میری مریم
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
(رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا وَبِالْقُرْاٰنِ حَکَمًا
سیدہ اُمّ ِطاہرکا بچپن
چھتیس سال کے قریب ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم کا نکاح ہمارے مرحوم بھائی مبارک احمد سے پڑھوایا۔ اِس نکاح کے پڑھوانے کا موجب غالباً بعض خوابیں تھیں جن کو ظاہری شکل میں پورا کرنے سے اِن کے انذاری پہلو کو بدلنا مقصود تھا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور مبارک احمد مرحوم اللہ تعالیٰ سے جا ملا اور وہ لڑکی جو ابھی شادی اور بیاہ کی حقیقت سے ناواقف تھی بیوہ کہلانے لگی۔ اُس وقت مریم کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور وہ اُن کی ہمشیرہ زادی عزیزہ نصیرہ اکٹھی گول کمرہ سے جس میں اُس وقت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم ٹھہرے ہوئے تھے کھیلنے کے لئے اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کبھی کبھی گھبرا کر جب منہ بسورنے لگتیں تو میں کبھی مریم کو اُٹھا کر کبھی نصیرہ کو اُٹھا کر گول کمرہ میں چھوڑ آیا کرتا تھا اُس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچی جسے مَیں اُٹھا کر نیچے لے جایا کرتاہوں کبھی میری بیوی بننے والی ہے اور یہ خیال تو اور بھی بعید از قیاس تھا کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ مَیں پھر اُس کو اُٹھا کر نیچے لے جاؤں گا مگر گول کمرہ کی طرف نہیں بلکہ قبر کی لحد کی طرف۔ اِس خیال سے نہیں کہ کَل پھر اِس کا چہرہ دیکھوں گا بلکہ اِس یقین کے ساتھ کے قبر کے اِس کنارہ پر پھر اِس کی شکل کو جسمانی آنکھوں سے دیکھنا یا اِس سے بات کرنا میرے نصیب میں نہ ہو گا۔
۱۹۰۷ء سے ۱۹۱۷ء تک کا عرصہ
عزیز مبارک احمد فوت ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب کی رخصت ختم ہو گئی۔ وہ بھی واپس اپنی ملازمت پر رعیہ ضلع سیالکوٹ چلے گئے۔ سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اُس وقت سکول میں پڑھا کرتے تھے دونوں میرے دوست تھے مگر ڈاکٹر حبیب عام دوستوں سے زیادہ تھے۔ ہم یکجان دو قالب تھے مگر اُس وقت کبھی وہم بھی نہ آیا تھا کہ ان کی بہن پھر کبھی ہمارے گھر میں آئے گی۔ اُن کی دوستی خود اُن کی وجہ سے تھی اِس کا باعث یہ نہ تھا کہ اُن کی ایک بہن ہمارے ایک بھائی سے چند دن کے لئے بیاہی گئی تھی۔ دن کے بعد دن اور سالوں کے بعدسال گزر گئے اور مریم کا نام بھی ہمارے دماغوں سے مٹ گیا۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی وفات کے بعد ایک دن شاید ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء تھا کہ میں امۃالحی مرحومہ کے گھر میں بیت الخلاء سے نکل کر کمرہ کی طرف آ رہا تھا راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا اُس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی مَیں نے دیکھا ایک دُبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اُس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی اور اپنا سارا لباس سمٹا لیا۔ مَیں نے کمرہ میں جا کر امۃ الحی مرحومہ سے پوچھا امۃ الحی! یہ لڑکی باہر کون کھڑی ہے؟ انہوں نے کہا آپ نے پہچانا نہیں،ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ کی لڑکی مریم ہے۔ مَیں نے کہا اُس نے تو پردہ کیا تھا اور اگر سامنے بھی ہوتی تو مَیں اُسے کب پہچان سکتا تھا۔ ۱۹۰۷ء کے بعد اِس طرح مریم دوبارہ میرے ذہن میں آئی۔
سیدہ اُمِّ طاہر سے نکاح
