نظام عالم میں اطاعت کا سنہری اصول
تمام کائنات میں موجود ہر ایک چیز ایک خاص دائرے میں حرکت کر رہی ہے اور یہ سلسلہ آج سے 4ارب سال پہلے سے ایسے ہی چل رہا ہے۔ہر چیز اپنے مدار میں نہایت پائیداری، سکون اور نظم و ضبط کے ساتھ چکر کاٹ رہی ہے۔نظام شمسی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہمارا نظام شمسی ایک منفرد اور انوکھا نظام ہے اور اب تک ہمارے علم کے مطابق کائنات میں کہیں پر بھی ہمارے نظام شمسی جیسے منظم مدار موجود نہیں ہیں۔اس کائنات میں اس قدر مستحکم اور اس قدر مکمل مدار ہماری خوش قسمتی ہے۔ہر ایک چیز اپنے مدار میں کامل مطیع بن کر گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔کائنات کے نظام میں اطاعت کی اعلیٰ کارفرمائی یقیناً خدا تعالیٰ کے عظیم المقدرت ہونے کی کافی و شافی دلیل ہے۔ذیل میں قرآن کریم اور خلفائےکرام کے ارشادات کی روشنی میں نظام عالم میں اطاعت کا سنہری اصول بیان کیا گیا ہے۔
اجرام فلکی اور ان کی گردش
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔(الانبیاء:34)
اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب (اپنے اپنے )مدار میں رواں دواں ہیں۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ547،Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
اجرامِ فلکی ایسی نمایاں جسمانی موجودات یا ساختوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کی موجودگی یا اُن کے وجود کو اب تک کی سائنس کی مدد سے فضا میں ثابت کیا جا چکا ہو۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ سائنسی ترقی کی وجہ سے ایسے شواہد سامنے آجائیں کہ جن کی وجہ سے موجودہ اجرامِ فلکی میں سے کسی ایک کے وجود سے انکار کرنا پڑے۔ اجرامِ فلکی کو اجرامِ سماوی (celestial objects)بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں:
’’یہ اعلان تمام کائنات کا احاطہ کرتا ہے ۔تمام اجرام فلکی، بیضوی مداروں میں گردش کر رہے ہیں۔ نیز یہ کہ تمام اجرام اپنی فنا کے مقررہ وقت کی طرف رواں دواں ہیں۔‘‘
(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 268، سال اشاعت 2007ء،اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ)
چاند کا گھٹنا اور بڑھنا
وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ۔ وَ الۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ۔ لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ۔(یٰس:39تا41)
اور سورج (ہمیشہ) اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کامل غلبہ والے(اور) صاحبِ علم کی (جاری کردہ) تقدیر ہے۔ اور چاند کے لئے بھی ہم نے منازل مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب کے سب (اپنے اپنے)مدار میں رواں دواں ہیں۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ777، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
سورہ یٰس کی ان آیات (39تا41)کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒحاشیہ میں فرماتے ہیں :’’ان آیاتِ کریمہ میں اجرامِ فلکی کے متعلق ایسی باتیں بیان فرمائی گئی ہیں جن تک عرب کے ایک اُمّی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ چاند اور سورج کے باہم نہ مل سکنے کے متعلق تو روز مرّہ کا مشاہدہ بتاتا ہے لیکن چاند چھوٹا کیوں ہو جاتا ہے اور پھر بڑا بھی ہوتا رہتا ہے اس کا گردش سے تعلق ہے۔ مزید یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ سورج بھی ایک اَجَلِ مُسَمّٰی کی طرف حرکت کر رہا ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ سورج بھی ایک وقت اپنی مقررہ عمر کو پہنچ کر ختم ہو جائے گااور ایک معنی جو آجکل ماہرین فلکیات نے معلوم کیا ہے وہ یہ ہے کہ سورج اپنےسارے اجرام کے ساتھ ایک سمت میں حرکت کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ساری کائنات مجموعی طور پر حرکت کر رہی ہے ورنہ ایک سیّارے کا دوسرے سے ٹکراؤ ہوجانا چاہئے تھا۔ باوجود اس کے کہ پوری کائنات متحرک ہے ان اجرامِ فلکی کے آپس کے فاصلے اتنے ہی رہتے ہیں ۔ یہ ماہرینِ فلکیات کی تازہ ترین دریافتوں میں سے ہے ۔ جس سے ضمناً یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی اور نامعلوم کائنات بھی ہے جس کی کشش کے ساتھ یہ اس کی جانب متحرک ہے۔‘‘
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ777، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
چنانچہ موجودہ سائنس بھی حضورؒ کے اس بیان کردہ سائنسی نقطے کی تصدیق کر رہی ہے کہ کوئی نامعلوم کائنات بھی ہے جس کی کشش کے ساتھ یہ اس کی جانب متحرک ہے۔چنانچہ الیگزینڈرکیشلینکسی(Alexander Kashlinsky) جو کہ میری لینڈ (Maryland)میں موجودناسا (NASA)کےگاڈرڈ سپیس فلائٹ سنٹر (Goddard Space Flight Center)کےمشہورAstrophysicist ہیں۔ وہ کہتے ہیں
’’The presence of massive structures outside the known universe could be evidence that we are infact just one universe in a multiuniverse‘‘.
