متفرق مضامین

صحابہ کرامؓ کا رسول کریمﷺ اور خلفائے راشدین کی بے مثال اطاعت و ادب

(’ایچ ایم طارق‘)

عرب ایک سرکش اور بت پرست قوم تھی ۔اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنےنبی حضرت محمدﷺ کی بعثت سے ایک عظیم انقلاب برپا کیا اور ان سرکشوں کو اطاعت کے پتلے بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے بارے میں رسول کریمﷺ کے ذریعہ یہ اصولی تعلیم عطا فرمائی:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ۔ (النساء:60)

ترجمہ: اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کى اطاعت کرو اور رسول کى اطاعت کرو اور اپنے حکام کى بھى اور اگر تم کسى معاملہ مىں (اُولُوالامر سے) اختلاف کرو تو اىسے معاملے اللہ اور رسول کى طرف لَوٹا دىا کرو اگر (فى الحقىقت) تم اللہ پر اور ىومِ آخر پر اىمان لانے والے ہو ىہ بہت بہتر (طرىق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے ۔

روح اطاعت

رسول کریمﷺ نےاپنے پاک نمونے سے اپنے اصحاب کو ماحول کی آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرکے ان کا تزکیہ کیا اور ہمیشہ اعلیٰ درجہ کی اطاعت کی روح اپنے صحابہؓ میں پیدا کرنے کی سعی فرمائی۔چنانچہ جب آپؐ پر سورت بقرہ کی آیت285 نازل ہوئی کہ ’’جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے ظاہر کرو یا اسے چھپائے رکھو اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔‘‘ تو صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت بہت گراں گزری۔ چنانچہ انہوں نے رسول کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہؐ ہمیں ایسے اعمال بجالانے کا مکلّف بنایا گیاہے جن کی ہم طاقت رکھتے ہیں مثلاً نماز، روزے، جہاد اور زکوٰة اور اب آپؐ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے جس کے مطابق دلی خیالات پر بھی محاسبہ ہو تو یہ ہماری طاقت سے باہر ہے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا ’’کیاتم چاہتے ہو کہ تم بھی ویسے ہی کہو جیسے تم سے پہلے دواہلِ کتاب جماعتوں یعنی یہود ونصاریٰ نے کہا کہ ’’سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ‘‘ہم نے سنا اورہم نے نافرمانی کی، ایسا نہ کرو بلکہ تم کہو ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ ہم نے سنا اور ہم دل سے اس کے مطیع ہو گئے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہم نے لوٹنا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ بَيَانِ اَنَّھُ سُبْحَانَھُ و تعالیٰ لَمْ یُکَلّفْ اِلَّا مایُطَاقُ)

ہمارے آقاو مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطاعت امام کے آداب بھی اپنے غلاموں کے سامنے خوب کھول کر بیان کردیے۔آپؐ نے فرمایا کہ ہرمسلمان پر بات سننا اور ماننا فرض ہے۔ خواہ اسے کوئی حکم اچھا لگے یا برالگےسوائے اس کے کہ وہ ایسی بات کا حکم ہو جس میں خدا اور رسولؐ کے کسی حکم کی یا کسی بالا افسر کے حکم کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ اگر وہ ایسی نافرمانی کا حکم دیں توپھر اس میں ان کی اطاعت فرض نہیں۔

(صحیح بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ للامام)

اسی طرح فرمایا کہ تمہیں اپنے امیر کی اطاعت کرنی ہے خواہ تم پر کوئی حبشی امیر مقرر ہو جس کا سر منقہ کے دانے کے برابرہو۔

(بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ)

چنانچہ حضرت جنادہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی سننے اور اطاعت کرنے پر خواہ وہ بات پسند ہو یا ناپسند۔

(بخاری کتاب الفتن بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’سَتَرَوْنَ بَعْدِي أُمُورًا تُنْكِرُونَهَا‘‘)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاطاعت رسولﷺ کی اہمیت یہ بیان فرمائی کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔

(مسلم کتاب الامارة باب وجوب طاعة الامراء فی غیر معصیۃ)

آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو اطاعت رسولؐ کے لطیف تقاضے بھی سکھائے۔نبی کریمﷺایک مرتبہ حضرت ابیؓ کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں آوازدی۔ حضرت اُبیؓ اُس وقت نماز میں مصروف تھے۔حضورؐکی آواز سنتے ہی نماز مختصرکی اور سلام پھیر کر حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔آنحضرت ﷺنے تاخیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! میں نمازمیں تھا۔حضورؐ کی آوازسنتے ہی نمازمختصرکرکے آپ کی خدمت میں حاضرہوگیا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ(الانفال:25)