اَب مَیں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مریم کی شادی کی بھی کہیںتجویز ہے؟ جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم سادات ہیں، ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کسی جگہ شادی ہو گئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اِسی طرح بیٹھی رہے گی۔ میرے لئے یہ سخت صدمہ کی بات تھی۔ مَیں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اَور جگہ ہو جائے مگر ناکامی کے سِوا کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ آخر مَیں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اِس طرح اِس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہئے اِن میں سے کوئی مریم سے نکاح کر لے لیکن اِس کا جواب بھی نفی میں ملا۔ تب مَیں نے اِس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فعل کسی جان کی تباہی کا موجب نہ ہونا چاہئے اور اِس وجہ سے کہ اِن کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مَیں مریم سے خود نکاح کر لوں گا اور ۱۹۲۰ء میں اِس کی بابت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم سے مَیں نے درخواست کر دی جو اُنہوں نے منظور کر لی اور ۷؍فروری ۱۹۲۱ء کو ہمارا نکاح مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں ہو گیا۔ وہ نکاح کیا تھا ایک ماتم کدہ تھا۔ دعاؤں میں سب کی چیخیں نکل رہی تھیں اور گریہ وزاری سے سب کے رُخسار تر تھے۔ آخر ۲۱؍فروری ۱۹۲۱ء کو نہایت سادگی سے جا کر مَیں مریم کو اپنے گھر لے آیا اور حضرت اُمّ المومنین کے گھر میں اِن کو اُتارا جنہوں نے ایک کمرہ اِن کو دے دیا جس میں اِن کی باری میں ہم رہتے تھے۔ وہی کمرہ جس میں اَب مریم صدیقہ رہتی ہیں وہاں پانچ سال تک وہ رہیں اور وہیں اِن کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا۔ یعنی طاہراحمد(اوّل) مرحوم اور اِس کے چلے میں وہ سخت بیمار ہوئیں جو بیماری بڑھتے بڑھتے ایک دن اِن کی موت کا موجب ثابت ہوئی۔
شادی کے ابتدائی ایام
شادی کے ابتدائی ایام میں وہ سخت دُبلی پتلی ہوتی تھیں اور شکل میں بعض ایسے نقص تھے جو میری طبیعت پر گراں گزراکرتے تھے۔ اِسی طرح وہ ٹھیٹھ پنجابی بولتی تھیں اور مجھے گھر میں کسی کا پنجابی بولنا زہر معلوم ہوتا ہے۔ اِن کی طبیعت ہنسوڑ تھی وہ مجھے چڑانے کے لئے جان کر بھی اُردو بولتے ہوئے پنجابی الفاظ اِس میں ملا دیا کرتی تھیں۔ اِسی طرح چونکہ باپ ماں کی وہ بہت لاڈلی تھیں ذرا سی بات بھی اگر ناپسند ہوتی تو اُس پر چڑ کر رونے لگ جاتی تھیں اور جب رونے لگتیں تو آنسوؤں کا ایک سیلاب آ جاتا تھا، دو دو دن تک متواتر روتی رہتی تھیں۔ شاید یہ مرض ہسٹیریا کے سبب سے تھا۔ جب مَیں انگلستان گیا ہوں تو امۃ الحی مرحومہ اور اِن کی باہمی لڑائی کی وجہ سے مَیں اِن سے کچھ خفا تھا مگر مجھے واپس آ کر معلوم ہوا کہ غلطی زیادہ امۃالحی مرحومہ کی تھی۔ اِس خفگی کی وجہ سے سفر کے پہلے چند روز مَیں نے مریم کو خط نہ لکھا مگر اَلْحَمْدُلِلّٰہِکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جلد سمجھ دے دی اور مَیں نے اِن کو ناجائز تکالیف میں پڑنے سے بچا لیا۔ اٹلی سے مَیں نے اِن کو ایک محبت سے پُر خط لکھا۔ جسے اُنہوں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اِس میں ایک شعر تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ روم اچھاشہر ہے مگر تمہارے بغیر تو یہ بھی اُجاڑ معلوم ہوتا ہے۔ اتفاقاً ایک دفعہ اِس شعر کا ذکر ۱۹۳۰ء میں یعنی سفرِ ولایت کے سات سال بعد ہوا تو وہ جھٹ اُٹھ کر وہ خط لے آئیں اور کہا کہ مَیں نے وہ خط سنبھال کر رکھاہوا ہے۔ یہی شعر میں نے امۃ الحی مرحومہ کو بھی لکھا تھا۔ خدا کی قدرت یہ دونوں ہی فوت ہو گئیں اور روم کی جگہ اِس دنیا میں مجھے اِن کے بغیر زندگی بسر کرنی پڑی۔
سیدہ امۃ الحی سے آخری وقت کا وعدہ
