از مرکز

جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے (تیسرے دن صبح) چوتھے اجلاس کی مفصل رپورٹ

جلسہ سالانہ کے تیسرے اور آخری روز کا پہلا اور جلسہ سالانہ کا چوتھا اجلاس 8؍ اگست کو ٹھیک صبح دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم سرافتخار ایاز صاحب نے کی۔ تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ مکرم میاں داؤد احمد صاحب نے سورۃالنور آیات55تا57سے کی۔بعد ازاں مکرم آصف چغتائی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام میں سے درج ذیل اشعار پیش کیے:

نُور فرقاں ہے جو سب نُوروں سے اجلیٰ نکلا

پاک وہ جس سے یہ انوار کا دریا نکلا

حق کی توحید کا مُرجھا ہی چلا تھا پودا

ناگہاں غیب سے یہ چشمۂ اصفیٰ نکلا

یا الٰہی ! تیرا فرقاں ہے کہ اِک عالم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیّا نکلا

سب جہاں چھان چُکے ساری دُکانیں دیکھیں

مَئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا

کس سے اس نُور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ

وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا

اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم عبد القدوس عارف صاحب ، صدر مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’قرآن کریم کی تعلیمات کی فضیلت‘‘۔

چھٹي صدي عيسوي ميں دنيا اخلاقي گراوٹ اور روحاني اندھيروں ميں ڈوب چکي تھي۔ اور ہر طرح کي اخلاقي گراوٹ اور برائيوں کا پيالہ عرب کي سرزمين سے چھلک رہا تھا۔ گناہوں کا شمار بطور نيکي کيا جاتا تھا۔ حددرجہ زنا کار کو ليڈر سمجھا جاتا تھا اور اپني (سوتيلي)ماں سے شادي کر لينا جائز تھا۔ آدم خوري اور مردار کھانے پر کوئي تعجب نہ کرتا تھا۔ بيٹيوں کو زندہ درگور کر دينے کي اجازت تھي اور يتيموں کا مال ہڑپ کرنا ايک پيدائشي حق کے طور پر مسلم تھا۔ گويا انسان فقط ظاہر طور پر انسان تھا مگر انسانيت کے جملہ اقدارمفقود تھے۔ ان ميں اخلاقيات، شرم وحيا اور خودداري نام کي کوئي چيز نہ تھي۔ شراب کو پاني کي طرح پيا جاتا گويا وہ تمثيلي رنگ ميں يوں تھے کہ ان کا کھانا جانوروں کے کھانے پينے کي طرح تھا۔ جہاں تک اس دور کے بڑے بڑے مذاہب کا تعلق ہے توDavenportجيسے مستشرق نے لکھا ہے کہ

‘‘ اس دور ميں عيسائيت کي حالت سے زيادہ قابل مذمت اور کوئي چيز نہ تھي۔’’

دنيا کي جہالت کي بنيادي وجہ ہستي باري تعاليٰ کا انکار کرنا تھا۔ حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلا م کے الفاظ ميں اس حالت کو يوں بيان کيا جا سکتا ہے کہ

’’دنيا سے خدا کي عبادت مفقود ہو چکي تھي اور اس کي توحيد کي جملہ نشانياں غائب ہو چکي تھيں۔ معبودان باطلہ اور ديوي ديوتاؤں نے خداتعاليٰ کي عبادت کي جگہ لے لي تھي۔ دنيا جہالت اور اندھيروں ميں بري طرح ڈوبي ہوئي تھي۔ کوئي ملک، سرزمين اور خطہ ارض ايسا نہ تھا جہاں حيي و قيوم خدا کي عبادت کي جا رہي ہو۔ دنيا کي ايسي حالت کو خداتعاليٰ نے يوں بيان فرمايا ہے کہ

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِيْ البَرِّ وَالْبَحْرِ

کوئي انساني زبان يا قلم اس (دور کي) دنيا کا نقشہ اس سے بہتر بيان نہيں کر سکتي۔

(الحکم جلد5نمبر21، 10جون1901ء)

ايسے خطرناک دور ميں اللہ تعاليٰ نے محض اپنے فضل اور رحم سے اپنے سب سے عظيم رسول ﷺ کو بھيجا۔ جو انسانيت کے ليے اکمل ترين راہنمائي لے کر مبعوث ہوئے۔ ہمارے آقا و مطاع آنحضرت ﷺ کو ايسي اعليٰ شريعت دي گئي جس نے درندہ (صفت) لوگوں کو انسان بناياپھر ايسي شريعت کے ذريعہ اللہ تعاليٰ نے ان وحشيوں کو مہذب انسان بنايا اور پھر اسي کلام الہي نے ان مہذب لوگوں کو باخدا انسان بنا ديا۔ قرآن کريم کي اعليٰ تعليمات نے انہيں دن کے شير اور رات کے عابد بنا ديا اور وہ ايمان و ايقان کے راہنماستارے بن گئے۔

’’ يہ عظیم الشان تغیر مسلمانوں میں کیوں پیدا ہوا؟ اسی لئے کہ قرآنی تعلیم نے ان کےاخلاق اور ان کی عادات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6صفحہ205)

صَادَفْتَھُمْ قَوْمًا کَرَوْثٍ ذِلَّۃً

فَجَعَلْتَھُمْ کَسَبِیْکَۃِ الْعِقْیَانٖ

یعني آپ ﷺ نے انہيں گوبر کے کيڑوں کي مانند قوم پايا پھر انہيں سونے کي ايک ڈلي بنا ديا۔

اب جب اللہ تعاليٰ نے انسانيت کو قرآن کريم کي اعليٰ تعليمات سے نوازا اور آپ ﷺ مجسم کان خلقہ القرآن کے منصب پر فائز ہو گئے تو مسلمانوں کو کاميابيوںکي بلنديوںکو سر کرنے کےلیے طاقت عطا کي گئي۔ اب ان کے ہاتھ ميں روحاني اور دنياوي ترقيات کي کنجياں دے دي گئي تھيں۔ ديکھتے ہي ديکھتے عرب کے صحرا ميں ايک ان پڑھ صحرا کے بيٹے کے الفاظ کاسحر طاري ہونے لگا۔ اور چند ہي دہائيوں ميں قرآني تعليمات کي بالادستي عربوں اور عجميوں کے دلوں ميں گھر کر گئي اور يہ تعليمات تمام ظاہري حدود، قوميتيں، رنگ و نسل سے بالا ہوکر شش جہت چمکنے لگيں۔ جملہ فلسفے، خيالات اور مذہبي نوشتے اعليٰ و ارفع قرآني تعليمات کے مقابلہ سے عاري تھے۔ اس کے بارے ميں حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے فرما يا ہے کہ

’’یقینی اور قطعی اور سچا علم قرآن کريم سےملتا ہے یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے نہ حال کے انگلستانی فلسفہ سے بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘

(الحکم جلد 9نمبر 10مورخہ24؍مارچ1905ء صفحہ5)

آنحضرت ﷺ نے کلام الٰہي اپنے صحابہ پر پھونک ديا تھا اور آپ ﷺ کے خلفائے راشدہ نے اس بات کو يقيني بنايا کہ ان اعليٰ و ارفع تعليمات پر پوري آب وتاب سے عمل پيرا ہواجا سکے، آپ ﷺ کي وفات کے بعد يہ قرآني تعليمات کا ہي معجزہ ہے کہ ايسي بے نظير اور حيران کن پاک سلطنت اس قدر تھوڑے عرصے ميں قائم ہو گئي۔ ان اعليٰ تعليمات نے دنيا کو پہلي عدل و انصاف پر مبني عدالت، پاليسي بنانے کا انتظام، باضابطہ فوج، بيت المال، قيد خانے، سرائے خانے، ہوٹل اور مارکيٹ کنٹرول جيسے مختلف سسٹم عطا کيے۔

يہ اعليٰ قرآني تعليمات ہي بعد ميں فتوحات کے دور کےليے پيش خيمہ ثابت ہوئيں۔ ان تعليمات کي تعظيم کرنے والوں کو نہ صرف روحانيت ميں ترقي نصيب ہوئي بلکہ ان ذہنوں کو اعليٰ نور نے جلاء بھي عطا کي۔

کلچر، تہذيب، طب کے ميدان ميں، اس دور کے علوم سائنس کے ميدان ميں مسلمان قرآني تعليمات کو تھامے راہنمائي حاصل کرتے رہے اور دنيا کے راہبر ثابت ہوئے۔

ابن الھيثم نے پہلا کيمرہ بنايا۔ قرون وسطيٰ ميں دنيا کا سب سے مستند نقشہ، جو صديوں مسافروں کے زير استعمال رہا، ايک مسلمان نے بنايا۔ مسلمان ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے عظيم الشان ايجادات کيں اور کئي ايجادات کے باني مباني بنے جو آج تک بھي زير استعمال ہيں جيسے الزھراوي نے بہت سے طبي آلات بنائے۔ ابن نفيس نے دوران خون کے متعلق مفيد اور اہم ابتدائي معلومات کا اضافہ کيا۔ جابر بن حيان نے کيمسٹري کے کئي عوامل کا پتہ لگايا اور آلات بنائے۔ الجبرا اور حساب داني کے اصول بھي مسلمانوں نے ہي سب سے پہلے وضع کيے۔ New York Timesکي ايک رپورٹ کے مطابق ’’مسلمانوں نے ايک ايسي سوسائٹي کا قيام کيا جو قرون وسطي ميں دنيا بھر کےلیے سائنس کا مرکز تھا۔ عربي زبان 500سال تک حصول علم اور سائنس کے مترادف رہی۔‘‘

يہ قرآني تعليمات کا بلاواسطہ ايک نتيجہ تھا اور آنحضرت ﷺ کي قوت قدسيہ ہي تھي۔ليکن قرآن کريم نے ہميں پہلے ہي تنبيہ کردي تھي جو ان الفاظ ميں ہے کہ

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا۔

(الفرقان:31)

اور رسول کہے گا کہ اے ميرے رب ميري قوم نے اسي قرآن کو متروک چيز کي طرح چھوڑ ديا ہے۔

پھر مسلمانوں کے عروج کے دور پر زوال کا آغاز ہوا۔ وہ خدا سے بھي دور ہو گئے اور اس کي تعليمات سے بھي، مسلمان جو پہلے پوري دنيا کو مذہبي تعليمات، سائنس اور ريسرچ ميں قيادت کرتے تھے وہ ذہني پسماندگي کے دور ميں داخل ہوئے اور اخلاقي گراوٹ اور روحاني طور پر اندھيروں ميں ڈوب گئے۔دنيا کي سب سے بڑي سلطنت کے چھوٹے چھوٹے بے وقعت ٹکڑے ہو گئے۔ ديناوي مال ومتاع نے انہيں قرآني تعليمات سے دور ہٹا ديا تھا اور وہ اس کلام الہي کو قيمتي کپڑوں ميںلپيٹ کر رکھنے لگے، بجائے اس کے کہ وہ اس کے پر حکمت معاني پرغور کرتے۔