کہ اے مومنو اللہ اور اس کا رسول جب تمہیں بلائیں تو لبیک کہتے ہوئے اس کی خدمت میں حاضرہوجایاکرو۔ اس لیے جب میں نے تمہیں آوازدی تو چاہیے تھا کہ نماز چھوڑ کر لبیک کہتے ہوئے حاضرہو جاتے۔ حضرت اُبیؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ یہ غلطی معاف ہو آئندہ انشاء اللہ ایسا نہ ہوگا۔‘‘

(ترمذی کتاب الفضائل باب فضل فاتحة الکتاب)

صحابہؓ کا اندازِ فدائیت واطاعت

رسول کریمﷺ کی پاکیزہ تعلیم و تربیت کے نتیجے میں آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے غلاموں نےاطاعت کے ایسے بے نظیر عملی نمونے دکھائےکہ خدائے ذوالعرش نے بھی ان کے ایفائے عہد طاعت کی گواہی دی۔فرمایا:

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا۔ (الاحزاب:24)

مومنوں مىں اىسے مرد ہىں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کىا تھا اُسے سچا کر دکھاىا پس اُن مىں سے وہ بھى ہے جس نے اپنى مَنّت کو پورا کر دىا اور ان مىں سے وہ بھى ہے جو ابھى انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز (اپنے طرز عمل مىں) کوئى تبدىلى نہىں کی۔

صحابہؓ کی شانداراطاعت کانظارہ کرنے کے لیےجب ہم ان کی زندگی پر نظرڈالتے ہیںتو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نبوت کے نور کی وجہ سے انہیں ایسا روشن خیال بنا دیا تھا کہ وہ اطاعت کی روح جان گئے تھے اور کسی حکم کو عذر سے ٹالنے کی بجائے حیلوں اور بہانوں سے اطاعت کرنے کی راہیں تلاش کرتےتھے۔اور کبھی رسول کریم ؐکے احکام کی حکمت اور اس کی غرض معلوم کر نے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہر ارشاد پر لبیک کہنے میں سعادت جانتے تھے۔

چنانچہ 6ھ میں جب آنحضرت ﷺ حدیبیہ میں تھے مشرکین مکہ کے ایک سردارعروہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ سے مصالحت کے لیے آئے۔واپس جا کر انہوں نےقریش کے سامنے رسول اللہﷺ کے غلاموں کی اطاعت اور وفا شعاری کی یہ شاندار گواہی دی:’’اے میری قوم! اللہ کی قسم! میں البتہ بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر اور کسریٰ و نجاشی کے ہاں گیا ہوں ، اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اصحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسا کہ محمد (ﷺ ) کے اصحاب محمد (ﷺ ) کی کرتے ہیں ۔اللہ کی قسم! اس (محمد) نے جب کبھی کھنکار پھینکا ہے تو وہ اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا ہے۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کے پانی کے لیے باہم جھگڑنے کی نوبت پہنچنے لگتی ہے اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کردیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے اسے قبول کرلو۔‘‘

(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجهاد)

اسی معاہدہ حدیبیہ کےطے ہوجانے کے بعد رسول اللہﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنی قربانیاں حرم کعبہ کی بجائے یہیں میدان حدیبیہ میں ہی ذبح کر ڈالو۔تو غم سے نڈھال صحابہؓ صدمہ سے مدہوش، بے حس و حرکت اور ساکت و جامد کھڑے تھے۔ رسول خدا نے تین مرتبہ اپنا حکم دہرایا کہ اپنی قربانیاں ذبح کردو مگر کسی کواس کی ہمت نہ ہوئی۔ شاید وہ اپنے آقا کے عملی نمونہ کے منتظر تھے پھر جونہی رسول اللہ ﷺنے حضرت ام سلمہؓ کے مشورہ کے مطابق پہلے اپنی قربانی ذبح کر لی تو صحابہ بھی دھڑا دھڑ قربانیاں ذبح کرنے لگے اور میدان حدیبیہ حرم بن گیا۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ حدیبیہ)

حکم کی فوری تعمیل کے نمونے

قرآن شریف میں اعلیٰ درجہ کے مومنوں کا یہ عملی نمونہ بیان ہوا ہے کہ وہ نہ صرف بات غور سے سنتے اور اس پر کان دھرتے ہیں بلکہ فوری تعمیل بجالاتے اور

سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا

کانعرہ بلند کرتے ہیں۔

حضرت ابوبکرؓمیں اطاعت رسول کی شان نرالی تھی۔ایک دفعہ نبی کریمؐ نے سوال کرنے اورمانگنےسے منع فرمایا۔صحابۂ رسولؐ نے اس ارشاد کی کامل اطاعت کر کے دکھائی کہ بسااوقات حضرت ابوبکرؓ اونٹنی پر سوار ہوتے۔ اونٹ کی رسی ہاتھ سے چھوٹ جاتی اونٹ کوبٹھا کر خود نیچے اتر کر اپنے ہاتھ سے رسی اٹھاتے۔ صحابہؓ عرض کرتے کہ آپ ہمیں حکم فرماتے وہ جواب دیتے میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ لوگوں سے سوال نہیں کرنا ۔

(مسند احمد جلد 1صفحہ5قاہرہ)

حضرت عمرؓ کی آواز رعب دار اور بلند تھی لیکن جب سورة الحجرات کی آیت

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ (الحجرات: 3)

آیت نازل ہوئی کہ اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کروتو حضرت عمر فاروقؓ کا یہ حال ہوگیا کہ آپ رسولِ کریمﷺ کی بارگاہ میں اتنی آہستہ آواز سے بات کرتے حتّٰی کہ بعض اوقات رسول اللہﷺکو بات سمجھنے کے لیے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ عمر! آپ نے کیا کہا۔

(بخاری کتاب التفسیر بَابُ لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ… الآيَةَ)

یہی حال دیگر صحابہ کا تھا۔

آنحضرتؐ نےنوعمر حضرت اسامہؓ کو امیر لشکر مقرر فرمایا اورمرض الموت میں اسامہؓ کے زیر قیادت لشکر کی روانگی کی وصیت فرمائی۔ آنحضرتؐ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اوّل نے لشکر روانہ کرنے کے بارے میں مشورہ کیا تو حضرت عمرؓ نے رائے پیش کی کہ ان نازک حالات میں جبکہ نومسلم مرتد ہوچکے ہیں اور بہتیرے زکوٰۃ سے منکر ہیں۔ اندرونی انتشار ختم ہونے کے بعد یہ لشکر روانہ کیا جائے۔اطاعت کے پُتلے حضرت ابوبکرؓ نے کس جلال سے فرمایا:

’’خدا کی قسم اگر مدینہ کی گلیوں میں کتے عورتوں کو گھسیٹتے پھریں تو بھی اسامہؓ کے لشکر کو نہیں روکوں گا۔ کیا قحافہ کا بیٹا ابوبکرؓخلیفہ بنتے ہی پہلا کام یہ کرے کہ رسول اللہؐ کا قائم کردہ لشکر روک دے۔‘‘

چنانچہ ان نازک حالات میں حضرت ابوبکرؓ نے اسامہؓ کے لشکر کو روانہ فرما دیا۔ آپ شہر کے باہر تک الوداع کرنے ساتھ گئے۔رسول اللہﷺ کے مقررکردہ امیر اسامہؓ گھوڑے پر سوارتھے اور خلیفۃ الرسولؐ حضرت ابوبکرؓ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کے مقررفرمودہ اسامہؓ سے کہا’’اگر مناسب سمجھو تو عمرؓ کو میری مدد کے لیے پیچھے چھوڑ دو۔‘‘

چنانچہ حضرت اسامہؓ نے حضرت عمرؓ کو بخوشی اجازت دے دی۔اسی موقع پر بعض لوگوں نے پھر اسامہؓ کی امارت پر اعتراض کیا اور حضرت ابوبکرؓ سے عرض کی کہ امیر لشکر کسی تجربہ کار شخص کو بنایا جائے۔جبکہ لشکر میں بے شمارایسے لوگ موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آنحضرتؐ نے جسے قائد مقرر فرمایا تھا، وہی اس لشکر کاامیر ہوگا۔ حضرت عمرؓ خلیفہ ہوگئے مگر پھر بھی جب حضرت اسامہؓ سے ملتے تو فرماتے اے امیر! آپ پر سلامتی ہو۔ اسامہؓ کہتے امیر المؤمنین!اللہ تعالیٰ آپؓ کو معاف فرمائے آپؓ میرے جیسے غلام کےلیے یہ الفاظ استعمال فرماتے ہیں ۔حضرت عمرؓ فرماتے میں تو آپؓ کو تاحیات امیر کہتا رہوںگا کیونکہ جب رسول اللہ ؐفوت ہوئے تو آپ ہی ہم پر امیر مقرر تھے۔‘‘

(تاریخ ابن اثیر جز1صفحہ142،سیرت الحلبیہ،منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند احمد جلد5صفحہ 135)

