نظام جماعت کی اطاعت دراصل خلیفہ وقت کی اطاعت ہوتی ہے
جماعت کس کو کہتے ہیں؟اس کا جواب قرآن کریم کی ایک پاکیزہ نصیحت سےہمیں ملتا ہے یعنی فرمایا کہ
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا (آل عمران :104)
اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے اجتماعی طور پر پکڑلو۔جماعت میں داخل ہو جاؤ اور جماعت کے تقاضوں کو پورا کرو اور مضبوطی کے ساتھ جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ ۔چنانچہ قرآن کریم کی پاکیزہ نصیحت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی سے چمٹ جانے والے لوگ ہی جماعت بنتے ہیں اور جو خدا کی رسی سے الگ ہو جائیں ان کو جماعت نہیں کہا جا سکتا ۔ایسی جماعت میں ہرگز رخنہ پیدا نہیں ہو سکتا جو اللہ کی رسی پر ہاتھ ڈالے اور اس تعلق کو مضبوط کرے ۔چنانچہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا:
فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی لَا انۡفِصَامَ لَہَا (البقرہ:257)
تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔
پس یہاں ایسی جماعت مراد ہےجو خدا والوں کی جماعت ہے جنہوں نے اللہ کی رسی کوایسی مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے کہ گویا ان کا ہاتھ ایک مضبوط کڑے پر پڑ گیا ہو جو ٹوٹ نہیں سکتا ۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’نظام کی کامیابی کا اورترقی کاانحصار اس نظام سے منسلک لوگوں اور اس نظام کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرنے پر ہوتاہے۔ چنانچہ دیکھ لیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی پابندی کی شرح تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک سے بہت زیادہ ہے اوران ممالک کی ترقی کی ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ عموماً چاہے بڑا آدمی ہو یا ا فسر ہو اگر ایک دفعہ اس کی غلطی باہر نکل گئی تو پھر اتنا شور پڑتاہے کہ اس کو اس غلطی کے نتائج بہرحال بھگتنے پڑتے ہیں اور اپنی اس غلطی کی جو بھی سزا ہے اس کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ غریب ممالک میں یا آ ج کل جو ٹرم (Term) ہے تیسری دنیا کے ممالک میں آپ دیکھیں گے کہ اگر کوئی غلط بات ہے تو اس پر اس حد تک پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ احساس ندامت اور شرمندگی بھی ختم ہو جاتاہے اور نتیجۃً ایسی باتیں ہی پھر ملکی ترقی میں روک بنتی ہیں ۔تو اگر دنیاوی نظام میں قانون کی پابندی کی اس حد تک، اس شدت سے ضرورت ہے تو روحانی نظام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترا ہوا نظام ہے اس میں کس حد تک اس پابندی کی ضرورت ہوگی اورکس حد تک اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔یاد رکھیں کہ دینی اور روحانی نظام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں کے ذریعہ اس دنیا میں قائم ہوتے ہیں اس لئے بہر حال انہی اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا جو خدا تعالیٰ نے ہمیں بتائے ہیں اور نبی کے ذریعہ، انبیاء کے ذریعہ پہنچے اور اسلام میں آنحضرتﷺ کے ذریعہ یہ نظام ہم تک پہنچا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا حسان ہے احمدیوں پر کہ نہ صرف ہادی ٔکاملﷺکی امت میں شامل ہونے کی توفیق ملی بلکہ اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی اس نے عطا فرمائی جس میں ایک نظام قائم ہے، ایک نظام خلافت قائم ہے، ایک مضبوط کڑا آپ کے ہاتھ میں ہے جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں ۔