خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍جولائی2021ء
آپؐ نے پھر اللہ کا نام لے کر کدال چلائی اورپھر ایک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور فرمایا اس دفعہ مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
’’اللہ کی قسم! اللہ جس قوم کو یہ (دولت) عطا فرماتا ہے تو ان میں آپس میں حسد اور بغض بڑھ جاتا ہے۔ اور جس قوم میں آپس میں حسد بڑھ جائے تو ان میں پھر خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ (حضرت عمرؓ)
مدائن، مَاسَبَذَانْ اور خُوْزَسْتَان کی فتح نیز جنگِ جَلُولَاء، رامَہرمز اور تُسترمیں پیش آمدہ واقعات کا بصیرت افروز بیان
پانچ مرحومین: مکرمہ پروفیسرسیدہ نسیم سعید صاحبہ اہلیہ محمد سعید صاحب (لاہور)، مکرم داؤد سلیمان بٹ صاحب (جرمنی)، مکرمہ زاہدہ پروین صاحبہ اہلیہ غلام مصطفیٰ اعوان صاحب (ڈھپئی ضلع سیالکوٹ)، مکرم رانا عبدالوحید صاحب (لندن)،مکرم الحاج میر محمدعلی صاحب (بنگلہ دیش) کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍جولائی2021ء بمطابق 30؍وفا1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا اور آپؓ کے زمانے کی جو جنگیں تھیں ان کا ذکر ہو رہا تھا۔ مدائن کی فتح کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے علم سے فرمائی تھی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’خندق کھودتے کھودتے ایک جگہ سے ایک پتھر نکلا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آتا تھا اور صحابہ کا یہ حال تھا کہ وہ تین دن کے مسلسل فاقہ سے سخت نڈھال ہورہے تھے۔ آخر تنگ آکر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ایک پتھر ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آتا۔ اس وقت آپؐ کا بھی یہ حال تھا کہ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا مگر آپؐ فوراً وہاں تشریف لے گئے اورایک کدال لے کر اللہ کانام لیتے ہوئے اس پتھر پر ماری۔ لوہے کے لگنے سے پتھر میں سے ایک شعلہ نکلاجس پر آپؐ نے زور کے ساتھ اَللّٰہُ اَکْبَرُکہا اور فرمایا کہ مجھے مملکت شام کی کنجیاں دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! اس وقت شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ اس ضرب سے وہ پتھر کسی قدر شکستہ ہو گیا۔ دوسری دفعہ آپؐ نے پھر اللہ کا نام لے کر کدال چلائی اورپھر ایک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُکہا اور فرمایا اس دفعہ مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں۔ اس دفعہ پتھر کسی قدر زیادہ شکستہ ہو گیا۔ تیسری دفعہ آپؐ نے پھر کدال ماری جس کے نتیجہ میں پھر ایک شعلہ نکلا اورآپؐ نے پھر اَللّٰہُ اَکْبَرُکہا اور فرمایا اب مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! صنعاء کے دروازے مجھے اس وقت دکھائے جا رہے ہیں۔ اس دفعہ وہ پتھر بالکل شکستہ ہو کر اپنی جگہ سے گر گیا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقعہ پر بلند آواز سے تکبیر کہی اورپھر بعد میں صحابہؓ کے دریافت کرنے پر آپؐ نے یہ کشوف بیان فرمائے اور مسلمان اس عارضی روک کو دور کر کے پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔‘‘ یعنی پتھر توڑنے کا جو کام تھا (اسے کرکے) پھر کام میں مصروف ہو گئے، پھر خندق کی کھدائی شروع ہو گئی۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ نظارے عالم کشف سے تعلق رکھتے تھے۔ گویا اس تنگی کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مسلمانوں کی آئندہ فتوحات اور فراخیوں کے مناظر دکھا کر صحابہؓ میں امید و شگفتگی کی روح پیدا فرمائی مگر بظاہر حالات یہ وقت ایسا تنگی اورتکلیف کا وقت تھا کہ منافقین مدینہ نے ان وعدوں کو سن کر مسلمانوں پر پھبتیاں اڑائیں کہ گھر سے باہر قدم رکھنے کی طاقت نہیں اورقیصر وکسریٰ کی مملکتوں کے خواب دیکھے جا رہے ہیں مگر خدا کے علم میں یہ ساری نعمتیں مسلمانوں کے لئے مقدر ہوچکی تھیں۔ چنانچہ یہ وعدے اپنے اپنے وقت پر یعنی کچھ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں اورزیادہ تر آپؐ کے خلفاء کے زمانہ میں پورے ہوکر مسلمانوں کے ازدیادِ ایمان و امتنان کا باعث ہوئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اےصفحہ 577-578)
مدائن کی فتح کا جو وعدہ ہے یہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت سعدؓ کے ہاتھوں پورا ہوا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا تھا کہ مدائن فتح ہو گا۔یہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں پورا ہوا۔ قادسیہ کو فتح کرنے کے بعد اسلامی لشکر نے بابل کو فتح کیا۔ بابل موجودہ عراق کا قدیم شہر تھا۔ بابل کو فتح کرنے کے بعد کُوْثٰی نام کے ایک تاریخی شہر کے مقام پر پہنچے۔ کُوْثٰی بابل کا نواحی علاقہ ہے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں حضرت ابراہیمؑ کو نمرود نے قید کیا تھا اور قید خانے کی جگہ اُس وقت تک محفوظ تھی۔ حضرت سعدؓ جب وہاں پہنچے اور قیدخانے کو دیکھا تو قرآن کریم کی آیت پڑھی۔
تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران:141)
یعنی یہ دن ایسے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں تا کہ وہ نصیحت پکڑیں۔کُوْثٰیسے آگے بڑھےتو بَہُرْ سِیْرنامی ایک جگہ پر پہنچے۔ یہ عراق کے شہر مدائن کے اس حصہ کا نام ہے جو دریائے دجلہ کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ یہاں کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا۔ حضرت سعدؓ کا لشکر قریب پہنچا تو انہوں نے اس درندے کو لشکر پر چھوڑ دیا۔ شیر گرج کر لشکر پر حملہ آور ہوا۔ حضرت سعدؓ کے بھائی ہاشم بن ابی وقاص لشکر کے ہراول دستے کے افسر تھے۔ انہوں نے شیر پر تلوار سے ایسا وار کیا کہ شیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ پھر اس کے بعد مدائن کا معرکہ بھی ہوا۔ مدائن بھی عراق میں ہے اس کی location یہ ہے کہ بغداد سے کچھ فاصلے پر جنوب کی طرف دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے۔اس کا نام مدائن رکھنے کی وجہ کیا ہے ؟کیونکہ یہاں یکے بعد دیگرے کئی شہر آباد ہوئے تھے اس لیے عربوں نے اسے مدائن یعنی کئی شہروں کا مجموعہ کہنا شروع کر دیا۔ مدائن کسریٰ کا پایہ تخت تھا۔ یہاں پر اس کے سفید محلات تھے۔ مسلمانوں اور مدائن کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا۔ ایرانیوں نے دریا کے تمام پل توڑ دیے۔ تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت سعدؓ نے کشتیاں تلاش کیں کہ وہ دریا کو عبور کر سکیں لیکن معلوم ہوا کہ وہ لوگ کشتیوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ حضرت سعدؓ چاہتے تھے کہ مسلمان دریا عبور کریں لیکن وہ مسلمانوں کی ہمدری میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ چند دیہاتی لوگوں نے بھی دریا عبور کرنے کا راستہ بتایا کہ اس جگہ سے چلے جائیں تو آسانی سے کر سکتے ہیں تاہم حضرت سعدؓ نے اس پر بھی عمل نہیں کیا۔ اسی دوران دریا میں طغیانی بھی آ گئی۔ ایک رات آپؓ کو خواب دکھایا گیا کہ مسلمانوں کے گھوڑے پانی میں داخل ہوئے ہیں اور دریا کو پار کر لیا ہے حالانکہ وہاں طغیانی بھی ہے۔ اس خواب کی تکمیل میں حضرت سعدؓ نے دریا کو عبور کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ حضرت سعدؓ نے فوج سے کہا کہ مسلمانو! دشمن نے دریا کی پناہ لے لی ہے۔ آؤ اس کو تیر کر پار کریں اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ حضرت سعدؓ کے سپاہیوں نے اپنے قائد کی پیروی کرتے ہوئے گھوڑے دریا میں ڈال دیے اور اسلامی فوجیں دریا کے پار اتر گئیں۔ مقابل فوج نے یہ حیران کن منظر دیکھا تو خوف سے چیخنے لگے اور بھاگ کھڑے ہوئے کہ ’’دیوان آمدند! دیوان آمدند!‘‘ یعنی دیو آ گئے۔ دیو آ گئے۔ مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر اور کسریٰ کے محلات پر قبضہ کر لیا۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہی کسریٰ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو وہاں سے منتقل کر دیا تھا چنانچہ مسلمانوں نے آسانی کے ساتھ شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہو گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھودتے ہوئے پتھر پر کدال مارتے ہوئے فرمائی تھی کہ مجھے مدائن کے سفید محلات گرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ ان محلات کو سنسان حالات میں دیکھ کر حضرت سعدؓ نے سورۂ دخان کی یہ آیات پڑھیں کہ
کَمۡ تَرَکُوۡا مِنۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِيْمٍ وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِيْهَا فٰكِهِيْنَ کَذٰلِکَ ۟ وَ اَوۡرَثۡنٰہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ(الدخان:26-29)
کتنے ہی باغات اور چشمے ہیں جو انہوں نے پیچھے چھوڑے اور کھیتیاں اور عزت و احترام کے مقام بھی اور نازو نعمت جس میں وہ مزے اڑایا کرتے تھے۔ اسی طرح ہوا اور ہم نے ایک دوسری قوم کو اس نعمت کا وارث بنا دیا۔