بہرحال جب میں سفرِ انگلستان سے واپس آیا اور آنے کے چند روز بعدامۃ الحی فوت ہو گئیں تو اِن کے چھوٹے بچوں کا سنبھالنے والا مجھے کوئی نظر نہ آتا تھا۔ اِدھر مرحومہ کے دل پر اِن کی وفات کے وقت اپنے بچوں کی پرورش کا سخت بوجھ تھا۔ خصوصاً امۃ القیوم بیگم کے بارہ میں وہ بار بار کہتی تھیں کہ رشید کو دائی نے پالا ہے اِسے میرا اتنا خیال نہ ہو گا۔ خلیل ابھی ایک ماہ کا ہے اِسے مَیں یاد بھی نہ رہوں گی امۃ القیوم بڑی ہے اِس کا کیا حال ہو گا۔ کبھی وہ ایک کی طرف دیکھتی تھیں اور کبھی دوسرے کی طرف مگر اِس بارہ میں میری طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتی تھیں۔ شاید سمجھتی ہوں گی مرد بچوں کو پالنا کیا جانیں۔ مَیں بار بار اِن کی طرف دیکھتا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دوسرے لوگوں کی موجودگی سے شرما جاتاتھا۔ آخر ایک وقت خلوت کا مل گیا اور امۃ الحی سے کہا امۃ الحی! تم اِس قدرفکر کیوں کرتی ہو۔ اگر مَیں زندہ رہا تو تمہارے بچوں کا خیال رکھوں گا اور اِنْشَاءَ اللّٰہَ انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا۔ مَیں نے اِن کی تسلی کے لئے کہنے کو تو کہہ دیا مگر سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں ۔
وعدہ کا اِیفاء
آخر امۃ الحی کی وفات کی پہلی رات میں نے مریم سے کہا مریم! مجھ پر ایک بوجھ آ پڑا ہے کیا تم میری مدد کر سکتی ہو؟ اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار برکتیں اِن کی روح پر ہوں وہ فوراً بول پڑیں ہاں مَیں اِن کا خیال رکھوں گی۔ جس طرح ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے مَیں اِن کو پالوں گی اور دوسرے دن قیوم اور رشید کو لا کر مَیں نے اِن کے حوالے کر دیا نہ اُنہیں اور نہ مجھے معلوم تھا کہ ہم اِس وقت اِن کی موت کے فیصلہ پر دستخط کر رہے تھے کیونکہ اِس ذمہ واری کی وجہ سے انہیں بھی اور مجھے بھی بہت تکالیف پہنچیں مگر ہم اِن تکالیف کی وجہ سے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہیں۔ مجھے امۃ الحی بہت پیاری تھی اور پیاری ہے مگر مَیں دیانتداری سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتیں تو اِس طرح اپنے بچوں کی بیماری میں اِن کی تیمارداری کر سکتیں جس طرح مریم بیگم نے اِن کے بچوں کی بیماریوں میں اِن کی تیمارداری کی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو اپنی گود میں اُٹھا لے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی فضل فرمائے۔
اُنیس سالہ لڑکی کا یکدم تین بچوں کی ماں ہو جانا کوئی معمولی بات نہ تھی مگر اُنہوں نے خوشی سے اور جوش سے اِس بوجھ کو اُٹھایا اور میری اُس وقت مدد کی جب ساری دنیا میں میرا کوئی مددگار نہ تھا۔ انہوں نے مجھے اِس وعدہ کی ذمہ واری سے سبکدوش کیا جس سے سبکدوش ہونا میرے بس کی بات نہ تھی۔ میری نظروں کے سامنے وہ نظارہ آج بھی ہے جب میں قیوم اور رشید کو مرحومہ کے پاس لایا اور اُنہوں نے پُرنم آنکھوں سے اِن کو اپنے سینہ سے لگاتے ہوئے کہاکہ اَب سے مَیں تمہاری اُمّی ہوں اور یہ سہمی ہوئی بچیاں بھی اُس وقت سِسکتی ہوئیں اِن کے گلے سے لگ گئیں۔
محبت کے لئے دعا جو خدا نے سن لی
مَیں نے اِن سے اُس وقت وعدہ کیا کہ مریم! تم اِن بےماں کے بچوں کو پالواورمیں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں تم سے بہت محبت کروں گا اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اِن کی محبت میرے دل میں پیدا کر دے اور اُس نے میری دعا سن لی۔ مَیں نے اُس دن سے اِن سے محبت کرنی شروع کر دی۔ اِن کی طرف سے سب انقباض دل سے نکل گیا اور وہ میرے دل پر مسلّط ہو گئیں۔ اِن کی وہی شکل جو میری آنکھوں میں چبھتی تھی، اَب مجھے ساری دنیا میں حسین ترین نظر آنے لگی اور اِن کا لااُبالی پن جس پر میں بُرا منایا کرتا تھا اَب مجھے اِنکا پیدائشی حق معلوم دینے لگا۔
(باقی آئندہ)