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ مسجد کی طرف آرہےتھے کہ آپؓ کے کانوں میں آنحضورؐ کی آواز پڑی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ وہیں بیٹھ گئے اور گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف آنے لگے۔ ایک دیکھنے والے نے آپؓ سے کہا کہ آنحضورؐنے تو مسجد میں کھڑے لوگوں کو کہا تھا کہ بیٹھ جاؤ۔ آپؓ کو تو نہیں کہا تھا۔ اس پر حضرت عبد الله بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اگر وہاں پہنچتے پہنچتے میری جان نکل جائے تو میں خدا تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا کہ خدا کے رسولؐ کی طرف سے ایک آواز میرے کانوں میں پڑی اور میں نے اس پر عمل نہیں کیا۔

(ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب الامام یکلم الرجل)

ایک روایت میں یہی واقعہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ انصاری کی نسبت بھی بیان ہوا ہےکہ ان کے اس شاندار نمونہ اطاعت پررسول اللہﷺ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا کہ اے عبد اللہ بن رواحہ اللہ اورسول کی اطاعت کا تمہارا یہ جذبہ اللہ تعالیٰ اور بڑھائے۔

(اصابہ لابن حجرجز 4صفحہ84بیروت)

حرمت شراب کےاعلان کے وقت صحابہ کرام ؓنے جس بے نظیر اطاعت کا مظاہرہ کیااسے دیکھ کر انسان کی عقل ورطۂ حیرت میں پڑجاتی ہے کہ ایسے ملک میں جو شراب نوشی میں ساری دنیا سے بڑھا ہوا تھا اور جس میں شراب کے بھرے ہوئے مٹکوں کے در میان شراب پیتے پیتے آنے والی موت بہترین موت سمجھی جاتی تھی اور جس علاقےکو شراب کشید کرنے کا موجد اور شراب کی بہترین منڈی گردانا جاتا تھا، ایسابھی ہو سکتا ہے کہ گلی سے ایک شخص کی آواز آنے پر کہ ’’شراب حرام کی گئی ہے‘‘ شراب کے نشہ میں مست لوگ پہلے شراب کے مٹکے توڑیں اور پھر آواز کی صداقت کی تصدیق کریں۔ مگر حق یہ ہے کہ حقیقت یہی ہے۔ جس کا اظہار حضرت انسؓ کی روایت سےہوتاہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ابوطلحہؓ کے مکان پر مجلس شراب لگی ہوئی تھی اور میں شراب پی رہا تھا۔ دَور پر دَور چل رہا تھا۔ نشہ کی وجہ سے لوگوں کے سر جھکنےلگے تھے کہ اتنے میں گلی میں کسی نے آواز دی کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا پتہ تو کرو کہ یہ بات درست ہے؟ مگر دوسرے لوگوں نے کہا نہیں پہلے شراب کے بر تن توڑ دو پھر تصدیق کرنا۔ اگر بات غلط ہوئی تو شراب اور آجائے گی لیکن اگر بات درست ہوئی تو کہیں ہم حکم رسولؐ کے نافرمان نہ قرار پائیں۔ حضرت انس ؓکہتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا اور سونٹا مار کر شراب کے مٹکے توڑ دیے۔

(بخاری کتاب المظالم باب صب الخمر فی الطریق)

ذرا تصوّر کریں کہ جب شراب کے جام لنڈ ھائے جارہے ہوں ایسے میں اطاعت کا یہ شاندارنمونہ کہ محض ایک منادی کرنے والے کے اعلان پر شراب کے مٹکے توڑ کر اسے بہا دیا جائے اور کسی قسم کی تصدیق و تحقیق کرنے کی بجائے تعمیل حکم کو اولیت دی جائے اطاعت کی یہ ادائیں حضرت محمدمصطفیٰ کے تربیت یافتہ غلاموں میں ہی نظر آتی ہیں۔

صحابہ ؓ کی ادب و تعظیمِ رسول ؐکے خوبصورت انداز

جب آنحضرت ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے توآپ نے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان میں قیام فرمایا۔ آپؐ مکان کے نیچے کے حصے میں ٹھہرے اور ابو ایوب مع عیال اوپر کے حصے میں رہے ایک رات ابو ایوب بیدار ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ ﷺکے مبارک وجودکے اوپر چلتے پھرتے ہیں ۔یہ کہہ کر انہوں نے اس جگہ سے ہٹ کر ایک جانب میں رات بسر کی۔پھر صبح کو آنحضرت ﷺ سے عرض کیا۔حضورؐ نے فرمایا کہ نیچے کے حصے میں میرے واسطے آسانی ہے۔انہوں نے عرض کیا کہ میں اس چھت پر نہیں چڑھتا جس کے نیچے آپ ہوں۔پس آنحضرت ﷺ اوپر کے حصے میں تشریف لے گئے اورحضرت ابو ایوبؓ نیچے کے حصے میں چلے آئے۔