مسلمانوں پر طاري اس گمراہي کے زمانے جس کو فيج اعوج کا نام ديا جاتا ہے نے امت مسلمہ کو 72فرقوں ميں تقسيم کر ديا۔ قرآني آيات ميں نسخ ومنسوخ تسليم کيا جانے لگا۔ ديگر مذاہب کے زير اثر توحيد باري تعاليٰ جيسي اعليٰ تعليم گہنا گئي۔ يہاں تک کہ آپ ﷺ کي پيشگوئي کے الفاظ حرف بہ حرف پورےہوئے کہ بني نوع انسان پر ايک ايسا زمانہ آئے گا کہ اسلام صرف نام کا باقي رہ جائے گا، اور قرآن محض الفاظ کي صورت پر بچے گا۔ ان کي مساجد بھري ہوئي ہوں گي مگر ہدايت سے خالي ہوں گي اور آسمان کے نيچے ان کے علماء بدترين مخلوق ہوں گے۔

19ويں صدي کے حالات پر نظر دوڑائيں تو مسلمانوں کي حالت نہايت بے سروساماني کي تھي۔ دنيا نے مشاہدہ کيا کہ مسلمان باہم بٹے ہوئے ہيں۔ مخالفين نے اس کا فائدہ اٹھايا اور لاکھوں کتابيں قرآن کريم اور آنحضرت ﷺ کي مخالفت ميں شائع ہوئيں۔

20لاکھ مسلمان غيروں کے اعتراضات کے نتيجہ ميں اپنے ايمان ميں متزلزل ہو چکے تھے اور يوں اعليٰ قرآني تعليمات کو چھوڑ کر عيسائي بن چکے تھے۔ وہ اسلام کے خدا کو چھوڑ کر معبودان باطلہ کو اختيار کر چکے تھے۔ يہاں تک کہ بعض مسلمان ليڈر وں کي ايماني کمزوري بھي عياں تھيں۔

جيسے سرسيداحمد خان جنہيں اسلامي دنيا کا مصلح سمجھا جاتا ہے کا خيال تھا کہ اب مسلمانوں کو قرآني تعليمات کي نہيں بلکہ مغربي سائنسي تعليمات کي ضرورت ہے۔ ديگر کئي علماء نے دنيا کے مقابل پر اسلام کي ڈوبتي کشتي کو سہارا دينا چاہا مگر کوئي بھي وہ روحاني تجديد اور اصلاح نہ کر سکا جو اسلام کي نشاة ثانيہ کي صورت ميں مقدر تھي۔ ان علماء کا بنيادي زور اس بات پر تھا کہ مسلمانوں کو مغربي اقدار سکھائيںاور اپني رائے ميں قرآني تعليمات کو مغرب کےليے قابل قبول بنا کر پيش کرتے رہيں۔

ليکن نااميدي کے بادل چھٹے۔ جيسا کہ اللہ تعاليٰ نے ہي آنحضرت ﷺ کے مثيل اور مسيح موعود کے بھجوانے کي پيشگوئي فرمائي تھي جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادياني عليہ السلام کے وجود ميں پوري ہوئي۔ آپ کے سپرد ستاروں سے ايمان کو لاکر زمين ميں پيوست کرنے کي ذمہ داري تھي۔ آپ کے فرائض ميں شامل تھا کہ اسلام کے سنہري دنوں کو واپس لائيں۔ ديگر کئي فرائض کے ساتھ ساتھ آپ کے ذمہ قرآن کريم کي تعليمات اور ان کي حکمت کي تعليمات کا پرچار کرنا بھي تھا۔ آپ نے ببانگ دہل يہ اعلان فرماياکہ جب بھي اسلام کو کوئي مسئلہ درپيش ہو گا تو قرآن کريم ہي وہ ہتھيار ہے جس کو ہاتھ ميں لےکر اس کا سامنا کيا جا سکے گا۔ حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ

’’ وہ لوگ جو قرآن کو عزت ديں گےوہ آسمان پر عزت پائيں گے…نوع انسان کے لئے روئے زمين پراب کوئي کتاب نہيں مگر قرآن…‘‘

(کشتي نوح ،روحانی خزائن جلد 19صفحہ13)

آج کے ترقي يافتہ يورپ اور انڈسٹريل انقلاب کے بعد مذہب اور سائنسي ايجادات باہم دو متضاد چيزيں معلوم ہوتے ہيں۔ جملہ مذہبي نوشتے سوائے قرآن کريم کے ان دونوں کے مابين ہم آہنگي پيدا کرنے سے قاصر ہيں۔ ايک ايسے دور کے آغاز ميں جہاں ہر سوال کے جواب ميں محض يہ نہيں کہا جا سکتا تھا کہ کيونکہ يہ (چيز) ايسے ہي ہے۔ حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے فرماياکہ ہر شخص جو قرآن کو پڑھتا ہے اور اس کا معمولي سا افہام بھي رکھتا ہے وہ اس حقيقت کو تسليم کرے گا کہ ہر قسم کي فلاسفي اور ہر طرح کي سائنس اس کے مقابلہ ميں بے وقعت ہيں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد2صفحہ207)

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام اور آپ کے خلفاء نے قرآن کريم کي گہري حقيقتوں سے پردہ اٹھايا ہے۔ انہوں نے بتايا ہے کہ قرآن کريم کا بيان کرنے والا دراصل کائنات کا پيدا کرنے والا ہے۔ وہ اپنے کام اور اپنے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے۔دور حاضر کي جملہ ايجادات اور ترقيات دراصل اسي کي طرف راہنمائي کرتي ہيں۔

قرآن کريم نے صرف چند الفاظ ميں ايسے سائنسي حقائق سے پردہ اٹھايا ہے جو ہزاروں سال پرانے تھے اور آج دريافت ہو رہے ہيں۔ قرآن کريم کي اعليٰ اور ارفع تعليمات نے Big Bang Theoryکي تفصيل بيان فرمائي پھر يہ کائنات کے مستقل پھيلنے کا بيان کرتا ہے۔ اس ميں حيات بعدالموت کے عقيدے کا ذکر ہے۔ اس ميں بچے کي پيدائش کے چھ مراحل کا ذکر ہے اور اسي طرح آج کي سائنس کي کئي اقسام کي تفصيل بيان کي گئي ہے۔

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے فرمايا ہے کہ جس قدر سائنس ترقي کرے گي اور آگے بڑھے گي اسي قدر قرآن کريم کي عظمت دنيا پر عياں ہوتي جائے گي۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد2صفحہ207)

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے احمدي مسلمان سائنسدانوں اور ريسرچرز کو مخاطب ہو کر فرمايا

’’ہر دريافت اور ہر ترقي قرآن کريم کي تعليمات کي سچائي اور ايک خدا کي ہستي کي دليل ثابت ہو گي۔ يقيناً قرآن کريم سائنس کا مقابلہ کرنے سے نہيں شرماتا اور نہ ہي اپنے ماننے والوں کے حصول علم کي حوصلہ شکني کرتا ہے۔ قرآن کريم اپنے ماننے والوں کو نئي نئي دريافتوں، تحقيقات اور اپني خداداد صلاحيتوں کو بروئے کار لانے کي تلقين کرتا ہے۔ يقينا جو لوگ بني نوع انسان کے علم ميں اضافے کيلئے کوشاں ہيں تاکہ وہ انسانيت کو فائدہ پہنچائيں وہ اللہ تعاليٰ سے اپني سعي کا اجر پائيں گے۔‘‘

قرآن کريم کي ايک عظيم تعليم جس کي طرف اب دنيا کا رجحان بڑھ رہا ہے وہ پردہ ہے۔ اس ارفع تعليم ميں مردوں اور عورتوں کو اپني نظريں نيچي رکھنے کي تلقين کي گئي ہے اور يہ کہ وہ اپنے رويے اچھے رکھيں، الگ الگ رہيں اور اپني شرم گاہوں کي حفاظت کريں۔ مغرب نے اس تعليم کودقيانوسي اور پسماندہ قرار ديا، خاص طور پر حقوق نسواں کے خام خيال علمبرداروں نے اور قرآن کريم پر (نعوذباللہ) عورتوں سے نفرت کا الزام لگايا۔ مگر دنياوي حقائق اس سے بالکل بر عکس ہيں اور ايک تحقيق کے مطابق صرف يوکے ميں 4.9ملين عورتيں اپني زندگي ميں جنسي ہراسگي کا شکار ہوتي ہيں۔ حاليہ YouGovپول ميں امريکن خواتين کے بارہ ميں پتہ چلا ہے کہ ہر دس ميں سے سات خواتين کو پبلک ميں جنسي طور پر ہراساں کيا جاتا ہے اور نوجوان عورتوں ميں يہ تعداد دس ميں سے نو ہے۔

اس بڑھتي ہوئي تعداد کے پبلک ٹرانسپورٹ ميں مردوں اور عورتوں کے مابين پردہ کي آراء سامنے آئي ہيں۔ ہم ديکھتے ہيں کہ کس طرح قرآن کريم کي اعليٰ تعليمات نے دونوں جنسوں کے پردہ کي تلقين کي ہے۔ يہاں تک کہ وہ ايک دوسرے کي طرف نظريں بھي نہ اٹھائيں تاکہ ايسا نہ ہو کہ کسي فتنہ ميں پڑجائيں۔ اور يہي ايسي بدي سے بچنے کا واحد حل ہے۔

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں کہ

’’ہميشہ اپنے لباس کا خيال رکھيں تاکہ کوئي بھي آپ کے کردار کے بارے ميں سوال نہ اٹھا سکے اور پردہ پر فخر محسوس کريں کيونکہ يہ ايک مسلمان عورت کي عزت اور کردار کي حفاظت کرتا ہے۔ہر احمدي مردوزن کے گرد ايک دائرہ ہے اور وہ دائرہ ان حقوق و فرائض کا ہے جو اسلامي تعليمات وضع کرتي ہيں۔ اس لئے ہماري حدود کسي انفرادي شخص کي معين کردہ نہيں ہيں بلکہ وہ اللہ تعاليٰ کي مقرر فرمودہ ہيں۔‘‘

پھر دنيا کے کئي نامور رسالوں ميں آئے دن مخصوص مواقع کے بعد ايسي رپورٹس اور تحقيقات چھپتي رہتي ہيں کہ الکوحل خواہ وہ کم مقدار ميں ہو انساني صحت کے لیے سخت مضر ہے۔ خاص طور پر کينسر، زخموں اور متعددي بيماريوں ميں اضافے کي صورت ميں۔

ايسي تحقيقاتي رپورٹس بھي قرآن کريم کي اعليٰ تعليمات کو ثابت کرتي ہيں جو آج سے 14صدياں پہلے بيان ہوئيں جيسا کہ شراب اور جوئے کے بارے ميں قرآن کريم فرماتا ہے کہ