لیکن یاد رکھیں کہ یہ کڑا تو ٹوٹنے والا نہیں لیکن اگر آپ نے اپنے ہاتھ اگر ذرا ڈھیلے کئے تو آپ کے ٹوٹنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے بچائے۔ اس لئے اس حکم کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور نظام جماعت سے ہمیشہ چمٹے رہو۔ کیونکہ اب اس کے بغیر آپ کی بقا نہیں ۔ یادرکھیں شیطان راستہ میں بیٹھا ہے۔ ہمیشہ آپ کو ورغلاتا رہے گا لیکن اس آیت کو ہمیشہ مدنظر رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ (البقرہ:209)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم سب کے سب اطاعت (کے دائرہ) میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو۔ یقیناً وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍ اگست 2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍اکتوبر2003ءصفحہ5)
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ میری امت کو ضلالت اور گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔
مَنْ شَذَّ شُذَّ اِلَی النَّارِ۔
جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ گویا آگ میں پھینکا گیا۔
(ترمذی کتاب الفتن باب فی لزوم الجماعۃ)
حبل اللہ سے کیا مراد ہے ؟
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے متعدد ارشادات ملتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حبل اللہ سے مراد خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ،اس کا پیغمبر،اس کا رسول ہے اور اس کی اطاعت میں داخل ہو جانا،اس کی بیعت میں داخل ہوجانا،اس کی غلامی کا دم بھرتے رہنا اور کوشش کرتے رہنا کہ اس کی اطاعت سے باہر نہ جایا جائے یہی وہ حبل اللہ ہے جس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ فرمایا گیا ہےاور یہ حبل اللہ انبیاء کی وفات کے بعد بھی جاری رہتی ہے اور سب سے اعلیٰ شکل میں نبوت کے بعد خلافت کی صورت میں ملتی ہے اور اسی پہلو سے خلفاء کے ساتھ مضبوطی سے اپنا تعلق قائم رکھنا جماعتی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔اور اس تعلق کے درمیان کوئی اور واسطہ بیان نہیں کیا گیا اور عملی زندگی میں بھی حقیقت یہ ہے کہ کوئی اور واسطہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔خلیفہ وقت اور احمدیوں کے درمیان ایک محبت کا براہ راست تعلق ہے جس میں نظام جماعت یا نظام جماعت کا نمائندہ حائل نہیں ہوتا اور یہی وہ تعلق ہے جو سب سے پہلے نبی اپنے اور اپنے متبعین کے درمیان قائم فرماتے ہیں اور اسی تعلق کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے نظام خلافت ہے۔یہ ایک روحانی تعلق ہے اگر اس بلا واسطہ تعلق کی نسبت سے ہم اس مضمون کو سمجھیں گے اور اس تعلق کی حفاظت کریں گے توہم بہت سے خطرات سے محفوظ رہیں گے ۔
پس معلوم ہوا کہ حبل اپنی ذات میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی ۔حبل یعنی رسی کسی جگہ باندھی جاتی ہے اور جس چیز سے وہ رسی باندھی گئی ہے اس چیز نے اس رسی میں کچھ صفات پیدا کرنی ہیں ۔حبل اللہ کہہ کر نبوت سے انسانوں کے تعلق کا فلسفہ بیان فرما دیا گیا ہے ۔یہ فرمایا گیا ہے کہ حقیقت میں اللہ ہی ہے جس کا تعلق نبوت سے، اللہ کے واسطے سے ہے۔ اس کے تعلق کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے مگر جس کو خدا سے نبوت کی وجہ سے تعلق ہے وہ ہمیشہ مقام خطر میں رہے گا ۔اس لیے اگر نبوت سے تعلق جوڑنا ہے تو ہمیشہ اللہ کے تعلق کو فوقیت دو اور اللہ کے تعلق کے نتیجے میں نبوت سے محبت کرو اور پھر یہی مضمون درجہ بدرجہ سلسلہ وار خلافت میں جاری ہوتا ہے اور پھر آگے خلافت کے نمائندوں میں جاری ہوتا ہے جو نظام جماعت کے کاموں کو چلانے پر مقرر کیے جاتے ہیں ۔
اطاعت سے روگردانی کے محرکات