(مسلم کتاب الاشربہ باب اباحۃ اکل الثوم)

ایک اور روایت میں ہے کہ ایک رات اتفاق سے اوپر والی منزل میں پانی کاایک بڑا برتن ٹوٹ گیااورپانی بہ پڑا۔ ابوایوبؓ کو فکر دامنگیر ہوئی کہ مبادا چھت سے پانی ٹپک پڑے اور رسول خدا ؐکو نچلی منزل میں تکلیف ہو۔ آپ فرماتے ہیں میں اور میری بیوی نے اپنا لحاف پانی پر ڈال کر اسے خشک کرکے دم لیا۔ علی الصبح ابوایوبؓ خدمت اقدسؐ میں حاضر ہوئے اور رات کا واقعہ کہہ سنایا۔ عرض کی کہ حضورؐ اوپر والی منزل میں قیام فرما ہوجائیں۔ ہم نیچے مقیم ہوں گے۔ رسول اللہؐ نے منظور فرمالیا اور بالاخانے میں رہنے لگے۔

(استیعاب جزء2 صفحہ10)

رسول اللہ ؐسے ابوایوبؓ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ چھ یا سات ماہ کا سارا عرصہ جو آنحضرتؐ ان کے ہاں فروکش رہے آپؓ نے مہمانی کا حق خوب ادا کیا۔اور سارا عرصہ رسول اللہؐ کا کھانا باقاعدگی سے تیار کر کے بھجواتے رہے۔حضرت ابوایوبؓ کی محبت رسولؐ کا اندازہ لگائیے کہ جب کھانا بچ کر آتا تو اس پر رسول خدؐاکی انگلیوں کے نشانات دیکھتے اور وہاں سے کھانا تناول کرتے۔ایک دفع رسول اللہؐ نے کھانا تناول نہ فرمایا۔ابوایوبؓ جو رسول خداؐکا بچا ہوا تبرک کھانے کے عادی تھے۔دوبارہ حاضر ہوئے عرض کی حضورؐبندہ توآپ کے بچے ہوئے کھانے سے کھایا کرتا تھا۔آج حضورؐ نے کھانا تناول نہیں فرمایا۔حضورؐ نے فرمایا آج کھانے میں پیاز لہسن تھااور میں اسے پسند نہیں کرتا۔ابوایوبؓ نے عرض کی حضورؐجسے آپ ناپسند فرماتے ہیں آئندہ سے میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں۔

(اسد الغابہ جزء2 صفحہ81)

عہدِ بیعت اور اطاعت

انصار مدینہ نے عقبہ ثانیہ میں رسول اللہﷺ سےجو عہدِ بیعت باندھا تھا زندگی بھر اس کا حق ادا کرکے دکھایا۔غزوہ بدر کے موقع پر جب کفار مکہ کے حملہ کا خطرہ تھا نبی کریمﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایا کہ آیا مدینہ کے اندر رہ کر اپنا دفاع کیا جائے یا مدینہ کے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ ہو۔ جب مہاجرین میں سے بزرگ صحابہ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت مقدادؓ بن عمرو مشورہ دے چکے تو نبی کریمﷺ انصار مدینہ کے ساتھ عقبہ میں کیے گئے معاہدہ کہ وہ مدینہ میں آپ کی حفاظت کریں گے کی روشنی میں ان کی رائے بھی لینا چاہتے تھے اس لیے باربار فرماتے کہ ’’لوگو مشورہ دو۔‘‘

تب حضرت سعدؓ بن معاذ نے انصار کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے عرض کیا:’’ یا رسول اللہﷺمعلوم ہوتا ہے آپ ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس پر حضرت سعدؓ نے عرض کیا ہم آپ پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور گواہی دی کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم برحق ہے اور ہم نے اس پر آپ سے پختہ عہد کیے کہ ہمیشہ آپ کی بات سن کر فوراً اطاعت کریں گے۔ پس اے خدا کے رسول! آپؐ کا جوا رادہ ہے ا س کے مطابق آپ آگے بڑھیں انشاء اللہ آپ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔ اگر آپؐ اس سمندر میں کود جانے کےلیے ہمیں ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا۔اور ہم کل دشمن سے مقابلہ کرنے سے گھبراتے نہیں۔ہم جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا خوب جانتے ہیں۔ ہمیں کامل امید ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ہم سے وہ کچھ دکھائے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوںگی۔ پس اللہ کی برکت کے ساتھ آپ جہاں چاہیں ہمیں لے چلیں۔‘‘ رسول کریمﷺ حضرت سعدؓ کی یہ ولولہ انگیز تقریر سن کر بہت خوش ہوئے۔