ان دونوں ميں بڑا(سخت) گناہ ہے اور انسانوں کے لیے کچھ فوائد بھي ہيں۔ مگر ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زيادہ ہيں۔

پھر نسل پرستي کے قبيح واقعات آئے دن منظر عام پر آتے رہتے ہيں۔ حال ہي ميں امريکہ ميں ہونے والے ايک سياہ فام کے قتل کے بعد پوري دنيا ميں احتجاجي ريلياں نکالي گئيں۔ پھر بھي نسل پرستي کا کھلم کھلا اظہار ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے بھي قرآن کريم ميں يہ اعليٰ اور منفرد تعليم دي گئي ہےکہخَلَقَکُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍکہ اللہ تعاليٰ نے تمہيں ايک ہي نفس (وجود) سے پيدا کيا ہے۔ پھر ہماري تعليم ميں يہ بات ثابت ہے کہ کسي گورے کو کالے پر اور کسي کالے کو گورے پر کوئي فوقيت نہيں ہے۔

جہاں دنيا بھر ميں Black Lives MatterاورAll Lives Matterکے نعرے بلند ہو رہے تھے وہاں حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے پوري دنيا کو يہ نعرے عطا فرمائے کہInnocent Lives Matter اورSupremacy of Justice حضور انور نے فرمايا:

يہ اصطلاح Innocent Lives Matter قرآني تعليمات پر مبني ايک وسيع اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے کہ کسي ايک معصوم انسان کا قتل پوري انسانيت کا قتل ہے۔اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ ايسے لوگ جو معمولي نوعيت کے جرائم کرتے ہيں يا ان کے حالات کي وجہ سے انہيں مجبور کر کے برائي ميں ڈالا گيا ہو،جہاں ان کو انصاف کے مواقع بھي ميسر نہ ہوں،وہ معصوم نہيں ہيں۔دراصل اگر انہيں ايسے جرائم اپني فيملي کو کھلانے اور بنيادي ضروريات کو پورا کرنے کے ليے کرنے پڑيں يا زندہ رہنے کے ليے ہوں تو وہ بھي معصوم کے زمرے ميں آتے ہيں۔صرف وہي لوگ معصوم نہيں ہيں جن کے پاس دولت اور طاقت ہے اور وہ انہيں جھوٹے مقدمات بنانے کے ليے استعمال کريں يا تشدد کے ليے اور لوگوں کے حقوق غصب کريں۔

اسي طرح ’Supremacy of Justice‘ کي اصطلاح بھي قرآني تعليمات پر مبني ہے جس کے مطابق کسي سفيد فام کو کوئي برتري حاصل نہيں ہے۔دراصل عدل وانصاف کي بالادستي بنيادي چيز ہے۔‘‘

ميرے مسلمان بہنو اور بھائيو! دنيا کو اس وقت جس بھي چيلنج کا سامنا ہے يا آئندہ ہوگا توقرآن کريم سے اس کا جواب مہيا ہوتا رہے گا۔قرآن کريم کے چند صفاتي نام بھي مذکور ہيں جن ميں العزيز،العظيم،المجيد،الکريم،المبارک، البرھان،البيان،الحکمة،الحق اور الفرقان وغيرہ شامل ہيں۔

اس وقت دنيا ميں ايک تباہ کن وبا پھيلي ہوئي ہے جوچار ملين لوگوں کو موت کےگھاٹ اتارچکي ہے اور تاريخ سے ثابت ہے کہ ايسي تباہي اور قدرتي آفات ہميشہ اس وقت آتي ہيں جب انسانيت اپنے خالق سے دور ہوتي ہے۔ہمارا يہ عقيدہ ہے کہ ايسي قدرتي آفات دنياداري کي شہوات اور خرابيوں کي وجہ سے ہيں۔حالات اس نہج پر ہيں کہ يہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کورونا کي وبا کے بعد دنيا کے حالات نارمل ہو جائيں گے۔بلکہ حقيقت يہ ہے کہ اس وبا کے نتيجے ميں جو اقتصادي اور مالي بحران پيدا ہوا ہے اس کي وجہ سے بھي کئي مصائب اور مشکلات کا سامنا ہوگا جيسا کہ ان دنوں ويکسينيشن کے ليے کئي ممالک کے مابين لڑائي جھگڑوں کے معاملات آئے دن منظر عام پر آتے رہتے ہيں۔اس ليے حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے عدل وانصاف کے بارے ميں قرآني تعليمات پر خوب روشني ڈالي ہے۔حضور انور نے بار بار توجہ دلائي ہے کہ انسانيت ذاتي،معاشي، ملکي اور بين الاقوامي قيام امن کي خاطر ہميں يقين دہاني کرواني ہوگي کہ امن اور عدل وانصاف قائم ہو اور ترقي پذير ممالک کو برابر حقوق ديے جائيں۔حضور انور نے دنيا کے بڑے ليڈروں کو ان الفاظ ميں خطوط لکھے ہيں کہ

’’آپ کي حکومت کو معاشرے ميں امن اور سيکيورٹي کے ليے بھرپور کوشش کرني چاہيے،اپنے ملک ميں بھي اور ملکي حدودپر بھي،بين الاقوامي سطح پر۔ميں آپ سے مخلصانہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنے ملک کے شہريوں اور ديگر ممالک کے لوگوں کے ليے بھي عدل وانصاف کے تمام مطالبے پورے کريں۔‘‘

دنيا ميں موجودہ وبا کے باعث پيدا ہونے والے مصائب اور مشکلات ميں جو تيزي اور سختي آرہي ہے جس کے باعث ہر طرف بے چيني کا دور دورہ ہے اس کا علاج بھي قرآن کريم ميں مذکورہے کہ

اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ

(الرعد:29)

يعني يقيناً اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمينان نصيب ہوتا ہے۔

ميرے مسلمان بہن بھائيو! يہ قرآن کريم کي اعليٰ اور ارفع تعليمات ہي ہيں جو ہميں اور ہماري آئندہ نسلوں کو دنيا کي چکاچوند اور برائيوں سے بچا سکتي ہيں۔انہيں تعليمات سے ہم کاميابيوں سے ہمکنار ہو سکتے ہيں۔يہي وہ کتاب ہے جو ہميں بلند روحاني درجات سے ہمکنار کر سکتي ہے۔اس ليے اللہ تعاليٰ کے اس پيغام کو مضبوطي سے تھام لو اور اپنے دن اور رات اس کي تعليمات کے پرچار ميں صرف کرنے کي کوشش کريں۔

امام الزمان حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کے بابرکت الفاظ سے ميں اپني تقرير کو ختم کرتا ہوں۔آپؑ نے فرمايا:’’ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات ۷۰۰ سَو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دردازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تد ّ بر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نےمجھے مخاطب کر کے فرمایا کہاَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِکہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔…پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔ …قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ26تا27)

اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم عطاء المجیب راشد صاحب، امام مسجد فضل لندن و نائب امیریوکے کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان’’اسلام کی پیش کردہ توحید خالص‘‘تھا۔

محترم مولانا عطاء المجيب راشد صاحب نے تقرير کے آغاز ميں سورت اخلاص کي تلاوت کےبعد موضوع کي اہميت پر روشني ڈالتے ہوئے فرمايا کہ يہ موضوع ايک دقيق اور پُرمعارف موضوع ہے جو بہت غور سے سنے جانےکا متقاضي ہے۔

يوں تو خداتعاليٰ کا تصوّر دنيا کے سب مذاہب ميں پايا جاتا ہے تاہم ديگر اديان کے بالمقابل اسلام ميں خداتعاليٰ کي ذات اور صفات کا ايسا جامع بيان ملتا ہے کہ جو مذہبِ اسلام کو بہت بالا اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ قرآن کريم نے خدا کي ہستي کے شواہد پيش کرنے کے ساتھ خدا کي کامل اور خالص توحيدکو بھي نہايت واضح الفاظ ميں پيش فرمايا ہے چنانچہ صرف سورت اخلاص ہي بہت سے دلائل و براہين پر بھاري ہے۔ اس سورت کے آغاز ميں ’قُل‘کا لفظ رکھ کر توحيدِ خالص کےاہم عقيدے کا خوب اعلان کرنے کا کہا گيا ہے۔ يعني يہ کہ اس بات کاخوب اعلان کرديا جائے کہ خدا کي ہستي کے متعلق جو مختلف خيالات پائے جاتےہيں وہ سب ڈھکوسلے ہيں اورقطعي اور يقيني بات يہ ہے کہ ’اللّٰہُ اَحَدٌ‘۔’واحد‘ اور’ اوّل‘ کےبالمقابل ’اَحَدْ‘ کا لفظ اپنے اندريہ عجيب خصوصيت رکھتا ہے کہ اس ميں کسي طَور بھي دوئي کا خيال نہيں پايا جاتا۔سيّدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ اَحَدْ کا لفظ اللہ تعاليٰ کي ذات کي وحدانيت کو بيان کرتا ہے جبکہ لفظِ وَاحِدْ ميں صفات کي وحدانيت مراد ہوتي ہے يعني خداتعاليٰ کے سوا ايسا کوئي وجود نہيں جو اپني صفات کے لحاظ سے کامل ہو۔

اسلام کي پيش کردہ توحيدِ خالص کے متعلق سيّدنا حضرت اقدس مسيح موعودؑفرماتے ہيں کہ مَيں ہميشہ تعجّب کي نگاہ سے ديکھتا ہوں کہ يہ عربي نبي جس کا نام محمدؐ ہے يہ کس عالي مرتبہ کا نبي ہے۔وہ توحيد جو دنيا سے گُم ہوچکي تھي وہي ايک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنيا ميں لايا… جس قوم ميں آپ پيدا ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحيد کا جامہ نہ پہن ليا۔

حقيقي توحيد کي وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہيں کہ توحيد صرف اس بات کا نام نہيں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہيں اور دل ميں ہزاروں بُت ہوں۔ حقيقي توحيد جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے وہ يہ ہے کہ خدا تعاليٰ کو اپني ذات ميں ہر ايک شريک سے خواہ بُت ہو،خواہ انسان،خواہ سورج، چاند، يا اپنا نفس،اپني تدبير،مکروفريب سب سے منزّہ سمجھنااور اس کےمقابل پر کوئي قادر تجويز نہ کرنا۔پھر يہ کہ اپني محبت اور اپنا خوف اسي کےليے خالص کيا جائے۔نجات بھي انہي اُمور پر موقوف ہے۔ فرمايا کوئي توحيد بغير اِن تين قسم کي تخصيص کے کامل نہيں ہوسکتي۔

