خلافت کی اطاعت کے بابرکت ثمرات
معزز قارئین کرام ! اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان عظیم ہے کہ اُس نے ہمیں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لانے اور آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا مسیح اور مہدی ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور آپ کے بعد قائم شدہ قدرت ثانیہ یعنی خلافت کی بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ انعام سب انعاموں سے بڑھ کر ہے اور یہ احسان سب احسانوں سے بڑھ کر ہے ۔دنیا کی تمام دولتیں اس احسان و انعام کے مقابل پر ہیچ ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آج روئے زمین پر صرف ہمیں ،ہاں صرف ہمیں ایک عظیم امانت کا امین بنایا ہے اور عظیم الشان انعام سے نوازا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سارے اکناف عالم میں آج صرف اور صرف جماعت احمدیہ کو یہ اعزاز اور سعادت عطا کی ہے کہ وہ
وَھِیَ الْجَمَاعَۃُ
کی حقیقی مصداق ہے۔اور یہی وہ جماعت ہے جو ایک واجب الاطاعت امام کی بیعت میںبُنیانِ مرصوصکا نقشہ پیش کررہی ہے۔ روئے زمین پر یہی ایک جماعت ہے جو ایک آواز پر اُٹھتی اور ایک آواز پر بیٹھتی ہے ۔ اس اطاعت کے نتیجے میںجماعت احمدیہ مسلمہ پر خدا تعالیٰ کے افضال موسلادھار بارش کی طرح نازل ہو رہےہیں۔
حضرت مصلح موعود ؓخلافت کی بیشمار برکات اور ثمرات کا ذکر کرتےہوئےایک مقام پر فرماتےہیں کہ
’’دیکھو ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کررہے ہیں مگر تم نے کبھی غور کیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے؟ ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے،اکٹھے ہوگئے ہیں اور اجتماعی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کےلئے کوشش کررہے ہیں۔ وہ بظاہر چند افراد نظر آتے ہیں مگر ان میں ایسی قوت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سرانجام دے سکتے ہیں۔ جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گرتا ہے پھر وہی قطرے دھاریں بن جاتی ہیں اور وہی دھاریں ایک بہنے والے دریا کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔اس طرح ہمیں زیادہ قوت اور شوکت حاصل ہوتی چلی جارہی ہے… اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی نعمت عطا کی ہے۔‘‘
(روزنامہ الفضل ربوہ25؍مارچ1951ء)
اسی طرح فرمایا:
’’اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو۔ ہمیشہ اسلام نے خلفاء کے ذریعہ ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا۔‘‘
(درس القرآن صفحہ 72مطبوعہ نومبر 1921ء)
خلافت کے استحکام اور بقا کےلیے ضروری ہے کہ امام وقت کی کامل اطاعت اور وفاداری کا بہترین نمونہ دکھایا جائے۔
قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں متعدد جگہوں پر امام کی اطاعت کی تلقین فرمائی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا۔ (الاحزاب :72)
یعنی جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ یقیناً بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کامقصد قوم کو متحد کرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے ۔یہ جو لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کے مانند پروئی ہوئی ہے اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ۔ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہوں تو خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں ۔ اگر قدرت ثانیہ نہ ہو تو اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا ، پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص اور محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کا داعی بنائیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل23؍مئی2003ءصفحہ1)
اپنے ایک پیغام میں پیارے حضور خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احباب جماعت کو فرمایا:
’’یہ خلافت کی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے ۔اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں۔ پوری طرح سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے ۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے۔ خلیفہ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفہ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہو جائے۔‘‘
(ماہنامہ خالد ربوہ سیدنا طاہر نمبر مارچ اپریل2004ء)
خلافت کی اطاعت کے ثمرات
آج کے اس مضمون میںخاکسار خلافت کے عظیم الشان ثمرات کے متعلق اپنے ذاتی تجربات اور واقعات عرض کرنا چاہتا ہے۔
محترم والد صاحب کا خلیفہ وقت کی ہدایت پر افریقہ جانا اور دیرینہ خواب کی تکمیل