(سیرۃابن ہشام جلد3صفحہ 34)

اسی جنگ بدر کے موقع پر جب رسول خدا ؐنے لوگوں کو جنگ کے لیے بلایا تو حضرت مقداد بن اسودؓ نے صحابہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض کیا۔یا رسول الله ؐ!اگر جنگ ہوئی تو ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ

فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰہُنَا قَاعِدُوْنَ

بلکہ خدا کی قسم ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور یا رسول اللهؐ دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لیے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔ یا رسول اللهؐ جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپؐ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں کود جاؤہم بلا دریغ سمندر میں کود جائیں گے۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد1صفحہ453)

صحابہ کرام ؓنے صرف ایسا کہا نہیں بلکہ جب جنگیں ہوئیں تو ایسا کر کے دکھایا۔چنانچہ جنگ اُحد کا میدان اس بات کا گواہ ہے۔ ایسا دعویٰ کرنے والے لوگ آپ کے آگے ،پیچھے، دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔اپنے جسموں کے ستر ستر ٹکڑے کروا لیے مگر آنحضور ﷺتک دشمن کو نہ پہنچنے دیا۔ جنگ حنین میں آنحضورﷺ کے اس اعلان پر کہ ’’اے وہ لوگو! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو! جو سورة البقرةکے زمانہ سے مسلمان ہو خدا کا رسول تمہیں بلاتاہے۔‘‘صحابہؓ نے اپنی بےقابو سواریوں کی گردنیں کاٹ دیں اور بھاگتے ہوئے حضور ؐکے گرد جمع ہو گئے۔

ناپسندیدہ بات میں اطاعت کا امتحان

رسول کریمﷺ صحابہؓ سے خوشی وناخوشی ہر حال میں اطاعت کی بیعت لیتے تھے۔آپؐ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو حضرت طلحہ بن براءؓ انصاری نو عمر لڑکے تھے،رسول اللہﷺ کو پہلی مرتبہ دیکھتے اور ملتے ہی حضورؐکی گہری محبت ان کے دل میں گھر کر گئی جس کے نتیجے میں وہ دیوانہ وار آپ کے قریب ہوکر چمٹ جاتے اور آپ کی قدم بوسی کرتے۔ نبی کریمﷺایک نوجوان لڑکے میں اچانک یہ تبدیلی پاکر حیران ہوئے اور مسکرائے بھی۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں میں کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا پھر عرض کیا کہ ’’اپنا ہاتھ بڑھائیں اور میری بیعت قبول کریں۔‘‘ابھی ان کے والدین نے اسلام قبول نہ کیا تھا آپؐ نے ازراہ امتحان فرمایا کہ’’ خواہ میں والدہ سے قطع تعلق کا حکم دوں تو بھی مانو گے‘‘ یہ سوچ میں پڑ گئے ۔کہتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ اپنی والدہ سے بہت محبت اور احسان کا سلوک کرنے والے تھے۔دوسری بار پھر بیعت کےلیے عرض کیاتو یہی جواب ملا۔ تیسری مرتبہ عرض کیا تو آپ نے پوچھا پھر کس چیز کی بیعت کرتے ہو۔انہوں نے کہادین اسلام قبول کرنے اور آپ کی اطاعت کرنے کی بیعت! آپؐ نے فرمایا’’ اچھا جاؤ اور اپنے باپ کو قتل کرکے آؤ۔‘‘اب طلحہ اٹھے اور تعمیل ارشادکےلیے چل پڑے۔رسول کریمﷺ نے فوراً واپس بلوایا اور فرمایا ’’مجھے قطع رحمی کرنے اور رشتوں کے کاٹنے کےلیے نہیں بھیجا گیا ۔ میں نے چاہا تھا کہ تمہاری آزمائش کروں کہ بیعت میں شک و شبہ کی کوئی کسر تو باقی نہیں۔‘‘

(المعجم الکبیر جلد8صفحہ311)(اصابہ جز 3صفحہ 525)

ناگوار حکم کی اطاعت

حضرت کعب بن مالکؓ کو جنگ تبوک میں باوجود استطاعت ہونے کےشرکت جہاد نہ کرنے کی بنا پر جب مقاطعہ کی سزا دی گئی تو اس شدید ابتلا میں آپ ؓنے اطاعت کی بے نظیر مثال قائم فرمائی اورحسب ارشاد اپنی بیوی سے جدائی بھی گوارا کرلی اور ان کو میکے بھجوا دیا۔