اوّل: ذات کے لحاظ سے توحيد

دوم: صفات کے لحاظ سے توحيد

سوم: اپني محبت اور صدق وصفا کے لحاظ سے توحيد

آپؑ مزيد فرماتے ہيں کہ عملي رنگ ميں اپني ہستي کو محو کرکے خدا کي وحدت کو اپنے پر وارد کرلينا يہي کامل توحيد ہے…توحيد اور خداداني کي متاع رسول کے دامن سے ہي دنيا کو ملتي ہے اور اس امر ميں سب سے اعليٰ نمونہ ہمارے نبيﷺ نے دکھايا۔ آپؐ نے نجاست پر بيٹھي قوم کو وحشيانہ حالت سے انسان، پھر معمولي انسان سے مہذب انسان اور پھر انسانِ کامل بنايا۔

حضورؑ دلي محبت سے نصيحت کرتے ہوئے فرماتےہيں:

اے نادانو! جب تک خدا کي ہستي پر يقينِ کامل نہ ہواُس کي توحيد پر کيونکر يقين ہوسکے۔ توحيدِ يقيني محض نبي کے ذريعے سے ہي مل سکتي ہے۔

سامعينِ کرام! خدا تعاليٰ کي وحدانيت کا عقيدہ مذہبِ اسلام کي جان ہے۔ حضرت اقدس مسيح موعودؑ فرماتے ہيں خدا غني بالذات ہے… وہ اپني ذات،صفات ،افعال اور قدرتوں ميں واحد ہے۔

اپني آمد کا مقصد بيان کرتے ہوئے آپؑ نے فرمايا کہ خداتعاليٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمين کي متفرق آباديوں ميں آباد ہيں کيا يورپ اور کيا ايشيا۔ ان سب کو جو نيک فطرت رکھتے ہيں توحيد کي طرف کھينچے اور اپنے بندوں کو دينِ واحد پرجمع کرے۔

آپؑ نے قربِ موليٰ کي راہوں کي نشان دہي کرتے ہوئے فرماياکہ توحيد کي حقيقت يہ ہے کہ جيسا کہ انسان آفاقي باطل معبودوں يعني بُت وغيرہ کي پرستش سے دست کَش ہوتا ہے ايسا ہي انفسي باطل معبودوں يعني اپني روحاني و جسماني طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے پرہيز کرے۔

حضرت مصلح موعودؓنےتفسيرِ کبيرميں اسلام کي پيش کردہ توحيدِ خالص کو مختلف جہات سے خوب واضح فرمايا ہے۔ قرآن مجيد کے حوالے سےآپؓ فرماتے ہيں کہ توحيد کا ايسا واضح بيان کسي دوسري کتاب ميں نہيں۔ فرمايا سب انبيا کا مشترکہ مشن اشاعتِ توحيدتھا۔حقيقت يہي ہے کہ تو حيد مذہب کي جان ہے۔ توحيد اس دنيا کي آبادي کي بنياد ،رحمانيت کا منبع ، اور وہ نکتہ ہے کہ جس پر تمام مذاہب کا اتحاد ممکن ہے۔

سيّدنا حضرت خليفة المسيح الخامس ايّدہ اللہ تعاليٰ اپنے متعدد خطابات اور خطباتِ جمعہ ميں توحيدِ خالص کے مضمون کو بہت کھول کر بيان فرماچکے ہيں۔ حضورِانور نے رسول اللہﷺ کي حياتِ مبارکہ سے بچپن، جواني اور نبوّت کے عرصہ کي متعدد مثالوں کے ذريعہ يہ واضح فرمايا ہے کہ آنحضرتﷺ کو خدا تعاليٰ کي ذات سےجو عشق تھا اور اس کي وحدانيت کےقيام کي جو تڑپ تھي اس کا کوئي دوسرا مقابلہ نہيں کرسکتا۔

حضرات! ہمارے پيارے آقا حضرت خاتم الانبياﷺ کي مقدس زندگي ايک کھلي کتاب کي مانند ہےجس ميں تعلق باللہ اور توحيد کےحوالے سے روح پرور نظّارے جگمگاتے نظر آتے ہيں۔ آپؐ کي پُشت پر گوشت کا ابھرا ہوا ايک ٹکڑا تھا۔ ابورمشہ کے والد نے کہا کہ مَيں طبيب ہوں، اس کو علاج سے دُور کردوں گا۔ رسولِ خداﷺ نے يہ بات سُن کر توحيد کي بےپناہ غيرت سے فرمايا اصل طبيب تو اللہ کي ذات ہے۔ايک بار آپؐ کي اونٹني کسي اعرابي کي اونٹني کے مقابل پيچھے رہ گئي تو حضورﷺ نےکيا ہي عمدہ تبصرہ فرمايا کہ اللہ ہي ہے جو کسي چيز کو اونچا اور کبھي نيچا کرتا ہے۔ سب سے اونچي ذات خداتعاليٰ کي ہے۔ توحيدِ باري تعاليٰ کےليے رسولِ مقبولﷺ کي غيرت کا معراج غزوۂ احد کےاس واقعےميں نظر آتا ہے جب کفار کے اُعْلُ ھبل اُعْلُ ھبل کے تعلّي بھرے نعروں کےجواب ميں آپؐ نے اپني جان کا خطرہ مول ليتے ہوئےصحابۂ کرامؓ سے توحيدِ خالص کا نعرہ اللّٰہ اعليٰ و اجل۔ اللّٰہ اعليٰ و اجل بلند کروايا۔

حضرت اقدس مسيح موعودؑ کي زندگي ميں توحيدِ الٰہي کي محبت اور غيرت کا شان دارنمونہ اُس واقعے ميں ملتا ہے کہ جب آپؑ کو شديد سردرد کي شکايت ہوئي اور کسي طور آرام نہ آسکا۔ ايک ماہر طبيب کو بلايا گيا جس نےبعد معائنہ کہا کہ فکر نہ کريں مَيں دو دن ميں آرام کردوں گا۔حضورؑ نے يہ مشرکانہ بات سني تو فرمايا مَيں اس حکيم سے ہرگز علاج نہيں کروانا چاہتا۔کيا وہ اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے۔ اصل شافئ مطلَق ہمارا خدا ہے۔

اسلام کے ذريعے جس توحيدِ خالص کا قيام ہوا تھا اُس پر خلافتِ راشدہ کےبعد گمراہي اور ضلالت کا لمبا دَور آيا۔ پھر حضرت مسيح موعودؑ کي بعثت کے ذريعےتوحيدِ خالص کا ازسرِ نَو قيام ہوا جو خلافتِ احمديہ کے سايہ ميں روز بروز وسيع تر ہوتا جارہا ہے۔ حضرت مسيح موعودؑ اپنے منظوم کلام ميں فرماتے ہيں

مجھ کو خود اس نے ديا ہے چشمۂ توحيدِ پاک

تا لگاوے از سرِ نَو باغِ ديں ميں لالہ زار

حضرت اقدس مسيح موعودؑ کے الہام

’’خُذُوْا التَوْحِيْد التوحيد يَا اَبْنَاءَ الفارس‘‘

يعني اے ابنائے فارس! توحيد کو مضبوطي سے پکڑو۔ اس الہام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ تمام جماعت روحاني لحاظ سے ابنائے فارس کے ماتحت آتي ہے۔يہ قاعدہ ہے کہ مصيبت کے وقت انسان کسي خاص چيز کو پکڑتا ہے۔فرمايا تم مصائب کے وقت توحيد کو پکڑليا کرو۔ ہماري جماعت کا فرض ہے کہ وہ لَا اِلَہَ الَّا اللّٰہ کےماٹو کو ہرقت اپنے سامنے رکھيں۔

موصوف نے اپني تقرير کا اختتام قيامِ توحيد کے ليےحضرت مسيح موعودؑ کي ايک دعا پر کيا جس ميں خداتعاليٰ کےحضور آپؑ نے يوں عرض کيا کہ اے قادر خدا! اس زمانے کو اپني طرف اور اپني کتاب کي طرف اور اپني توحيد کي طرف کھينچ لے۔ کفر اور شرک بہت بڑھ گيا اور اسلام کم ہوگيا۔اب اے کريم! مشرق و مغرب ميں توحيد کي ہوا چلا اور آسمان پر جذب کا ايک نشان ظاہر کر۔اے ہادي! تيري ہدايتوں کي ہميں شديد حاجت ہے۔ مبارک وہ دن جس ميں تيرے انوار ظاہر ہوں اور نيک وہ گھڑي جس ميں تيري فتح کا نقّارہ بجے

توکلناعليک ولا حول ولا قوّة الّا بک و انت العليّ العظيم۔

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمين

بعد ازاں مکرم طاہر احمد خالد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے منظوم کلام میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے:

ضرور مہدیٔ دوراں کا ہو چکا ہے ظہور

ذرا سا نُور فراست نکھار کر دیکھو

خزانے تم پہ لُٹائے گا لا جَرم لیکن

بس ایک نذرِ عقیدت گذار کر دیکھو

ہیں آسمان کے تارے گواہ ، سورج چاند

پڑے ہیں ماند ، ذرا کچھ بِچار کر دیکھو

بدل سکو تو بدل دو نظام شمس و قمر

خلاف گردشِ لیل و نہار کر دیکھو

مری سنو تو پہاڑوں سے سر نہ ٹکراؤ

جو میری مانو تو عجز اختیار کر دیکھو

اس نظم کے بعد مکرم عبد الماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد، یوکے نے ’’عالَم اسلام اور خلافت احمدیہ‘‘کے موضوع پر ایک نہایت ایمان افروز تقریر کی۔

تقرير کے آغاز ميں مقرر موصوف نے ذکر کيا کہ اللہ تعاليٰ کے وعدوں کے مطابق رسول اللہ ﷺ کي وفات کے بعد عالم اسلام کو خلافت راشدہ کي صورت ميں عظيم نعمت عطا کي گئي اور آخري زمانے کے ليے بھي آنحضرتﷺ نے ايک پيشگوئي فرمائي تھي کہ تم ميں نبوت رہے گي اور پھر خلافت عليٰ منہاج النبوة قائم ہوگي۔ پھر ايذا رساں بادشاہت اس کي جگہ لے لي گي اور پھر جابربادشاہت قائم ہوگي اور پھر خلافت عليٰ منہاج النبوة کا قيام ہوگا۔ جس ميں امام مہدي اور مسيح موعود ؑ اور ان کے بعد قائم ہونے والي خلافت کا ذکر فرمايا جس کا اصل مقصد ايمان کو دلوں ميں دوبارہ قائم کرنا اور اسلام کو عالمگير غلبہ عطا کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت مسيح موعود ؑفرماتے ہيں:’’ميں خدا کي ايک مجسم قدرت ہوں اور ميرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسري قدرت کا مظہرہوں گے سو تم خدا کي قدرت ثاني کے انتظار ميں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔‘‘