اطاعت سے انکار میں جومحرکات کارفرما ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں فتنے جنم لیتے ہیں اس کا گہرا راز ہمیں قرآن کریم نے سمجھا دیا ہے ۔فرمایا:
قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسۡتَکۡبَرۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ ۔قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُؕ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ۔(ص:76تا77)
اس نے کہا اے ابلیس! تجھے کس چیز نے اُسے سجدہ کرنے سے منع کیا جسے میں نے اپنی (قدرت کے) دونوں ہاتھوں سے تخلیق کیا تھا؟ کیا تو نے تکبر سے کام لیا ہے یا تو بہت اونچے لوگوں میں سے ہے؟اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں۔ تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔
خدا تعالیٰ نے یہ بہت گہرا رازہمیں سمجھا دیا کہ اطاعت سے انکار کی اصل وجہ کیا بنتی ہے ۔جب ابلیس نے ابیٰسے کام لیا تو اس کا ابیٰ اس کا انکار دراصل اس کی انانیت کی گود میں پلا تھا۔پہلے اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا مگر خدا سے بڑا نہیں۔ خدا کے مقرر کردہ نمائندے سے بڑا سمجھا اس سے اپنے آپ کو بہتر سمجھا ۔اس نے یہ نہیں کہا کہ اے خدا! میں تجھے تسلیم نہیں کرتا یا میں تیری عظمت سے انکاری ہوں بلکہ یہ کہا کہ جس کو تونےاپنےنمائندے کے طور پر مقرر کیا ہے یہ تو مجھ سے چھوٹا اور بے وقعت ہے۔میرے مقابل پر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کتنی گہری حکمت کی بات بیان ہوئی ہے۔ہزار ہا سال گزر چکے آغاز مذہب سے ہمیشہ یہی کہانی دوہرائی جارہی ہے۔مگر بصیرت سے عاری انسان جو قرآن کے نورسے فائدہ نہیں اٹھاسکتےہمیشہ اس مقام پر آکے ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔
اللہ اور رسول کے درمیان تفریق سے مراد
قرآن کریم نے ایک موقع پر یہ مضمون بیان کیا کہ جو اللہ اور رسول کے درمیان تفریق کرتے ہیں ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا۔اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا۔(النساء:151تا152)
یقیناً وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کر دیں گے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ کی کوئی راہ اختیار کریں۔یہی لوگ ہیں جو پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے رُسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
جب ہم نظام جماعت کی اطاعت نہ کرنے والوں کا جائزہ لیں تو قرآن کریم کے اس بیان کی سمجھ آتی ہے ۔جو خلیفہ وقت سے اطاعت کا دعویٰ کرتے ہیں اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت پر تو ہماری جان بھی قربان ہے۔ اس کے مقابل پرہم بھلا ان نمائندوں کو کس طرح خاطر میں لاسکتے ہیں جو ہماری نظر میں اس کے اہل نہیں ہیں۔تو خدا اور رسول کی تفریق بھی اسی طرح کی گئی کہ رسول کی کسی بات سےنعوذ باللہ من ذالک ناراض ہو کر کہہ دیا کہ خدا کی بات تو الگ ہوئی لیکن ہر بات میں رسول کی پیروی کریں یہ ناممکن ہے۔یہی شیطان کا وسوسہ ہے کہ جو پھرنچلے درجے پر منتقل ہو تا رہتا ہے یعنی بعض دفعہ امیر کےنیچے۔پھر یہ کہا جاتا ہے کہ امیر ہمارے سرآنکھوں پر مگر اس کافلاں عہدیدار ٹھیک نہیں ہے۔اگر ٹھیک نہیں بھی ہے اور اس کا اہل نہیں ہے تو جو بھی شکایت ہے وہ بالا عہدیداروں یا اس سے اوپر حضرت خلیفۃالمسیح ہیں ان کی خدمت میں لکھیں لیکن یہ کوشش کیے بغیر انکار کافیصلہ اپنے ہاتھ میں لینا اور اطاعت کے دائرے سے باہر نکلنا یہ وہ ابلیسیت ہےجس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’امیرکی اور نظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں یہ حکم ہے۔ لوگ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم خلیفہ کی اطاعت سے باہر نہیں ہیں، مکمل طور پر اطاعت میں ہیں، ہر حکم ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن فلاں عہدیدار یا فلاں امیر میں فلاں فلاں نقص ہے اس کی اطاعت ہم نہیں کر سکتے۔ تو خلیفہ وقت کی اطاعت اسی صورت میں ہے جب نظام کے ہر عہدیدار کی اطاعت ہے۔ اور تب ہی اللہ کے رسول کی اور اللہ کی اطاعت ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 31؍ دسمبر 2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍جنوری2005ءصفحہ8)
غیر مشروط اطاعت کا حکم
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا۔(سورۃ النساء آیت:60)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکاّم کی بھی، اور اگر تم کسی معاملے میں اُوْلُوالْاَمْر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر فی الحقیقت تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔یہ بہت بہتر طریقہ ہے اور اپنے انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُوْلُوالْاَمْر سے نہیں جھگڑیں گے۔ اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے۔ اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
(مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃالامراء)
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’پہلی بات تو یہی کہ جب بیعت کر لی تو پھر جو کچھ بھی احکام ہوں گے تو ہم کامل اطاعت کریں گے۔ یہ نہیں کہ جب ہماری مرضی کے فیصلے ہو رہے ہوں تو ہم مانیں گے، ہمارے جیسا اطاعت گزار کوئی نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی فیصلہ ہماری مرضی کے خلاف ہو گیا ہے جس سے ہم پر تنگی وارد ہوئی تو اطاعت سے باہر نکل جائیں، نظام جماعت کے خلاف بولنا شروع کر دیں۔ نہیں، بلکہ جو بھی صورت ہو فرمایا کہ تنگی ہو یا آسانی ہو ہم نظام جماعت کے فیصلوں کی مکمل اطاعت کریں گے اور نظام سے ہی چمٹے رہیں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی طاعت در معروف پر ہی بیعت لی ہے اور اب تک یہ سلسلہ شرائط میں بیعت کے ساتھ چل رہا ہے۔ اس لئے یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ عہد بیعت تھا اب نہیں، یا اب اگر اس کو توڑیں گے تو گناہ کوئی نہیں ہو گا یہ خیال ذہن سے نکال دیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہی یہ سلسلہ قائم ہوا ہے اور اس لئے یہ اسی کا تسلسل ہے۔…
تو یہ وہی سلسلہ چل رہا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ چاہے خوشی پہنچے یا غم پہنچے جو بھی امیر ہے اس سے جھگڑنا نہیں۔ اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہے اور اگلی بات یہ کہ حق پر قائم رہیں گے۔ اس کا کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں ہم حق پر ہیں اس لئے ہم یہ فیصلہ نہیں مانتے۔ بلکہ فرمایا تمہیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہے کہ تم نے سچی بات کہنی ہے۔ دنیا کی کوئی سختی کوئی دباؤ، کوئی لالچ تمہیں حق اور سچ کہنے سے نہ روکے۔ اور پھر یہ بھی کہ جب تمہارا کوئی معاملہ آئے تم نے سچی بات کہنی ہے، سچی گواہی دینی ہے اور جھوٹ بول کر نظام سے یا دوسرے فریق سے جھگڑنے کی کوشش نہیں کرنی۔ اور نہ کبھی یہ خیال آئے کہ ہم نے اگر نظام کی بات مان لی، اپنے بھائی بندوں سے صلح و صفائی کر لی، سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کر لیا تو دنیا کیا کہے گی۔
