از مرکز

رودادِ جلسہ سالانہ

(محمد فاروق سعید۔ لندن)

اِن عاشقوں کے جسموں سے محبت کی برقناطیسی اشعاع نکلتی تھیں جو ایک دوسرے میں جذب ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے والا ایک ہاتھ بنارہی تھیں

سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ

(پاک ہے وہ ذات جو ہر وقت مجھے دیکھتی رہتی ہے)

پانی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، اردگرد مناظر اور آسمان کی مختلف کیفیات جب اُس پر پڑتی ہیں تو ہمیں پانی نظر آنے لگتا ہے۔ ہوا میںنمی بھی اس پر بہت اثر انداز ہوتی ہے اور پانی کو دیکھنے والے کی آنکھ اور اس کی دماغی حالت بھی۔

میرے نزدیک جلسہ سالانہ ایک جھیل کی مانند ہے اور شاملین جلسہ اِس جھیل کے اردگرد پھیلے قدرتی مناظر اور خلیفۂ وقت اس جھیل پر سایہ کیے آسمان۔ یہ آسمان اور شاملینِ جلسہ جب اپنی تمام تر کیفیات سمیت اس جلسے میں شامل ہوتے ہیں تو یہ ایک انتہائی خوبصورت جھیل بن جاتی ہے جو روح کو تازگی اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتی ہے۔ میری آنکھوں نے اس قدر کثیر تعداد میں عاشق ایک جگہ دیکھے جن کے چہروں سے ایک ہی جذبہ چھلکتا تھا۔ میں جہاں نظر دوڑاتا مجھے عاشق معشوق کی خاطر اِدھر اُدھر گھومتے نظر آتے۔ اِن عاشقوں کے جسموں سے محبت کی برقناطیسی اشعاع نکلتی تھیں جو ایک دوسرے میں جذب ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے والا ایک ہاتھ بنارہی تھیں۔ اِن عاشقوں کو دیکھ کر دل بے اختیار نرم ہو جاتا کہ دیکھو کیسے انمول وجود ہیں جو اپنے محبوب کی خاطر موم بن کر گھوم رہے ہیں اور منتظر ہیں کہ ا ُن کا محبوب کب اُن پر نظر ڈالے اور وہ پگھل کر بہ جائیں اور اپنی ہستی خاک میں ملا دیں تا اُنہیں آشنا مل جائے!!

میرے لیے یہ جلسہ سالانہ یقین کی حد سے پرے کی سلطنت سے تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ کورونا وبا کی وجہ سے دو سال کے تعطل کے بعد منعقدہورہا تھا اور اس تاریخی جلسے میں بعض پابندیوں کے ساتھ انگلستان کے ہر احمدی کو ایک دن شمولیت کا موقع مل رہا تھا جس کی وجہ سےایک عجب سی اُداسی تھی۔ جبکہ ڈیوٹی کرنے والے تینوں دن شامل ہو سکتے تھے۔ مگر ابھی تک ڈیوٹی کا پتہ نہیں چل رہا تھا اور ڈر تھا کہ شایدڈیوٹی کی سعادت حاصل نہیں ہو پائے گی۔ مگر پھر انہونی ہو گئی الحمدللہ

ہوا کچھ یوں کہ جلسے سے تین ہفتہ پہلے اپنے پرانے شعبے کے ناظم صاحب سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اس سال کوئی پیغام یا ڈیوٹی کی تیاری کا عندیہ نہیں ملاتو ناظم صاحب کہنے لگے کہ امسال ڈیوٹی کے لیے کم لوگ ہی منتخب ہوئے ہیں تو معذرت ہے۔ آپ کسی اور شعبہ میں کوشش کر کےدیکھ لیں۔میں نے ناظم صاحب شعبہ عمومی خلیق احمد صاحب سے رابطہ کیا اور مدعا بتایا۔ انہوں نے کہا کہ بہت دیر ہو گئی ہے مگر وہ کوشش کریں گے۔ساتھ ہی میں نے اپنی عادت کے مطابق اور جیسا کہ ہر احمدی کا طریقہ کار ہے دعا کے لیے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھ دیا۔ اگلے روز خاکسار کو اطلاع مل گئی کہ خاکسار کا نام ڈیوٹی کے لیے منظور ہوگیا ہے۔ الحمدللہ

سب سے پہلے حضور کو خط میں اطلاع بھجوائی اور پھر جلسےکی تیاری شروع کر دی۔چھبیس جولائی کو ہماری ٹیم کی پہلی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں تعارف کے بعد ناظم صاحب نے سب کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا اور سب سے پہلی ہدایت جو دی وہ تھی ہر موقعے، ہر مرحلے پر‘‘اطاعت’’ کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی۔ جلسہ کے تین دنوں میں بھی ان کی یہی ہدایت قائم رہی کہ ہم نے ہر حال میں اطاعت کرنی ہے اور بس اطاعت کرنی ہے۔

