خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 23؍ جولائی 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…چودہ ہجری میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان فیصلہ کُن لڑائی جنگِ قادسیہ ہوئی جس کے نتیجے میں ایرانی سلطنت مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔

٭… مسلمانوں میں یہ عظیم تغیر اس لیےپیدا ہوا کیونکہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق اور ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کردیا تھا۔ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کردی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ اخلاق کی سطح پر لاکھڑا کردیا تھا۔ (حضرت مصلح موعود)

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 23؍ جولائی 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 23؍جولائی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی حارث رفیق ڈوگر صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کل ہم حضرت عمرؓ کاذکر کررہے ہیں اور ان کے زمانے کی بعض جنگوں کا ذکر ہورہاتھا۔ جنگِ بویب جو تیرہ یا سولہ ہجری میں ہوئی اس کی تفصیل تاریخ میں یوں ملتی ہے کہ جنگِ جسر میں شکست سےحضرت عمرؓ کو سخت تکلیف پہنچی چنانچہ آپؓ نے تمام عرب میں خطیب بھجواکر عرب قبائل کو اس قومی معرکے کے لیے تیار کیا۔ اس لشکرمیں مسلمانوں کےعلاوہ عیسائی قبائل بھی شامل تھے۔ دوسری طرف حضرت مُثنّی نے بھی عراق کے سرحدی مقامات سے فوج اکٹھی کرلی۔رستم کو جب مسلمانوں کی تیاری کی اطلاع ملی تو اس نے مہران کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا۔ یہ جنگ رمضان کے مہینے میں لڑی گئی۔ حضرت مُثنّی نےلشکر کی تنظیم اورصف آرائی کی اور پھر مسلمان مجاہدین سے ولولہ انگیز خطاب کرکے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ جنگ شروع ہوئی اور شدیدلڑائی کےبعدایرانیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس جنگ میں ایرانی سالار مہران سمیت ایک لاکھ ایرانی قتل ہوئے۔ ایرانی لشکر جب شکست کھاکر بھاگا تو حضرت مُثنّی نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں گھیر کر بہت سے ایرانی سپاہیوں کو قتل کردیا۔ بعد میں حضرت مُثنّی اپنے اس فعل پر افسوس کیا کرتے کہ انہوں نے شکست خوردہ لوگوں کا تعاقب کیوں کیا۔ اس معرکے کا یہ اثر ہوا کہ عراق کے اکثر نواح میں مسلمانوں کے پاؤں مضبوط ہوگئے۔

اس جنگ میں مسلمان خواتین کی ہمت و دلیری کا یہ نمونہ سامنے آیا کہ جب لڑائی کے بعد مسلمانوں کا ایک دستہ گھوڑے دوڑاتا ہوا خواتین اور بچوں کے کیمپ کےپاس پہنچا تو خواتین نے سمجھا کہ یہ دشمن کی فوج ہے جو ہم پر حملہ آور ہونے لگی ہے۔ان خواتین نے بچوں کو گھیرے میں لیا اور خود پتھراور چوبیں لےکر مقابلےکےلیے تیار ہوگئیں۔فوجی دستہ قریب پہنچنےپر ان کومعلوم ہواکہ یہ تو مسلمان ہیں چنانچہ اس پارٹی کے راہ نما عمرو بن عبدالمسیح نے بےساختہ کہا کہ اللہ کےلشکرکی خواتین کو یہی زیبا ہے۔