ہمیشہ یاد رکھو کہ تمہارا مطمح نظر، تمہارا مقصد حیات صرف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا ہونا چاہئے۔ اور یہی کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کے نظام کے جو احکامات و قواعد اور فیصلے ہیں ان کی پابندی کرنی ہے اور اس بارے میں اپنی اطاعت میں بالکل فرق نہیں آنے دینا۔‘‘
( خطبہ جمعہ 27؍ اگست 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2004ءصفحہ6تا7)
نظام جماعت کی اطاعت نہ کرنے والوں کے لیے انذار
اطاعت امیر کے بارے میں آنحضرتﷺ کے مختلف ارشادات ملتےہیں۔لیکن ایک یہ حدیث ہے جو مزید خوف دلوں میں پیدا کرتی ہے۔ ہر احمدی کو ہمیشہ یہ باتیں ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئیں کہ اطاعت امیر کس قدر ضرو ری ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
(صحیح مسلم ٗ کتاب الامارۃ ٗ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ وتحریمھا فی المعصیۃ)
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے حاکم سے ناپسندیدہ بات دیکھے وہ صبر کرے کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔
(صیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن وتحذیرالدعاۃ الی الکفر)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ بعض لوگ، لوگوں میں بیٹھ کر کہہ دیتے ہیں کہ نظام نے یہ فیصلہ کیا فلاں کے حق میں اور میرے خلاف۔ لیکن میں نے صبر کیا لیکن فیصلہ بہرحال غلط تھا۔ میں نے مان تو لیا لیکن فیصلہ غلط تھا۔ تو اس طرح لوگوں میں بیٹھ کر گھما پھرا کر یہ باتیں کرنا بھی صبر نہیں ہے۔ صبر یہ ہے کہ خاموش ہو جاتے اور اپنی فریاد اللہ تعالیٰ کے آگے کرتے۔ ہو سکتا ہے جہاں بیٹھ کر باتیں کی گئی ہوں وہاں ایسی طبیعت کے مالک لوگ بیٹھے ہوں جو یہ باتیں آگے لوگوں میں پھیلا کر بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح نظام کے بارے میں غلط تأثر پیدا ہو۔ اور اس سے بعض دفعہ فتنے کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور پھر جولوگ اس فتنے میں ملوث ہو جاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ پھر وہ جاہلیت کی موت مرتے ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’کیا اطاعت ایک سہل امر ہے! جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلے کو بدنام کرتا ہے۔ حکم ایک نہیں ہوتابلکہ حکم تو بہت ہیں۔ جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے، اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 411)
( خطبہ جمعہ 27؍ اگست 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2004ءصفحہ6)
پھر حضور انور نظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے۔ اس لئے اگر کبھی کسی کے خلاف غلط فیصلہ ہو جاتا ہے، تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ، صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے، بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ہر ایک کی اپنی سمجھ ہے۔ قضاء نے اگر کوئی فیصلہ کیا ہے اور ایک فریق کے مطابق وہ صحیح نہیں ہے پھر بھی اس پر عمل درآمد کروانا چاہئے اور دعا کریں کہ قاضیوں کو اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کی توفیق دے۔ قاضیوں کو بھی غلطی لگ سکتی ہے لیکن ہر حالت میں اطاعت مقدم ہے۔ بعض لوگ اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ بعض فیصلوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے منسوب ہونے سے ہی انکار ی ہو جاتے ہیں۔ تو یہ بدنصیبی ہے، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ، اپنے آپ کو آگ میں ڈال رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے چند سکّوں کے عوض اپنا ایمان ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ جماعت میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شامل ہوئے ہیں، کسی عہدیدار کی جماعت میں تو شامل نہیں ہوئے کہ اس کی غلطی کی وجہ سے اپنا ایمان ہی ختم کر لیں۔ بہرحال عہدیداروں کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اور کسی کمزور ایمان والے کے لئے ٹھوکر کا باعث نہیں بننا چاہئے‘‘
