جماعتی وقار ’’بے حساب‘‘
بفضل اللہ تعالیٰ یوں تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانیؓ کی جماعتی زندگی کے ہر پہلو پر بڑی گہری نظررہتی تھی لیکن جماعتی وقار کا پہلو ان تمام محسوسات پر غالب تھا۔جماعت غریب ہے، چندوں پر چل رہی ہے لیکن وہ خدا کی نظروں میں بڑی عظیم ہے۔اس لئے اس کی عظمت میں فرق نہیں آنا چاہیئے۔ میں جن ایام میں وکالت تبشیر ربوہ میں تھا اور بعض کام درد صاحب کی ہدایات کے تحت بھی کرتا تھا۔ ایک روز حضور نے مجھے یاد فرمایا اور فرمایاکہ ’’دیکھو یہ تین خط پہنچانے ہیں مکتوب الیہم تک‘‘۔ …جن میں سے دو چودھری غلام عباس اور سردار محمد ابراہیم کے نام تھے۔
’’یہ پہنچا کر جواب لے آؤ‘‘…
میں جانے لگا تو فرمایا:’’ان کا کسی سے ذکر نہ ہو‘‘…
میں نیچے آیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کام کی نوعیت پوچھی بھی مگر میں طَرح دے گیا۔ نہ درد صاحب ہی سے ذکر کیا۔ مجھے ان دنوں ستر روپے الاؤنس ملتا تھا۔ جس میں سے میں پچاس گھر بھیج دیا کرتاتھا۔ میں واپس گھر آیا تو کچھ دیر توقف کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب سے ملا اور عرض کیا کہ ’’مجھے دو سو روپے درکار ہیں۔ میں آپ کو دس روپے ماہوار قسط ادا کروں گا‘‘۔ بات میں نے انہیں بھی نہ بتائی کیونکہ حضور نے تو تاکیداً فرمایا تھا کہ
’’اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کرنا لیکن جماعتی وقار ضرور قائم رہنا چاہیئے کہ تم امام جماعت احمدیہ مرزا محمود احمد کے نمائندے کی حیثیت سے جارہے ہو‘‘۔
’’لہٰذا ذاتی سفر کسی طرح بھی کرو بس میں ،تانگے میں یا چھکڑے میں لیکن جب تم ایبٹ آباد، پشاور یا مظفر آباد پہنچو تو سب سے اونچے ہوٹل میں ٹھہرو، پرائیویٹ کار لو ، فون کرو اوروقت معین کر کے ملو‘‘۔
میں نے عرض کیا کہ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا’’پیسے‘‘ کا معاملہ حل ہوگیا تو میری سب سے بڑی الجھن دور ہوگئی اور میں اگلے دن صبح ہوتے ہی اپنے اس سفر پر روانہ ہوا۔ کام ہوگیا تو پانچویں دن لوٹ آیا اور آکر رپورٹ حضور کی خدمت بابرکت میں پیش کر دی۔ پھر اس پر جب کوئی دو ماہ گزر گئے تو ایک دن رات کے وقت عبدالرحمٰن انور صاحب کو پریشانی کے عالم میں خود کو تلاش کرتے پایا۔ عرض کیا: ’’خیر تو ہے؟‘‘ کہنے لگے’’حضور بظاہر بڑے غصے اور حیرت میں ہیں آپ چلیں۔ میں درد صاحب محترم اور سید ولی اللہ شاہ صاحب کو لے کر آیا‘‘۔
میں پہنچ گیا بلکہ میرے پہنچنے کے ساتھ یہ دونوں بزرگ بھی پہنچ گئے۔ میں نے درد صاحب سے عرض کی کہ ’’مجھے بتا دیں کہ کیا بات ہے‘‘
مگر انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ انہیں ہرگز معلوم نہیں ۔ اتنے میں مجھے بلوایا گیا اور یہ دونوں بزرگ آخری سیڑھیوں پر آکر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا: ’’میں نے تمہیں فلاں کام کے لئے بھیجا تھا؟‘‘
’’حضور وہ تو ہوگیا تھا۔ میں نےحضور کی خدمت میں اس کی رپورٹ بھی پیش کر دی تھی‘‘۔
’’کتنےپیسے خرچ ہوئے تھے؟‘‘
’’شاید ایک سو چالیس یا ایک سو اکتالیس روپے‘‘۔
’’کس سے لئے تھے؟‘‘۔
’’حضور کسی سے نہیں!‘‘۔
’’پرائیویٹ سیکرٹری سے لئے یا درد صاحب سے‘‘۔
’’مگر حضور نے تو فرمایا تھا کہ کسی سے اس کا ذکر نہیں کرنا‘‘۔