حضرت سعدؓ نے حکم دیا کہ شاہی خزانہ اور نوادرات کو ایک جگہ پر جمع کیا جائے۔ اس خزانے میں بادشاہوں کی یادگاریں جو کہ ہزاروں کی تعداد میں تھیں جن میں زرہیں ،تلواریں، خنجر، تاج اور شاہی ملبوسات شامل تھے۔ سونے کا ایک گھوڑا تھا جس پر چاندی کا زین تھا اور سینے پر یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔ اسی طرح چاندی کی ایک اونٹنی تھی جس پر سونے کی پالان تھی اور مہار میں بیش قیمت یاقوت پروئے ہوئے تھے۔ مال غنیمت میں ایک فرش بھی تھا جس کو ایرانی ’’بہار‘‘ کہتے تھے۔ اس کی زمین سونے کی اور درخت چاندی کے اور پھل جواہرات کے تھے۔ یہ تمام سامان فوج نے اکٹھا کیا لیکن مسلمان سپاہی ایسے راست باز اور دیانت دار تھے، یہاں مسلمان سپاہیوں کی دیانتداری کا پتہ لگتا ہے کہ جس نے جو چیز پائی اسی طرح لا کر افسر کے پاس حاضر کر دی۔ چنانچہ جب سامان لا کر سجایا گیا اور دور دور تک میدان جگمگا اٹھا تو حضرت سعد ؓکو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی اور کہا کہ جن لوگوں نے ان نوادرات میں سے کچھ لیا نہیں بلا شبہ انتہا کے دیانت دار ہیں۔ مالِ غنیمت حسبِ قاعدہ تقسیم ہو کر پانچواں حصہ دربار ِخلافت میں بھیجا گیا۔ فرش اور قدیم یادگاریں اس حالت میں بھیجی گئیں کہ اہل عرب ایرانیوں کے جاہ و جلال اور اسلام کی فتح و اقبال کا تماشا دیکھیں۔ حضرت عمر ؓکے سامنے جب یہ سامان چنے گئے تو ان کو بھی فوج کی دیانت اور استغنا پر حیرت ہوئی۔ حضرت عمر ؓنے بھی بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ کتنے ایمان دار سپاہی ہیں۔ مُحَلِّمْ نام ایک شخص مدینہ میں تھا جو دراز قد اور خوبصورت تھا۔ حضرت عمر ؓنے حکم دیا کہ نوشیرواں کے ملبوسات اس کو لا کر پہنائے جائیں۔ یہ ملبوسات مختلف حالتوں کے تھے۔ چنانچہ تمام ملبوسات اسے باری باری پہنائے گئے۔ ان ملبوسات کی خوبصورتی کو دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔ اس طرح وہ فرش جس کا نام ’’بہار‘‘ تھا اس کو بھی تقسیم کروا دیا گیا۔
(ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ 413 تا 417 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 100 تا 103 ادارہ اسلامیات 2004ء)
(ماخوذ از تاریخ طبری مترجم جلد دوم حصہ دوم صفحہ 388 نفیس اکیڈیمی کراچی 2004ء)
(معجم البلدان جلد4 صفحہ 553، جلد5 صفحہ 88، 89)
پھر جنگ جَلُولَاء ہے جو 16؍ ہجری میں لڑی گئی۔ مدائن کی فتح کے بعد ایرانیوں نے جَلُولَاء میں جمع ہوکر مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ حضرت سعدؓ نے ہَاشِم بن عُتْبہ کو بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ حضرت عمر ؓ کے حکم پر ایرانی لشکر سے مقابلے کے لیے بھیجا۔ جَلُولَاءعراق کا شہر ہے جو بغداد سے خراسان جاتے ہوئے راہ پر پڑتا ہے۔ یہاں مسلمانوں اور فارسیوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ مسلمان جب یہاں پہنچے تو انہوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ مہینوں محاصرہ رہا۔ ایرانی وقتاً فوقتاً قلعہ سے باہر نکل کر حملہ آور ہوتے رہے۔ اس طرح اسّی (80)معرکے ہوئے۔ مسلمانوں نے جَلُولَاءکی فتوح کا حال حضرت عمر ؓکو لکھا اور یہ بھی لکھا کہ حضرت قَعْقَاعؓ حُلْوَانْ میں خیمہ زَن ہیں۔ نیز خط میں حضرت عمرؓ سے اہلِ عجم کا تعاقب کرنے کی اجازت مانگی گئی مگر آپؓ نے یہ بات منظور نہیں کی کہ تعاقب نہیں کرنا۔ پیچھے نہیں جانا بلکہ فرمایا میں چاہتا ہوں کہ سوادِ عراق اور ایران کے پہاڑ کے درمیان دیوار حائل ہوتی تا کہ نہ ایرانی ہماری طرف آتے اور نہ ہم ان کے علاقوں میں جاتے۔ ہمارے لیے سواد عراق کا دیہاتی علاقہ کافی ہے۔ میں مال غنیمت حاصل کرنے پر مسلمانوں کی سلامتی کو ترجیح دیتا ہوں۔ اس بات کا مجھے کوئی شوق نہیں کہ مالِ غنیمت اکٹھا کروں۔ مسلمانوں کی حفاظت، ان کی جان کی حفاظت زیادہ ضروری ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضرت سعدؓ نے قُضَاعِی بِن عَمْرودُؤَلِی کےہاتھ خمس میں سے سونے چاندی کے برتن اور کپڑے اور اَبُومُفَزِّر اَسْوَدْ کے ہاتھ قیدی بھجوائے۔ دوسری روایت کے مطابق خمس قُضَاعِی اور اَبُومُفَزِّر کے ہاتھوں بھیجا گیا تھا اور اس کا حساب زِیاد بن ابوسُفْیَان کے ذریعہ بھیجا گیا کیونکہ وہ حساب کتاب کے منشی تھے اور اسے رجسٹروں میں محفوظ رکھتے تھے۔ جب یہ سارا کچھ حضرت عمر ؓکے پاس پہنچا تو زِیاد نے مالِ غنیمت کے بارے میں حضرت عمر ؓسے گفتگو کی اور اس کی تمام تفصیلات کہہ سنائیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا تم مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر اس کو بیان کر سکتے ہو۔ یہ تفصیلات جو مجھے بتا رہے ہو۔ زیاد نے جواب دیا خدا کی قسم! روئے زمین پر آپؓ سے زیادہ میرے دل میں کسی کا ڈر نہیں اور جب آپ کے سامنے میں نے بیان کر دیا تو اَوروں کے سامنے کیوں نہیں بیان کر سکوں گا۔ چنانچہ حضرت زِیاد نے لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر تمام حالات بیان کیے اور مسلمانوں نے جو کارنامے سرانجام دیے تھے ان کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح جنگ ہوئی، کس طرح مال غنیمت ہاتھ آیا، نیز کہا مسلمان اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ وہ دشمن کے ملک میں آگے تک دشمنوں کا تعاقب کریں۔ حضرت عمرؓ نے ان کی تقریر سن کر فرمایا: یہ بہت بڑا صاحبِ لسان خطیب ہے۔ زِیاد نے کہا: ہماری فوج نے اپنے کارناموں کے ذریعہ ہماری زبان کھول دی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عمر ؓ کے پاس خُمس پیش کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا: یہ اس قدر کثیر مالِ غنیمت ہے کہ کسی چھت تلے نہ سما سکے گا۔ لہٰذا مَیں بہت جلد اس کو تقسیم کر دوں گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓاور عبداللہ بن ارقم مسجد کے صحن میں اس مال کی رات بھر چوکیداری کرتے رہے۔ مال آیا مسجد کے صحن میں رکھا گیا تو یہ دو صحابہ اس کی حفاظت کرتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو حضرت عمرؓ لوگوں کے ساتھ مسجد میں آئے اور مال غنیمت سے کپڑا اٹھایا گیا تو آپؓ نے یاقوت، زَبَرْجَد اور بیش قیمت جواہرات دیکھے اور رو پڑے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓنے حضرت عمر ؓسے عرض کیا: اے امیرالمومنینؓ! آپؓ کیوں رو رہے ہیں۔ اللہ کی قَسم! یہ تو شکر کا مقام ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: اللہ کی قسم!مجھے اس چیز نے نہیں رلایا۔ اللہ کی قَسم! اللہ جس قوم کو یہ عطا فرماتا ہے تو ان میں آپس میں حسد اور بغض بڑھ جاتا ہے۔ اس خیال نے مجھے رلایا ہے کہ یہ دولت جو تمہارے پاس آ رہی ہے اس سے کہیں تم لوگوں کے درمیان بھائی چارے کی بجائے حسد اور بغض نہ بڑھ جائے اور جس قوم میں آپس میں حسد بڑھ جائے تو ان میں پھر خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے۔
