حصیبؓ بیان کرتے ہیں کہ عید الاضحی کے دن رسول اللہﷺ نمازِ عید سے قبل کچھ نہ کھاتے تھے اور واپس آکر قربانی کے گوشت سے ہی ناشتہ فرمایا کرتے تھے۔
(سنن الترمذی، ابواب العیدین، باب فی الاکل یوم الفطر قبل الخروج) (سنن الدارمی، ابواب العیدین، باب فی الأکل قبل الخروج یوم العید)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’مَیں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے۔پھر مسلمانوں میں یہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنالیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جونہ کرسکے اُسے گناہ نہیں۔‘‘
(خطبہ عید الاضحی 9؍جنوری 1941ء، خطبات محمود، جلد دوم صفحہ263)
قربانی کے گوشت کی تقسیم
قربانی کا گوشت انسان خود بھی کھا سکتا ہے اور دوستوں کو بھی کھلا سکتا ہے۔ غریبوں کو بھی اس میں سے کھلانا چاہیے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُہَا فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرۡنٰہَا لَکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔
(الحج:37)
یعنی جب (ذبح کرنے کے بعد) ان کے پہلو زمین پر لگ جائیں تو ان (کے گوشت) میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو اپنی غربت پر قانع ہیں اور اُن کو بھی کھلاؤ جو اپنی غربت سے پریشان ہیں۔ اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے فائدہ کے لیے بنایا ہے تاکہ تم شکرگزار بنو۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک تہائی حصہ کھاؤ اور ایک تہائی حصہ جن (عزیزواقارب) کو کھلانا چاہو انہیں کھلاؤ اور ایک تہائی حصہ مساکین میں صدقہ کردو۔
(المغنی لابن قدامۃ، مَسْأَلَةٌ الِاسْتِحْبَابُ أَنْ يَأْكُلَ ثُلُثَ أُضْحِيَّته وَيُهْدِيَ ثُلُثَهَا وَيَتَصَدَّقَ بِثُلُثِهَا، جزء9صفحہ448)
قربانی کا گوشت غیر مسلم دوستوں کو دینا بھی جائز ہے۔
(فرمودات مصلح موعودؓ، دربارہ فقہی مسائل، صفحہ114)
ہجرتِ مدینہ کے ابتدائی سالوں میں جب غربت اور تنگ دستی کا دَور تھا تو قربانی کے موقع پر بھی ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی خصوصی ہدایت تھی۔
حضرت سلمہ بن اکوَع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو تم میں سے قربانی کرے تو تین دن کے بعد صبح کو ایسی حالت میں نہ اٹھے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ باقی ہو۔ (یعنی اسے چاہیے کہ جمع کرنے اور محفوظ کرنے کی بجائے عزیز واقارب اور حاجت مندوں میں تقسیم کرکے تین دن میں ختم کردے۔)
جب اگلا سال ہوا تو لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ ! کیا ہم اسی طرح کریں جس طرح گزشتہ سال کیا تھا؟ آپؐ نے فرمایا:
(نہیں بلکہ) کھاؤ، کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرلو۔ کیونکہ اُس سال لوگوں کو بھوک کی سخت تکلیف تھی اس لیے میں نے چاہا تھا کہ تم اس قحط میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔
چنانچہ اس اجازت کے بعد صحابہ قربانی کا گوشت (حج سے واپسی پر) بطور زادِ راہ مدینہ بھی لے آیا کرتے تھے۔
رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: یہ گوشت اچھی طرح سے بناؤ۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اسے اچھی طرح تیار کیا اور آپؐ مدینہ پہنچنے تک اس میں سے کھاتے رہے۔
(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب بیان ما کان من النھی عن أکل لحوم الأضاحی بعد ثلاث فی أول الاسلام وبیان نسخہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ قربانی کے گوشت میں سے کچھ گوشت ہم نمک لگا کر رکھ چھوڑتے تھے اور اسے مدینہ لے آتے تھے۔ بعض صحابہ نبی کریمﷺ کے پہلے حکم پر ہی پابند رہے اور وہ تین دن سے زیادہ گوشت کو رکھنا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔
(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب ما یؤکل من لحوم الأضاحی وما یتزود منھا)(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی، باب ما جاء فی الرخصۃ فی اکلھا بعد ثلاث)
قربانی کا کوئی حصہ بھی بطور اُجرت دینا منع ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کی کوئی چیز بطور اُجرت قصاب کو دینے سے منع فرمایا ہے۔ پوری اُجرت دینے کے بعد اگر اُس کی غربت کے پیش نظر دیگر مساکین کی طرح اسے بھی کچھ تحفۃً دے دیا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے انہیں قربانیوں کا انتظام کرنے کے لیے کہا۔ آپؐ نے فرمایا:ان اونٹوں کو مکمل طور پرمساکین میں تقسیم کردیں یعنی ان کے گوشت، ان کی کھالیں اور ان کی جھولیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی قصاب کو مزدوری میں مت دیں۔آنحضورﷺ نے فرمایا: اس کو اُجرت ہم اپنے پاس سے دیں گے۔
(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب لایعطى الجزار من الهدي شيئا، روایت نمبر1717)(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب فی الصدقۃ بلحوم الھدی وجلودھا وجلالھا)
دوسروں کی طرف سے قربانی کرنا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ہم منیٰ میں پہنچے تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الاضاحی، باب الاضحیۃ للمسافر والنساء،روایت نمبر5548)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا۔ آپؐ نے بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور فرمایا: یہ میری طرف سے اور میری امت کے اُن لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔
(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی، باب ما جاء أن الشاۃ الواحدۃ تجز عن أھل بیت)
وفات یافتگان کی طرف سے قربانی کرنا بھی درست ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپؓ دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے۔ ایک نبیﷺ کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔ آپؓ سے پوچھا گیا تو آپؓ نے بتایا کہ نبیﷺ نے مجھے ایسا کرنے کا فرمایا تھا اس لیے میں ایسا کرنا کبھی نہیں چھوڑوں گا۔
(سنن الترمذی، ابواب الاضاحی، باب ما جاء فی الاضحیۃ عن المیت)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’انّ الضحَایا ھی المطایا۔توصل الی رَبّ البرایا۔ وتمحوالخطایا۔وتدفع البلایا۔ھٰذا ما بلغنا من خیر البریۃ۔ علیہ صلواۃ اللّٰہ والبرکات‘‘
بہ تحقیق قربانیاں وہی سواریاں ہیں کہ جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں اور خطاؤں کو محو کرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہتر ہیں ان پر خدا تعالیٰ کا سلام اور برکتیں ہوں۔
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16صفحہ45)
٭…٭…٭