’’آخر خرچ تو ہوا۔کیسے کیا۔ کہاں سے لیا۔ تمہارا الاؤنس تو اتنا نہیں ہے‘‘۔
عرض کیا ’’حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ہمارے فیروز پور میں علاقہ مجسٹریٹ بھی رہے ہیں اور اے ڈی ایم بھی ان سے لئے تھے دس روپے ماہوار قسط پر‘‘۔
فرمایا:’’تو گویا یہ سارا سلسلہ ’’بغیر حساب‘‘ہی چلتا رہا‘‘۔
اس کا کوئی جواب مجھ سے بن نہ سکا ۔
’’اچھا ٹھہرو‘‘۔اندر گئے اور ایک بھرا ہوا ہاتھ کرنسی نوٹوں کا لائے۔میں نے جھولی پھیلادی رخصت ملنے پر سیڑھیوں میں تینوں بزرگ میرے انتظار میں تھے۔ کہنے لگے تبدیل کر لو۔ عرض کیا صرف پانچ پانچ کے تین نوٹ تبدیل کر سکتا ہوں۔ کل سات سو اکاون یا سات سو باون روپے کے کرنسی نوٹ تھے۔
مشکل حل ہوگئی
میں حضور کے پریس اتاشی کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ ایک دن مجھے بلوایا ۔ نہیں معلوم کون سی الجھن اس اظہار کا پس منظر تھی۔ حضور نے مجھے بلا کر کہا۔ ’’چونکہ قادیان میں ہمارا سامان لوٹنےوالے یہ لوگ نہ تھے اس لئے ہم نے رتن باغ کا سارا سامان انہیں دے دیا تھا صرف پلنگ رہ گئے جو وہ ساتھ لے جا نہ سکے۔ مگر ان پلنگوں کے لئے بستر بھی تو چاہئیں جو پورے تو کیاہمارے پاس ادھورے بھی نہیں ہیں اس لئے ایسا کرو کہ سمن آباد سے ڈاکٹر حسن صاحب کو ساتھ لو اور لنڈے سے اچھے صاف ستھرے کمبل خرید کر انہیں دھلواؤ‘‘۔
اور اس حکم کی تعمیل حرف بہ حرف ہوئی۔ نیز فرمایا:
’’میں نے سنا ہے کہ ایل ڈی اے کا سیکرٹری تمہارا دوست ہے۔ عرصہ ہوا امّ ناصر کے نام پر ہم نے ایک پلاٹ خریدا تھا جس کے بارے میں اب کچھ یاد نہیں۔ اگر وہ پلاٹ نکل آئے تو شاید اسے فروخت کر کے کچھ ضرورتیں پوری ہوجائیں‘‘۔
عرض کیا: ’’وہ میرا تو صرف دوست ہے مگر اپنے آپ کو حضور کا بھتیجا بھی تو کہتا ہے۔ حضور متحدہ پنجاب کے ڈائریکٹر زراعت خان بہادر مولوی فتح الدین کو تو جانتے ہوں گے‘‘۔
حضور نے فرمایا: ’’ہاں وہ تو ہم سے بڑا تعلق رکھتے تھے۔ گرمیوں میں ڈلہوزی جائیں تو دو ایک دفعہ دعوت ضرور کرتے تھے‘‘۔
’’اسلام (سیکرٹری ایل ڈی اے)انہی کا فرزند اکبر ہے۔ میں اسے کل شام کو حضور کی خدمت میں لے آؤں گا‘‘۔
اسلام آیا اور حضور کی خواہش اور کوشش کے باوجود حضور کے برابر صوفے پر نہیں بلکہ نیچے قالین پر بیٹھا۔ حضور نے اس سے پلاٹ کا ذکر کیا تو اس نے حضرت امّ ناصر کا نام نوٹ کر لیا اور کہا کہ: ’’میں انشاء اللہ پچھلے بیس سال کا ریکارڈ کھنگال ڈالوں گا‘‘۔
اور پھر اس نے اس سلسلہ میں دن رات ایک کر دیئے۔ سرکاری دفتروں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ بعض نے کمشنر سے جڑ دی کہ سیکرٹری صاحب تو ایک پلاٹ کے لئے جو کسی مرزائیہ کا ہے باؤلے ہوئے پھر رہے ہیں۔ کمشنر نے خود ایک دن ان سے کہا:
’’اسلام تم مرزائی تو نہیں ہوگئے یہ پلاٹ کا کیا چکر ہے‘‘۔
اسلام نے جواب دیا’’اگر ہوگیا ہوں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ پلاٹ خردبرد کر لیا جائے یہ بات توشرافت، انصاف اور دیانتداری کے صریحاً خلاف ہے اور اگر حکومتیں بھی ایسا کرنے لگیں تو عوام الناس کیا نہ کریں گے؟‘‘
الحمد للہ بالآخر وہ پلاٹ مل گیا اور اقتصادی مشکلات ایک حد تک حل ہوگئیں۔
(رسالہ لاہور 16؍جنوری 2010ء بحوالہ روزنامہ الفضل مورخہ 20؍فروری 2016ء صفحہ 15)(مرسلہ: حمید اللہ ظفر ۔جرمنی)