مَیں جب پیدا ہوا تو میرےوالد صاحب راولپنڈی میں آرسنل میں ملازم تھےاور اس زمانہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے تحریک جدید کی تحریک فرمائی تھی۔اور جب یہ تحریک شروع ہوئی تو اس کا اصل مقصد یہی تھا کہ اسلام احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو پھیلایا جائے۔اور اس غرض سے بہت سارے مخلص احمدی اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے حضورؓ کے قدموں میں آکر گرے اور حضورؓ پھر وفود بنا کر ان کو ہندوستان میں قریب قریب کے علاقہ جات میں تبلیغ کے لیےبھجوایا کرتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب جماعت مالی لحاظ سے بہت کمزور تھی اور کوئی ایسے وسائل بھی نہیں تھے کہ سفر کرنے والوں کے اخراجات برداشت ہو سکیں۔ تو جب یہ تحریک ہوئی تو میرے والد صاحب بھی قادیان آ گئے۔اور اس تحریک میں شامل ہوئے۔اور ہم بھی (اس وقت میری والدہ اور ایک بہن تھیں)اپنے والد صاحب کےساتھ قادیان آگئے۔ میرے والد صاحب اس تحریک میں شامل ہوئے۔حضورؓ ان کو وفود کا امیر بنا کر ہوشیار پور کے علاقہ مکیریاں میں بھجوایا کرتے تھے۔ میرے ابا بتایا کرتے تھے کہ اس زمانے میں سفر کا کوئی ذریعہ نہیں تھا،قادیان سے پیدل چلنا اور ہوشیار پور تک جانا۔اور بعض دفعہ سخت گرمی کے موسم میں پیاس سے ان کا برا حال ہو رہا ہوتا تھا اور اس علاقے میں ہیضہ پھیلا ہوتا تھااور ہیضہ کی وجہ سے پانی پینا بھی منع تھا۔ تو نہ ان کو پانی ملتا تھا اور وہ سارا سفرپیدل کرتے تھے۔یعنی یہ وہ ابتدائی قربانیوں کا زمانہ تھاجو حضرت مصلح موعود ؓ کے پیش نظر تھا کہ احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانا ہے۔اور تحریک جدید کا یہی مقصد تھا اور آج بھی یہی مقصد ہےکہ احمدیت کا پیغام ساری دنیا کے کونے کونےتک پہنچے۔
اس کے بعد حضور ؓ نے فرمایا کہ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں وہ ممالک غیر میں جائیں۔اور وہاں جا کر اپنی کمائی سے اپنا گزارہ کریں اور تبلیغ کریں۔یہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ میرے والد صاحب نے بی اے کیا ہو اتھا۔پڑھے لکھے تھے۔چنانچہ حضورؓ نےمیرے والد صاحب کو فرمایا کہ آپ مشرقی افریقہ چلے جائیں۔ چنانچہ میرے والد صاحب1936-1937ء میں قادیان سے مشرقی افریقہ چلے گئے۔جب حضورؓ کا مشرقی افریقہ جانے کا ارشاد موصول ہوا تومیرے والدصاحب بتاتے تھے کہ جب وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے تو انہوں نے ایک خواب دیکھا۔خواب میں دیکھا کہ وہ کسی بحری جہاز میں سفر کر رہے ہیں۔اور وہ جہاز ایک جگہ آ کر کنارے لگتا ہے۔اور جب وہ کھڑے ہو کر باہر دیکھتے ہیںتو وہاں پر بہت بڑا تختہ ہے اس کے اوپر لکھا ہوا ہے ’’ ممباسہ‘‘تو یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔غالباً 13 سال کے ہوں گے۔ لیکن جب حضورؓ کا یہ ارشاد ان کو ملا تو ان کے ذہن میں یہ خواب نہیں تھا۔ لیکن جب وہ مشرقی افریقہ گئے اور جہاز وہاں کنارے لگا تو سامنے وہی صورت دیکھی کہ بڑا بورڈ ہے اور اس کے اوپر ’’ممباسہ ‘‘لکھا ہوا ہے۔چنانچہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان کا پرانا خواب پورا کیا اور وہ ایسٹ افریقہ پہنچ گئے۔
قادیان کے پاکیزہ ماحول کا میسر آنا
ان کے جانے کے بعد ہم لوگ قادیان میں ہی تھے، ان کے ساتھ نہیں جا سکتےتھے اور یہی پروگرام تھا کہ وہ جب وہاں پر تھوڑا سیٹ ہو جائیں گے تو ہم لوگ بھی چلے جائیں گے۔ اس زمانے میں اس قسم کے سفر صرف بحری جہازوں سے ہوتے تھے۔ہوائی جہاز وغیرہ نہیں تھے۔1939ء میں جنگ عظیم شروع ہو گئی جس کی وجہ سے بحری جہازوں کا آنا جانا بند ہو گیا۔کیونکہ خطرہ تھا کہ کہیں مسافروں کو لے کر جانے والے جہازپر حملہ نہ ہو جائے۔ چنانچہ پھر ہمارا جانا رُک گیا۔اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاص برکت تھی۔اور وہ یہ تھی کہ میں چھوٹا تھا اور مجھے قادیان کے پاکیزہ ماحول میں چند سال رہنے کی توفیق ملی۔ وہ عجیب قسم کا زمانہ تھا۔احمدیوں میں ایک ایسا ولولہ ، ایک ایسا جوش و خروش تھاجس کی مثال نہیں ملتی ۔یہ وہ زمانہ تھا جب احرار اپنے زوروں پر تھے۔اور ان کے جلسے ہوتے تھے، جلوس نکلتے تھے،جو بھی انہوں نے کہنا ہوتا تھا جماعت کے خلاف وہ کہتے تھےلیکن اس طرف اللہ تعالیٰ کے شیر حضرت مصلح موعود ؓکھڑے ہوتے تھے اور ان کی گرج سے یہ احرار ایسے سمٹ جاتے تھے جیسے کوئی چھوٹا سا جانور ہو اور وہ ڈر خوف سے چھپتا پھرے۔لیکن اس کی وجہ سے جماعت کے اندرایک زبردست ولولہ اور جوش و خروش تھا۔ایسا لگتا تھا کہ دن رات ہم سب نہ سو رہےہیں نہ جاگ رہے ہیںاوربس دعائوں میں لگے ہوئے ہیں۔ حضورؓ کے خطابات ہو رہے ہیں، جلسے ہو رہے ہیں، قادیان میں ہی نہیں بلکہ باہر بھی عجیب سا ماحول تھا۔اور اس پاکیزہ ماحول میں جہاں ہر ایک اپنی جان ہتھیلی پر لے کر جماعت کےلیے تیار کھڑا تھا اس میں پھر جو تربیت ہوئی،اوراس کا اثر وہ ذہن پر بھی ، دل پر بھی، اعمال پر بھی ہمیشہ کےلیے نقش ہو گیا۔ایک ایسی زبردست بنیاد بنی کہ وہ پھر ہمیشہ ساری زندگی کام آتی رہی اور اس سے پھر جہاں بھی اللہ تعالیٰ لے کر گیا، دل میں ایک جذبہ کہ جماعت کےلیے ہر چیز قربان کرنی ہے ہمیشہ تازہ دم رہا۔
ٹانگا نیکا میں مبلغین کی صحبت کا ملنا
