امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے روز معرکہ آرا اختتامی خطاب
حقوق قائم نہیں ہو سکتے جب تک اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہ ہو
اللہ تعالیٰ نے دوستوں کو قریبی رشتہ داروں کی فہرست میں شامل فرمایا ہےتا کہ ان سے قربت کا احساس بڑھے۔خدا کی خاطر دوستی نبھانا ہی حقیقی دوستی ہے
مسلمان کے مسلمان پر جو پانچ حقوق ہیں اس میں مریض کی عیادت بھی شامل ہے
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یتیم کی پرورش کرنے والا اور میں جنت میں اس طرح ہوں گےاور آپؐ نے اپنے شہادت اور درمیان کی انگلی کو جوڑ کر دکھایا
آنحضرت ﷺ لشکروں کو روانہ کرتے ہوئے ان کو نصیحت فرماتے کہ لوگوں کے ساتھ الفت پیدا کرو
تین دنوں میں یہاں کُل آٹھ ہزار آٹھ سو ستہتر لوگ مختلف وقتوں میں آئے
نماز ظہر و عصر سے قبل چار بجے مکرم رفیق احمد حیات صاحب کی صدارت میں اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ مکرم حافظ طیب احمد صاحب مربی سلسلہ و استاذ جامعہ احمدیہ یوکے نے سورۃ الناس کی تلاوت کی۔اس کے بعد معزز مہمانوں کے ویڈیو پیغامات دکھائے گئے اور بعض مہمانوں کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے۔تمام مہمانوں نے جماعت احمدیہ کے ساتھ اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا۔
جن مہمانوں کے پیغامات پیش کیے گئے ان میں درج ذیل شامل ہیں:
H.E Hon.Dr. Wycliffe Ambetsa Oparanya, Governor of Kakamega
Kenya
Hon Deb Schulte Canadian MP for king – Vaughan(Ontario)
Hon Jamie Raskin, Member of U.S congress (Democrat-Maryland)
Rt Hon Lord Goldsmith of Richmond Park Minister of State for Pacific
the Environment
Siobhain Mcdonagh MP, Chair of the APPG for the Ahmadiyya
Community and MP for Mitcham and Morden
Tan Singh Dhesi MP, Shadow Minister for rail. Mp for Slough
Rt Rev Bishop Philip Mounstephen
Bishop of Truro, author of Independent Review for Foreign Secretary
Persecution of Christians
Archbishop Angaelos OBE, General Bishop Coptic Orthodox Church UK
Rt Hon Nicola Sturgeon MSP
First Minister of Scotland
Rt Hon Sir Keir Starmer KCB QC MP,
Leader of the Labour Party UK
Rt Hon Sir Edward Davey MP,
Chair UK Health Security Agency
Justin Trudeau, Prime Minister of Canada
Boris Jhonson Prime Minister of UK
Mmar Balde, Governor from Senegal
Lord Tariq Ahmad of Wimbeldon
چار بج کر چھتیس منٹ پر اس اجلاس کا اختتام ہوا۔
جلسہ سالانہ کا اختتامی اجلاس
حضورانور کا قافلہ چار بج کر ایم ٹی اے کی سکرین پر چار بج کر 47منٹ پر نمودار ہوا۔ 52منٹ پر حضورانور جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔حضور انور کی اقتدا میں نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے بعد دوران سال وفات پانے والوں کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پانچ بج کر 12منٹ پر اختتامی اجلاس کی کارروائی کا آغاز ہوا۔
اختتامی اجلاس
مکرم عبدالمومن طاہر صاحب (انچارج عربک ڈیسک یوکے) کو سورۃ القلم کی آیات 1تا17تلاوت کرنے اور تفسیر صغیر سے ترجمہ پیش کرنے کی توفیق ملی۔
اس کے بعد مکرم منیر عودہ صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عربی قصیدہ
یا قلبی اذکر أحمدا عینَ الہدی مُفنی العدا
کے منتخب اشعار پڑھ کر سنائے۔
مکرم عطاء المومن زاہد صاحب کو ان اشعار کا اردو ترجمہ پڑھنے کی سعادت ملی جو درج ذیل ہے۔
اے میرے دل! احمد ﷺ کو یاد کر جو ہدایت کا چشمہ اور دشمنوں کو فنا کرنے والا ہے۔جو نیک، کریم اور محسن ہے اور عطا اورسخاوت کا سمندر ہے۔
وہ چودھویں کا روشن چاند ہے جو روشنی بخشتا ہے۔اس کی ہر بات قابلِ تعریف ہے۔اس کا احسان دلوں کو موہ لیتا ہے اور اس کا حُسن (آنکھوں کی)پیاس بجھا دیتا ہے۔