ہماری معلوم کائنات کے باہرموجود بڑے بڑے structures اس بات کا ثبوت ہو سکتے ہیں کہ ہم مختلف کائناتوں میں سے ایک کائنات ہیں ۔
(Unknown ’Structures‘ Not Tugging on the Universe AfterAll? Dark flow explained away by new data, old Physics John Raach for National Geographic News. Published January 20, 2012 (http://news.national geographic.com/ news/2012/01/120120-dark-flow-universe-multiuniverse-supernovas-space-science/)
اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی کائنات کی کشش کی وجہ سے ہماری کائنات اُس کی طرف متحرک ہے تو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس نکتہ کے متعلق معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔ان آیات کا مختصر خلاصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یوں ملتا ہے:’’سورج کو یہ طاقت نہیں کہ چاند کی جگہ پہنچ جائے اور نہ رات دن پر سبقت کر سکتی ہے۔ کوئی ستارہ اپنے فلک مقرری سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔‘‘
(براہین احمدیہ صفحہ 438 حاشیہ در حاشیہ ، تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 3صفحہ772)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں:’’قرآن مجید کے مطابق تمام اجرامِ فلکی نہایت خاموشی سے محوِ سفر ہیں۔ چنانچہ ان میں سے اگر کوئی بھی اپنا بیضوی مدار چھوڑتا ہے تو باقی بھی باہمی توازن برقرار رکھنے کے لئے اسی کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔‘‘
(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 271، سال اشاعت 2007ء،اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ)
چاند اور سورج ایک دوسرے سے نہیں ٹکرا سکتے
لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔(یٰس :41)
سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب کے سب (اپنے اپنے)مدار میں رواں دواں ہیں۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ777، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۬ۚ وَ لَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنۡ اَمۡسَکَہُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا۔(فاطر:42)
یقیناً اللہ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ وہ ٹَل سکیں۔ اور اگر وہ دونوں(ایک دفعہ) ٹَل گئے تو اس کے بعد کوئی نہیں جو انہیں پھر تھام سکے ۔ یقیناً وہ بہت بردبار (اور )بہت بخشنے والا ہے۔
(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 268، سال اشاعت 2007ء،اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’زمین وآسمان از خود اپنے مداروں پر قائم نہیں ہیں بلکہ اگر اللہ کی تقدیرکے ہاتھ ان کو مسلسل تھامے نہ رکھیں تو اگر یہ ایک دفعہ اپنے مداروں سے ہٹ جائیں تو زمین و آسمان میں قیامت آجائے گی اور کبھی پھر دوبارہ اجرام سماوی اپنے مداروں پر قائم نہ ہوسکیں گے‘‘۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ760، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (انبیاء : 34)
ہر ستارہ اپنے اپنے آسمان میں جو اس کا مبلغ دور ہے تیر رہا ہے چنانچہ اسی کی تصریح میں یہ آیت اشارہ کررہی ہے
کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُونَ ۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 138تا171، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 3صفحہ247)
نیز فرمایا:’’قرآن کریم نے اگرچہ آسمانوں کو نرا پول تو قرار نہیں دیا لیکن جس سماوی مادے کو جو پول کے اندر بھرا ہوا صلب اور کثیف اور مستعرالخرق مادہ بھی قرار نہیں دیا بلکہ ہوا یا پانی کی طرح کثیف مادہ قراردیا جس میں ستارے تیرتے ہیں۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 138 تا171، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 3صفحہ245تا246)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓفرماتے ہیں:
