اللہ کے رسول اور خلیفۂ وقت کی طوعی اطاعت کے ثمرات (قسط اوّل)
اس وقت دنیا میں مختلف قسم کے نظام چل رہے ہیں لیکن جو نظام اللہ تعالیٰ نے اس دنیامیں چلایا ہے وہ یہ ہے کہ اصل مالک و حاکم اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے اظہار اور مرضی کے لیے رسولوں کا اور نبیوں کا نظام جاری فرمایا اور پھر ان کی وفات کے بعدخلافت کے نظام کو جاری کیا۔
جماعت احمدیہ کے افراد خوش نصیب ہیں کہ انہیں اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑکو ماننے کی توفیق ملی۔ جن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اس آخری زمانے کے مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام ہیں۔
جماعت احمدیہ کے ایک بچے کو بھی نظام خلافت کا وہ ادراک اور سمجھ ہے جو دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں کی عقلوں اور نظروں سے اوجھل ہے اور یہ محض اور محض ہم پرفضل خداوندی اور اس کاانعام ہے۔
اس مضمون میں، جس کا عنوان ہے ’اللہ کے رسول اور خلیفۂ وقت کی طوعی اطاعت کےثمرات‘خاکسار مختلف مثالوں سے یہ بات واضح کرے گا کہ مومنین جب طوعی اطاعت کرتے ہیں تو اس کے ثمرات اس دنیا میں بھی مرتب ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی۔اور بعض اوقات صرف آخرت میں۔ اور بعض اوقات ظاہری طور پر تو کوئی ثمر، پھل یاکامیابی نظر نہیں آتی مگر وہ حیاتِ جاوداں حاصل کرلیتے ہیں اور یہی ان کا ثمر ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (النساء:60)
پھر سورۃ الاحزاب میں اطاعت کا ثمر یوں بیان فرمایا کہ
وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا (الاحزاب:72)
یعنی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔
اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک نمونہ ،تو وہ وقت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے لیے اصحاب رسول اور مومنین سے مشورہ مانگا تو حضرت مقدادؓ نے کھڑے ہو کر یوں عرض کی ۔یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم! ہم آپ سے اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰؑ سے کہا تھا۔
فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدہ:25)
پس تم اور تمہارا ربّ جاؤ اور ان سے جنگ کروہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ لیکن اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا ہے۔ ہم آپ کے سامنے بھی لڑیں گے، دائیں اور بائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو فتح عطا فرمادے۔(اس حدیث کو امام بخاری ، امام نسائی اورامام احمد نے روایت کیا ہے)
پھر دنیا جانتی ہے کہ یہ 313نہتے مسلمان جن میں چھوٹی عمر کے بچے بھی شامل ہوئے تھے۔ انہوں نے اس اطاعت اور قربانی کا مظاہرہ کیا کہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا اور اسی کی یاد میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبدری صحابہؓ کے حالات و واقعات اور مناقب بیان فرمارہے ہیں ۔یہ اس طوعی اطاعت کا ہی ثمرہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس وقت تک جب کہ بے سروسامانی کا عالم تھا اس اطاعت کی برکت کی وجہ سے فوز عظیم عطا فرمائی۔
اطاعت کا ایک اور واقعہ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ سے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا تم میں سے کوئی شخص آگ کے انگارے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا قصد کرتا ہے!رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہاں سے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا: جاؤ اپنی انگوٹھی اٹھالو اور اسے فروخت کر کے ہی نفع حاصل کر لو۔ اس نیک بخت نے کہا خدا کی قسم! جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دیا پھر اس کو میں کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔ یہ تھی طوعی اطاعت۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ دوران خطبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’بیٹھ جائیں‘‘۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ ابھی مسجد سے باہر ہی تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کان میں پڑا۔ اپنے محبوب کی آواز میں اس قدر شوکت تھی کہ پاؤں نے آگے قدم اٹھانے سے انکار کردیا۔ یوں معلوم ہوا کہ گویا کسی نے بریک لگا دی ہے۔ آپ حالت بے اختیاری میں وہیں بیٹھ گئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک دفعہ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگےکہ پھر آپؓ پرندے کی طرح پھدک پھدک کر مسجد پہنچے۔