خاکسار جنگ عظیم دوئم کے بعد افریقہ گیا تو اس زمانے میں وہاں پر بھی حضورؓ نے شروع شروع میں مبلغین بھجوائے۔1946ء میں یعنی یہ جنگ ختم ہونے کے ایک سال بعد ہی قادیان سے قریباً 7-8 مبلغین کا ایک قافلہ مشرقی افریقہ میںگیا تھا۔ان میں سےٹانگانیکا کے شہر ٹانگا جہاں ہم رہتے تھے وہاں مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب مبلغ سلسلہ کی تقرری ہوئی۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی ۔ میرا سارا فارغ وقت ان مبلغ سلسلہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ اسکول سے آنا تو مبلغ صاحب کے ساتھ ہی وقت گزارنا۔ یہ مبلغین اور ہی رنگ رکھتے تھے۔ان کی جان مال اور وقت ساراکچھ تبلیغ کےلیے قربان ہوتا ۔اور ان کے ساتھ مَیں نے چلے جانا اور پھر ان کی معیت میں تبلیغ کا بھی شوق پیدا ہو گیا۔تربیتی لحاظ سے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانے سے ہی یہ چیزیں زندگی کا ایک حصہ بن گئیں۔پھر ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اطاعت کاسبق جوقادیان سے سیکھا تھا، اس کو ہمیشہ تازہ دم رکھاکہ والدین کی اطاعت کے ساتھ ساتھ مبلغین کی بھی اطاعت کرنی ہے۔کیونکہ ذہن میں یہی تھا کہ مبلغین کی اطاعت کریں گے تو خلیفہ وقت کی اطاعت ہوگی۔خلیفہ وقت کی اطاعت کریں گے تو حضرت مسیح موعود ؑکی اطاعت ہوگی اور حضرت مسیح موعودؑکی اطاعت کریں گے تو پھر رسول کریم ﷺ کی اطاعت ہوگی اور پھراللہ کی اطاعت ہوگی۔اس کےلیے کم از کم ایک نیت، ایک خواہش کا دل میں پیدا ہوناکہ میں ایسا بن سکوںیا میں ایسے کرسکوں وہ بھی میں سمجھتا ہوں بہت بڑی بات ہوتی ہے۔اور اللہ کے افضال اور اس کی رحمتوں کو جذب کرنے والی بات ہوتی ہے۔اسی طریق پر پھر میں آگے بڑھتا گیا۔ مشرقی افریقہ میں جتنے بھی سال گزرےوہ اللہ کے فضل سے دینی کاموں میں گزرے اورابتدائی تعلیم کچھ قادیان میں ہوئی اور پھر آگے کی تعلیم ٹانگا، ٹانگا نیکا ،مشرقی افریقہ میں ہوئی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹانگا نیکا میں ہوئی۔ ملازمت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے محکمہ تعلیم میں ملی۔تعلیم کے محکمہ میں مَیں انسپکٹر بھی رہا، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بھی رہا۔ مختلف شعبوں میں کام کرنے کی توفیق ملتی رہی۔
خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی عظیم برکات اور ثمرات
بر اعظم افریقہ کی تاریخ میں ایک ایسا مرحلہ آیا جب افریقہ کے ممالک آزادی کے طالب ہو گئے۔یہ 61-1960ء کی بات ہےجب کثرت سے افریقہ کے ممالک کو آزادی ملنی شروع ہو گئی۔اس سے پہلے جو مشرقی افریقہ تھا یعنی کینیا ، یوگنڈا اور ٹانگانیکایہ ایک ہی گورننس کے تحت تھے۔یعنی ایک ہی گورنر تھا۔جب آزادی ملی تو تینوں ملک الگ الگ ہو گئے۔یوگنڈا کی الگ حکومت بن گئی، کینیا کی الگ حکومت بن گئی اور ٹانگانیکا کی الگ حکومت بن گئی۔ٹانگا نیکا کے قریب ہی ایک جزیرہ ہے جس کا نام ہے زنجبار، اس جزیرہ پر عربوں کی حکومت تھی۔تاریخ کے مطابق شروع سے ہی جب عرب مشرقی افریقہ گئے تو انہوں نے زنجبار کو اپنا مرکز بنایا۔لیکن جب ٹانگا نیکا آزاد ہوا تو ان سے برداشت نہیں ہوا کہ اتنے قریب ایک مسلمان حکومت ہو۔چنانچہ انہوں نے زبردستی فوجی کارروائی کر کے اس جزیرہ کو ٹانگا نیکا میں ملا لیا اور اس کا نیانام ’’تنزانیہ‘‘ رکھا۔چنانچہ آج کل وہ ملک تنزانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔آزادی کے بعد افریقن لوگ جو انگریزوں اور ایشیائیوںکا طرز زندگی دیکھتے آئے تھے جن کےپاس دولت تھی ،کاریں تھیں بڑے گھر تھے۔افریقن چاہتے تھے کہ یہ سب آسائشیں ان کو بغیر محنت کے راتو ں رات مل جائیں۔یہ لوگ یہاں سے چلے جائیں اور یہ سب کچھ ہمارے حوالے کر دیں۔حکومت اپنی طرف سے کوشش میں تھی کہ یہ سارے معاملات امن و امان سے طے ہو جائیں۔لیکن عوام نے اس کےلیے تشدد کاراستہ اختیار کرنا شروع کردیا اور پھر سارے ملک میںانگریزو ں کے خلاف اور ایشین لوگوں کے خلاف لوٹ ماراورچوری چکاری اتنی زیادہ ہوگئی کہ حکومت نے ایک سکیم بنائی کہ جو بھی انگریزیا ایشیائی وہاں پر ملازم ہیںوہ ملک سے نکل جائیں اوران کو کچھ رقم اور سہولتیں بھی دے دی گئیں۔چنانچہ اس سکیم کے تحت تقریباً سارے احمدی دوست جو ملازمتوں میںتھے وہ ملک چھوڑ کرکچھ برطانیہ آگئے یا کینیڈا چلے گئے۔
1965ءیا1966ء میںحالات خطرناک حد تک خراب ہو گئے۔ اُس وقت میں نے کہا کہ باہر جانے کا فیصلہ میںخود نہیںکرتا کہ کہاں جانا بہتر ہوگایہ اللہ بہتر جانتا ہے یا پھر اس کا خلیفہ جانتا ہے۔وہ زمانہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکا تھا۔چنانچہ میں نے حضور ؒ کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں کہا کہ حضور کے علم میں ہے کہ آج کل تشدد کے حالات یہاں پیدا ہو گئے ہیں اور ان حالات میں خطرہ ہے۔ بہت سارے ہمارے دوست یہاں سے ملازمت چھوڑ کرچلےگئے ہیں۔میری خواہش ہے کہ حضورمیری راہ نمائی کریںکہ میں برطانیہ جاؤں یا کینیڈا جاؤں۔ جس پر حضورؒ کا جواب آیا کہ آ پ نے نہ برطانیہ جانا ہے نہ کینیڈا جانا ہے ۔تنزانیہ میں ہی رہیں۔وہ خط جب میں نے پڑھاتو میں مسجد گیا اور وہاں ہمارے مربی صاحب سے میں نے ذکر کیا کہ یہ جواب آیا ہے۔جو ہمارے صدر جماعت تھے،ان سے ذکر کیا توانہوں نے کہا کہ آپ نے صحیح طریقے سے لکھا نہیں ہے۔آپ حضرت صاحبؒ کوتفصیل سے یہاں کے حالات لکھیں تا حضور ؒجو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔میں گھر آگیااور یہ طےکرلیا کہ میں نےاس خط کے جواب میں اب حضورؒکو کچھ نہیںلکھنا۔ جو حضورؒ نے لکھا ہے میں نےبالکل وہی کرنا ہے۔