( خطبہ جمعہ 27؍ اگست 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2004ءصفحہ7)
اطاعت کے ساتھ ادب ضروری ہے
پھر ایک اور بات جو قرآن کریم سے معلوم ہوتی ہے کہ اطاعت کے ساتھ ادب ضروری ہے صرف اطاعت کافی نہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ (الحجرات:3)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نبی کی آواز سے اپنی آوازیں بلند نہ کیا کرو اور جس طرح تم میں سے بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے اونچی آواز میں باتیں کرتے ہیں اس کے سامنے اونچی بات نہ کیا کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں پتہ تک نہ چلے۔
آنحضرتﷺ کے بارے میں فرمایا کہ آواز بھی اونچی نہ کرووہ لوگ جو آوازیں اونچی کرتے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں کہ ایمان کیا ہے وہ اپنے ایمان کھودیتے ہیں۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ سچی اطاعت ادب کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ کھوکھلی رسمی اطاعت کوئی حیثیت نہیں رکھتی جو ہمیشہ اطاعت کرنے والے کے لیے خطرہ بنی رہتی ہے۔پس نظام جماعت کے نمائندوں کے ساتھ محبت اور ادب کا تعلق قائم کرنا ضروری ہے۔اگر ہم اس عہدیدار یا امیر کو اپنے سے حقیر سمجھتے ہوئے بظاہر اطاعت بھی کریں گے تو خطرہ موجود رہے گا۔آنحضرتﷺنے اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو۔ خواہ تم پر ایسا حبشی غلام (حاکم بنا دیا جائے) جس کا سر منقے کی طرح (چھوٹا) ہو۔
(صحیح بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ)
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ دیکھو اگر تمہارے اوپر ایک ایسا امیر بھی مقرر کردیا جائے جوحبشی ہو،یعنی عربوں کو اپنی قومیت پر ناز تھا اور ایک حبشی شخص کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ آکر ان کا حاکم بن جائے۔فرمایا حبشی اور غلام اور عربوں کے لیے تو ایک خادم کی اطاعت کرنا ایک ناقابل تصور بات تھی۔پھر ان کو اپنی سرداریوں اور عقلوں پر بھی بڑا ناز تھا۔آنحضرتﷺنے فرمایا کہ اس کا سر منقے کے برابر ہو ۔یعنی خشک کیے ہوئے کشمش کے دانےجتنا سر ہو۔اتنا بےوقوف ہو۔ اگر ایسا امیر بھی تم پرمقرر کیا جائے تو تم پر فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔
یہ ہے اسلام کی اطاعت کی روح جس کو آنحضرتﷺنے خوب کھول کھول کر بیان فرمادیا۔
ایک حدیث میں آتاہے۔حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے فرمایا :
سننا اوراطاعت کرنا ہرمسلمان کا فر ض ہے۔ خواہ وہ امراس کو پسند ہویا ناپسند۔ یہاں تک کہ اسے معصیت کاحکم دیاجائے۔ اور اگر معصیت کا حکم دیا جائے توپھر اطاعت اور فرمانبرداری نہ کی جائے۔
(صحیح بخاری کتاب الأحکام باب السمع والطاعۃ لامام…)