(ماخوذ از مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ99)
اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا ایک ایمان افروز واقعہ یہ ہے کہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بابا کریم بخش صاحب رضی اللہ عنہ 1905ء یا 1906ء جلسے پر مسجد اقصیٰ قادیان کے پیچھے بازار میں تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے ممبر پر تشریف فرماتھے۔ آپؑ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ بابا کریم بخش کے کان میں جیسے ہی یہ آواز پڑی آپ وہاں بازار میں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی سیڑھیوں تک پہنچے اور تقریر سنی۔
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 672)
بظاہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حکم حاضر افراد کے لیے تھا مگر حضرت بابا کریم بخش صاحبؓ نے نہ چاہا کہ حضورؑ کا یہ حکم سن کے ان پر ایک بھی لمحہ حکم عدولی کا آئے۔ یہی نظارہ چشم فلک نے اس روز دیکھا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو مسند خلافت پر متمکن فرمایا تو آپ نے مسجد فضل لندن کے اندر موجود احباب کے لیے ارشاد فرمایا بیٹھ جائیں۔ طیورِ ابراہیمی کو جیسے جیسے اپنے خلیفہ کا یہ ارشاد پہنچتا گیا یہ بیٹھتے چلے گئے یہاں تک کہ مسجد فضل کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں موجود احمدی اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ یہ قریباً دس ہزار کا مجمع تھا۔ MTAپر کیمرہ کی آنکھ کے ذریعہ کروڑوں انسانوں نے یہ طوعی اطاعت کا منظر دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔
حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓکو اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی کامرانیوں کی معراج تک پہنچایا۔ ایک دفعہ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کی ترقیات کا راز کیا ہے۔آپ نے فوراً جواب دیا۔ میری کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ میں تمام زندگی خلافت کا مکمل مطیع اور فرمانبردار رہا ہوں۔
(الفضل 14؍جون 2010ءصفحہ4)
ایک اور رنگ کی طوعی اطاعت۔ شادی و نکاح
ایک صحابی حضرت سعد الاسودؓ سیاہ رنگ کے تھے۔ ان کی شکل و شباہت ان کی شادی میں روک تھی۔ اور ان کی ظاہری صورت کی وجہ سے کوئی شخص ان کے ساتھ اپنی لڑکی کے رشتہ پر رضا مند نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ کوئی شخص مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ میری ظاہری شکل و صورت اور رنگ ڈھنگ اچھا نہیں۔عمرو بن وہب قبیلہ بنو ثقیف کے ایک نو مسلم تھے۔ جن کی طبیعت میں درشتی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعدؓ سے فرمایا کہ ان کے دروازہ پر جا کر دستک دو۔ اور بعد سلام کہو کہ نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) نے تمہاری لڑکی کارشتہ میرے ساتھ تجویز کیا ہے۔ عمرو بن وہب کی لڑکی شکل و صورت کے علاوہ دماغی اور ذہنی لحاظ سے بھی نمایاں حیثیت رکھتی تھی۔ حضرت سعدؓ ان کے مکان پر پہنچے۔ اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ سلم نےفرمایا اسی طرح کہا۔ عمرو بن وہب نے یہ بات سنی تو آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ اور اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن بات یہیں پرختم نہیں ہوجاتی۔ بلکہ آگے جو کچھ ہوا۔ وہ اس قدر ایمان پرور ہے کہ تمام مذاہب و ملل کی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ خود لڑکی اندر یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔ اس کے باپ نے حضرت سعدؓ کو جو جواب دیا اسے سن کر وہ تو واپس ہوگئے۔ اور اس کے سوا وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ لیکن لڑکی خود باہر نکل آئی۔ حضرت سعدؓ کو آواز دے کر واپس بلایا۔ اور کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میرے ساتھ آپ کی شادی تجویز کی ہے تو پھر اس میں چون و چرا کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے۔ یہ تجویز مجھے بسرو چشم منظور ہے۔ اور میں اس چیز پر بخوشی رضا مند ہوں۔ جو خدا اور اس کے رسول کو پسند ہے۔ اور ایمانی جرأت سے کام لے کر باپ سے کہا کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تجویز سے اختلاف کر کے بہت غلطی کی ہے۔ اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور قبل اس کے کہ وحی الٰہی آپ کو رسوا کر دے۔ اپنی نجات کی فکر کیجیے۔ لڑکی کی اس ایمان افروز تقریر کا اس کے باپ پر بھی خاطرخواہ اثر ہوا۔ ان کو اپنی غلطی کاپوری طرح احساس ہوگیا۔ اور وہ فوراً بھاگے ہوئے دربار نبوی میں پہنچے اور کہا یا رسول اللہ مجھ سے بہت بڑی خطا سرزد ہوئی۔ مجھے سعد کی بات کا یقین نہ آیا تھا۔ اور میں نے خیال کیا کہ وہ یونہی یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اس لیے انکار کیا مگر اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے۔ اور صدق دل سے معافی کا خواستگار ہوں۔ میں نے اپنی لڑکی سعد سے بیاہ دی۔
حضرت جلیب بھی حضرت سعدؓ کی طرح ظاہری طور پر اچھی شکل و صورت کے مالک نہ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انصار کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی کے ساتھ ان کا رشتہ تجویز کیا۔ مگر لڑکی کے ماں باپ کو اس پر اعتراض تھا۔ لڑکی کو اس کا علم ہوا تو قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:
وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ… ۔ (الاحزاب:37)
اور کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اپنے معاملہ میں اُن کو فیصلہ کا اختیار باقی رہے۔
اس صریح حکم خدا وندی کے ہوتے ہوئے میں حیران ہوں کہ آپ اس تجویز کے کیوں مخالف ہیں۔ میں رشتہ پر رضامند ہوں۔ جو مرضی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہے وہی میری ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو بہت مسرور ہوئے۔
(ماخوذ ازمسلمان نوجوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ 98۔99)
والفضل ما شھدت بہ الاعداء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ آپ کے صحابہؓ کے اخلاص کو دیکھ کر وُہ عیسائی مورخین بھی جو مسلمانوں اور ان کے مذہب پر خوامخواہ اعتراض پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ ایک عیسائی مورخ لکھتا ہےکہ
’’عیسائی اس کو یاد رکھیں ۔ تو اچھا ہو۔ کہ محمدؐ کے مسائل نے وُہ درجہ نشہ دین کا آپ کے پَیروؤں میں پیدا کر دیا تھا کہ جس کو حضرت مسیحؑ کے ابتدائی حواریوں میں تلاش کرنا بےسود ہے جب حضرت مسیح کو یہود صلیب پر لٹکانے لگے۔ تو ان کے پَیرو بھاگ گئے اور ان کا نشہ دینی جاتا رہا۔ اور اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر چل دیئے برعکس اس کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے پَیرو اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپ کو غالب کر دیا۔‘‘
(سیرت النبیؐ جلد اوّل،از علامہ شبلی نعمانی صفحہ 139-142)
بیٹے کی خلیفۂ وقت کے فرمان کی اطاعت
ایک رات امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ اپنے خادم کے ساتھ گشت کے لیے نکلے ۔ حضرت عمر بن خطاب ؓساڑھے دس سال منصب خلافت پر فائز رہے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت آپؓ کے عہد کا زریں کارنامہ ہے۔ آپؓ اسلام کے بہت بڑے جرنیل تھے۔