(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد2صفحہ468تا 471دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ 420، 421 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
(ماخوذ ازالفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 104 ادارہ اسلامیات 2004ء)
یہ بڑے غور اور فکر والی بات ہے اور یہ استغفار کرنے والی بات بھی ہے یہ جو آپؓ نے بیان فرمائی ہے اور یہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں حسد اور بغض دولت کے آنے کے ساتھ ساتھ بڑھتاہی چلا گیا۔ جن کے پاس تیل کی دولت ہے ان میں بھی ہے یا انفرادی طور پر دیکھیں تو جس کے پاس کچھ اَور دولت آئی ہے تب بھی یہی حال ہے۔ تقویٰ میں کمی ہے۔
مدائن کی جنگ کے دوران شاہ ایران یَزْدَجَرْد اپنا پایہ تخت مَدَائن چھوڑ کر اپنے خاندان اور ملازمین کے ہمراہ حُلْوَان کو روانہ ہو گیا تھا۔ یَزْدَجَرْد کو جَلُولَاء کی شکست کی خبر پہنچی تو وہ حُلوان چھوڑ کر رَے کو روانہ ہوا اور خُسْرُوشَنُوْم کو جو ایک معزز افسر تھا چند رسالوں کے ساتھ حُلْوان کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا، کچھ فوجی دستوں کے ساتھ وہاں چھوڑ دیا ۔ حضرت سعدؓ خود جَلُولَاء میں ٹھہرے اور قَعْقَاع کو حُلْوان کی طرف روانہ کیا۔ قَعْقَاع قصر شیریں کے قریب پہنچے جو حُلْوان سے تین میل کے فاصلہ پر ہے کہ خُسْرُوشَنُوْم خود آگے بڑھ کر مقابل ہوا لیکن شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ قَعْقَاع نے حلوان پہنچ کر قیام کیا اور ہر طرف امن کی منادی کرا دی۔ اطراف کے رئیس آآ کر جزیہ قبول کرتے جاتے تھے اور اسلام کی حمایت میں آتے جاتے تھے۔
(الفاروق از شبلی نعمانی صفحہ 106مکتبۃ الحرمین اردو بازار لاہور 1437ھ)
(الأخبار الطوال، وقعۃ القادسیہ، صفحہ183دارالکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
مَاسَبَذَانْ کی فتح کس طرح ہوئی۔ اس بارے میں آتا ہے کہ حضرت ہاشِم بن عُتبہؓ جو جَلُولَاء کے معرکے میں امیرِ لشکر تھے واپس مدائن آ چکے تھے اور حضرت سعدؓ ابھی مدائن میں ہی مقیم تھے کہ اطلاع ملی کہ ایک ایرانی لشکر آذِیْن بن ہُرْمُزَان کی سرکردگی میں مسلمانوں سے ٹکر لینے کے لیے میدانی علاقے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حضرت سعدؓ نے یہ رپورٹ حضرت عمر ؓکی خدمت میں بھجوا دی۔ حضرت عمرؓ نے یہ ہدایت کی کہ ضِرَار بنِ خَطَّاب کی سرکردگی میں ایک لشکر مقابلہ کے لیے بھیجا جائے جس کے ہراول دستوں کی قیادت اِبنِ ہُذَیْل کے ہاتھ میں ہو اور عبداللہ بن وَہْب رَاسْبِیاور مُضَارِب بن فُلانَ عِجْلیْ بازوؤں کے کمانڈر ہوں۔ اسلامی لشکر ایرانی لشکر کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا اور مَاسَبَذَانْ کے میدانی علاقے کے قریب دشمن سے جا ملا اور ہَنْدَفْ مقام پر لڑائی ہوئی جس میں ایرانیوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر مَاسَبَذَانْ پر قبضہ کر لیا۔ باشندے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے مگر ضِرار بن خَطَّاب نے انہیں دعوت دی کہ آ کر امن سے اپنے شہر میں آباد ہو جائیں۔ انہوں نے دعوت قبول کر لی اور اپنے گھروں میں آباد ہو گئے۔