میرےپاس اس وقت برٹش شہریت تھی کیونکہ میں انڈیا سے پارٹیشن سے پہلے چلا آیا تھا۔اس زمانہ میں انڈیا میں سب کے پاسپورٹ برٹش سبجیکٹ کے ہوتے تھے۔اس پاسپورٹ پرانگلستان آنے کےلیے کوئی ویزا نہیں چاہیے ہوتا تھا۔یہاں (برطانیہ)جو دوست اُس وقت آئے تھے وہ سب اُسی پاسپورٹ پر آئے تھے،کسی ویزہ کی ضرورت نہیں تھی۔چنانچہ میں بھی اُسی پاسپورٹ پر آسکتا تھا۔لیکن اب چونکہ حضور ؒ کا حکم ملا کہ وہاں سےکہیں نہیں جانا۔چنانچہ اس عاجز نے ارشاد کی تعمیل کی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا ملازمت کا ریکارڈ بہت اچھا تھا۔جب گورنمنٹ کو یہ پتہ چلا کہ میں اپنی یوکے کی شہریت چھوڑ کرتنزانیہ کی شہریت لینا چاہ رہا ہوںتو وہ بہت خوش ہوئے۔مجھے تنزانیہ کی شہریت بہت کم عرصے میںیعنی تین چارماہ میں ہی مل گئی۔جب میںیوکے کی شہریت ختم کرنے کےلیے ان کے ہائی کمیشن میں گیا تو وہ حیران ہوکر مجھے دیکھنے لگے کہ یہ بندہ اپنے ہاتھ سےاپنامستقبل ختم کررہا ہے۔اُن کوبھی ملکی حالات کاعلم تھا ۔ بہرحال میںنے یوکے کی شہریت ختم کردی اور تنزانیہ کی شہریت لے لی۔یہ سب اللہ کی دی ہوئی توفیق اور خلیفہ وقت کی اطاعت سے ہی ممکن ہوا۔ ورنہ خاکسار تو ایک عاجز بندہ ہے۔
برکتوں اور ثمرات کا لامتناہی سلسلہ
اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوںکہ آگے چل کرتنزانیہ کی شہریت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے بیشمار برکتیں عطا کیں۔اس میں سے سب سے بڑی برکت یہ تھی کہ عالمی ادارے جیسےکامن ویلتھ یا یونائیٹڈ نیشنز ہیںان کا طریق یہ ہوتا ہے کہ یہ ادارے اپنے ممبر ممالک کے کچھ نہ کچھ لوگ ملازمت میں لے لیتے ہیں۔تو تنزانین ہونے کی وجہ سےجب موقع پیدا ہواتو میرا نام کامن ویلتھ کو ملازمت کےلیے بھجوا دیا گیا۔اب یہ صرف اس لیے ہوا کہ میرےپاس تنزانیہ کی شہریت تھی۔ اگر میں برٹش ہوتاتو اس کا کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔میرا نام تنزانیہ کی لسٹ میںچلا گیااور پھر منظور بھی ہوگیا۔اللہ نے ایسے سامان پیدا کردیے کہ میںباعزت طور پر ایک اچھی ملازمت کے ساتھ وہاں سے نکلا۔ تویہ اطاعت کی ایک برکت اور شیریں ثمر تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہوا کہ جب مجھے تنزانیہ کی شہریت ملی تو اس وقت ایک ڈپلومیٹک تنازعہ تنزانیہ اور یوکے کے درمیان چل رہا تھا۔وہ تنازعہ یہ تھا کہ برطانیہ جنوبی افریقہ کو اسلحہ سپلائی کر رہا تھا۔جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز اور منافرت کا زمانہ تھا۔اوربرطانیہ سے بھیجا ہوا اسلحہ افریقنوںکےخلاف استعمال ہوتا تھا۔چنانچہ تنزانیہ اوربہت سارے افریقہ کے ممالک نے برطانیہ کے ساتھ ڈپلومیٹک تعلقات ختم کردیےتھے۔اورتعلقات ختم کرنے کے نتیجے میں یہ ہوا کہ برطانیہ نے جو ٹیکنیکل ماہرین مدد کےلیے بھجوائے ہوئے تھےوہ سب انہوں نے واپس بلا لیے ۔اس کی وجہ سے وہاں پر جو بڑے عہدے تھے وہ خالی ہوگئےتو تنزانیہ کی حکومت نے مجھے ایک بڑے عہدہ (ہیڈآف ٹیچر ایجوکیشن) پر فائز کردیا تو میں نے انہیں کہا کہ آپ نے مجھے یہ عہدہ دیا ہے لیکن اس کام کےلیے میں کوالیفائیڈ نہیں ہوں۔کام اچھی طرح سے ہونا چاہیے تو اس کےلیے آدمی بھی کوالیفائیڈ ہوناچاہیے۔وہ کہنے لگے اس کی آپ فکر نہ کریں ہم اسے دیکھیں گے۔
1972ءمیں انہوں نے کہا کہ ہم تمہیں برطانیہ اعلیٰ تعلیم کےلیے بھجوانا چاہتے ہیں اس کےلیے ہم کوشش کررہے ہیں کہ تمہارے لیے سکالرشپ کا انتظام ہو جائے ۔انہوں نے اس کےلیے کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے ۔
1972ءدسمبر میںمَیںپہلے ربوہ گیااور وہاں سے پھر میں قادیان گیا ۔ قادیان میں مہمان خانہ میں قیام تھا۔ اس وقت حضرت عبد الرحمٰن جٹ صاحبؓ مرحوم و مغفور امیر تھے۔وہاں ہوتے ہوئے میرا معمول بن گیا کہ فجر کے بعد میں دُعا کرنے کےلیے بہشتی مقبرہ اکثر ان کے ساتھ ہی چلا جایا کرتاتھا۔ دُعا کرکے ہم جب واپس آتےتو بعض دفعہ حضرت جٹ صاحبؓ میرے کمرے میں آجاتے اور دو چار منٹ بیٹھتے، پھر چلے جاتے۔ ایک دن وہ آئے تو میں نےان سے عرض کیا کہ مولوی صاحب میرا ایک مسئلہ ہےکہ تنزانیہ کی حکومت میرے لیے سکالرشپ کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ مل نہیں رہا تو اس کےلیے دعا کی درخواست ہے۔مکرم امیر صاحب نے فرمایا کہ اچھا چلو دُعا کرلیتے ہیں۔وہ چارپائی کے ایک طرف بیٹھ گئے اور میں دوسری طرف ۔ آپ نے لمبی دُعا کروائی اور دُعا کرانے کے بعدوہ جانے کےلیےکھڑے ہوئے اور مجھے صرف اتنا کہا ’’مبارک ہو‘‘اور چلے گئے۔
یہ بات میرے دل میں ایسی بیٹھ گئی کہ یہ مبارک الفاظ ہیں، اللہ تعالیٰ ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکالے گا۔بہرحال بات آئی گئی ہوگئی۔ جب میں اپنی چھٹی گزارنےکے بعد واپس تنزانیہ آیا توکوئی دو ہفتے بعدمجھے حکومت کی طرف سے چٹھی آئی کہ تمہارے لیے کامن ویلتھ فیلوشپ کا انتظام ہوگیا ہےاور تم تیاری کرلوتم نے یوکے جانا ہے۔چنانچہ مجھے یہاںنیو کاسل یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا اس وجہ سے کہ میں تنزانین تھا۔وہاں تعلیم میں مَیں نے اچھا معیار حاصل کرلیا اور اللہ کے فضل سے اچھا نتیجہ نکلا۔انگریزی زبان کے مضمون میں مَیں اوّل آیا۔ اس بنا پر انہوں نے میری سکالرشپ بھی بڑھادی اورمزید تعلیم کےلیے وہاںسے مجھےلندن یونیورسٹی بھیج دیا۔