چنانچہ جب آپؓ گشت کے لیے نکلے تو اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ خود مدینہ کے لوگوں کے حالات معلوم کریں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ چنانچہ آپؓ چلتے چلتے تھک گئے تھے۔ اور ایک دیوار کے ساتھ سہارا لے کر آرام کی خاطر کھڑے ہوگئے اور یہ قریباً صبح روشن ہونے والی تھی کہ اس گھر کے اندر سے ایک بوڑھی عورت کی آواز آئی جو اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کا حکم دے رہی تھی۔ لیکن لڑکی ماں کے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ امیر المومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہوا ہے اور بذریعہ منادی اس کا اعلان بھی کرا دیا ہے۔ ماں نے بیٹی سے کہا: کیا اس وقت عمر تمہیں دیکھ رہا ہے جو تم اس سے ڈر رہی ہو؟ لڑکی نے جواب دیا:وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ عُمَرُ یَرَانَا فَأِنَّ رَبَّ عُمَرَ یَرَانَا۔ ’’اگر عمر ہمیں نہیں دیکھ رہا تو کیا ہوا، عمر کا رب تو یقیناً ہمیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
حضرت عمر بن خطابؓ اس نوجوان لڑکی کی دینداری و امانت سے بہت مسرور اور متاثر ہوئے۔ غلام سے فرمایا کہ اس گھر کو نظر میں رکھو۔ دن چڑھے اس لڑکی کے بارے میں پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ وہ سفیان بن عبداللہ ثقفی ؓ کی بیٹی امّ عمارہ ہے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ وہ ابھی کنواری ہے تو حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے تمام بیٹوں کو بلوایا اور پوچھا کہ تم میں سے کون اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے؟ ان کے بیٹے عاصم کہنے لگے کہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ان کے لیے امیرالمومنین نے اس لڑکی کا رشتہ مانگ لیا اور عاصم کی شادی اس نیک بخت لڑکی سے ہوگئی۔ عاصم کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ اس کا نام امّ عاصم رکھا گیا۔ یہ عمر فاروقؓ کی پوتی تھیں۔ جب سن بلوغت کو پہنچیں تو ان کی شادی مروان بن حکم کے بیٹے عبدالعزیز سے ہوئی۔ اب امّ عاصم کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام انہوں نے اپنے دادا کے نام پر عمر رکھا، عمر بن عبدالعزیز ۔ ان کے دور میں اسلام کا شباب لوٹ آیا تھا۔ یہ ثمرہ تھا ایک نیک اور متقی لڑکی کی خدا خوفی کا اور بیٹے کی اپنے باپ کی اطاعت کا اور باپ بھی وہ جو خلیفۃ الرسول ہے۔ اور جس سے پتہ لگ گیا یا لگ جانا چاہیے کہ بشاشت کے ساتھ اطاعت کرنے سے خدا تعالیٰ کی رضا اور ثمرات مرتب ہوتے ہیں۔
(ماخوذ از کتاب سنہرے نقوش مرتبہ عبدالمالک مجاہد)
(تاریخ عمر بن خطابؓ تالیف علامہ ابن جوزی صفحہ 104)
حضرت خالد بن ولیدؓ کی خلیفۂ وقت کی اطاعت کی طوعی و نادر مثال
حضرت مصلح موعودؓنے 9؍دسمبر 1955ء کو حضرت مولانا عبدالرحیم دردصاحبؓ کی وفات کے موقع پر نوجوانوں کو حضرت خالد بن ولید ؓ کی مثال دے کر یوں سمجھایا:
’’پس میں نوجوانوں کو کہتاہوں کہ وہ دین کی خدمت کے لیے آگے آئیں اور صرف آگے ہی نہ آئیں بلکہ اس ارادہ سے آگے آئیں کہ انہوں نے کام کرنا ہے۔ گو حضرت خالدبن ولیدؓ نوجوان آدمی تھے حضرت عمرؓ نے آپ کی جگہ حضرت ابوعبیدہ ؓ بن الجراحؓ کو کمانڈرانچیف مقرر کر دیا۔ اس وقت حضرت خالدبن ولید ؓکی پوزیشن ایسی تھی کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے خیال کیاکہ اس وقت ان سے کمانڈ لینا مناسب نہیں۔حضرت خالدبن ولیدؓ کو اپنی برطرفی کا کسی طرح علم ہوگیا۔وہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے پاس میری برطرفی کا حکم آیا ہے لیکن آپ نے ابھی تک اس حکم کو نافذ نہیں کیا۔حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے کہا ۔خالد تم نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کی ہے اب بھی تم خدمت کرتے چلے جاؤ۔ خالدؓ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن خلیفہ وقت کا حکم ماننا بھی ضروری ہے۔ آپ مجھے برطرف کر دیں اور کمانڈرانچیف کا عہدہ خود سنبھال لیں۔ میرے سپرد آپ چپڑاسی کا کام بھی کردیں گے تو میں اسے خوشی سے کروں گا لیکن خلیفہ وقت کا حکم بہرحال جاری ہونا چاہیئے۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے کہا کمان تو مجھے لینی ہی پڑے گی کیونکہ خلیفہ وقت کی طرف یہ حکم آچکا ہے لیکن تم کام کرتے جاؤ۔خالدؓ نے کہا آپ حکم دیتے جائیں میں کام کرتا جاؤں گا۔‘‘
(مشعل راہ جلد اول صفحہ 739)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اطاعت
ماسٹر اللہ دتّہ صاحب سیالکوٹی کا بیان ہے کہ