حضرت کعبؓ کے ابتلا کے دوران جہاں حضرت کعبؓ کی اطاعت اور پختگی ایمان کے نظارے نظر آتے ہیں وہاں دوسرے صحابہؓ جو آپ کے قریبی رشتہ دار تھے ان کی اطاعت کا بھی بہترین نمونہ ہمیں دکھائی دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ابوقتادہؓ کا واقعہ اس کا مظہر ہے کہ جب حضرت کعبؓ نے بار بار خدا اور اس کے رسولؐ کا واسطہ دے کر ان سے ہم کلام ہونے کی کوشش کی اور ایک بات دریافت کی تو اطاعت کے اس پتلے نے سوائے اس کے انہیں کوئی جواب نہ دیا کہ خدا اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔

(بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب بن مالک)

حضرت جریر بن عبداللہ ؓکوعہد بیعت کا خیال آخر دم تک تھاجسے خوب نبھایا۔ بہت باریکی سے اس کا خیال رکھتے، کہتے تھے:’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت سننے اور اطاعت کرنے پر کی تھی اور اس بات پر کہ ہر مسلمان کی خیرخواہی کروں گا۔‘‘

(بخاری کتاب الاحکام باب کیف یبایع الامام)

عراق وشام کی فتوحات حضرت خالد بن ولیؓدکی قیادت میں ہوئیں،جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیاتھا۔حضرت عمرؓ ان کی فن حرب کی صلاحیتوں اور شجاعت کے معترف تھے ۔ انہیں کئی معرکوں کا قائد مقررفرمایا لیکن جب محسوس کیا کہ خلافت کے ادنیٰ اور مخلص غلام خالدؓ کے بارے میں لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہورہی ہے تو ان کی جگہ حضرت ابوعبیدہؓ کوامیر مقررفرمایا تو حضرت خالدؓ نے کمال اطاعت کا نمونہ دکھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اے مسلمانو! تم پر اس امت کے امین امیر مقرر ہوئے ہیں۔ اور یوں ان کی ماتحتی میں خدمات انجام دینے لگے۔حضرت ابوعبیدہؓ نے بھی کمال فراخ دلی سے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد ؓخدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔

امہات المومنین کی کمال اطاعتِ رسولؐ

صحابہ کی اطاعت کے نمونے محض مردحضرات تک ہی محدود نہ تھے بلکہ مسلمان خواتین نے بھی اطاعت کی شاندار مثالیں قائم کیں۔عربوں میں اپنے سرداروں اور آباء واجداد کی وفات پربین اور غم اور لمبا عرصہ سوگ کے دکھاوے کا دستور تھا۔اسلام نے معاشرےکو ان تکلفات سے پاک کیا۔حضرت زينب بنت ابی سلمہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کی بیوی حضرت زینب بنت جحشؓ کے بھائی کی وفات پر ان کے پاس آئی۔انہوں نے تیسرے دن کے بعد کچھ خوشبو منگواکر لگائی۔پھر فرمایا کہ مجھے (باعث عمر)اس خوشبووغیرہ کی کوئی حاجت یا ضرورت نہ تھی مگر میں نے نبی کریم ﷺسے منبر پر سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے جس پر وہ چا ر ماہ دس دن سوگ کرے۔

(بخاری الطلاق باب تحد المتوفی عنھا زوجھا)

اسی طرح ابوسفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہؓ کے والد کی وفات ہوئی تو انہوں نے بھی تین دن کے بعد اپنے رخساروں پر خوشبو ملی اور کہا کہ مجھے (اس عمر میں)یہ ضرورت نہ تھی صرف رسول اللہﷺ کے حکم کی تعمیل مقصود تھی۔

(بخاری کتاب الجنائز باب حد المرأۃ علی غیر زوجھا)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی اطاعتِ خلافت

حضر ت نبی کریمﷺکی وفات کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے شام کی فتوحات میں شریک ہونے کی سعادت پائی اور پھر حمص میں قیام پذیر ہوگئے۔ حضرت عمرؓ نے آپ کو وہاں سے بلوا کر اہل کوفہ کی تعلیم وتربیت کےلیے بطور مربی مقرر فرمایا۔اس وقت کوفہ کے امیر حضرت عمار بن یاسرؓ تھے۔

حضرت عمرؓ نے اہل کوفہ کو لکھا کہ اس خدا کی قسم جس کے سواکوئی معبود نہیں میں نے عبداللہ بن مسعوؓد کو تمہاری تعلیم و تربیت کےلیے اپنی طرف سے ایثار کرکے بھیجاہے وگرنہ مرکز اسلام مدینہ میں ایسے عالم دین کی زیادہ ضرورت تھی پس تم ان سے خوب علم سیکھو۔