’’الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (الرحمٰن:6)
بخاری نے اس کے معنی کئے ہیں
حُسْبَانٌ کَحُسْبَانُ الرُّحیٰ
سورج اور چاند کا حساب دیکھو۔ ایک سیکنڈ کی بھی اس میں غلطی نہیں ہوتی۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد4صفحہ41)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓفرماتے ہیں :
’’لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ (یٰس :41)
سورج کو طاقت نہیں کہ چاند کو دبوچ لے یا اس سے جا ملے اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے بلکہ یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک میں تیرتے ہیں۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ462)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓسورت فاطر آیت42کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا…(فاطر :42)
بعض دم دار ستارے ایسے ہیں کہ ان کی دم کی ٹکڑ سے زمین ٹکڑے ہوجاوے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 3صفحہ454)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓسورۃالانبیاء آیت 34کی تشریح میں فرماتے ہیں :
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ …(انبیاء : 34)
سورج اور چاند دونوں ایک مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔
(تفسیر کبیر جلد5صفحہ516)
’’فلک درحقیقت نظام شمسی کے پھیلاؤ کا نام ہے اور ان وسعتوں کو کہتے ہیں جن میں نظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں۔‘‘
(سیرروحانی،انوارالعلوم جلد15صفحہ337)
قرآن کریم نہایت احسن پیرائے میں اجرام فلکی اور ان کی گردش کے متعلق مفصّلاًبیان کرتا ہے مگر اس سے قبل کہ عمومی طور پر اجرام فلکی کی حرکت کے متعلق کچھ بیان کروں قرآن کریم کی نمایاں خصوصیات بیان کرنا مقصود ہیں۔
زمین کی حرکت کو دیگر اجرامِ فلکی کی حرکت کی نسبت سے من و عن بیان کرنے کی بجائے قرآن کریم اسے یوں بیان کرتا ہے۔
وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ؕ صُنۡعَ اللّٰہِ الَّذِیۡۤ اَتۡقَنَ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہٗ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَفۡعَلُوۡنَ۔(النمل : 89)
اور تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ (یہ) اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقینا ًوہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ664، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
چنانچہ اس اعلان سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین بھی ان کے ساتھ گھوم رہی ہے۔
قرآن مزید یہ اعلان کرتا ہے کہ تمام اجرام فلکی مسلسل حرکت میں ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی ساکن نہیں۔ مزید یہ ہے کہ ان کی حرکت بیضوی مداروں میں ہے ۔ نیز یہ کہ تمام اجرام اپنے فنا کے مقررہ وقت کی طرف رواں دواں ہیں۔ سورج ، چاند اور تمام اجرامِ فلکی آپس میں دکھائی نہ دینے والے رشتوں میں وابستہ ہیں۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی اپنا بیضوی مدار چھوڑتا ہے تو باقی بھی باہمی توازن برقرار رکھنے کے لیے اسی کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔
چنانچہ میکس پلینک مشہور نوبیل انعام یافتہ سائنسدان لکھتا ہے:
A certain order prevails in our universe. This order can be formulated in terms of purposeful activity.
ترجمہ:ایک مربوط نظام ہماری اس کائنات میں جاری و ساری ہے۔……
آئن سٹائن اس ترتیب پر اپنے تعجب کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے :
We find in the objective world high degree of order that we were a priori in no way authioriszed to expect. This is the miracle that is strengthened more and more with development of our knowledge.