1900ء یا 1901ء کا واقعہ ہے کہ میں دارالامان میں موجود تھا۔ ان دنوں ایک نواب صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں علاج کے لئے آئے ہوئے تھے۔ جن کے لیے ایک الگ مکان تھا۔ ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحبؓ کے پاس آئے جن میں ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لئے نواب صاحب کا منشا ہے کہ آپ اُن کے ہمراہ وہاں تشریف لے جائیں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں اپنی جان کا مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے۔ اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے۔ پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ حضور نے فرمایا۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے لیکن مولوی صاحب کے وجود سے ہزاروں لوگوں کو ہر وقت فیض پہنچتا ہے۔ قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں ایک دنیاداری کے کام کے لئے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے۔
اس دن جب عصر کے بعد درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے۔ فرمایا۔ مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے اور وہ یہ کہ میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ میرے آقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبودیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا۔
ایک اور واقعہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کے قابلِ شادی لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک فہرست تیار فرمائی تھی اور اسے آپ نہایت ہی احتیاط سے محفوظ رکھا کرتے تھے اور عموماً جو کوئی احمدی اپنی لڑکی یا لڑکے کے لیے رشتہ معلوم کرنا چاہتا۔ حضور اس کے مناسب حال اسے رشتہ بتا دیا کرتے تھے اور ہر شخص حضور کے تجویز فرمودہ رشتہ کو بطیب خاطر منظور کر لیتا تھا۔ مگر ایک مرتبہ جب ایک شخص کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کو ارشاد فرمایا تو اس نے منظور نہ کیا۔ اس پر حضورؑ کو بہت تکلیف ہوئی ۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کا بیان ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے جس قدر آدمی ہیں۔ سب کو حضور علیہ السلام سے اپنے اپنے طریق پر محبت تھی مگر جس قدر ادب و محبت حضور سے حضرت خلیفۂ اول ؓ کو تھی۔ اس کی نظیر تلاش کرنی مشکل ہے۔ چنانچہ ایک دن میں حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ وہاں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کر دینے کے لئے فرمایا مگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقاً اس وقت مرحومہ امۃ الحئ صاحبہ بھی جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آ گئیں۔ حضرت مولوی صاحب اس دوست کا ذکر سن کر جوش سے فرمانے لگے کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی لڑکی کو نہالی کے لڑکے کو دے دو تو میں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔‘‘
(حیات نور صفحہ 186تا188)
نوٹ: نہالی ایک مہترانی تھی جو حضرت صاحبؑ کے گھر میں کماتی تھی۔ (بیت الخلاء وغیرہ کو صاف کرنا اور پھر اسے سر پر اٹھا کر باہر پھینکنے کاکام کرنا)
حضرت خلیفہ اولؓ کو اس بات سے تکلیف پہنچی کہ کیوں اس شخص نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اطاعت نہ کی۔ اور اپنی اطاعت کے جوش میں مندرجہ بالا بات کہی۔ پھر خدا تعالیٰ نے اس کا ثمر کیا دیا؟ کہ وہی بچی امۃ الحئی خدا کے فرستادہ حضرت امام الزمان کے بیٹے حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں آئیں۔ جن سے پھر 3 بچے پیدا ہوئے۔ مرزا خلیل احمد صاحب مرحوم ، صاحبزادی امۃ القیوم صاحبہ اہلیہ مکرم محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم اور صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ اہلیہ میاں عبدالرحیم احمدصاحب۔
خدا تعالیٰ نے باطنی انعامات کے علاوہ ظاہری انعامات سے بھی نوازا اور آج ان کی ساری اولادیں امریکہ میں خداتعالیٰ کے فضل سے اچھے عہدوں پر ہیں۔ اور سب نے خدمت دین کی توفیق پائی۔ اور پا رہے ہیں۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