ظالموں نے اپنے ظلم کی وجہ سے سرکشی کرتے ہوئے اسے جھٹلا دیا ہے۔تو اُس کے کمال کی نظیر تلاش کرکے دیکھ لے۔ یقیناً تُو حیران ہو کر شرمندہ ہوگا۔ (اور تجھے اس کی نظیر نہیں مل سکے گی)
وہ اللہ کا نور ہے جس نے علوم کو نئے سرے سے زندہ کردیا۔وہ برگزیدہ اور چنیدہ ہے اور امام ومقتدیٰ اور سرچشمہ فیض ہے۔
الحمدللہ ثم الحمد للہ کہ ہم نے اپنے امام ومقتدیٰ کو پہچان لیا ہے۔اللہ کی قسم! اگر پردہ اٹھایا جائے تو تُو مجھے چشمہ ہدایت پائے گا۔
اور تُو میرے ساتھیوں کی لڑی میں پرودِیا جائیگااور تو میرے پاس ہدایت کا طالب ہو کر آئیگا۔
(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7 صفحہ 70)
مکرم حفیظ احمد صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اُس کا ہے محمد دلبر مِرا یہی ہے
خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کی سعادت ملی۔
بعد ازاں مکرم امیر صاحب یوکے نے احمدیہ پیس پرائز کے ناموں کا اعلان کیا۔ گزشتہ سال جلسہ سالانہ منعقد نہ ہونے کی وجہ سے امسال گزشتہ سال کے انعام کا بھی اعلان کیا۔ گزشتہ سال آئرلینڈ کی Adi Roche صاحبہ اور امسال تائیوان کے Dharma Master Cheng Yen صاحب احمدیہ پیس پرائز حاصل کرنے کے مستحق ٹھہرے۔یہ انعام انہیں آئندہ کسی پیس سمپوزیم میں دیا جائے گا۔
پانچ بج کر چھتیس منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔
اختتامی خطاب
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج میں 2019ء کے جلسے پر جو مختلف طبقات کے حقوق کے بارے میں بیان کرنا شروع کیا تھا اسی تسلسل کو حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں جاری رکھوں گا۔ یہ ایسے حقوق ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہی حقیقی معنوں میں امن پیدا ہو سکتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی تعلیم کامل اور مکمل اور ہر زمانے کے مسائل کا حل ہے۔ ہمیں دنیا کے سامنے اس تعلیم کو پیش کرنے کے لیے کسی شرم، جھجک اور احساس کمتری کی ضرورت نہیں۔ ہمیں دنیاداروں کو، حقوق کے نام نہاد علم برداروں کو اسلامی تعلیم کی روشنی میں اپنے پیچھے چلنے کی دعوت کی ضرورت ہے تاکہ ہر لحاظ سے ہر طبقے کے حقوق کی حفاظت ہو اور حقیقی امن پیدا ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقوق قائم نہیں ہوسکتے جب تک اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ایک بہت بڑی اکثریت اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تم سے کوئی نیک سلوک کرے اور تم اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو تم اللہ کا بھی شکر نہیں کرتے۔ گویا اپنے حق کی ادائیگی کو بندوں کے حق کی ادائیگی سے مشروط کر دیا۔
اسلام کے قائم کردہ حقوق کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی تفصیل ایسی ہے جس کے دنیادار قریب نہیں پہنچ سکتے۔ اس کے بعد حضور انور نے گذشتہ خطابات میں بیان فرمودہ حقوق کی فہرست پیش کی اور اس کے بعد مزید حقوق بیان فرمائے۔
دوستوں کا حق
اللہ تعالیٰ نے راہ نمائی فرمائی کہ حقیقی دوست وہی ہو سکتے ہیں جن کے دل صاف ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت بیان فرمائی کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۚۖ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ ؕ قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ(آل عمران:119)