بدھ چار اگست رات ساڑھے دس بجے حدیقۃ المہدی رپورٹ کی۔ موسم شدت میں تھا۔ بارش کی وجہ سے زمین انتہائی نرم اور کیچڑ ہی کیچڑتھا مگر اس کے باوجود بھی جذبہ جوان تھا۔ اپنی ٹیم سے ملاقات ہوئی اور ڈیوٹی شروع۔ ہماری بیس کے ٹیم لیڈر رانا مقصود صاحب ہنسی مذاق میں خوب کام لینے کے ساتھ ساتھ اپنے کارکنوں کو خوش رکھنا بھی جانتے ہیں۔ ہماری ٹیم اور عمومی شعبہ کی دیگر چھ ٹیموں کا ہر بندہ سمعنا و اطعنا کا پتلا تھا۔ ناظم صاحب کی ہر ہدایت پر عمل کرنے والا۔

جلسے کے پہلے دن جمعہ کےافتتاحی سیشن کے بعد جب لوگ گھروں کو روانہ ہونے کار پارک میں آئےتومعلوم ہوا کہ تیز بارش کی وجہ سے ہر گاڑی کیچڑ میں دھنس چکی ہے اور دھکے کے بغیر نکل نہیں سکتی ۔ نائب صدر مکرم عثمان صاحب نے ناظم صاحب عمومی کو کہاکہ اپنے لڑکے لےکرکار پارک میں آ جائیں اور ناظم صاحب کار پارک کی گاڑیاں نکالنے میںمدد کریں ۔ ناظم صاحب نے چالیس پچاس لڑکوں پر مشتمل اپنی ٹیم کو کارپارک بلایا اور ان کو مختلف حصے سپرد کیے۔ مسیح کے جس مہمان کی کار پھنسی ہوتی ناظم صاحب ان کے پاس جاتے اور تسلی دیتے کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے ۔آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور آپ کی گاڑی کو کیچڑ سے نکال کر ٹریک پر چڑھا دیا جائےگا۔ پھر نعرۂ تکبیر کے بعد گاڑی کودھکا لگایا جاتا۔ ٹیم نے اپنے کیچڑ سے لتھڑتے کپڑوں کی پروا نہیں کی اور لوگوں کو بحفاظت سفر پر روانہ کیا۔

الغرض یہ جلسے کے تین بابرکت دن کیسے گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ عام دنوں میں جو لوگ زیادہ محنت نہیں کر سکتے وہ بھی جیالے بنے ڈیوٹیاںکرتے رہے، ہر ممبر نے دن میں اوسطاً اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی کی جبکہ ہمارے انچارج حضرات ہر وقت ہی ڈیوٹی پر نظر آتے اور پھر بھی فریش دکھائی دیتے۔ اللہ تعالیٰ ہر کارکن جلسہ کو اجرِ عظیم عطا کرے اور خدمت قبول فرمائے۔

ان تین دنوں کے سہارے میرے سال کے بھی باقی تین سو باسٹھ دن گزریں گے۔

مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت کی توفیق بخشی۔اللہ جانتا ہے کہ میرے جیسے کمزور انسان کی اتنی اوقات نہیں تھی مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو سنا اور مجھے بھی ایسے مواقع عطا کیے کہ میں جلسے پر مسیح محمدی کے مہمانوں کی خدمت کر سکتا۔ میری جھولی بھر دی گئی، میرے لبوں سے نکلے درود و سلام نے مجھ حقیر کے زخم چھپا دیے، میری ستاری کی گئی اور حُسن بے پناہ کی تپش نے میرے وجود کو جِلا بخشی۔ مجھے یہ عنایتیں کیسے ملیں میں خود حیران ہوں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ جب تُم اپنی بے انتہا قیمتی چیز قربان کردو تواللہ اس قربانی کا پھل خود دیتا ہے اور جلد دیتا ہے،مگرمیرے پاس تو کچھ بھی قیمتی نہیں بس رب سے عاجزانہ درخواست تھی کہ یا رب ‘‘کچھ عجب نہیں کہ کانٹوں کو بھی پھول پھل عطا ہوں’’ کےمصداق قبول فرما اور عطا کر۔ میں سارے کا سارا مسیح کے مہمانوں کی خدمت کے لیے حاضر ہوں تو شاید اللہ تعالیٰ نے منظور کیا اورمواقع عطا ہوئے۔میں خاک ہوں، اللہ جانتا ہے کہ میری کوئی اوقات نہیں مگر پھر بھی مجھے جو نسبت پاک مسیح سے ہےجس کاخدا زندہ خداہے اس زندہ خدا نے پیارے حضور کی نظر کرم کے صدقے اس موسم اور مشکل وقت میں جماعت کی خدمت کی توفیق بخشی۔ الحمدللہ

جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دِکھا دیا

میں اِک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا

میں نے اِس جلسہ کواک نگاہِ شوق سے گزارا ہے۔ میری آنکھوں نے ہر اُس احمدی کو عقیدت سےچوما ہے جو میری نظروں سے گزرا ہے میرے دل نے ہر اُس کے لیے دُعا کی ہے جس کو میں نے نماز میں دیکھا ہے۔ میں نے ایسے جوانوں کو دیکھا جو نماز میں تھے اور ان پر لرزہ طاری تھا، ان کےچہرے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے اور دعا سے ان کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ میرے دل سے بے اختیار خواہش دعا بن کے نکلی کہ یا خدا ان کی دعائیں سب سے پہلے قبول کر، ان کے دکھ کا مداوا فرما۔اب جب نشرِ مکرر کے طور پر میں جلسےکی تقریبات دیکھ رہا ہوں تو ہر لمحہ اللہ کے آگے گردن جھکی جا رہی ہے کہ کس قدر عرفان بانٹا گیاہے۔ روحانی پانی کے بند کھول دیے گئے ہیں اور ہم کس قدر خوش قسمت ہیں جو ہر قدم پر ہماری راہ نمائی کی جاتی ہے۔

جلسہ تو ایک جھیل ہے اور بعض دفعہ اللہ تعالیٰ جان بوجھ کر جھیل کے اردگرد ایسے مناظر پیدا کر دیتا ہے کہ وہ جھیل دیکھنے والے کو بے رونق اور بے رنگ نظر آتی ہے تا کم ظرف اِس جھیل پر دوبارہ نہ آئے۔ اگر کسی کو یہ جلسہ دنیاوی میلہ لگا تو کوئی غم نہیں کہ پانی میں اپنا عکس نظر آتاہے۔ایسے لوگوں کو اپنی آنکھیں روحانی معالج کو دکھانی چاہئیں یہ روحانی معالج قرآن ہے جس سے آنکھوں کو نور عطا ہوتا ہے اور یہ مسیحا وہ نور دیتا ہے جو زمین و آسمان کا نور ہے۔ قلم کہتا ہے کہ لکھتا رہوں اور ہر اُس چہرے کے بارے میں لکھوں جو مجھے یاد ہے، ہر اُس لمحے کو لکھوں جو میرے حافظے پر نقش ہے مگر صرف یہ لکھتاہوں میں نے نور دیکھا اور نور والوں کو دیکھا۔

جب جلسہ ختم ہوا تو رات کے ساڑھے دس بجے ڈیوٹی والوں نے اپنی کاروں کو دھکے لگا کر کیچڑ سے نکالا۔ یہ جلسہ کارپارک سے نکلنے والی آخری کاریں تھی۔گیارہ بجے کپڑوں سے کیچڑ دھو کر فارغ ہوا، اپنا سامان سمیٹااور کار لےکر جنکشن ایریا پر کھڑا ہوگیا۔اور وہاں سےلوگوں کو اپنی منزلوں کی طرف جاتا دیکھنے لگا، میری آنکھیں چھم چھم برس رہی تھیں اور دل میں خیال آرہا تھا کہ جن لوگوں میں اللہ تعالیٰ روحانیت کی طلب رکھ دیتا ہے تو ان کو بتا بھی دیتا ہے کہ روحانی زندگی پانے کے لیے روحانی غذا اور روحانی پانی بہت ضروری ہے تا یہ زندگی قائم رہے، اِس زندگی پر کبھی بڑھاپا نا آئے۔ روحانی زندگی اپنے محبوب سے محبت ہے اور محبوب سے قطع تعلقی موت ہوتی ہے۔ یہ جلسہ ا ِس روحانی زندگی کی صحت کے لیے بہت ضروری روحانی غذا تو دیتا ہے ساتھ روحانی پانی بھی دیتا ہے کیونکہ جھیل میں پانی کے ساتھ ساتھ جاندار بھی ہوتے ہیں۔

سورج کب کا غروب ہوچکا تھا میرا معشوق، میرا محبوب میرے حضور اسلام آباد ٹلفوڑڈ روانہ ہو چکے تھے۔ جلسہ گاہ ویران ہو رہی تھی مگر آنکھیں خشک نہیں ہو رہی تھیں۔ میں اُس بچے جیسا محسوس کر رہاتھا جس کی پُرشفقت ماںکھو گئی ہو اور وہ دشت میں اکیلا کھڑا اس کا منتظر ہو۔ فرق صرف یہ تھاکہ مجھے علم تھا کہ میرا معشوق، میرا محبوب کہاں ملے ۔ پیارے حضور کے دیدار کےلیے مجھے ٹلفورڈ جانا تھا،اسلام آباد جہاں میری متاعِ حیات ہے، جہاں کا تصور میری رگوں میں زندگی دوڑاتا ہے۔ جہاں دُنیا کا حسین ترین بندۂخدا رہتا ہے۔ مجھے ٹلفورڈ اسلام آباد جانا ہے مگر فی الوقت کورونا کی وجہ سے ممکن نہیں۔ اے کاش ملاقات کے وقت جلد آئیں اور ہجر کی طویل رات تمام ہو۔ آمین

قدرت اپنے ہونے کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتی ہے۔ میں اُس جنکشن پر رات کی تاریکی میں اپنی کار کے پاس برستی آنکھوں کےساتھ کھڑا تھا۔ میں گاڑی میں بیٹھا، آنکھیں صاف کیں، گاڑی اسٹارٹ کی اور گھر واپس روانہ ہوا کہ یار زندہ صحبت باقی۔

جھولی رب دے اَگے کراں گا

جیوندا رئیا تے فیر ملاں گا

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button