الحمد للہ میں پھر یہاں لندن یونیورسٹی میں آگیا۔اب یہاں میں نے دو پوسٹ گریجویٹ ڈپلوماز پاس کیے۔ اور یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کی سفارش بھی تھی اور کوشش بھی تھی کہ جو میرا سکالرشپ ہے وہ اور بڑھا دیا جائےاور میں MA بھی کرلوں۔لیکن فیلوشپ میں وسعت کی کوئی صورت نہیں تھی۔مجھے ڈائریکٹر نے بلایا اور کہنے لگاکہ تمہارے سکالرشپ کی توسیع تو نہیں ہورہی لیکن تمہارے لیے نائیجیریا میںایک اچھی جاب ہے۔اگر تم چاہو تو تمہارے لیے بہت اچھاموقع ہے۔ مَیں نے کہانہیں مجھے کسی جاب کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ جس حکومت نے مجھےسکالرشپ پر بھجوایا ہے،یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں واپس جاکران کی خدمت کروں۔
بہرحال اس کے بعد میں نے واپس آنے کی تیاری شروع کردی۔اب یہ بھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے کرشمہ اور فضل کی بات ہے کہ جب میں تنزانیہ کے ہائی کمیشن گیا اوروہاں پر ایجوکیشن آفیسر کو میں نے بتایا کہ میرا پروگرام مکمل ہوگیا ہے اور میں نے واپس جانا ہے۔تو میرے لیے ٹکٹ وغیرہ کی بکنگ کروادیں۔جب میں نے اُن سے یہ کہا تو وہ کہنے لگے اچھایہاں بیٹھ جاؤ۔ یہاں پر ایک کامن ویلتھ انسٹیٹیوٹ ہےاور ان کو ایک فیلو چاہیے اگر تمہیں دلچسپی ہو توہم تمہیں ایک سال کےلیے یہ فیلو شپ دلوا سکتے ہیں۔میں نے اپنے دل میں اللہ کا اتنا شکر کیا کہ دیکھو اللہ کے رنگ کیسے کیسے ہیں میں آیا ہوں واپس جانے کےلیے اور یہ مجھے کہہ رہا ہے کہ واپس نہیں جانا ،تم وہاں جاؤ۔چنانچہ اس نے انٹرویو طے کردیا۔انٹرویو کےلیے گیا توانہوں نے مجھے رکھ لیا اور اس کے ساتھ ہی جب یونیورسٹی والوں کو پتہ لگا تووہ کہنے لگےکہ ہم تمہیں ماسٹرز(MA) کے کورس کےلیے رجسٹر کر لیں گے۔ انہوںنے بتایاکہ ان کا ایک کورس ہے جوشام کے وقت شروع ہوتا ہےیعنی ساڑھے چار پانچ بجےشام سے کلاسیں لگتی ہیں اور رات کے ساڑھے نو دس بجے تک چلتی ہیں۔ہم تمہیں اس میں داخلہ دے دیں گے۔اس پر مَیں سبحان اللہ ہی کہہ سکتا تھا۔ہو ا یہ کہ کامن ویلتھ انسٹیٹیوٹ والوں نے میرے کام کے اوقات صبح آٹھ بجے سے چار بجےتک کردیے ۔چار بجے تک میں انسٹی ٹیوٹ میںکام کرتا تھا اور پھر میں بس لےکر یونیورسٹی آتا تھااور پانچ بجے سے کلاسیں شروع ہو جاتی تھیں،جو رات ساڑھے نو دس بجے تک رہتی تھیں۔پھر بس لےکر گھر آتا تھا۔اس وقت ہماری رہائش گاہ مسجد فضل کے قریب ارلزفیلڈ روڈ پر تھی۔وہاں آنا اور پھر صبح سویرے وہاں سےانسٹیٹیوٹ چلے جانا۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ جو فیلوشپ مجھے اس کامن ویلتھ انسٹیٹیوٹ سے ملی اس سےکسی اور سکالرشپ کی ضرورت نہیں رہی۔اور جو فیس وغیرہ کے اخراجات تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارےپورے ہوگئے ۔اور اس طرح میری MAکی ڈگری بھی اللہ کےفضل سے مکمل ہوگئی۔
اطاعت کے مزید ثمرات
اس کے بعداللہ کےفضل سے میں واپس تنزانیہ گیا توانہوں نے میری تقرری دارالسلام یونیورسٹی کےلسانیات کے شعبہ میں بطور سینئر لیکچرار کردی۔وہاں میں نے کام شروع کردیا۔اب وہاں یونیورسٹی کا وائس چانسلر کا نام کاڈوما تھا۔وہ پہلے گورنمنٹ میں منسٹر ہوا کرتا تھا،پھر اسے وائس چانسلر بنا دیاگیا۔ یونی ورسٹی کے سینئر کامن روم میں وہ کبھی کبھی شام کو چائے کےلیے آجا تا اور اس کے ساتھ میری اچھی گفت و شنید ہوگئی اور اچھا تعلق بن گیا۔ایک دن وہ شام کو معمول کے مطابق آیا ۔ہم چائے کا کپ لےکر ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے ۔ باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگا کہ میں اپنے جاب سے استعفادے رہا ہوں۔میں بہت حیران ہوا کہ تم استعفادے رہے ہو۔ایسی کیا بات ہوگئی ہےتم اتنے معروف اور کامیاب ہو،لوگ تمہیں پسند کرتے ہیں تم نے کہاں جانا ہے؟انہوں نے کہا کہ بات یہ ہوئی ہے کہ یونائیٹڈ نیشنز کا فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگینائزیشن کا ادارہ اس کا ہیڈ کوارٹر روم(اٹلی) میں ہے۔وہ افریقہ کے دیہی علاقوں کی ترقی کےلیے ایک ادارہ ( CIRD AFRICA)قائم کرنا چاہتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ میں اس ادارہ کا ڈائریکٹر بنوں۔وہ میرے لیے ایک بہتر جاب ہے۔اس لیے میں یہاں سے استعفادےرہا ہوں۔میں نے کہا یہ میرے لیے تو اتنی اچھی خبر نہیں ہےکہ تم چلے جاؤگے، لیکن یہ افریقہ کےلیے اچھا ہے۔اگلے دن وہ آیا تو مجھے کہنے لگا تم بھی ریزائن(resign)کردو۔ میں نے کہا میں کیوں ریزائن کردوں،میں کہاں جاؤں گا کہنے لگےکہ مَیں نے آپ کو اس نئے ادارہ میں ساتھ لےکر جانا ہے۔
بہرحال UNکی یہ ملازمت ایک انٹرنیشنل پوزیشن تھی۔اور ان کا تین سال کا کانٹریکٹ تھا۔ میں نے بھی حامی بھر لی اور میں پھر ان کے ساتھ اُس ادارے میں چلا گیا۔اُس ادارے میں جہاں میرا تین سال کا معاہدہ تھا وہاں میراکافی ملنا ملانا ہو گیا خاص طور پر روم کے ساتھ کہ وہ ہیڈ کوارٹر تھا۔ اُس دوران UNکے ایک ڈائریکٹر مجھے کہنے لگے کہ جب تمہارا یہ کانٹریکٹ ختم ہو تو تم ہمارے ہیڈ کوارٹر روم میں آجاؤ۔ہم چاہیں گے کہ تم وہاں کام کرو۔مجھے بھی یہ مشورہ پسند آیا۔میں نے کہایہ جماعتی لحاظ سے بھی اچھا ہوگا۔ پھر دسمبر 1984ء میں جب میرا وہاں پر کانٹریکٹ ختم ہوا تو روم جانے کےلیے میں تنزانیہ سے پہلے لندن آیا۔ ارادہ تھا یہاں پر فیملی کو سیٹ کردوںاور پھر میں روم چلا جاؤںگا۔