(ترجمہ)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کو جگری دوست نہ بناؤ۔ وہ تم سے برائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ تم مشکل میں پڑو۔ یقیناً بُغض ان کے مُونہوں سے ظاہر ہو چکا ہے اور جو کچھ ان کے دل چھپاتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ یقیناً ہم تمہارے لئے آیات کو کھول کھول کر بیان کرچکے ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دوستوں کو قریبی رشتہ داروں کی فہرست میں شامل فرمایا ہےتا کہ ان سے قربت کا احساس بڑھے۔خدا کی خاطر دوستی نبھانا ہی حقیقی دوستی ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث پیش فرمائی جس میں ذکر ہے کہ جو اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا مانگتا ہے اس کے لیے فرشتہ دعا کرتا ہے کہ تمہارے لیے بھی ایسے ہو۔اس حدیث کی حضور انور نے وضاحت فرمائی کہ اس سے حقیقی بھائی ہی نہیں بلکہ دوست بھی مراد ہے۔
پھر ایک اور حدیث پیش کی جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع تعلق کرے۔
حضور انور نے والدین کے دوستوں کے حق ادا کرنے کے حوالے سے ایک حدیث بیان فرمائی جس میں ذکر ہے کہ والدین کی وفات کے بعد ان سے نیکی کرنے کاایک طریق یہ ہے کہ ان کے دوستوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا۔
پھر ایک اور روایت بیان فرمائی کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ والد کے دوست سے نیکی کرے جب اس کا والد فوت جائے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ہمارے دوستوں سے تعلق ہمارے اعضا جیسے ہے۔ ہمیشہ اسی فکر میں رہتا ہوں کہ ہمارے دوست آرام و آسائش میں رہیں۔
حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند ارشادات بیان فرمائے جن میں دوستی کے معیار کا ذکر تھا کہ اعلیٰ دوستی میں کسی کی چیز بغیر پوچھے استعمال کرنا بھی جائز ہے۔
آپؑ نے فرمایا کہ میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہدِ دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہوجائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں۔ ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گِرا ہوا ہو تو ہم بلا خوف لَوْمَۃَ لاَ ئِمٍ اسے اٹھا کر لے آئیں گے۔ فرمایا عہدِ دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے۔ اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہئے۔ اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آئے اس پر اغماض اور تحمل کا طریق اختیار کرنا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ اپنے والدین کے دوستوں کے حق بھی ادا کریں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے روزے رکھنے کا بھی فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ رکھو لیکن مریض کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں اور ان روزوں کو دوسرے ایام میں پورا کرنے کا فرمایا ہے۔
پھر مریض کی عیادت اور اس کے لیے دعا کرنے کا حق ہے۔ اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مریض کی عیادت کے حوالہ سے احادیث پیش فرمائیں۔ جس میں عیادت کرنے کے اجر کا ذکر تھا۔ اس کے بعد حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے متعدد واقعات سنائے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام بذات خود مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ ایک واقعہ یہ بیان فرمایا کہ ایک صاحب کئی روز سے بیمار ہو کر دارالامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے متعدد مرتبہ حضرت حجۃ اللہ کے حضور دعا کے لیے التجا کی۔ آپؑ نے فرمایا ‘‘ہم دعا کریں گے۔’’ پھر ایک دن شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر پاؤں کے متورم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ان کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ وعدہ کے ایفا کے لیے آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقے میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے اور کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کا مریضوں کی عیادت کا ایک واقعہ بیان فرمایا جو حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی صاحبؓ کی بیان کردہ روایت ہے کہ بعض وقت دوائیاں لینے کے لیے گنوار عورتیں زور زور سے دروازے پر دستک دیتی تھیں۔ اور سادہ اور گنواری زبان میں کہتی تھیں کہ مِرجا جی! ذرا بُوا کھولو۔ حضور اس طرح اٹھتے جس طرح مطاعِ ذیشان کا حکم آیا ہے، یعنی بڑا کوئی حاکم باہر کھڑا ہے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ فوراً اٹھ کر دروازہ کھولتے اور بڑی کشادہ پیشانی سے، بڑی خوشدلی سے باتیں کرتے اور دوائی بتاتے۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کے ضائع کرنے والے ہوتے ہیں۔ ویسے ابھی تک یہ حال ہے۔ ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیا ہے۔ گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے۔ آئی دوائی لینے اور ساتھ قصے شروع کر دیے اور آپؑ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ زبان سے یا اشارے سے اس کو کہتے نہیں کہ بس جاؤ دوا پوچھ لی اب کیا کام ہے ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ وہ خود ہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی۔
ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں اپنے بچوں کو دکھانے لے کر آئیں ، اتنے میں اندر سے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے برتن ہاتھوں میں لیے آنکلیں اور آپؑ کو دینی ضرورت کے لیے بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ مَیں بھی اتفاقاً جا نکلا۔ کیا دیکھتاہوں کہ حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے یورپین اپنی دنیاوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں۔ کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا۔ اور ہسپتال جاری رہا۔ فراغت کے بعد مَیں نے عرض کیا کہ حضور یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں کوئی ہسپتال نہیں،میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھا کرتا ہوں جو وقت پر کام آ جاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔
پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بعض ہندؤوں کے ساتھ حضرت مسیح موعوؑد حسن سلوک اور عیادت کے واقعات بیان فرمائے۔ جن میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ لالہ ملاوامل صاحب… جب ان کی عمر بائیس سال کی تھی وہ بعارضہ عرق النساء (Gout) بیمار ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ صبح و شام ان کی خبر ایک خادم جمال کے ذریعہ منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جا کر عیادت کرتے۔ صاف ظاہر ہے کہ لالہ ملاوامل صاحب ایک غیر قوم اور غیر مذہب کے آدمی تھے لیکن چونکہ وہ حضرت اقدسؑ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور اس طرح پر ان کو ایک تعلق مصاحبت کا تھا۔ آپ کو انسانی ہمدردی اور رفاقت کا اتنا خیال تھا کہ ان کی بیماری میں خود ان کے مکان پر جا کر عیادت کرتے اور خود علاج بھی کرتے تھے۔ ایک دن لالہ ملاوامل صاحب بیان کرتے ہیں کہ چار ماشہ صِبر ان کو کھانے کے لیے دے دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رات بھر میں انیس مرتبہ لالہ صاحب کو اجابت ہوئی اور آخر میں خون آنے لگ گیا اور ضعف بہت ہو گیا۔ علی الصباح معمول کے موافق حضرت کا خادم دریافت حال کے لیے آیا تو انہوں نے اپنی رات کی حقیقت کہی اور کہا کہ وہ خود تشریف لاویں۔ حضرت اقدس فوراً ان کے مکان پر چلے گئے۔ اور لالہ ملاوامل صاحب کی حالت کو دیکھ کر تکلیف ہوئی فرمایا کچھ مقدار زیادہ ہی تھی مگر فوراً آپ نے اسبغول کا لعاب نکلوا کر لالہ ملاوامل صاحب کو دیا جس سے وہ سوزش اور خون کا آنا بھی بند ہو گیا اور ان کے درد کو بھی آرام آگیا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حدیث بیان فرمائی جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر جو پانچ حقوق ہیں اس میں مریض کی عیادت بھی شامل ہے۔