چودہ ہجری میں مسلمانوں اور ایرانیوں کےدرمیان فیصلہ کُن لڑائی جنگِ قادسیہ ہوئی جس کے نتیجے میں ایرانی سلطنت مسلمانوں کے قبضے میں آگئی۔ جب اہلِ فارس کو مسلمانوں کے کارناموں کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے سرداروں رستم اور فَیرُزان کو کہا کہ تم دونوں کے اختلاف کی وجہ سے مسلمان اس قدر طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ رستم اور فَیرُزان نے بوران کو معزول کرکےاکیس سالہ یزدجرد کو تخت پر بٹھادیا۔ حضرت مُثنّی نے اہلِ فارس کی تیاری کے متعلق حضرت عمرؓ کوآگاہ کیا تو آپؓ نے چاروں طرف نقیب بھیجے اور رؤسائے قبائل کو مکّے میں جمع ہونے کا ارشاد فرمایا۔اس وقت حج قریب تھا چنانچہ حضرت عمرؓ حج پر روانہ ہوئے۔جب آپؓ حج سے واپس تشریف لائے تو مدینےمیں ایک بڑا لشکر جمع ہوچکا تھا۔ اوّلاً حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کو مدینے میں امیر مقرر کرکےاس لشکر کی کمان خود سنبھالی ۔ تاریخ طبری میں درج تفصیل کے مطابق پہلے پہل حضرت عمرؓ نے اس لشکر کی کمان خود کرنے کا ارادہ فرمایاتاہم بعد میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے مشورے پر چار ہزار مجاہدین پرحضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو امیرِ لشکر مقرر فرمایا۔ آپؓ نے حضرت سعد کو روانگی سے قبل ہدایات اور نصائح سے نوازا نیزقادسیہ تک پہنچنے کا طریق اور میدانِ جنگ میں حکمتِ عملی کے متعلق اصولی اور بنیادی باتیں بتائیں۔حضرت سعدؓ نے شراف پہنچ کر پڑاؤ کیا تو وہاں مُثنّی آٹھ ہزار آدمیوں کے ساتھ موجودتھے تاہم اس موقعے پر مُثنّی کی وفات ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے مغیرہ بن شعبہ کو ایک دستے کے ساتھ روانہ کیا اور حضرت سعدؓ کو لکھا کہ مغیرہ بن شعبہ کو اپنی کمان میں رکھنا۔ حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کےاستفسار پر اپنے لشکر کے قیام اور حدود اربعہ کے متعلق مفصل لکھ کر بھیجا جس پر حضرت عمرؓ نےجنگی حکمتِ عملی کے متعلق سعد کو ہدایات سے نوازا۔

حضرت سعد ؓنے دربارِ خلافت کی ہدایت کےمطابق قادسیہ میں ایک ماہ قیام کیا۔ جب ایرانیوں کی طرف سے کوئی مقابلےکےلیے نہ آیا تو اس علاقے کے لوگوں نےیزدجرد کو مسلمانوں کی موجودگی کے متعلق لکھا۔ جس پر یزدجرد نے رستم کو بلایا لیکن وہ حیلے بہانوں سے جنگ میں شرکت سے گریزاں رہا اور اپنی جگہ جالینوس کو فوج کا سپہ سالار مقرر کرنےکا مشورہ دیا۔ بادشاہ کے سامنے رستم کی ایک نہ چلی اور اسے لشکر کی کمان سنبھالنا پڑی۔

حضرت عمرؓنے حضرت سعدؓ کو فرمایا کہ رستم کے پاس دعوتِ اسلام کےلیے وجیہ،عقل مند اور بہادر لوگوں کو بھیجو۔حضرت سعدؓ نے چودہ اشخاص کو منتخب کرکے سفیر بنا کر بھیجا۔ ان سفیر حضرات نے یزدجرد کے سامنے تین باتیں رکھیں۔ ایک یہ کہ اسلام قبول کرلو۔ دوسری بات یہ کہ جزیہ ادا کرو اور تیسری بات یہ کہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ یزدجرد نے کہا کہ اگرقاصدوں کو قتل کرنا ممنوع نہ ہوتا تو مَیں تم سب کو قتل کروادیتا۔ پھر اس نے مٹی کا ایک ٹوکرا منگوایااوراسلامی وفد کے سردارکو کہا کہ میری طرف سے یہ لےجاؤ۔

حضرت مصلح موعودؓ جنگِ قادسیہ کےذیل میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ وہ صحابی نہایت سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھے اور اپنا سر جھکا دیا اور مٹی کا بورا اپنی پیٹھ پر اٹھالیا۔ پھر اُن صحابی نے ایک چھلانگ لگائی اور تیزی کے ساتھ دربار سے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے ساتھیوں کو بلند آواز سے کہاکہ آج ایران کے بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی زمین ہمارے حوالےکردی ہے۔ یہ کہہ کر وہ وفد گھوڑوں پر سوار ہوا اورتیزی سے وہاں سے نکل گیا۔ بادشاہ نے جب ان کا یہ نعرہ سنا تو اسے بدشگونی گمان کرتے ہوئے کانپ اٹھا اور اپنے درباریوں کو مسلمانوں کے پیچھے دوڑایا۔ مگر مسلمان گھڑسوار اس وقت تک بہت دُور جاچکے تھے۔