جزائر طوالو میں خدمات کی توفیق
چنانچہ اُسی سال اپریل میں حضرت خلیفۃ المسیح رابع رحمہ اللہ تعالیٰ لندن تشریف لاچکے تھے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتایا کہ میں آگیا ہوں اور یہ میرا پروگرام ہے۔ حضور ؒنے فرمایا یہ تو بہت اچھا ہے۔اُس کے تھوڑے دنوں بعد مجھے کامن ویلتھ والوں کی طرف سے ایک فون کال آئی ان کے پاس میرے کوائف بھی تھے اور میں ان کے ساتھ رجسٹر بھی تھا ۔ وہ کہنے لگے تمہارے لیے ایک کام ہے پیسیفک کے جزیرہ طوالومیں۔اگر تمہیں دلچسپی ہے تو ہمیں بتاؤتاکہ ہم آگے جو کرنا ہے کریں۔ میں نے تو کبھی طوالو کا نام بھی نہیں سُنا تھا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے دیکھ لیں گے۔ لیکن جب میں حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تومیں نے حضور ؒکو کہا کہ میں روم کےلیے تیاری کررہا ہوں لیکن بتایا کہ کامن ویلتھ کی طرف سےیہ پیغام آیا ہے ۔تو حضورؒ نے جب طوالو کا نام سُنا تو خاص طور پر متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے مجھے دو تین دن قبل پیسیفک سے ایک خط آیا تھاکہ آپ پیسیفک جزائر ممالک میں 1983ء میں تبلیغ کا کہہ کر گئے تھے۔1983میں حضورؒ مسجد کے افتتاح کےلیے آسٹریلیا تشریف لے گئے تھے ۔اس کے بعد حضورؒ فجی تشریف لے گئے ۔وہاں پر حضورؒ نے جزائر میں تبلیغ کے سلسلے میںایک میٹنگ بلائی تھی ۔تو اس سلسلے میں اُس شخص نے لکھا تھا کہ حضور ؒآپ نے پیسیفک کےجزائر میں تبلیغ کا کہا تھا تو اب یہ ایک ملک ہے جس کا نام طوالو ہےجو سو فیصد عیسائی ملک ہے۔تووہاں مبلغ بھیجیں ۔ حضور ؒ فرمانے لگے کہ دو دن قبل مجھے یہ خط ملا ہے اور اب تم طوالو کا کہہ رہے ہو۔یہ تو اللہ کی طرف سے ہے۔اب تم طوالو جائو۔
میں گھر آیا سب بچوں سے ذکر کیا سب پریشان ہوگئے کہ اس ملک کا نام تو پہلے کبھی سُنا نہیں۔میں نے اپنے بیٹے سے کہا لائبریری سے جاکر ایک اٹلس لاؤ تو دیکھیں یہ ملک کہاں ہے۔دیکھا تو آسٹریلیا کے پاس ایک نقطہ سا نظر آیا ۔بہرحال حضور ؒکا ارشاد تھا اور اس ارشاد کے مطابق میں نےروم والوں کو معذرت کردی اور جو طوالو جانے کی پیشکش تھی اسے میں نے قبول کرلیا ۔پھر مارچ 1985ءمیںمَیں کامن ویلتھ کے فیلڈ ایکسپرٹ کی حیثیت سے لندن سے طوالو چلا گیا۔وہاں جانے کی جو برکات ہیںوہ آگے ایک سلسلہ ہے۔
وہاں جب میں گیا تو حضورؒ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہا ں جانا ہے اور ایک مبلغ بن کر جانا ہے۔وہاں جانے کا مقصد تو یہی تھاکہ وہاں جاکر صحیح رنگ میں تبلیغ ہو۔ سارے عیسائی ہیں۔ وہاںجا کر سب سے پہلے میںنے چیف سیکرٹری سے تعارفی ملاقات کی ۔اسے معلوم تھا کہ میں مسلما ن ہوں۔ جب میں اس کے دفتر سے نکلنے لگا تو وہ مجھے کہنے لگا کہ ہمیں پتہ ہے کہ تم مسلمان ہو۔ لیکن میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ملک عیسائی سٹیٹ ہے۔ہم نہیں چاہتے کہ تم قطعاًکسی مذہبی معاملے میں دخل دو، یہاں کوئی تبلیغ نہیں کرنی ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنا ہے ۔
میں نے کہا میں ایک ایسی جماعت سے ہوں جس کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ملک کے جوقوانین ہوں ان کی پابندی کرنی ہے۔ وہ میں کروں گا۔ لیکن جب میں اس کے دفتر سے نکلا تو میری طبیعت میں بہت گھبراہٹ اور بے چینی تھی۔میں نے کہا کہ حضورؒ نے فرمایا تھا کہ تبلیغ کرنی ہےاور یہ کہہ رہا ہے کہ تبلیغ کا نام بھی نہیں لینا۔ اب کیا ہوگا؟ بہرحال پھر میں نے سوچا کہ اس کا یہی ایک حل ہے کہ دُعا کی طرف توجہ دی جائے ۔پھر میں بہت توجہ سے دُعاؤں میں لگ گیا۔
یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ ابھی مجھے گھر نہیں ملا تھا اورمیں ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ شام کو میں سیر کےلیے چلا جاتاتھا۔ ایک دن میں واپس آرہا تھا تو میرے پیچھے ایک آدمی تیز قدموں کے ساتھ آیا اورکہنے لگا کہ مَیں نے ریڈیو پر سنا ہے کہ آپ ایجوکیشن کے ایکسپرٹ ہیں۔میں یہاںایس ڈی اے چرچ کا پادری تھا۔ میں اپنی تعلیم کو بہتر بنانا چاہتا ہوں ۔میں نے وہاں سے ریزائن کردیا ہے۔ کیا آپ میری مدد کریں گے۔
میں نے کہا میں تو آیا ہی اسی لیے ہوں کہ آپ سب کی مدد کروں۔چنانچہ اس نے وہیں کھڑے کھڑے باتیں کرنی شروع کردیں اور کہنے لگا کہ یہ سڑک کے ساتھ ہی میرا گھر ہے۔ آپ دو چار منٹ کےلیے آجائیں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے چلو۔ وہاں جاکر بیٹھے۔کوئی ایسے آثار تو نہیں تھے لیکن تھوڑی دیر میں بارش شروع ہوگئی۔وہ بارش چلتی رہی تو بات کرنے کا موقع بڑھتا گیا۔وہ چونکہ پادری تھا تو کہنے لگا کہ اسلام کے بارے میں تو ہمیں یہ بتایا گیاہے۔آپ کا یہ مذہب ہے آپ مجھے بتائیں کہ حقیقت کیا ہے۔میں تو اسے تبلیغ نہیں کررہاتھا بلکہ وہ مجھ سے سوال پوچھ رہا تھا۔ جواب تو مَیں نے اسے دینا تھا۔ میں اسے جواب دینے لگ گیا۔ اس طرح کوئی آدھے گھنٹے کی میٹنگ ہوگئی ، پھر بارش بھی کچھ ٹھہر گئی۔ میں نے اُن سےکہا کہ آپ مجھے ملتےرہنا ،میں یہیں ہوں ۔یہ سلسلہ پھر چلتا رہا۔ پھر مجھے وہاں گھر بھی مل گیا اور اس سے ملاقات رہی۔اس دوران اس کی اپنی جو تعلیم تھی اس کا تو ذکر نہیں ہوا۔اسلام کی تعلیم کا ذکر شروع ہوگیا۔پھر اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا بتایا ، جماعت کا بتایا ۔چنانچہ ہوا یہ کہ میں وہاں مارچ میں گیا تھا تو جون میں اس شخص نے بیعت کرلی۔الحمد للہ۔ اور خلافت کی اطاعت کا یہ ایک عمدہ پھل تھا۔