خلافت احمديت کي ابتدا کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ 27؍مئي 1908ء کو جماعت احمديہ اس قدرت ثانيہ کےبابرکت دائمي دَور ميں داخل ہوگئي اور آج اللہ تعاليٰ کے فضل سے 113 سال ہو چکے ہيں اور 213سے زائد ممالک ميں پھيلي ہوئي ہے۔دنيا کي مختلف زبانوں ميں قرآن کريم کے تراجم کي اشاعت کا کام جاري ہے اور زمين کے کناروں تک ہر شہر اور ہر بستي ميں احمديہ مساجد کا ايک جال بچھا ہوا ہے۔پھرخلافتِ احمديہ کي سرپرستي ميں آج ساري دنيا ميں مختلف زبانوں ميں بڑے وسيع پيمانہ پر کتب اور لٹريچر کي اشاعت کا کام جاري ہے۔لکھوکھہاکي تعداد ميں يہ لٹريچر ہرسال شائع ہورہاہے اور اسي طرح اليکٹرانک اور پرنٹ ميڈيا کے ذريعہ اور سوشل ميڈيا کے ذريعہ لکھوکھہا لوگوں تک اسلام کا پيغام پہنچ رہاہے۔MTA کے مختلف چينلز پر مختلف زبانوں ميں حضور انور کے خطابات ترجمے کے ساتھ نشر ہوتے ہيں۔

اسي ضمن ميں مقرر موصوف نے کچھ ايمان افروز واقعات کا ذکر کيا جن ميں گني بساؤ سے تعلق رکھنے والے عثمان بانڈے صاحب کا واقعہ بيان کيا۔عثمان بانڈے صاحب احمديت کے مخالف تھے۔ ان کے بعض رشتے داروں نے احمديت قبول کي تو يہ بعض مولويوں کو اکٹھا کرکے اپنے ساتھ لے آئے۔ انہيں کہا گيا کہ آپ بے شک جماعت کي مخالفت کريں ليکن ايک دن آکر ہمارا پيغام تو سن ليں پھر جو چاہے مرضي کريں۔ چنانچہ يہ جمعہ کے دن آئے اور اس وقت حضورانور کا خطبہ جمعہ براہ راست MTAپر آرہا تھا۔ ان کو کہا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہوتو کچھ دير خطبہ ضرور سنيں۔ کہنے لگے ميں صرف تھوڑي دير کے ليے خطبہ سنوں گا ليکن جب سننا شروع کيا تو وقت بھول گئے اور بڑے غور سے سارا خطبہ سنا۔جب خطبہ ختم ہوا تو کہنے لگے کہ جماعت احمديہ کافر نہيں ہوسکتي۔ آپ کے خليفہ تو آنحضرت ﷺ کے صحابہ کي سيرت پيش کررہے ہيں۔ کوئي کافر جماعت يہ کام نہيں کرسکتي۔ اس کے بعد انہوں نے اپني تمام فيملي کے ساتھ احمديت قبول کرلي اور اب وہ اپنے علاقے ميں احمديت کي تبليغ کررہے ہيں۔

امير صاحب کانگو کنشاسا بيان کرتے ہيں کہ ايک گاؤں ميں تبليغ کے دوران حضورانورايدہ اللہ تعاليٰ کا آڈيو خطبہ سنوايا گيا۔ اس خطبہ کو سن کر پانچ خاندان احمديت ميں داخل ہوئے۔ کہنے لگے کہ سنّي اماموں نے بہت زوروشور سے بتايا تھا کہ احمدي کافر ہيں ليکن خليفة المسيح کا آج کا خطبہ سن کر ہميں يقين ہوگيا ہے کہ احمدي حق پر ہيں۔ آج ہم اللہ سے اپنے سابق عمل پر معافي مانگتے ہيں۔

اسي طرح آپ نے بعض نو مبائعين کے واقعات کا ذکر کيا کہ کس طرح احمديت قبول کرنے کے بعد ان ميں تغير پيدا ہوا۔

کانگو سے ايک دوست اسماعيل صاحب بيان کرتے ہيں: ميں کيتھولک عيسائي تھا اورمجھے چرچ ميں عبادت کرنے سے سکون نہيں ملتاتھا۔جب سے ميں بيعت کرکے اسلام احمديت ميں داخل ہوا ہوں، ميري زندگي مکمل طور پر تبديل ہوچکي ہے۔ پہلے ميں بہت جھگڑالو تھا اور کثرت سے شراب نوشي کياکرتاتھا۔اور سال ميں ايک آدھ مرتبہ ہي عبادت کرتاتھا ليکن اب ميں اللہ کے فضل سے دن ميں پانچ مرتبہ نماز پڑھتاہوں۔

فرنچ گيانا ميں ايک عيسائي خاتون Linda Dilaire صاحبہ نے جب بيعت کي تو اپنے خيالات کا اظہاراس طرح کياکہ ميں متعدد چرچوں ميں گئي ہوں، ليکن مجھے کہيں بھي دلي سکون نہيں ملا۔ مجھے ايک زندہ خدا کي تلاش تھي اور اب احمديت قبول کرنے کے بعد مجھے ميرا خدا مل گياہے۔ مجھے ايک راحت اور سکون اور اطمينان حاصل ہواہے۔ ميري زندگي ميں ايک انقلاب آگياہے۔ ميں نماز اور قرآن کي تلاوت سے ايک لذت پاتي ہوں۔ ميرا دل اللہ کي محبت سے لبريز ہوگياہے۔

يہ ہے وہ پاک تبديلي جو آج خلافتِ احمديہ کے ذريعہ پيداہورہي ہے اور خدائے واحد کي عبادت کرنے والے جنم لے رہےہيں۔

اپنے تو اپنے اب تو غير بھي اس بات کي گواہي ديتے ہيں کہ احمديت لوگوں کي زندگيوں ميں ايک انقلاب برپاکررہي ہے۔

شيانگاريجن تنزانيہ کے ريجنل کمشنر نے کہا: مجھے پتہ ہے کہ شيانگاکے لوگ زيادہ تر بے دين ہيں ليکن اس کے باوجود يہ لوگ احمديت کے پيغام سے متاثر ہورہے ہيں اور ميں نے ديکھاہے کہ احمديت قبول کرنے کے بعد ان ميں ايک نيک روحاني تبديلي آرہي ہے۔اس ليے آپ لوگ زيادہ سے زيادہ کوشش کريں کہ شيانگا کے تمام لوگوں تک آپ کا پيغام پہنچ جائے۔ کيونکہ جو دين آپ سکھارہے ہيں اس سے لوگ مہذب بن رہے ہيں اور اس کے نتيجہ ميں جرائم کي شرح ميں کمي آرہي ہے۔

يہي وہ مقصد تھا جو حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام لےکر آئے تھے کہ لوگ توحيد کي طرف کھينچے جائيں اور بندوں کو دينِ واحد پر جمع کياجائے۔

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں: ’’دنيا کا کوئي ملک نہيں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور ميں مَيں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے ليے سوتے وقت بھي اور جاگتے وقت بھي دعا نہ ہو۔يہ مَيں باتيں اس ليے نہيں بتا رہا کہ کوئي احسان ہے۔يہ ميرا فرض ہے۔ اللہ تعاليٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَيں فرض ادا کرنے والا بنوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ6؍جون 2014ء)

بلا شبہ خليفۂ وقت کا بابرکت وجود بہت بڑي نعمت ہےجو راتوں کو جاگتا ہے تاکہ جماعت کے ليےاور غلبہ اسلام کے ليے دعائيں کر سکے۔اللہ تعاليٰ نے خلافت کي نعمت عطا فرما کر مسلمانوں پريقيناً بہت عظيم احسان فرمايا ہے۔

مالي کي ايک مقامي جماعت ’ڈوگا بو گو‘کے صدرصاحب نے بتايا کہ انہوں نے ايک دفعہ جماعتي ميٹنگ کے سلسلہ ميں قريبي شہر ’سيگو‘ آنا تھا اور مقامي جماعت کے لوگوں نے انہيں حضورانور کي خدمت ميں بھجوانے کےليے دعائيہ خطوط ديے۔وہ کہتے ہيں کہ ميں نے وہ خطوط دے ديے اور واپس آگيا۔چند دن بعد ميں نے خواب ميں ديکھا کہ حضور نے مجھے مخاطب کرکے فرمايا کہ ’وہ خطوط جو تم نے مجھے بھجوائے تھے، ميں نے ان کے ليے دعا کي تھي اور ايک وہ خط جورہ گيا تھا اس کے ليے بھي دعا کي تھي۔‘ وہ کہتے ہيں کہ جب ميں اٹھا تو مجھے خواب کي سمجھ نہيں آئي اور ميں اپنے روز مرہ کاموں ميں مشغول ہوگيا۔ چند دن بعد جب ميں اپنے کمرے سے کاغذات کي صفائي کررہا تھا تو مجھے ايک لفافہ ملا جس ميں ايک خط تھا جوکہ کسي ممبر نے حضور کو دعا کي غرض سے بھجوانے کے ليے ديا تھا ليکن وہ غلطي سے رہ گياتھا۔ صدرصاحب کہتے ہيں کہ تب انہيں وہ خواب ياد آئي کہ يہي وہ خط تھا جس کے بارے ميں خواب ميں حضورانور نے اشارہ فرمايا تھا کہ ميں نے اس کےليے بھي دعاکي تھي۔

ايسے واقعات کثرت سے ہوتے ہيں کہ ابھي حضورانور کي خدمت ميں دعاکےليے کسي بيماري، مصيبت، دکھ، تکليف ياپريشاني سے نجات کےليے خط لکھاہي ہوتاہے اور ابھي پوسٹ بھي نہيں کياجاتا تو خليفہ وقت کي دعا خط لکھنے والے کے حق ميں قبول ہوجاتي ہے۔

حضرت مصلح موعود رضي اللہ عنہ نے فرماياتھا: ’’جماعت احمديہ کے خليفہ کي حيثيت دنيا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زيادہ ہے۔ وہ دنيا ميں خدا اور رسولِ کريم ﷺ کا نمائندہ ہے۔‘‘

پس خلافتِ احمديہ کے ذريعہ خدا اور اس کے رسول کے نمائندہ کي حيثيت سے ايک بڑا عظيم الشان انقلابي کام جو اس دَورِ مبارک ميں ہوا وہ يہ ہے کہ دنيا کے بڑے بڑے ايوانوں ميں حضورانورايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے دنيا کے سرکردہ حکام کے سامنے بڑي جرأت اور شجاعت کے ساتھ اسلام کي امن و صلح و آشتي کي تعليم ، اسلام کي حقيقي تعليم پيش فرمائي اور حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کا پيغام پہنچايا۔ کيپٹل ہل امريکہ ميں حضورانور نے خطاب فرمايا، يورپين پارليمنٹ ميں، برٹش پارليمنٹ ميں ، نيوزي لينڈ پارليمنٹ ميں ، ملٹري ہيڈ کوارٹرز جرمني ميں، پھر سنگاپور ، آسٹريليا، جاپان اور کينيڈا ميں ايسي تقريبات منعقد ہوئيں۔ فرانس ميں اقوامِ متحدہ کے ادارے UNESCO ميں، برلن جرمني ميں تقريبات منعقد ہوئيں جہاں بڑي تعداد ميں ممبرانِ پارليمنٹ، ديگر اعليٰ حکام اور سکالرز شامل ہوئے۔