یتیموں کا حق
اس حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد قرآنی آیات کی روشنی میں یتیموں سے حسن سلوک کرنے کی اہمیت بیان فرمائی۔ ان میں سے ایک آیت سورۃ الانعام کی تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ (الانعام153)
(ترجمہ)اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے
وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل35)
(ترجمہ)اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریق پر کہ وہ بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارہ میں پوچھا جائے گا۔
پھر فرمایا کہ
فَاَمَّا الۡیَتِیۡمَ فَلَا تَقۡہَرۡ(الضحیٰ10)
(ترجمہ)پس جہاں تک یتیم کا تعلق ہے تو اُس پر سختی نہ کر۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہ معاشرے کا کمزور ترین حصہ ہےجس کی حفاظت کی تلقین کی۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یتیم کی پرورش کرنے والا اور میں جنت میں اس طرح ہوں گےاور آپؐ نے اپنی شہادت اور درمیان کی انگلی کو جوڑ کر دکھایا۔
یتیموں کے حقوق کے حوالہ سے حضور انور نے مزید چند احادیث بیان فرمائیں۔ بعد ازا ں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا ایک ارشاد پڑھ کر سنایا جس میں قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر تھی کہ
وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا
یعنی اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔
حضور انور نےفرمایا کہ معاہدہ کی پابندی کی بھی اسلام تلقین کرتا ہے۔ بعض اوقات دشمن نے بڑی چالاکی کے ساتھ معاہدہ کیا۔ لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق ان معاہدوں کو بھی پورا کیا گیا۔ حضور انور نے احادیث نبویہﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی سے معاہدے کے ایفا کی اہمیت بیان فرمائی جس میں قرآن کریم کی آیت بھی شامل تھی جس میں معاہدہ پورا کرنے کا ذکر ہے۔ اس کے بعد حضور انور نے صلح حدیبیہ میں طے کردہ معاہدوں کا ذکر فرمایا کہ کس طرح آنحضرت ﷺ نے ان معاہدوں کو پورا کیا۔
جنگ کرنے والوں کے حقوق
عام طور پر جنگیں اپنی برتری جتانے اور قبضہ کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اسلام میں جنگ کی اجازت امن قائم کرنے کے لیے، مذہبی آزادی کے لیے اور ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے ہے اور یہ بھی کہ اسلام نے دشمن کے حقوق بھی قائم فرمادیے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج کی آیت40 اور41بیان فرمائی
اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ ۣ
(ترجمہ)اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے۔ اور یقیناً اللہ اُنکی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًاؕ وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ(سورۃ الحج41)
(یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔
پھر حضور انور نے قرآن کریم کے حوالے سے انصاف پرکاربند رہنے کا بھی ذکر فرمایا۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ(المائدہ9)
(ترجمہ)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔
آنحضرت ﷺ جب کسی لشکر کا کوئی امیر مقرر فرماتے تو اسے خاص ہدایات فرماتے جس میں تقویٰ پر عمل پیرا ہونے اور ظلم نہ کرنے کی خصوصی تلقین ہوتی۔
آنحضرت ﷺ لشکروں کو روانہ کرتے ہوئے ان کو نصیحت فرماتے کہ لوگوں کے ساتھ الفت پیدا کرو اور ان پر حملہ نہ کرو جب تک ان کو دعوت (اسلام) نہ دے دو۔نیز بچوں، بوڑھوں، کمزوروں اور عورت کو قتل کرنے سے منع فرماتے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے موقع پر آنحضورﷺ کا مقابلہ نہ کرنے کی تلقین کا ذکر فرمایا نیز اس موقع پر حضرت خالد بن ولید ؓ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر فرمایا۔ جس میں ایک معمولی واقعہ کے علاوہ کوئی حملہ کیے بغیر مکہ فتح ہوا۔