یہ محض اللہ کا فضل اور حضور ؒکی راہ نمائی تھی کہ اُس شخص نے بیعت کرلی ۔حضور ؒنے اُس کا نام عطاء الاوّل رکھا۔ پھر وہ میرےگھر باقاعدہ آنا شروع ہوگیا۔میرے گھر کے باہر ایک چھوٹا برآمدہ تھا، اُس کوہم نے مسجد بنا لیا۔میں نے اُسے نماز سکھائی۔چونکہ وہ ایک مذہبی آدمی تھا، پادری تھا، اسے عبادت کا شوق تھا۔وہاں ہم دونوں نے نمازیں پڑھنا شروع کردیں۔
یہ سب خلیفہ وقت کی دعائوں اوراطاعت کا ہی ثمر تھا۔ حضور ؒکی اطاعت کے طفیل میں روم چھوڑ کر طوالو آگیا تھا۔پھر وہاں احمدیت کا پودا لگانے کی توفیق ملی۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس پودے کو پھل لگائےاور آگے بہت ساری برکتیں ملیں۔
بہرحال میں نے اس کو کہا کہ دو سے جمعہ ہو جاتا ہے…دُعا اور کوشش کرو …اُس نے کوشش کی اوراپنی فیملی کو تبلیغ کرنا شروع کی پھر دو ماہ بعدبفضلہ تعالیٰ اُس کی فیملی کے کافی افراداحمدی ہو گئےاور ایک اچھی چھوٹی سی جماعت بن گئی۔جب یہ جماعت بن گئی تو میرا گھر ایک تبلیغی سینٹر بن گیا۔شام کو کاموں کے بعد سارے وہاں پر آجاتے۔پھر رات کے 12بجے تک وہاں پر کلاسیں لگتیں۔ انہوں نے اتنی دلچسپی لی کہ وہاں کی زبان میں چھوٹے چھوٹے پمفلٹ بنا کر وہاں تقسیم کیے۔
پھر 1989ءمیں جب جماعت کی صد سالہ جوبلی تھی تب حضور ؒنے فرمایا تھا کہ منتخب احادیث، منتخب آیات اور منتخب اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے ملک کی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے ۔ چنانچہ ان سب کا طوالو زبان میں ترجمہ ہوگیا۔
یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شان اور اس کی رحمت تھی کہ عمومی طور پر کامن ویلتھ والے صرف دو سال کا کانٹریکٹ دیتے تھے کہ دو سال کام کر کے واپس آجاؤ۔لیکن اللہ کے فضل سے کامن ویلتھ والوں نے جو کام میرے سپرد کیا تھا وہ ایسے اچھے رنگ میں ہورہا تھا کہ انہو ں نے میرا کانٹریکٹ دو سال سے بڑھا کر چار سال کردیا الحمد للہ۔اس کام میں یہ سہولت بھی تھی کہ فیملی کو ملنے میں سال میں دو دفعہ لندن آ سکتا تھایا فیملی مجھے ملنے طوالو آ سکتی تھی۔ اس طرح کبھی میں لندن آجاتا تو کبھی فیملی طوالوآجاتی۔اکثر گرمیوں میں بچے طوالو آجاتے اور میں سردیوں میں لندن چلا جاتا۔ اس طرح بچوں کےلیے اچھا ہواکہ وہ بھی اس نئے ملک میں دین کے کاموں میں شامل ہوئے ۔
حضور ؒکی خواہش بھی تھی اور دعائیں بھی کہ وہاں پر مسجد بن جائے۔ پھر اللہ کےفضل سے کسی نے ہمیں مسجد کےلیے وہاں جگہ بھی دے دی اور مسجد بن بھی گئی۔پھر اس کے ساتھ ایک مشن ہاؤس بھی بن گیا۔ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم بھی بن گئی۔ میری بیگم جب بھی وہاں جاتیں، لجنہ اماء اللہ کی تربیت کے کاموں میں لگی رہتیں۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نظام اچھا بن گیا۔
پھر میں نے خیال کیا کہ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ ہونا چاہیے اور اس کے لیے وہاں لینگویج بورڈ کا صدر تھا۔ اسے میں نے کہا کہ تم قرآن مجید کا ترجمہ کردو۔مَیں تمہیں کچھ نذرانہ بھی دے دوں گا۔بہرحال اُس نے وہ ترجمہ شروع کیا۔ اُس کا ایک ڈپٹی بھی تھا تو کچھ ترجمہ وہ کر دیتا تھا۔ ایک دن وہ ڈپٹی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یہ کتاب جس کا میں ترجمہ کررہا ہوں مجھے بہت اچھی لگی ہے۔میں نے کہا ہے ہی اچھی۔بہرحال وہ کبھی کبھی بعض آیات لےکر آجاتاکہ مجھے ان آیات کا مطلب بتائیں۔آخر پر اللہ کے فضل سے ابھی ترجمہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ احمدی ہوگیا۔وہ لینگویج بورڈ کا ڈپٹی ڈائریکٹر تھا۔ کافی اچھی پوسٹ تھی۔بعد میں وہ سیاست دان بھی بن گیا ۔پھر اس کو حضرت صاحبؒ نے یہاں لندن جلسے پربلایا اور وہ آیا۔پھر پولیس کا جو چیف کمشنر تھا وہ بھی احمدی ہوگیا اسے بھی جلسے پر بلایا گیا۔وہ جلسے میں شامل ہوا۔ پھر اُس نے لندن آکر قرآن مجید کے ترجمہ کی ریویژن کی۔پھر یہیں رقیم پریس میں قرآن مجید پرنٹ ہوا۔ اس طرح وہ کام بھی پورا ہوگیا۔الحمد للہ۔ یعنی جیسے جیسے وہ جماعت کے بنیادی کام باقی رہتے تھے تو ویسے ویسے اللہ تعالیٰ کانٹریکٹ میں توسیع دیتا چلا گیا۔
جب 6 سال ہوگئے اورکامن ویلتھ کی طرف سے مزید فنڈنگ کی کوئی گنجائش نہ رہی توحکومت کہنے لگی کہ ہم نے تمہیں ابھی واپس جانے نہیں دینا۔ چنانچہ انہوں نے یو این کو لکھا اور یو این والوں نے فنڈنگ منظور کرلی اور پھر چار سال میں وہاںیواین کے کنسلٹنٹ کے طور پر رہا۔جس منصوبہ کی میں نے طوالو میں ابتدا کی تھی ،وہ سارے ریجن میں بہت مقبول ہوا۔ تو یو این والے مجھے کہنے لگے کہ اب تم صرف طوالو کے لیے نہیں بلکہ ریجنل کنسلٹنٹ ہو۔تم ہمارے تحت کام کروگے۔ہم چاہتے ہیں کہ تم مختلف جزائر میں جاکر یہ منصوبہ جاری کرو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ۔اس کا یہ فائدہ ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے اس کا ذکر بھی فرمایا تھا کہ تقریباً 14جزائر میں احمد یت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔الحمد للہ۔
ایک بات یہ بھی عرض کر دوں کہ اکثر اوقات انسان کی زیادہ توجہ اپنے ذاتی اور دفتری کاموں کی طرف ہو جاتی ہے لیکن میںجب دوسرے جزائر ممالک میں جاتا تھا، کام تو یواین کے ہوتے تھے۔لیکن جب میں ہوائی جہاز میں بیٹھتا تھا تو سارے سفر میں یہ دُعا کرتا رہتا تھا کہ یا اللہ جس ملک میں مَیں جارہا ہوں وہاں مجھے یہ توفیق دینا کہ میں تیرے امام الزمانؑ کا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں۔حیرت کی بات ہے کہ جب میں جاتا تھا تو میں نے اپنے پروجیکٹ کی کوئی خاص تیاری نہیں کی ہوتی تھی۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے پروجیکٹ کا کام اعلیٰ پیمانے پر ہو جاتا تھا کہ میں کتنی بھی محنت کرتا تو شاید وہ ممکن نہ ہوتا۔اس کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ اُس ملک میں تبلیغ کے مواقع پیدا کردیتا تھا۔اس طرح یہ سلسلہ اللہ کی برکات کا چلتا رہا اور چل رہا ہے۔پھر میرا وہاں پر جب کاموں کا سلسلہ ختم ہوگیا اور میں یہاں برطانیہ واپس آنے کی تیاری کررہا تھا توایک دن میں اپنا سامان وغیرہ پیک کررہا تھا تو اچانک میرے دروازے پر کھٹکھٹاہٹ ہوئی تو دیکھا کہ پرائم منسٹر صاحب ہیں۔ان سے میری قدرے بے تکلفی تھی۔ آکر بیٹھے تو کہنے لگے کہ جانے کی تیاری کررہے ہو۔ باتوں باتوں میں آخر میں کہنے لگے کہ ہماری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ برطانیہ میں ہمارا کوئی نمائندہ ہو۔ ہمیں کوئی بندہ نہیں مل رہا تھا ۔اب تم جارہے ہو تو ہماری خواہش ہے کہ تم برطانیہ میں ہمارے نمائندہ بنو۔اب دیکھیں کہ ایک عیسائی سٹیٹ کا پرائم منسٹر یہ پتا ہوتے ہوئے کہ اس احمدی نے یہاں پر اسلام کا ایک سینٹر بنا دیا ہے اور لوگ مسلمان ہو رہے ہیں،اُس کا یہ کہنا کہ تم ہمارے نمائندہ بنو یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے سوا اور کچھ نہیںہے۔ اُس وقت سے لےکر اب تک میں طوالوکا برطانیہ میں نمائندہ ہوں جبکہ میں ان کا شہری بھی نہیں ہوں۔ یہ اطاعت کے پھل ہیں اور کتنے وسیع ہیں۔
پیسفک جزائر ممالک کےلیے میری خدمات کی قدر شناسی کے طور پر وہاں کی حکومتوں نے برطانیہ کی ملکہ کو سفارش کی کہ ان کی خدمات کاان کو اعزاز ملنا چاہیے۔چنانچہ 1998ءمیں مجھے OBEکا خطاب ملاجو کہOfficer of the Most Excellent Order of the British Empireہے۔اس کے بعد خدمات کا سلسلہ جاری رہا ۔اس وقت جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ 12 چھوٹی چھوٹی ایسی ریاستیں ہیں جو ملکہ کے تحت ہیں اوران کو ملکہ کے (Realms)کہتے ہیں۔ وہاں ملکہ نے اپنے گورنر مقرر کیے ہوئے ہیں۔ان میں سے کچھ ریاستیں بحر اوقیانوس میں ہیں اور کچھ بحر الکاہل میں ہیں۔لیکن ان کے آپس میں کوئی روابط نہیں تھے۔ کوئی تنظیم یا فورم اس کےلیے نہیں تھا۔ تو میں نے کوشش کی کہ ان ریاستوں کے آپس میں روابط بڑھائے جائیں۔یہ ملکہ کے نزدیک ایک بڑی خدمت سمجھی گئی اور اس طرح اور بھی کئی خدمات کا موقعہ ملا جس کےلیے ملکہ کی طرف سے مجھے صرف ’’نائٹ ہڈ ‘‘(knighthood)نہیں ملا بلکہ اس سے اوپر’’نائٹ کمانڈر‘‘(knight Comander)کا جو اعزاز ہے وہ دیا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سےہی یہ سب کچھ ممکن ہوا ۔اس اعزاز کے ساتھ’’سر‘‘کا خطاب ہوتا ہے ۔اعزاز نائٹ کمانڈر ہے اور خطاب ’’سر ‘‘ہے۔
یہ سب محض خلافت کی اطاعت کی برکات کی وجہ سے اللہ نے عطا فرمایا ہے اور یہ سلسلے چل رہےہیں اور اس کے ساتھ ایک اور خدمت کی بھی توفیق مل رہی ہے کہ حضور نے ایک انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی بنائی ہوئی ہے ۔اس کے سپرد اسائلم والوں کی فلاح و بہبود کے کام ہیں۔ جو ہمارے احمدی ظلم و ستم سے تنگ آ کر پاکستان سے نکل رہے ہیںتو ان کےلیے دیگر ممالک میں سکونت کے لیے کوششوںکی بطور چئیرمین خدمات کی توفیق مل رہی ہے۔الحمد للہ۔ اس سال2021ء کے مئی میں انسانیت کی خدمات کی خدمات کی قدر شناسائی کے طور پر ملکہ معظمہ برطانیہ کا’’ ہیومینی ٹرین‘‘ (Humanitrain)سروس کا میڈل ملا ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
پھر حال ہی میں مجھے انسٹی ٹیوٹ آف اٹامک انرجی ایجنسی ، جس کا ہیڈ کوارٹر آسٹریا میں ہے ، اس کے بورڈ کا بھی میں اب ممبر ہوں۔یہ سب محض اور محض خلافت کی اطاعت کے ثمرات ہیں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ انسان اپنی زندگی میں اپنی بہتری کامیابی کےلیے دوڑتا رہتا ہے۔لیکن حقیقت میں اصل کامیابیاںوہی ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں سے نصیب ہوں۔ان کو حاصل کرنے کےلیے یہ لازمی ہے کہ انسان اس بات پر عمل کرے کہ وہ دیانت داری اوراخلاص کے ساتھ وفا شعاری اور خدمت گزاری سے ہمیشہ خلیفہ ٔ وقت کی اطاعت کرتا رہےگا۔اس کی اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور سب کو توفیق عطا فرمائے اور اس کے پھل ہم سب کو عطا ہوں۔آمین۔
٭…٭…٭