ان تمام تقريبات ميں حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ نے اسلام کا امن کا پيغام دنيا کے ان ليڈروں کو دياہے اور اس بات کي طرف توجہ دلائي کہ اسلام کے اس امن کے پيغام کو اپناتے ہوئے اور دوسروں کے حقوق ، عدل و انصاف سے اداکرتے ہوئے دنيا کو تباہي سے بچاسکتے ہو۔

حضورانور ايدہ اللہ تعاليٰ نے اس مادي دنيا کے ايک بہت بڑے اور طاقتور ايوان ’کيپٹل ہِل‘ ميں خطاب کرتے ہوئے فرمايا: ’’اسلام ہم سے يہ چاہتاہے کہ ہم کبھي بھي دوسروں کي دولت کي طرف حسد اور لالچ کي نظر سے نہ ديکھيں۔ اسلام يہ چاہتاہے کہ ترقي يافتہ اقوام اپنے مفادات کو ايک طرف رکھ کر غريب اور کم ترقي يافتہ اقوام کي درحقيت بے غرضانہ مدد اور خدمت کريں۔ اگر ان تمام اصولوں کي پابندي کي جائے تو دنيا ميں حقيقي امن قائم ہوجائے گا۔‘‘

يونائيٹڈ نيشن کے ادارہ UNESCO ميں حضورانورايدہ اللہ تعاليٰ نے ايک تاريخي خطاب فرمايا۔ وہاں مالي سے UNESCO کے ایمبيسڈر عمر کائتا صاحب نے اپنے خيالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:امام جماعت احمديہ وسيع النظر شخصيت ہيں اور امن کے قيام کےليے کوشاں ہيں۔ اور يہي وہ چيز ہے جس کي امتِ مسلمہ کو ضرورت ہے۔ عالمي انصاف، ہم آہنگي کا جو تصور امام جماعت احمديہ پيش کرتے ہيں دنيا کو اس کي اشد ضرورت ہے۔ اور آج امت مسلمہ کو ايسے ہي ليڈر کي ضرورت ہے۔ آج ميں ايک ايسے انسان کے قريب تھا جو امن و انصاف کا سپوت ہے۔

پھر خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفيٰﷺ اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے خليفہ نے اسلام کے حسين چہرہ پر جو دہشت گردي ،انتہا پسندي اور شدت پسند مذہب ہونے کا داغ ہے اس کو دھويا ہے۔ اسلام کا خوبصورت چہرہ غيروں کے سامنے پيش کيا ہے۔ مختلف تقريبات کے ايڈريسز ہوں، خواہ پريس کانفرنسز ہوں، اليکٹرانک اور پرنٹ ميڈيا کے انٹرويوز ہوں، سرکردہ افراد سے ملاقاتيں ہوں ،ہر جگہ حضورانورايدہ اللہ تعاليٰ نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھايا ہے۔ اور غيروں نے اس بات کا برملا اظہار کيا کہ آج ہميں علم ہوا ہے کہ اسلام کتنا خوبصورت مذہب ہے۔

جاپان کے ايک پروگرام ميں ايک مشہور وکيل نے برملا اس بات کا اظہار کيا کہ آج ہم نے اسلام کا ايک خوبصورت چہرہ ديکھا ہے اور اس يقين پر پہنچے ہيں کہ اگر دنيا کسي ايک معاملہ پر جمع ہوسکتي ہے تو وہ جماعت احمديہ کے امام کا ہاتھ ہي ہوسکتا ہے۔

آج عالم اسلام خلافت کے قيام کے ليے بے چين نظر آتا ہے۔ عام مسلمان ہي نہيں بلکہ تمام دانشور اور صاحب علم و قلم بھي اس کے ليے اپني تمنا کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

مدير رسالہ ’تنظيم اہلحديث لاہور‘لکھتے ہيں: اگر زندگي کے آخري لمحات ميں بھي ايک دفعہ خلافت عليٰ منہاج نبوت کا نظارہ نصيب ہوگيا تو ہوسکتا ہے کہ ملت اسلاميہ کي بگڑي سنور جائے۔

مقرر موصوف نے حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ کا مخالفين احمديت کو چيلنج کے الفاظ پيش کيے۔ حضور انور ايدہ اللہ تعاليٰ نے فرمايا:’’اب خلافت صرف اور صرف خاتم الخلفاءمسيح و مہدي موعود عليہ السلام کي خلافت ہي کي شکل ميں ممکن ہے۔ ہماري طرف سے چيلنج ہے کہ اگر مسلم دنيا کے تمام ممالک کے سر براہان اور امتِ مسلمہ کے تمام افراد متفقہ طور پر کسي ايک شخص کو بطور خليفہ تسليم کرليں اور اس کي بيعت ميں شامل ہو جائيں، تو جماعت احمديہ بھي اس خليفہ کو تسليم کرنے اور امت کے باقي مسالک کے ساتھ اس کي بيعت کرنے پر ضرور غور کرے گي!۔ ليکن تم ايسا نہيں کرسکو گے۔ نہيں کر سکو گے۔ ايسا تم کر ہي نہيں سکتے۔‘‘

پس آج خلافت کے جھنڈے تلے جماعت احمديہ دن بدن ترقيات کي نئي سے نئي منازل طے کرتي چلي جارہي ہے اور ہر آنے والا دن فتوحات کي نويد لےکر طلوع ہوتاہے۔

امسال 5؍جون کو حضورانورايدہ اللہ تعاليٰ نے کبابير جماعت کے ساتھ ايک آن لائن ، ورچؤل ملاقات ميں فرمايا: ’’اللہ تعاليٰ کے فضل سے جماعت کي جو ترقي ہورہي ہے اور جماعت جس طرح پھيل رہي ہے ، ہر ملک ميں اور ہر ملک کے کئي شہروں ميں جماعت کي تعداد بڑھ رہي ہے اور جماعت کا تعارف ہوگياہے اور دنيا کے بڑے بڑے ايوانوں ميں بھي جماعت کا تعارف ہوگياہے۔ تو ہميں اميد ہے کہ جلد انشاء اللہ آئندہ بيس، پچيس سال جماعت کي ترقي کے بہت اہم سال ہيں۔اور آپ ديکھيں گے کہ اکثريت انشاء اللہ مسيح موعودعليہ السلام کے جھنڈے تلے آجائے گي يا کم از کم مسلمانوں ميں سے اکثريت ايسي ہوگي کہ جو يہ تسليم کرنے والي ہوگي کہ احمديت ہي حقيقي اسلام ہے۔‘‘

آخر پر مقرر موصوف نے کہا کہ پس اُٹھيں اور اپني ہر مادي و روحاني ترقي کےليے خلافت کے قدموں ميں اپنا سررکھ ديں۔ اسي ميں ہماري کاميابي کي ضمانت ہے۔ اللہ تعاليٰ ہميں اس کي توفيق عطا فرمائے۔ آمين۔

اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم رفیق احمد حیات صاحب ، امیر جماعت یوکے نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں غلبہ اسلام کی تڑپ‘‘تھا۔

مکرم رفيق احمد حيات صاحب اميرجماعت يوکے نے اس موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ

ہم ديکھتے ہيں کہ آخري زمانے کے موعود مسيح کے بارے ميں تمام مذاہب کي پيشگوئياں موجود ہيں۔ جيسے ہندو مت، عيسائيت اور يہوديت ، زرتشتي مذہب، سکھ مت، بدھ مت اور اسلام۔اس بات کو ذہن ميں رکھتے ہوئے يہ سوال باقي رہتا ہے کہ اگر آئندہ زمانے ميں فرستادوں کي آمد پر روک لگا دي گئي ہے تو تمام مذاہب کيسے آخري زمانے ميں ايک موعود کے آنے پر متفق ہيں۔

اللہ تعاليٰ نے امت مسلمہ کو قرآن پاک جيسي نعمت سے نوازا جس کي سورة الجمعہ آيت 3-4 ميں اللہ تعاليٰ نے آنےوالے موعود کے متعلق خبر بھي دي۔

مقرر موصوف نے حضرت مسيح موعود ؑکا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ’’مسيح موعود ‘‘حضرت مرزا غلام احمد قادياني ؑ تھے جو 1835ء ميں ہندوستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع کے چھوٹے سے گاؤں قاديان ميں ايک معروف اور زميندار خاندان ميں پيدا ہوئے۔ گھر ميں ہي اساتذہ سے قرآن کريم، عربي ، فارسي، منطق، فلسفہ اور قواعد کي بنيادي تعليم حاصل کي۔

حضرت مسيح موعود ؑنے اپني حياتِ مبارکہ ميں اردو عربي اور فارسي ميں 91 کتب تصنيف فرمائيں اور ريويو آف ريلیجنزاور الحکم بھي جاري فرمائے۔ آپ کي معرکہ آرا کتاب براہين احمديہ تھي جن کي مختلف جلدوں ميں آپ نے قرآن کريم کي من جانب اللہ ہونے اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے دلائل بيان فرمائے۔ حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام محبت رسول اللہ ﷺميں فنا تھے اور ہميشہ اپنے متبعين کو بھي رسو ل اللہ ﷺ پر درود و سلام بھيجنے کي تلقين فرماتے تھے۔ آپ خود بھي اپنے دن کا بيشتر حصہ رسول اللہ ﷺ پر درود بھيجنے ميں صرف کرتے تھے۔ يہاںتک کہ آپؑ فرماتے ہيں کہ

’’ايک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شريف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گيا۔ اسي رات خواب ميں ديکھا کہ فرشتے آب زلال کي شکل پر نور کي مشکيں اس عاجز کے مکان پر لئے آتے ہيں اور ايک نے ان ميں سے کہا کہ يہ وہي برکات ہيں جو تو نے محمد صلي اللہ عليہ وسلم کي طرف بھيجي تھيں۔‘‘

( براہين احمديہ حصہ چہارم صفحہ503 حاشيہ در حاشيہ3)

ان الہامات، رؤيا و کشوف کا سلسلہ جاري رہا حتي کے 1882ء ميں آپ کو خد تعاليٰ کي جانب سے ماموريت کا الہام ہوا کہ

’’اے احمد!اللہ نے تجھے برکت دي ہے…لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا کي طرف سے مامور کيا گيا ہے اور ميں سب سے پہلے ايمان لاتا ہوں…‘‘

(براہين احمديہ حصہ سوم)

پھر آپؑ نے اس جماعت احمديہ کو قائم کرتے ہوئے اس کے مختلف مقاصد بيان فرمائے۔ فرمايا کہ ميں اس ليے بھيجا گيا ہوں تا خدا اور بني نوع ميں جو دوري پيدا ہو گئي ہے اسے ختم کروں۔ …اور اسے ايک بار محبت اور اخلاص کے تعلق ميں بدل دوں۔اور مذہبي جنگيں ختم کروں اور امن کي بنياد رکھوں۔