حضور انور نے فرمایا کہ کون ہے آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کےعلاوہ جنہوں نے اس حد تک حقوق کا خیال رکھا ہو۔
اسلام نے جنگ کی صورت میں جو حق قائم فرمائے اس کا خلاصہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پیش فرمایا جن میں سے بعض امور یہ ہیں
مثلہ کرنے کی اجازت نہیں
دھوکا بازی نہیں کرنی
بچے اور عورت کو نہیں مارنا
مذہبی راہنما کو نہیں مارنا
بوڑھے ، بچے، عورت کو نہیں مارنا
جب لڑائی کے لیے جائیں تو ڈر اور خوف نہ پیدا کریں
پڑاؤ تکلیف کا موجب نہ ہو، رستہ میں نہ ڈالیں
دشمن کے منہ پر زخم نہ لگائیں
دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچایا جائے
قیدی میں قریبی رشتہ دار پاس پاس رکھے جائیں
قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا
قیدی کو جو کھلائے خود کھائے
عمارتوں کو مت گراؤ
پھل دار درختوں کو مت کاٹو
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کے حوالے سے بیان فرمایا کہ عباد الرحمان کی علامت ہےکہ کسی شخص کو بلا وجہ قتل نہیں کرتے تھے۔ اور بیان فرمایا کہ صحابہ ؓ اس پر کس حد تک عمل کرتے تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہ چند حقوق میں نے مزید بیان کیے ہیں اور یہی حقوق ہیں جن کو قائم کر کے ہم معاشرے میں اور دنیا میں امن کی فضا قائم کر سکتے ہیں۔ ورنہ دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ اگر حکومتیں ان حقوق کو ادا نہیں کریں گی تو اس کے نتیجہ میں عالمی جنگ کے لیے بھی تیار ہو جائیں۔ جس کی تباہی ہر تصور سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔
آخر پر حضور انور نے احمدیوں کو اس تباہی اور بربادی سے بچنے کے لیے دعا کی تلقین فرمائی ۔ حضور انور نے تمام احمدیوں کے لیے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے۔
اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔
دعا کے بعد جلسہ گاہ میں موجود مختلف گروپس نے ترانے پیش کیے اور بعض ترانے مختلف ممالک میں موجود احمدیوں کی جانب سے پڑھے گئے جو لائیو سٹریم کے ذریعہ سنے اور دیکھے گئے۔
ترانوں کے بعد حضور انور نے حاضری کے بارے میں فرمایا کہ ان تین دنوں میں یہاں کُل آٹھ ہزار آٹھ سو ستہتر لوگ مختلف وقتوں میں آئے۔ چھ ہزار سات سو نو مرد اور دو ہزار ایک سو اڑسٹھ عورتیں ۔ اسی طرح یہاں یوکے میں جماعتی نظام کے تحت مختلف جماعتوں میں تین ہزار سے اوپر لوگ مساجد میں بیٹھ کر سنتے رہے ۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہ جو دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں ایک نیا نظارہ کبابیر سے بھی اور کینیڈا سے بھی اور قادیان کا منارۃ المسیح نظر آ رہا تھا ۔ مسجد اقصیٰ میں بیٹھے لوگ سن رہے تھے یہ بھی ایک عجیب نظارہ ہے۔ قادیان میں رات کے تقریباً بارہ بجنے والے ہیں لیکن لوگ پھر بھی بیٹھے ہیں ۔ اسی طرح باقی ملکوں میں بھی late night ہو چکی ہے لیکن بیٹھے جلسہ سن رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور ان کو جلسہ کی برکات سے وافر حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
7 بج کر 4 منٹ پر یہ اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا۔
……………
ادارہ الفضل انٹرنیشنل امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ الودود بنصرہ العزیز اور دنیا بھر میں بسنے والے تمام احمدیوں کوعالمگیر اور تاریخی جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ءکے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ تمام احمدی اس جلسے کی برکات سے وافر حصہ لینے کی توفیق پانے والے ہوں۔ آمین
٭…٭…٭