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’توجیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ سوائے اس کے کہ شریعت کے واضح احکام کی خلاف ورزی ہو۔ ہرحال میں اطاعت ضرو ری ہے اور اس حدیث میں بھی یہی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تم گھربیٹھے فیصلہ نہ کرلوکہ یہ حکم شریعت کے خلاف ہے اوریہ حکم نہیں ۔ ہو سکتاہے تم جس بات کو جس طرح سمجھ رہے ہو وہ اس طرح نہ ہو۔ کیونکہ الفاظ یہ ہیں کہ معصیت کاحکم دے،گناہ کا حکم دے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت اتنا پختہ ہو چکاہے کہ کوئی ایسا شخص عہدیدار بن ہی نہیں سکتاجو اس حد تک گر جائے اور ایسے احکام دے۔تو بات صرف اس حکم کو سمجھنے، اس کی تشریح کی رہ گئی۔ تو پہلے توخود اس عہدیدار کو توجہ دلاؤ۔ اگر نہیں مانتاتو اس سے بالاجو عہدیدار ہے، افسر ہے، امیر ہے،اس تک پہنچاؤ۔اورپھر خلیفۂ وقت کو پہنچاؤ۔ لیکن اگریہ تمہارے نزدیک برائی ہے تو پھرتمہیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ باہراس کا ذکر کرتے پھرو۔ کیونکہ برائی کو تو وہیں روک دینے کاحکم ہے۔اب تمہارا یہ فرض ہے کہ نظام بالا تک پہنچاؤ اور اس کا فیصلے کا انتظار کرو‘‘
(خطبہ جمعہ 22؍ اگست 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍اکتوبر2003ءصفحہ7)
نظام جماعت، نظامِ خلافت کے گرد گھومتا ہے
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت جماعت میں جاری فرمایا اور اس نظام خلافت کے گرد جماعت کا محلہ کی سطح یا کسی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر شہری اور ملکی سطح تک کا نظام گھومتا ہے۔ یعنی کسی چھوٹی سے چھوٹی جماعت کے صدر سے لے کر ملکی امیر تک کا بلا واسطہ یا بالواسطہ خلیفہ وقت سے رابطہ ہوتا ہے۔ پھر ہر شخص انفرادی طور پربھی رابطہ کر سکتا ہے۔ ہر فرد جماعت خلیفۂ وقت سے رابطہ رکھتا ہے۔ لیکن اگر کسی جماعتی عہدیدار سے کوئی شکوہ ہو یا شکایت ہو اور خلیفہ وقت تک پہنچانی ہو تو ہر ایک کے انفرادی رابطے کے باوجود اس کو یہ شکایت امیر کے ذریعے ہی پہنچانی چاہئے اور امیر ملک کا کام ہے کہ چاہے اس کے خلاف ہی شکایت ہو وہ اسے آگے پہنچائے اور اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہے تو وضاحت کر دے تاکہ مزید خط وکتابت میں وقت ضائع نہ ہو۔ لیکن شکایت کرنے والے کا بھی کام ہے کہ اپنی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی عہدیدار کے خلاف شکایت کرتے ہوئے اسے جماعتی رنگ نہ دے۔ تقویٰ سے کام لینا چاہئے۔ بعض دفعہ بعض کم علم یا جن میں دنیا کی مادیت نے اپنا اثر ڈالا ہوتا ہے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جماعت کے وقار اور روایات کے خلاف ہوتی ہیں اس لئے ایسے کمزوروں یا کم علم رکھنے والوں کو سمجھانے کے لئے مَیں یہ بتا رہا ہوں کہ ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔
عہدیداروں کا چناؤ آپ انتخاب کے ذریعے سے کرتے ہیں۔ عموماً اسی طرح ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ بعض خاص حالات میں بعض جگہ نامزدگی کر دی جائے اور یہ جو نامزدگی ہے یہ بھی مرکز یا خلیفۂ وقت کی منظوری سے ہوتی ہے۔ تو بہرحال جب یہ انتخاب اکثریت کی خواہش کے مطابق ہو جاتا ہے تو پھرجس نے منتخب عہدیدار کو ووٹ نہیں بھی دیا اس کا بھی کام ہے کہ مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ عہدیدار کے ساتھ رہے۔ پھر تمام جماعت اگر اس طرح رہے گی تو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بن کے رہے گی، بنیان مرصوص کی طرح بن کے رہے گی۔ یہ تمام باتیں میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ کہیں سے کوئی بغاوت کی بوآ رہی ہے یا کہیں کوئی مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ بعض دنیا دار جیسا کہ میں نے کہا اپنی کم علمی یا بے وقوفی یا دنیاداری کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں۔اور بعض دفعہ جماعت میں نئے شامل ہونے والے ایسی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ یہ نومبائعین کی اپنی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نظام جماعت کے بارے میں، عہدیداروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جائے۔ کیونکہ نئے آنے والوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتے رہتے ہیں۔