ترجمہ: ہم اس مادی دنیا میں انتہائی درجہ کی ترتیب مشاہدہ کرتے ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔یہ ایک معجزہ ہے جو کہ ہمارے شعور کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید تقویت پاتا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ، حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا بھی اجرامِ فلکی اور ان کی گردش کے متعلق وہی نظریہ تھا جس کی تصدیق آج کی سائنس کرتی ہے۔ چنانچہ ان نظریات کے مطابق اجرام فلکی کامل ترتیب کے ساتھ بیضوی مداروں میں اپنے فنا کی طرف رواں دواں ہیں۔
زمین پر پانی کا نظام /آسمان اور سمندر کے درمیان پانی کی تسخیر
اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ وَ مِمَّا یُوۡقِدُوۡنَ عَلَیۡہِ فِی النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡیَۃٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ۬ؕ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذۡہَبُ جُفَآءً ۚ وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ (الرعد:18)
ترجمہ: اس نے آسمان سے پانی اتارا تو وادیاں اپنے ظرف کے مطابق بہ پڑیں۔ اور سیلاب نے اوپر آجانے والی جھاگ کو اُٹھا لیا۔اور وہ جس چیز کو آگ میں ڈال کر دہکاتے ہیں تاکہ زیور یا دوسرے سامان بنائیں اس سے بھی اسی طرح کی جھاگ اٹھتی ہے۔ اسی طرح اللہ سچ اور جھوٹ کی تمثیل بیان کرتا ہے ۔ پس جو جھاگ ہے وہ تو بے کار چلی جاتی ہے اور جو انسانوں کو فائدہ پہنچاتا ہے تو وہ زمین میں ٹھہر جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں بیان کرتا ہے۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ404تا405، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒاس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ایک دوسرا اہم مضمون اس سورت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے شفاف پانی سے زمین کی ہر چیز کو زندگی عطاء کی ہے۔ سمندر کاپانی تو انتہائی کھاری ہوتا ہے کہ اس سے خشکی پر بسنے والے جانور اور نباتات زندگی حاصل کرنے کی بجائے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس میں سمندر کے پانی کو نتھار کر بلند پہاڑوں کی طرف لے جانے اور پھروہاں سے اس کے برسنے اور سمندر کی طرف واپس پہنچتے پہنچتے ہر طرف زندگی بکھیرنے کا ذکر فرمایاگیا ہے۔ اس نظام کا بہت گہرا تعلق آسمانی بجلیوں سے ہے جو سمندر سے بخارات اٹھنے کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتی ہیں اور پانی بھی بادلوں کے درمیان بجلی کی لپکوں کے بغیر قطروں کی صورت میں زمین پر برس نہیں سکتا۔‘‘
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ399، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
اس تحریرمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بنیادی طور پر 2سائنسی نکات تحریر فرمائے ہیں :
1۔آسمان سے بارش کے برسنے کے نظام کا بہت گہرا تعلق آسمانی بجلیوں سے ہے جو سمندر سے بخارات اٹھنے کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ اس کی تائید موجودہ سائنس بھی کرتی ہے۔
Water vapour plays a key role in lightining production in atmosphere. The ability or capability of clouds to hold massive amounts of charge is directly related to the amount of water vapour present in the local system.