مغربي فلسفہ اور سائنس اگرچہ ترقي پسند اور نئے سنگِ ميل رکھنے والا تھا ليکن وہ بھي روحاني پياس نہيں بجھا سکا۔ حضور صلي اللہ عليہ وسلم نے آخري زمانے کے متعلق پيشگوئي کرتے ہوئے فرمايا تھا کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔ جس کي ايک تشريح حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے يہ فرمائي کہ اسلام کا روحاني سورج مغرب سے طلوع ہو گا۔ يعني مغربي اقوام مذہب اسلام کو قبول کريں گي جبکہ مشرقي اقوام جنہيں يہ مذہب وراثت ميں ملا تھا ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول گئيں اور اس کي برکات سے پوري طرح فائدہ نہيں اٹھا سکيں پھر بھي مغربي قوميں ايسي ہدايت کي پياسي ہيں۔

حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:

’’ميں نے ديکھا کہ ميں شہر لنڈن ميں ايک منبر پر کھڑا ہوں اور انگريزي زبان ميں ايک نہايت مدلّل بيان سے اسلام کي صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے ميں نے بہت سے پرندے پکڑے جوچھوٹے چھوٹے درختوں پر بيٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفيد تھے اورشايد تيترکے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا۔سو ميں نے اس کي يہ تعبير کي کہ اگرچہ ميں نہيں مگر ميري تحريريں اُن لوگوں ميں پھيليں گي۔ اور بہت سے راستباز انگريز صداقت کے شکارہوجائيں گے… اب خدائے تعاليٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ، روحاني خزائن ، جلد 3 ، صفحہ 376، 377)

مکرم امیر صاحب نے حضرت مسيح موعود ؑکي لندن ميں تبليغ کرنے کے حوالے سے رؤیا بيان کي اور کہا کہ يہ ہم میںسے ہر ايک نے اپني آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے ديکھا ہے۔برطانيہ ميں خلافت کي موجودگي ، تمام مغربي دنيا ميں جماعت کي ترقي اور توسيع، جيسے جيسے ہم مستقبل کي طرف بڑھ رہے ہيں اللہ تعاليٰ کي طرف سے کئے گئے عظيم وعدے پورے ہونے کا مشاہدہ کر رہے ہيں۔

يہ سمجھنے کہ ليے کہ اسلام مغرب ميں کس طرح پھيلا، ہميں تاريخ ميں تھوڑا سا پيچھے ديکھنا چاہيے۔ حضرت مسيح موعودؑ کے زمانے ميں برطانوي سلطنت کي برصغير پاک و ہند پر غالب حکمراني تھي۔ان کے ليکچرز اور اجلاسوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ پورے ہندوستان کو عيسائيت ميں تبديل کرنا ان کا حتمي مقصد ہے۔جيسا کہ انہوں نے سوچا کہ اس کا واحد ذريعہ يہ ہے کہ وہ اپنے شہريوں کي وفاداري کي تصديق کريں اور سلطنت کو مزيد طاقت ديں۔

ہندوستان کے وزير مملکت سر چارلس ووڈ نے اعلان کيا کہ عيسائي عقيدے کي قبوليت ’’برطانيہ کے ساتھ اتحاد اور سلطنت کي ايک اضافي طاقت کا ذريعہ تھا۔‘‘

يہ وہ وقت تھا جب عيسائي مشنري اپنے ايمان کي بالادستي اور پوري دنيا کو عيسائيت ميں تبديل کرنے کا تخمينہ لگانے پر فخر کرتے تھے۔ چارلس ہنري رابنسن نے عيسائي مشنوں کي تاريخ ميں ہندوستان ميں مردم شماري رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ مذہب کي تبديلي کي غير معمولي تعداد پنجاب ميں سامنے آئي ہے۔ وہ لکھتے ہيں کہ

گذشتہ 30سالوں ميںہونے والے اضافے کو قائم رکھنا ہوا۔50 سالوںميں عيسائي 21 ميں سے نمبر ايک ہوں گے، سو سالوں ميں 5 ميں سے پہلے اور 160 سالوں ميں پورا ہندوستان عيسائي ہو جائے گا۔

بھارت ميں عيسائي مشن کي پرجوش کوشش مسلم آبادي کو خوفناک کمزوري کي جانب لے جا رہي تھي۔ رسول اللہ ﷺ کي پيشگوئي کے مطابق ان کي نااميدي صرف اخلاقي اورروحاني زوال پر منتج ہوئي۔ 19 ويں صدي کے اردو شاعر اور اديب الطاف حسين حالي نےاس پيشگوئي کو اپنے ايک شعر ميں يوں بيان کيا

نہ رہا دين باقي نہ اسلام باقي

اک اسلام کا رہ گيا نام باقي

ان مشکل وقتوں ميں حضرت مسيح موعودؑ نے اسلام کا دفاع شروع کیا۔حضرت مسيح موعودؑ کا سامنا برٹش انڈيا کے مغربي عيسائي مشنريز سے 1860ء کے آغاز ميں ہي ہوگيا تھا جب آپ نےاپنے والد کي ہدايت پر سيالکوٹ ميں ملازمت اختيارکي تھي۔

حضرت مرزا غلام احمد عليہ السلام اسلام کے ايک جيد عالم کے طور پر معروف تھے۔ آپ اکثر عيسائي مشنريز ، ترقي پسند ہندوؤں اور کچھ مسلم علماء سے حقيقي اسلامي کی تعليم کے دفاع ميں عوامي بحث و مباحثہ میںمشغول رہتے۔ ان ميں سے ايک قابل ذکر حضرت مسيح موعود عليہ السلام اور ڈاکٹر اليگزينڈر ڈوئي کے درميان دعا کا مقابلہ ہے جو ڈاکٹر ڈوئي کے ايليا ثالث ہونے کا دعويٰ کرنے کے بعدہوا۔

1907ء ميں ڈاکٹر ڈوئي کي شديد فالج سے المناک موت سےبلا شک و شبہ ثابت ہوا کہ مسيح موعود اور اسلام کے حق ميں ايک بالاہستي کي تائيد شامل تھي۔

اسي طرح 1869ء ميں حضور عليہ السلام نے اہل حديث فرقہ کے مولوي محمد حسين بٹالوي کے ساتھ ايک مباحثہ ميں ان کے مذہبي نقطہ نگاہ کو اسلامي تعليمات کے مطابق ہونے کي وجہ سے اس پر مزيد بحث کرنے سے انکار کر ديا۔وہ شخص جو حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو بحث کے ليے لايا تھا اس نے غصے اور مايوسي کا اظہار کيا۔ ليکن اللہ تعاليٰ آپ کے طرزِ عمل سے خوش ہوا اورآپ کومندرجہ ذيل الہام ہوا۔

’’تيرا خدا تيرے اس فعل سے راضي ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا يہاں تک کہ بادشاہ تيرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈيں گے۔‘‘

(حياتِ طيبہ از: شيخ عبدالقادر صاحب رحمہ اللہ (سابق سوداگر مل )صفحہ30تا31)

آپؑ اپنے پيغام ميں جذباتي(emotive) تھے اور دنيا کےلوگوں سے خدا کے سچے پيغام کي طرف رجوع کرنے کی اپيل کي۔ آپؑ اپني کتاب کشتي نوح ميں فرماتے ہيں :

’’يہ زندگي کا چشمہ ہے جو تمہيں بچائے گا۔ ميں کيا کروں اور کس طرح اس خوشخبري کو دِلوں ميں بٹھا دوں۔ کس دف سے ميں بازاروں ميں منادي کروں کہ تمہارا يہ خدا ہے، تا لوگ سن ليں۔‘‘

(کشتي نوح،روحاني خزائن جلد19صفحہ21تا22)

1872ء کے بعد حضرت مسيح موعودؑ اسلام کے مرد ميدان بن کر سامنے آئے اور ہر سو اسلامي تعليمات کا پرچار کيا۔ جس کے ليے آپ نے اخبارات و رسائل کے ليے مضامين شائع فرمائے۔ براہين احمديہ جلد اول و دوم کي اشاعت ہي تھي جس نے اللہ تعاليٰ کي طرف سے وديعت کردہ علمي خزائن کو صحيح معنوں ميں ظاہر کر ديا۔ بہت سے مسلمان علماء اور دانشوروں نے اس پر ريويو لکھے اور اس تصنيف کو اسلام کي عظيم خدمت سمجھا۔

براہين احمديہ کي تيسري جلد ميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اپنے آپ کو ايک زندہ مذہب (اسلام) کي سچائي کا فيصلہ کرنے کے لیے ايک معيار کے طور پر پيش کيا تا کہ حق کے طلبگار قاديان آ کر اسلام کي سچائي کا مشاہدہ کريں۔اور يہ پہلي بار ہوا تھا کہ کسي نے مذہب کي سچائي پرکھنے کا ايک متبادل معيار پيش کيا تھا۔اس سے قبل تمام تعليمات کي بنياد عقلي اور استدلالي بيانيہ پر تھي۔

1885ء ميں حضرت مسيح موعودؑ نے اعلان فرمايا کہ آپ ہي چودھويں صدي کے موعود مصلح ہيں۔يہ اعلان اردو اور انگريزي ميں شائع ہوا جس کي آٹھ ہزار رجسٹرڈ کاپياں مذہبي رہنماؤں ، حکمرانوں ، علماء ، ججوں اور نظريہ ساز revivalists لوگوں کے نام بھيجي گئيں ،ايشيا ، يورپ اور امريکہ اور کہيں بھي جہاں ڈاک کے ذريعے بھيجا جانا ممکن تھا۔

اس اعلان کے ساتھ مذاہب کے نمائندوں اور ديگر ممتاز ممبرزکو مدعو کيا کہ وہ قاديان آئيں اور اسلام کي سچائي کا مشاہدہ کريں۔ اگر ايک سال کے اندر کوئي نشان نہيں ديکھا تو ہر يک صاحب کو دو سو روپے ماہانہ کے حساب سے رقم معاوضہ کے طور پر ادا کيا جائے گا۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 20-22)

سا ل 1891ء تک اسلام کي سچائي پر مبني 20 ہزار کتابچے شائع کر کے يورپ و امريکہ بھجوائے گئے۔ اللہ تعاليٰ کي مشيت يہ تھي کہ جيسے عيسائي مشنريز مشرق ميں اترے اسي طرح مغرب ميں اس کے موعود مسيح کے ذريعہ اسلام کي ترويج و اشاعت ہو۔ جس سے قرآن کے يہ الفاظ ثابت ہوتے ہيں :’’اور انہوں نے مکر کيا اور اللہ نے بھي تدبير کي اور اللہ تدبير کرنے والوںميں سب سے بہتر ہے۔‘‘ (آل عمران:55)