بہرحال الٰہی وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں یہ نظام، نظام خلافت کے ساتھ قائم رہنا ہے اور اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے۔ کوئی مخالف یا کوئی دشمن اب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا انشاء اللہ۔ لیکن ہمیں اپنے ذہنوں میں بعض باتیں تازہ رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً ان باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے۔ تاکہ جو پرانے احمدی ہیں ان کے ذہنوں میں بھی یہ باتیں تازہ رہیں اور اس کے ساتھ ہی نومبائعین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اور کبھی کسی کے ذہن میں کسی قسم کی بےچینی پیدا نہ ہو۔‘‘
(خطبہ جمعہ 31؍ دسمبر 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍جنوری2005ءصفحہ5)
شیطان سے بچنے کا واحد طریقہ:
جماعت سے وابستہ ہو نا
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ’’ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح بکریوں کا دشمن بھیڑیا ہے اور اپنے ریوڑ سے الگ ہو جانے والی بکریوں کو بآسانی شکار کر لیتا ہے اسی طرح شیطان انسان کا بھیڑیا ہے۔ اگر جماعت بن کر نہ رہیں یہ ان کو الگ الگ نہایت آسانی سے شکار کر لیتا ہے۔ فرمایا اے لوگو! پگڈنڈیوں پر مت چلنا بلکہ تمہارے لئے ضروری ہے کہ جماعت اور عامۃ المسلمین کے ساتھ رہو۔ تو یہاں فرمایا کہ شیطان سے بچ کر رہنے کا ایک ہی طریق ہے کہ جماعت سے وابستہ ہو جاؤ اور اس زمانے میں صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جو الٰہی جماعت ہے جو دنیا میں خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خداتعالیٰ کا پیغام پہنچا رہی ہے۔ اور اگر کوئی اور جماعت، جماعت کہلاتی بھی ہے تو ان کے اور بھی بہت سارے سیاسی مقاصد ہیں۔ پس اس عافیت کے حصار کے اندر آ گئے ہیں تو پھر اس کے اندر مضبوطی سے قائم رہیں اور اطاعت کرتے رہیں۔ ورنہ جیسا کہ فرمایا کہ بھیڑیے ایک ایک کرکے سب کو کھا جائیں گے اور کھا بھی رہے ہیں۔ ہمارے سامنے روز نظارے نظر آ رہے ہیں۔یہاں ایک اور مسئلہ بھی حل ہو رہا ہے کہ جماعت میں شامل لوگ ہی عامۃ المسلمین ہیں یعنی تعداد کے لحاظ سے زیادتی عامۃ المسلمین نہیں کہلاتی۔ پس آپ ہی وہ خوش قسمت ہیں جو جماعت میں شامل ہیں اور عامۃالمسلمین کہلانے کے مستحق ہیں تو اس لئے اپنے آپ کو بھی اگر بچانا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تو مکمل صبر اور وفا سے اطاعت گزار رہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنت کے وسط میں اپنا گھر بنانا چاہتا ہو اسے جماعت سے چمٹے رہنا چاہئے اس لئے کہ شیطان ایک آدمی کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ دو ہو جائیں تو وہ دُور ہو جاتا ہے یعنی شیطان پھر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دلوں میں پھاڑ پیدا کیا جائے۔ پس جماعت میں ہی برکت ہے اور نظام جماعت کی اطاعت میں ہی برکت ہے‘‘
( خطبہ جمعہ 27؍ اگست 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2004ءصفحہ7)
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کوا س تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ جماعت کے ساتھ چمٹا رہ کر نظام جماعت کی اطاعت کر کے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھ کر ان فضلوں کے وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے۔ آمین۔
٭…٭…٭