(The Electro Magnetic Field by Albert Shadowitz.1975,Mc Graw-Hill Book company p 165to 171)
ترجمہ:پانی کے بخارات ماحول میں بجلی کے کڑکے پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں……
2:جہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کے اس سائنسی نکتہ کا تعلق ہے کہ اس نظام کا (یعنی آسمان سے بارش کے برسنے کے نظام کا) بہت گہرا تعلق آسمانی بجلیوں سے ہے جو سمندر سے بخارات اٹھنے کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتی ہیں اور پانی بھی بادلوں کے درمیان بجلی کی لپکوں کے بغیر قطروں کی صورت میں زمین پر برس نہیں سکتا اس کے متعلق موجودہ سائنس کی تحقیقات سے کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں بلکہ موجودہ سائنس اس کے برعکس یہ کہتی ہے کہ بجلی کی لپکوں کے بغیر بھی پانی بادلوں سے برس سکتا ہے ۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ399، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
وَ السَّقۡفِ الۡمَرۡفُوۡعِ۔وَ الۡبَحۡرِ الۡمَسۡجُوۡرِ ۔(الطور:6تا7)
ترجمہ : اور بلند کی ہوئی چھت کی اور جوش مارتے ہوئے سمندر کی ۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ953، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
اس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:’’اور ایک دفعہ پھر اونچی چھت والے آسمان کو گواہ ٹھہرایا گیا اور جوش مارتے ہوئے سمندر کو بھی جن دونوں کے مابین پانی مسخر کر دیا گیا اور وہ زندگی کا سہارا بنتا ہے۔‘‘
(تعارف سورۃ الطور۔ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ951، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا اس سائنسی عنوان کے متعلق کوئی موقف نہیں مل سکا ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:’’اگر اللہ تعالیٰ زمین میں ایسے نشیب و فراز پیدا نہ کرتا جن میں دریاؤں کا پانی سکڑ کر چلتا تو سب زمین پر پانی ہی پانی ہوتا اور یہ دنیا رہنے کے قابل نہ ہوتی۔اسی طرح اگر پہاڑ نہ ہوتے جو سارا سال برف کے ڈھیر جمع رکھتے ہیں اور جن کی مدد سے تمام دریا ملک کو سال بھر پانی مہیاکرتے ہیں تو تمہاری باؤلیاں اور حوض تمہیں کب تک زندہ رکھ سکتے تھے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 416 زیر آیت النمل62)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ کَیۡفَ یَشَآءُ وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ۔(الروم:49)
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے پس وہ بادل کو اُٹھاتی ہیں ۔ پھر وہ اسے آسمان میں جیسے چاہے پھیلا دیتا ہے اور پھر وہ اُسے مختلف ٹکڑوں میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے بارش نکلتی ہے ۔ پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے یہ (فیض) پہنچاتا ہے تو معاً وہ خوشیاں منانے لگ جاتے ہیں۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ707، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
اس آیت میں واضح طور پر water cycle(آسمان اور زمین کے درمیان پانی کی تسخیر)کا پورا مرحلہ بیان کردیا گیا ہے۔جو موجودہ سائنسی تحقیق سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔
٭…پہلا مرحلہ
سمندر کی سطح پر موجود پانی مستقل طور پر بخارات بن کر آسمان کی طرف اُٹھتا رہتا ہے۔یہ بخارات ہواؤں کے ذریعہ بالائی فضا میں لے جائے جاتے ہیں۔یہ بخارات جنہیں Aerosolکہتے ہیں اپنے اردگرد موجود دیگر بخارات کو جمع کر کے بادل بناتے ہیں۔
٭…دوسرا مرحلہ:
پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر اللہ اس کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ بادل آبی بخارات سے بنتے ہیں اور نمک کی قلموں یا ہوا میں موجود گرد کے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں چونکہ ان بادلوں میں بارش کےقطرے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے ہوا کے باعث یہ بادل پھیل جاتے ہیں اور اس طرح آسمان بادلوں سے بھر جاتا ہے۔
٭…تیسرا مرحلہ:
’’پھر تم مینہ کو دیکھتے ہو کہ اس کے اندر سے نکلتا ہے‘‘نمک کی قلموں یاگرد کے ذرّات پر مشتمل آبی بخارات کثیف ہو کر بارش کے قطرے بناتے ہیں لہٰذا یہ قطرے ہوا میں موجودگی کے وقت کے مقابلے میں بادلوں میں زیادہ بھاری ہو جاتے ہیں اور زمین پر برسات کی صورت میں گرنا شروع کر دیتے ہیں۔
جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا آبی بخارات کا نمک کی قلموں کے ذرّات پر مشتمل ہونا ضروری ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ ضروری نہیں کیونکہ پانی کے باریک قطرے نمک یا فلکیاتی دھول کے گرد اکٹھے ہو کر بادل بنتے ہیں۔ آبی بخارات کا نمک کی قلموں کے ذرّات پر مشتمل ہونا ضروری نہیں ہے ۔ یہ کسی بھی قسم کی فلکیاتی دھول ہو سکتی ہے۔جس کو انگریزی زبان میں Cosmic Dust کہتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ فلکیاتی دھول یا نمک کے ذرّات اگر موجود نہ ہوں تو شاید بادل وجود میں نہ آسکیں اور اگر آئیں بھی تو صرف پہاڑی علاقہ جات یا اونچائی کے علاقوں میں ہی ہوں کیونکہ یہ ذرّات دراصل پانی کو جمع کرنے کا سبب ہوتے ہیں ۔
(a):-.The Book of clouds: Professor John Day , Sterling, 2005, paperback , ISBN 0760735360
(b):-.Blanchard Duncan:-From Rain Drops to Volcanoes: Adventures with Meterology, reprint 2004, The McDonald and Dover Publications, ISBN 048634877
پہاڑوں کا مسلسل حرکت میں ہونا/ زمین متحرک ہے
وَ تَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ(النمل:89)
اور تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ664، Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ پہاڑوں کو جامد سمجھتے تھے مگر اس سورت کی آیت نمبر۸۹بیان کرتی ہے کہ وہ بادلوں کی طرح مسلسل اُڑ رہے ہیں حالانکہ بہت مضبوطی سے زمین میں گڑے ہوئے بھی ہیں۔ اس کا اس کے سوا کوئی استنباط نہیں ہو سکتا کہ زمین سمیت وہ بادلوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔‘‘
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ649تا650،
Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
پھر فرمایا:’’ اس اعلان سے کہ پہاڑ مسلسل حرکت میں ہیں لازمًا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین بھی ان کے ساتھ گھوم رہی ہے۔‘‘
(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 265تا266،
سال اشاعت 2007ء،اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ)
موجودہ سائنس بھی اس بات کی کامل تصدیق کر رہی ہے کہ پہاڑ زمین سمیت بادلوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔چنانچہ مشہور سائنسدان جن میں Roy B Van ، Ranclle T.Coxاور John A. Trunoduشامل ہیں دیگر تمام سائنسدانوں کی طرح اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ پہاڑ زمین سمیت بادلوں کی طرح گھوم رہے ہیں۔
(Hot Spots unplugged by John A. Trunodu)
(Scientific American January 2008 p 73)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’غور کرو، یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ پہاڑ تمہارے گمان میں ایک جگہ جمے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ بادلوں کی طرح چلتے جاتے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ زمین کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور یہ کیسا عجیب نکتہ ہے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ304)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:’’یہ مراد نہیں کہ پہاڑ الگ چلتے ہیں اور زمین الگ چلتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ زمین چلتی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں اور جس طرح زمین بادلوں کو اپنے ساتھ کھینچتی چلی جاتی ہے اسی طرح وہ پہاڑوں کو بھی اپنے ساتھ اٹھائے چلی جاتی ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 452)
زمین اور اجرام فلکی کے مابین توازن/زمین کی مدار میں حرکت
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔(انبیاء:34)
اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب (اپنے اپنے )مدار میں رواں دواں ہیں۔