بعد میں حضرت عثمانؓ نے آپ کو کوفہ میں امیر مقرر فرما دیا اورقضاء اور بیت المال کی ذمہ داریاں بھی آپ کے سپرد رہیں۔ پھر جب بعض مصالح کی بنا پر حضرت عثمانؓ نے آپ کو امارت سے ہٹاکر مدینہ واپس بلایاتو کوفہ والے آپ کو واپس جانے نہ دیتے تھے اور کہتے کہ آپ یہیں رہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت حضرت عثمانؓ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے اور میں ہر گز گوارا نہیں کر سکتا کہ ان کی نافرمانی کرکے فتنہ کا کوئی دروازہ کھولوں۔ اور یوں آپ خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مدینہ واپس آگئے ۔

حضرت عثمانؓ نے جب مکہ میں بعض وجوہ سے قصر نماز کی بجائے مکمل نماز پڑھنی شروع کی تو اعتراض ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف عمل کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس جاکر یہ بات کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو حج کے دنوں میں مکہ آکر صرف دو رکعتیں پڑھایا کرتے تھے مگر حضرت عثمانؓ نے چار رکعتیں پڑھائیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کمال عاجزی سے کہا دیکھو ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم فتنہ اٹھائیں کیونکہ خلیفہ وقت نے کسی حکمت کے ماتحت ہی ایسا کام کیا ہو گا۔ پس تم فتنہ نہ اٹھاؤ۔ میں نے بھی ان کی اقتدا میں چار رکعتیں ہی پڑھی ہیں۔ مگر نماز کے بعد میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ لی تھی کہ خدایا تو ان چار رکعتوں میں سے میری وہی دو رکعتیں قبول فرمانا جو رسول کریم ﷺ کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے اور باقی دو رکعتوں کو میری نماز نہ سمجھنا۔

(ابوداؤد کتاب المناسک باب صلاۃ بمنی)

اطاعت امام مقدم

ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے حج کے متعلق لوگوں کو کوئی فتویٰ دیا۔ ایک شخص نے ان سے کہا کہ ابھی ٹھہر جائیے کیونکہ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے اس کے متعلق کچھ اور بیان فرمایا ہے۔چنانچہ انہوں نے فوراً لوگوں سے کہا کہ میرے فتویٰ پر عمل نہ کرنا۔ امیر المومنین تشریف لا رہے ہیں ان کی اقتدا کرو۔

(نسائی کتاب مناسک الحج باب الھج بغیر نیۃ یقصدہ المحرم)

صحابہ رسولؐ کی شاندار اطاعت کی چند مثالیں یہ واضح کرنے کےلیے کافی ہیں کہ دین متین کے وہ اولین حامل دینی امور میں خلفاء اور امراء کی آراء کے سامنے کس طرح اپنے علم و فضل کے خیال کو ترک کر کے بلاچون و چرا ان کے پیچھے ہو لیتے تھے۔ اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بحث یا تکرار کا خیال بھی دل میں نہ لاتے تھے۔ اور دراصل جب تک یہ روح موجود نہ ہو اور ذاتی آراء کے ماتحت خلفاء کے ساتھ اختلافات کا دروازہ کھول دیا جائے تو خلافت کا منشاکبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا اور تمکنت دین کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔

الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں یہ چیز ہمیں نہایت واضح نظر آتی ہے کہ وہ خلفاء اور امراء کی اطاعت سے کسی صورت میں بھی جی نہ چراتے تھے۔ اور اپنے علم و فضل کے باوجود ان کے ساتھ اختلاف کو گوارا نہ کرتے تھے۔ بلکہ ان کے پیچھے چل کر قومی وحدت کو برقرار رکھتے تھے اور یہی ایک چیز ہے جس نے اختلافات کے باوجود ان کے شیرازہ کو منتشرنہ ہونے دیا۔ اور من حیث القوم ان کو اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ اپنی کمی تعداد، غربت، بےبسی اور انتہائی کمزوری کے باوجود وہ بڑے بڑے طاقت ور دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب و کامران ہوتے تھے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان کی کیا خوب تعریف فرمائی ہے:

’’پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریمﷺ کے حضور ا ن کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا۔ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے اور آپ کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے اگر ان میں یہ اطاعت یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے…اور پھر آپؐ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہوکر ان کی طرف چلا آتا تھا۔غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے طیار ہورہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے طیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لیے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کرصحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔اطاعت ہوتو ویسی ہو۔باہم محبت اور اخوت ہوتو ویسی ہو۔غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم زیر آیت النساء:60 صفحہ 247تا248)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button