اس واقعے کےبعد کئی ماہ تک سکوت رہا اور رستم یزدجرد کی تاکید کے باوجود جنگ سے جی چُراتا رہا۔ بالآخر رستم کو مجبور ہوکر مقابلےکےلیے آگے بڑھنا پڑااور اس کی فوجیں قادسیہ میں خیمہ زن ہوگئیں۔ رستم کی فوج کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی اور اس کے ساتھ تینتیس ہاتھی تھے۔رستم نے اسلامی لشکر کا جائزہ لیا اورمسلمانوں کو صلح کی پیش کش کی۔اسی طرح اس نے مطالبہ کیا کہ اس کے دربار میں مسلمانوں کی طرف سے ایلچی مذاکرات کےلیے آئیں۔ ان مذاکرات میں بھی مسلمانوں نے وہی تین باتیں پیش کیں یعنی قبولِ اسلام، جزیہ یا جنگ۔ رستم تینوں باتیں قبول کرنےپرتیار نہ ہوا اور جنگ کا ارادہ ظاہر کیا۔ مسلمان اپنی صف بندی مکمل کرچکے تو حضرت سعد کے جسم پر پھوڑے نکل آئے اور آپؓ عرق النسا کی تکلیف کے سبب شدید بیمار ہوگئے۔حضرت سعدؓ کےلیے درخت کے اوپر مچان بنائی گئی جہاں سے آپؓ لیٹے لیٹے لشکر کی طرف دیکھتے رہتے۔آپؓ نے اپنی جگہ خالد بن عرفطہ کو نائب مقرر کیا اور مسلمانوں سے خطاب کرکے جہاد کی ترغیب دی۔ایرانی افواج میں سے تیس ہزار سپاہی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے تاکہ کسی کو دوڑنے کا موقع نہ ملے۔حضرت سعدؓ نے مسلمانوں کو سورۂ انفال پڑھنے کا حکم دیا جس کی تلاوت سے مسلمانوں نے سکینت محسوس کی۔نمازِ ظہر کےبعد لڑائی کا آغازہوا اور پہلے روز قبیلہ بنو اسد کے پانچ سَو مسلمان شہید ہوئے۔دوسرےروز حضرت ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کی امارت میں کمک پہنچ گئی جس کے اگلے حصے پر حضرت قعقاع بن عمرو امیر تھے۔ حضرت قعقاع نے مبارزت طلب کی تو بہمن جاذویہ مقابلے کےلیے آگے بڑھا، دونوں میں مقابلہ ہوا اور حضرت قعقاع نے بہمن جاذویہ کو قتل کردیا۔مسلمان بہمن جاذویہ کے قتل اور مسلمانوں کے امدادی لشکر کی وجہ سے بہت خوش تھے۔تیسرے دن خون ریز جنگ ہوئی جس میں دوہزار مسلمان اور دس ہزار ایرانی کام آئے۔ حضرت سعدؓ کی ہدایت پر حضرت قعقاع اور حضرت عاصم نےایرانیوں کے سفید ہاتھی کا کام تمام کردیا اور دیگر مسلمانوں نے اجرب نامی ہاتھی کو ایسا بدمست کیا کہ اس نے دریا میں چھلانگ لگادی، جس کی دیکھا دیکھی باقی ہاتھی بھی دریا میں کود گئے۔

اس روز عشا کی نماز کےبعد ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ عرب و عجم نے اس رات جیسا معرکہ کبھی مشاہدہ نہ کیا تھا۔ ساری رات حضرت سعدؓ اللہ کے حضور دعا میں مشغول رہے۔ صبح ہوئی تو مسلمانوں کا جوش وجذبہ برقرار تھا اور وہ غالب رہے۔ چوتھی صبح دوپہر تک لڑائی جاری رہی اور ایرانی پسپائی اختیار کرتے رہے۔اس روز رستم پر شدید حملہ کیا گیا چنانچہ وہ دریا میں کود گیا۔ ہلال نامی ایک مسلمان اسے پکڑ کر خشکی پر لایا اور قتل کردیا۔رستم کے قتل کی خبر سے اہلِ فارس شکست کھا کر بھاگ گئے۔مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور ایک بڑی تعداد کو قیدی بنالیا۔ جب حضرت عمرؓ کو فتح کی خبر ملی تو آپؓ نے مدینے میں مسلمانوں سے ایک پُراثر خطاب فرمایا۔

حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں یہ عظیم تغیر اس لیےپیدا ہوا کیونکہ قرآنی تعلیم نے ان کے اخلاق اور ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کردیا تھا۔ان کی سفلی زندگی پر اس نے ایک موت طاری کردی تھی اور انہیں بلند کردار اور اعلیٰ اخلاق کی سطح پر لاکھڑا کردیا تھا۔جس کی وجہ سے یہ انقلاب پیدا ہوا۔پس قرآنی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی حقیقی انقلاب آیا کرتے ہیں۔

خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ یہ ذکر ان شاءاللہ آئندہ بھی چلے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button