(ترجمۃ القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒصفحہ547،
Revisedایڈیشن جولائی2002ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:’’یہ حرکت صرف سورج اور چاند تک ہی محدود نہیں بلکہ قرآن کریم کے مطابق تمام اجرام فلکی نہایت خاموشی سے محوسفر ہیں۔نیز بہت سی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ تمام آپس میں دکھائی نہ دینے والے رشتوں میں وابستہ ہیں۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی اپنا بیضوی مدار چھوڑتا ہے تو باقی بھی باہمی توازن برقرار رکھنے کے لئے اسی کے مطابق حرکت کرتے ہیں ۔
وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔(انبیاء:34)
لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔(یٰس:41)
قرآن کریم کا یہ منفرد اسلوبِ بیان زمین کی اپنے محور کی گردش کے بارہ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔‘‘
(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ 270تا271، سال اشاعت 2007ء،اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ)
حضرت مسیح موعود ؑاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’قرآن کریم نے اگرچہ آسمانوں کو نرا پول تو قرار نہیں دیا لیکن جس سماوی مادے کو جو پول کے اندر بھرا ہوا صلب اور کثیف اور مستعرالخرق مادہ بھی قرار نہیں دیا بلکہ ہوا یا پانی کی طرح کثیف مادہ قراردیا جس میں ستارے تیرتے ہیں۔اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔
ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ‘‘
(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلد 3صفحہ نمبر245تا246)
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’
’ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ
: چکی،(قطب شمالی یا جنوبی میں)یا چرخ (جیسے خط استواء) کی طرح پھرتے ہیں ۔
قَالَ الْمُجَاہِدُ بِحُسْبَانٍ کَحُسْبَانِ الرُّحیٰ وَقَالَ الْحَسَنُ فَلَکٌ مِثْلَ فَلْکَۃِ الْمُغْزَلِ یَسْبَحُوْنَ‘‘
(حقائق الفرقان جلد 3صفحہ124)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:’’سورج اور چاند دونوں ہی مقررہ راستوں پر چل رہے ہیں۔ یعنی ہمیشہ ہی انسان کو رات اور دن کی ضرورت رہے گی۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ 516)
اس آیت میں دن رات کے پیچھے چلنے کو زمین کی محوری گردش سے منطبق کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ زمین اپنے محور کے گرد گردش کرتی ہے تو سورج کی شعاعیں تغیرو تبدّل کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں۔
زمین کے اپنے محور کے گرد گھومنے سے دن اور رات وجود میں آتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بعض مقامات پر یا تو دن ہی دن ہوتا یا رات ہی رات ہوتی۔زمین کے سورج کے چاروں طرف گھومنے سے مختلف موسم وجود میں آتے ہیں۔
موجودہ سائنس بھی اس بات کی کامل طور پر تصدیق کرتی ہے کہ تمام اجرامِ فلکی نہایت خاموشی سے محوِ سفر ہیں چنانچہ اگر ان میں سے کوئی اپنا بیضوی مدار چھوڑتا ہے تو باقی بھی باہمی توازن برقراررکھنے کے لیے اسی کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔
(a).World Book of Encyclopedia, 2003, contributor : Kenneth Breacher , PhD. Professor of Astronomy and Physics Boston University.
(b) Bilim ve Teknik (Journal of Science and Technology July 1983)
چنانچہ سائنسی قوانین کے لحاظ سے وہ قوت جو ان سیّاروں کے باہمی توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہے وہ کشش ثقل کہلاتی ہے۔
قرآن کریم اس عظیم الشان حقیقت کا انکشاف ان الفاظ میں کرتا ہے:
وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ۔(الرحمٰن:8)