سناتن دھرم کے رہنماؤں کي جانب سے دسمبر 1896ء ميں لاہور ميں جلسہ مذاہب عالم منعقدہوا۔جس کے لیے آپ نے خدا تعاليٰ کي تائيد سے ايک مضمون تصنيف فرمايا جو بعد ازاں اسلامي اصول کي فلاسفي کے نام سے شائع ہوا۔ اس جلسہ کے بعد سے آج تک اس مضمون کو عالمي سطح پر پذيرائي حاصل ہوئي اور لاکھوں لوگوں نے اس سے علم و حکمت حاصل کي۔

جلد ہي حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اس وقت کے علماء اور دانشوروں سے ملاقاتيں شروع کيں جنہوں نے آپ کے دعويٰ اور تعليمات کو سراہا۔ ڈاکٹر H.D Griswold نے Mirza Ghulam Ahmad the Mahdi Messiah of Qadian اور The Messiah of Qadian کے عنوان سے دو مقالے لکھے متنازعہ ہونے کے باوجود اس نے1905ء ميں برطانيہ کے وکٹوريہ انسٹي ٹيوٹ آف فلاسفی ميں آپ کے دعوؤں کو متعارف کرايا۔ ليکن اس کے سبب اسلام کے حوالے سے ايک زبردست مباحثے کا موقع پيدا ہوا۔ اس وقت قاديان ہندوستان کے صوبہ پنجاب کا ايک دور دراز نامعلوم گاؤں تھا جہاں صرف گھوڑوں يا خچروں سے رسائي ممکن تھي جبکہ ناہموار راستے کے سبب لوگ پيدل سفر کو ترجيح ديتے تھے۔

اس وقت اللہ رب العزت نےحضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰۃوالسلام کو خبر دي تھي۔وہ جلد لوگوں ميں مشہور کيا جائے گا؟ جبکہ يہ خبر بھي دي گئي کہ

’’ياتيک من کل فج عميق‘‘

کثرت سے ہندوستان سے لوگوں نے قاديان کا سفر کيا اور حضرت مسيح موعودؑ پر ايمان لائے۔جبکہ يورپ اور امريکہ سےبھي لوگ حضور ؑ کو ملنے کے لیے آئے۔ کچھ سچائي کي تلاش ميں آئے اور امام الزمان پر ايمان لے آئے اور کچھ تجسس اور تحقيق کي غرض سے آئے۔

اپريل 1908ء ميں ايک امريکي جوڑے مسٹر جارج ٹرنر اور ليڈي بارڈن نے قاديان ميں حضرت مسيح موعود عليہ السلام سے ملاقات کي۔ اور يہ سوال بھي کيا کہ سچائي کا کوئي ثبوت دکھائيں تو اس پر آپؑ نے فرمايا تھا کہ آپ کا دور دراز اس چھوٹے سے قصبہ قاديان ميں آنا بھي ايک نشان ہے اور ايک پيشگوئي کا پورا ہونا ہے۔

1888ءميں Alexander Russell Webb کو بھي آپ کا پيغام پہنچا اور وہ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ سے خط و کتابت کرتے رہے۔ ويب نے اکتوبر 1892ء ميں ہندوستان کا دورہ کيا جب وہ لاہور پہنچ گئے تو ان کے ہم سفر مولوي حسين علي اور عبد اللہ عرب نے ان کو اکسايا کہ قاديان ميں مسيح موعود کے مدعي سے ملاقات کرنے کی بجائے امريکہ ميں اسلام کي اشاعت پر رقم خرچ کي جائے۔ امريکہ ميں امريکن اسلامي مشن کي ناکامي کے بعد ويب اس فيصلہ پر نادم ہوئے اور حضور ؑ کو دعا کے لیے خط لکھتے رہے۔بعد ازاں وہ دونوں بھي حضرت مسيح موعودؑ پر ايمان لاکر آپ کے اصحاب ميں شامل ہو گئے۔

حضرت مسيح موعودؑ نے مغرب ميں اسلام کي تبليغ کے لیے رسالہ ريويو آف ريليجنز جاري فرمايا۔ اس کے مضامين پر خطوط اور تبصرہ جات موصول ہونا شروع ہو گئے۔ 25 مئي 1905ء کومانچسٹر، لندن سے ايک خاتون نے خط ميں لکھا کہ

’’ميں ہميشہ شک ميں مبتلا رہتي تھي کہ ايک سچا مذہب کيسے تلوار سے پھيل سکتا ہے۔ اس ميں شک نہيں کہ صرف اپنے دفاع کے ليے اجازت ہے۔مجھے يہ جان کر خوشي ہوئي کہ آپ برطانوي حکومت کے تحت رہتے ہيں جہاں آپ کو سوچنے اور اظہار رائے کي آزادي کا حق حاصل ہے۔… .ميرے پاس وہ پيشگوئي بھي ہے جو آپ نے 25 سال قبل کي تھي۔ مجھے ريويو آف ريليجنز ميں حقيقي تعليمات پڑھ کر خوشي ہوئي اور مجھے اميد ہے کہ آپ حق پھيلانے کے اپنے کام ميں کامياب ہوں گے۔‘‘

اگرچہ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کے بہت سے مداح تھے ليکن آپ کو بڑي مخالفت کا بھي سامنا کرنا پڑا۔ مکرم رفيق حيات صاحب نے مولوي غلام نبي صاحب کا ذکر فرمايا کہ لدھيانہ ميں قيام کے دوران کيسے وہ ايک ہجوم لے کر آپؑ پر آوازيں کستے تھے پھر يکدم کايا پلٹي اور وہ آپ ؑ کے ارادت مندوں ميں سے ہو گئے۔ انہوں نے حضورؑ سے کئي سوالات کئے تو حضور نے قرآن کريم کي متعدد آيات پيش کيں جس پر انہوں نے کہا يقيناً قرآن آپ کے ساتھ ہے۔ جس پر آپؑ نے فرمايا کہ اگرقرآن ہمارے ساتھ ہے تو مولوي صاحب کس کے ساتھ ہيں۔ اس کے بعد انہوں نے فوري بيعت کر لي۔

حضرت مسيح موعودؑ نے اسلام کے صداقت بھرے پيغام کو صرف تحريراً ہي نہيں بلکہ عظيم معجزات واحسانات سے پھيلايا۔ ان واقعات نے آپ کے دعوؤں اور اللہ تعاليٰ کي مرضي ميں فنا ہونے کا ثبوت ديا۔ رفيق صاحب نے اس موقع پر معروف واقعہ پيش کيا۔ جب ايک لڑکے عبد الکريم کو پاگل کتے نے کاٹ ليا تھا اور ڈاکٹرز نے جواب دے ديا تو حضرت مسيح موعود ؑ کي دعاؤں سے معجزانہ طور پر اس نے شفا پائي۔

يہ معجزے حضرت مسيح موعودؑ کي حيات مبارکہ کے دوران جاري رہے اور بعدازاں بھي جاري ہيں۔يہ آپ کي صداقت کے وہ ثبوت ہيں جو لوگوں کو اسلام کے پيغام کے ذريعہ اللہ تعاليٰ کے نور کي طرف واپس لاتے ہيں۔

ايسا ہي ايک واقعہ چند سال قبل مغربي افريقہ ميں بينن ميں پيش آيا۔ بينن ميں ايک احمدي بادشاہ کي بيوي سخت بيمار ہو گئي۔ان کے پاس وسائل کي کمي نہ تھي ہر ممکن اور ميسر علاج کروايا گيا ليکن شفا نہ ملي۔ اس وقت جبکہ ان کي آخري سانسيں چل رہي تھيں۔ اس وقت بے يارو مددگار اور گہرے غم ميں وہ بادشاہ اپني بيوي کے سرہانے بيٹھ گئے۔ يکايک ان کي نظر اس فريم پر پڑي جس ميں حضرت مسيح موعود ؑ کے کپڑوں کا يک ٹکڑا تھا۔ اور اس سے انہيں حضرت مسيح موعودؑ کا الہام ياد آيا کہ بادشاہ تيرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈيں گے۔اس احمدي بادشاہ کو اس آسماني بشارت پر پورا يقين تھا۔ انہوں نے وہ فريم اپني بيوي کے سينہ پر رکھ ديا۔ اور خود جائے نماز بچھا کر سجدہ ميں پڑ گئے۔ زندہ خدا نے ان کي دعا کو سنا اور جب انہوں نے اپني نماز ختم کرکے اوپر ديکھا تو انکي بيوي نے کہا کہ اللہ تعاليٰ کے فضل و احسان سے ميں مکمل ٹھيک ہو گئي ہوں۔يہ زندہ خدا اور اس کي کرامات کي ايک کي مثال ہے جو اسلام نے پيش کي ہيں۔يہ اسلام کي نشاة ثانيہ کے لیے کیے گئے اقدام ميں سے چند ابتدائي قدم تھے۔

جب آپؑ نے اسلام کے دفاع او ر رسول اللہ ﷺ کي ناموس کے لیے قلمي جہاد شروع فرمايا تو آپ نے پھر ہتھيار نہيں ڈالے بلکہ اپني مساعي کو بام عروج پر لے گئے۔ آپ کا اتني دل جمعي سے يہ جہاد کرنا يہ آپ کي خدمت اسلام کے جذبہ کو نماياں کرتا ہے۔

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں کہ حضرت مسيح موعود ؑ نے فرمايا ہے کہ يہ زمانہ تکميلِ اشاعت ہدايت کا زمانہ ہے۔ حضور ايدہ اللہ فرماتے ہيں کہ حضرت مسيح موعود ؑ نے نہ صرف ہندوستان کے تمام حصوں بلکہ باقي تمام دنيا کے لیے بھي کتب اوراخبارات ميں مضامين شائع کرنے کے ليے پرنٹنگ پريس کا استعمال کيا۔

حضور انور اپني کتاب A Message of Our Time ميں فرماتے ہيں :حضرت مسيح موعودؑ کا پيغام ايسا پيغام ہے جو بار باردہرايا جانا چاہيے۔ سب سے پہلے آپ (حضرت مسيح موعودؑ) انسانوں کو اپنے خالق کي طرف واپس لانے اور اس کے حقوق پر طرف لوگوں کي توجہ مبذول کروانے کے لیے بھيجے گئے تھے۔ دوم آپ انسانيت سے انساني اقدار کا احترام کرانے اور ايک دوسرے کے حقوق کو پورا کرانے آئے تھے۔

مکرم امیر صاحب نے اپني تقرير حضرت مسيح موعودؑ کي دعا کے ان الفاظ پر ختم کي کہ اے ارحم الراحمين جس کام کي اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کيا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے ميرے دل ميں جوش ڈالا ہے اسکو اپنے فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفين پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کي خوبيوں سے بے خبر ہيں پوري کر۔

(تاريخ احمديت جلد 1 صفحہ 265)

اس تقریر کے ساتھ ہی اس اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button