خدا نے ایک گروہ کو اپنے خاص فضل اور عنایت کے ساتھ برگزیدہ کرکے اپنی روحانی نعمتوں کا بہت سا حصہ اُن کو دیا ہے
بعض جاہل اس جگہ یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی سچیّ خوابیں آجاتی ہیں، کبھی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے، کبھی الہام بھی ہو جاتا ہے پس ہم میں اور رسولوں میں کیا فرق ہے ؟ پس اُن کے نزدیک خدا کے نبی مکاّر یا دھوکا خور دہ ہیں۔ جو ایک معمولی بات پر فخر کر رہے ہیں اور اُن میں اور اُن کے غیر میں کچھ بھی فرق نہیں ۔ یہ ایک ایسا مغرورانہ خیال ہے جس سے اس زمانہ میں بہت سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں ۔ لیکن طالب حق کیلئے ان اوہام کا صاف جواب ہے اور وہ یہ کہ بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ خدا نے ایک گروہ کو اپنے خاص فضل اور عنایت کے ساتھ برگزیدہ کرکے اپنی روحانی نعمتوں کا بہت سا حصہ اُن کو دیا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ ایسے معاند اور اندھے ہمیشہ انبیا ء علیہم السلام سے منکر رہے ہیں تاہم خدا کے نبی اُن پر غالب آتے رہے ہیں۔ اور اُن کا خارق عادت نور ہمیشہ ایسے طور سے ظاہر ہوتا رہا ہے کہ آخر عقلمندوں کو ماننا پڑا ہے کہ اُن میں اور اُن کے غیروں میں ایک عظیم الشان امتیاز ہے ۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایک مفلس گدائی پیشہ کے پاس بھی چند درہم ہوتے ہیں اور ایک شہنشاہ کے خزائن بھی دراہم سے پُر ہوتے ہیں مگر وہ مفلس نہیں کہہ سکتا کہ مَیں اس بادشاہ کے برابر ہوں ۔ یا مثلاً ایک کیڑے میں روشنی ہوتی ہے جو رات کو چمکتا ہے اور آفتاب میں بھی روشنی ہے مگر کیڑا نہیں کہہ سکتا کہ مَیں آفتاب کے برابر ہوں ۔اور خدا نے جو عام لوگوں کے نفوس میں رؤیا اور کشف اور الہام کی کچھ کچھ تخمریزی کی ہے وہ محض اس لئے ہے کہ وہ لوگ اپنے ذاتی تجربہ سے انبیاء علیھم السلام کو شناخت کر سکیں اور اس راہ سے بھی اُن پر حجت پوری ہو اور کوئی عذر باقی نہ رہے ۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ224تا 226)