ترجمہ:چنانچہ خدا ہی کی وہ ذات ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کو کامل توازن بخشا ہےاور یہ توازن نہ صرف ہمیں اجرام فلکی میں نظر آتا ہے بلکہ کائنات کے ہر نظام میں یہ توازن برقرار ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکششِ ثقل کے عالمگیر قانون کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اس قانون کے مطابق کائنات میں کوئی سے دو مادی اجسام کے مابین ایک ایسی قوتِ کشش پائی جاتی ہے جو ان دونوں اجسام میں پائے جانے والے مادے کے حاصل ضرب کے راست متناسب اوران کے باہمی فاصلہ کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔ا سی باہمی کشش کو کششِ ثقل کہاجاتا ہے۔ ان مخالف قوتوں کے مابین کامل توازن اورمساوات کے بغیر کائنات کا توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ یہ قانون سالموں اور ایٹموں کے اجرامِ صغیر پر بھی اُسی طرح اطلاق پاتا ہے جس طرح عالمِ کبیر پر۔
ہر چیزجو مدار میں گردش کر رہی ہے اس کا اپنے مدار میں رہنا دراصل مرکز مائل اور مرکز گریز قوتوں کے مابین مکمل توازن کا نتیجہ ہے۔ ایسی قوتوں پر مشتمل ایک بہت پیچیدہ جال نے اجرامِ فلکی کو باہم مربوط کر رکھا ہے جس کے باعث کائنات کو ثبات حاصل ہے۔
قرآن کریم جب اجرامِ فلکی کے بیضوی مداروں میں متحرک رہنے کاذکر فرماتا ہے تودراصل خدا تعالیٰ کے انہی تخلیقی کمالات کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ یہ قانون تمام نظام ہائے شمسی ، کہکشاؤں اور کہکشاؤں کے مختلف جھرمٹوں پر یکساں اطلاق پاتا ہے۔ حتّٰی کہ کائنات کا چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ بھی اس قانون کے دائرہ سے باہر نہیں۔ سالموں اورایٹموں کی چھوٹی سی دنیا میں بھی ہمیں یہی دکھائی دیتا ہے کہ ذرّات اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔
کسی بھی سیّارے کی اپنے مدار میں گردش کا کششِ ثقل کی مخالف قوتوں کے ساتھ مکمل طور پر متواز ن ہونا ضروری ہے جو اس سیّارہ کو اندر کی طرف کھینچ رہی ہوتی ہے۔ اس کاانحصار سیّارہ کی اس معین رفتار پر ہے جس کے ساتھ وہ مرکز کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے۔ اس رفتار کو کچھ کم کردینے یا ذرا سا بڑھا دینے سے یہ اجرام یا تواپنے مدار سے نکل کر منتشر ہوجائیں گے یا پھر ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک دوسرے ہی میں دھنس جائیں گے۔ کائنات میں ایسی کامل ہم آہنگی اور مطابقت رکھنے والی قوتوں کی صرف چند ایک مثالیں نہیں ہیں بلکہ ارب ہا ارب نظام ہائے شمسی ہیں جن میں مدار ایک حیرت انگیز معین حساب کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ تاہم ایک عام آدمی کو سمجھانے کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان کائناتوں اور کہکشاؤں کا شمار ممکن نہیں۔
اس حیرت انگیز توازن کو قرآنی اصطلاح میں ’’میزان‘‘کہا گیا ہے۔ بہت سے علماء نے اس مضمون پر مختلف جہات سے روشنی ڈالی ہے کیونکہ کائنات کے متعلق جستجو کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ سائنس دان ابھی تک کائنات کے ان اسرار کا بھی پوری طرح احاطہ نہیں کرسکے۔جو بالکل سطحی ہیں۔ کئی دانشوروں نے اس موضوع پر روشنی ڈالی اور مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے بہت کچھ لکھا بھی ہے لیکن ہر اگلا قدم اس کائنات میں موجود اشیاء کے وسیع تر توازن کے نئے نئے پہلو اجاگر کرتا چلا جا رہا ہے اور اس میدان میں ہونے والی ہر نئی تحقیق قرآن کریم کے بیان فرمودہ ایک ہی لفظ کی بار بار تصدیق کرتی چلی جارہی ہے کہ اس ساری کائنات کو چلانے والا مرکزی اصول دراصل’’ میزان‘‘ہی ہے جس کے معنی ہیں کامل توازن یا’’مطلق ‘‘عدل۔
آئن سٹائن نے بھی ان قوانین کے مطالعہ کے دوران جن پر اجرامِ فلکی کی حرکت کا دارومدار ہے۔ اس موضوع پر بہت غوروخوض کیا۔ چنانچہ وہ کائنات میں موجود کامل ترتیب اور مکمل توازن کو دیکھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا اور پُکار اٹھا کہ یہ حسین توازن ہمیں ایک ایسی بالاہستی پر ایمان لانے پر مجبور کرتا ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ وہ شاید کسی ایسے خدا کو تسلیم نہیں کرتا تھا جو انسان سے ہمکلام ہو سکتا اور کوئی مذہبی تعلیم الہام کر سکتا ہے۔ لیکن کم از کم اسے ایک ایسے عظیم خالق کے وجود کو تسلیم کرنا پڑا جو باشعور اور مدبر بالاِرادہ بھی ہے اوراپنی منشاء کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت اور طاقت بھی رکھتا ہے ۔‘‘
(عدل، احسان اور ایتاءِ ذی الْقُرْبٰی حصہ اول صفحہ 18تا20)
٭…٭…٭