(طبری جلد2صفحہ475 دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
بلاذری نے مَاسَبَذَانْ کی فتح کے بارے میں مختلف روایات لی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ ابوموسیٰ اشعریؓ نے نہاوند کے معرکے سے واپسی پر اس شہر کو بغیر لڑائی کے فتح کیا تھا۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ120)
(فتوح البلدان علامہ بلاذری صفحہ 185 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
خُوْزَسْتَان کی فتوحات کا حال یوں بیان ہوا ہے۔خُوْزَسْتَان ایران کا ایک صوبہ ہے۔ ہُرْمُزَان اسلام قبول کرنے سے پہلے اسی صوبہ کا گورنر تھا۔ اس علاقے اور اس علاقے کے مکینوں کو خُوْزکہا جاتا تھا۔ اس سے مراد خُوْزَسْتَان کے رہنے والے اہواذکے نواح میں فارس اور بصریٰ اور واسِط اور اصفہان کے پہاڑوں کے درمیان کا علاقہ ہے۔
14؍ ہجری میں حضرت عمرؓ نے فوجی نقطہ نظر سے بعض فوائد دیکھ کر عراق میں چھوٹے پیمانے پر ایک دوسرا فرنٹ کھول دیا اور عُتْبَہ بن غَزْوَانکی سرکردگی میں ایک چھوٹا سا لشکر اس مقام کی طرف روانہ فرمایا جہاں ابتداءً اس لشکر کے لیے بطور چھاؤنی شہر بصرہ کی داغ بیل ڈالی۔ یہ لشکر نہ صرف ارد گرد کے دشمن کے علاقوں پر فتح حاصل کر رہا تھا بلکہ عراقی جنگی مہم میں اس رنگ میں مفید ہو رہا تھا کہ نواح کی ایرانی افواج اعلیٰ اور بڑے محاذ پر اپنے ساتھیوں کی مسلسل شکستوں کی خبریں سن کر بھی ان کی امداد کے لیے نہ جا سکتی تھیں۔ زیادہ مقصد یہی لگتا ہے فوج یہاں بٹھانے کا، اس رستہ پہ قبضہ کرنے کا،کہ ایرانی افواج کی کمک اور مدد وہاں نہ جائے اور وہ مسلمانوں پر حملے نہ کرتے رہیں۔ اس لشکر کے امیرحج کرنے اور حضرت عمر ؓسے ملاقات کی غرض سے واپس حجاز گئے تھے اور حضرت عمرؓ نے آپ کی غیر حاضری میں اس لشکر کی قیادت حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓکو دی تھی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ پر جب ایک اخلاقی جرم کا الزام لگایا اور اس کی تحقیقات کے سلسلہ میں حضرت عمر ؓنے انہیں معزول کر کے مدینہ بلایا ہوا تھا تو ان کی جگہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓکو کمانڈر مقرر کیا تھا۔ بہرحال تحقیقات پر حضرت مغیرہ پر جو الزام لگا تھا وہ غلط ثابت ہوا تھا۔
(ماخوذ ازتاریخ طبری جلد دوم صفحہ438تا 442 دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 116 زوار اکیڈیمی کراچی 2003ء)(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 259-260)
روایات میں اختلاف ہے کہ سولہ ہجری یا سترہ ہجری میں اسلامی لشکر کی مصروفیات بھی کافی رہیں اور اس میدان کی جنگی سرگرمیاں بھی وسعت پکڑ گئیں اور مسلمانوں نے خُوْزَسْتَان کے معروف شہر اَہْوَاز پر قبضہ کر لیا۔ مؤرخ طبری نے سترہ ہجری کے واقعات میں بیان کیا ہے مگر ساتھ ہی لکھا ہے کہ بعض روایات سے اس فتح کا سنہ سولہ ہجری معلوم ہوتا ہے۔ اس فتح کے ذکر میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس وقت امیر لشکر عُتْبَہ بن غَزْوَان ہی تھے۔ لیکن بلاذری نے جو اس کی وضاحت کی ہے لکھا ہے کہ اَہْوَاز اور اس کے بعد کی فتوحات حضرت عتبہ بن غزوانؓ کے واپس تشریف لے جانے کے بعد حضرت مغیرہ بن شعبہؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓکی سرکردگی میں ہوئیں اور لکھا ہے کہ حضرت مغیرہؓ نے اَہْوَاز کو فتح کیا۔ اَہْوَازکے رئیس بَیْرُوْز نامی نے پہلے تو مقابلہ کیا مگر پھر مصالحت کر لی۔ کچھ عرصہ بعد جب حضرت مغیرہؓ کی جگہ ابوموسیٰ اشعری بصرہ کے علاقے کے اسلامی لشکر کے امیر مقرر ہوئے توبَیْرُوْز رئیس نے عہد شکنی کر کے بغاوت کر دی۔ اس پر حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ مقابلے کے لیے نکلے اور لڑائی کے بعد شہر پر قبضہ کر لیا۔ یہ واقعہ سترہ ہجری میں پیش آیا۔
اَہْوَاز کے معرکے میں اسلامی فوج نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر کے غلام بنا لیا مگر حضرت عمر ؓ کے حکم سے سب کو رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کوئی غلامی نہیں۔ سب جو قیدی تھے سب کو رہا کر دیا۔ آزادی دے دی۔ طبری نے لکھا ہے کہ اس علاقے میں ایرانی دو راستوں سے مسلمان لشکر پر بار بار حملہ آور ہوتے تھے۔ ان دونوں راستوں پر دو مقام نَہْر تِیْرٰی اور مَنَاذِرْ چھاپہ مار ایرانیوں کے مرکز تھے۔ ان دونوں مقامات پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔ اکثر جگہ ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا تھا، بار بار حملے کیے جاتے تھے وہیں پھر مسلمانوں نے حملے کیے اور ان جگہوں پر قبضہ کیا۔ چنانچہ بلاذری نے لکھا ہے کہ ابوموسیٰ اشعری نے نہر تِیْرٰی کو اَہْوَاز کے ساتھ فتح کر لیا اور اَہْوَاز کی فتح کے بعد آپ دوسرے مقام یعنی مَنَاذِرکی طرف بڑھے اور شہر کا محاصرہ کر لیا اور لڑائی شدت پکڑ گئی۔ اس محاصرے کے دوران میں ایک روز ایک مسلمان بہادر مُہَاجِر بن زِیاد روزہ رکھے ہوئے اپنی جان خدا تعالیٰ کے حضور میں قربان کرنے کے ارادے سے دشمن کے مقابلے کے لیے نکلے۔ مہاجر کے بھائی ربیع نے امیر لشکر ابوموسیٰ کو اطلاع کر دی کہ مہاجر روزہ رکھ کر میدان میں جا رہے ہیں۔ ابوموسیٰ نے اعلان کروا دیا کہ جس نے روزہ رکھا ہے وہ یا تو روزہ کھول دے یا میدان جنگ میں نہ جائے۔ مُہَاجِر نے یہ اعلان سن کر پانی کے ایک گھونٹ سے روزہ افطار کیا اور بولے امیر کےحکم کی خاطر ایسا کرتا ہوں ورنہ مجھے پیاس بالکل نہیں ہے۔ یہ کہہ کر ہتھیار اٹھائے اور دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ شہر والوں نے آپ کا سر کاٹ کر محل کے بلند کنگروں پر لٹکا دیا۔ محاصرہ طول پکڑ رہا تھا۔ ابوموسیٰ اشعری نے غالباً حضرت عمرؓ کے حکم سے لشکر کا ایک حصہ مُہَاجر کے بھائی ربیع کی کمان میں مَنَاذِر کے محاصرے کے لیے چھوڑا اور خود شہر سُوْسکی طرف روانہ ہوئے۔ ادھر ربیع نے لڑتے بھڑتے شہر پر قبضہ کر لیا اور بہت سے لوگ قیدی بنا لیے مگر حضرت عمرؓ کے احکامات کے نتیجہ میں یہاں بھی سب قیدی رہا کر دیے گئے۔ حضرت ابوموسیٰ سُوْسکی طرف بڑھے۔ شہر والوں نے پہلے مقابلہ کیا اور لڑائی کے بعد شہر میں محصور ہو کر بیٹھ گئے۔ بالآخر جب غذا کی تنگی ہوئی تو ہتھیار ڈال دیے۔
ان واقعات کی فتوحات کی تفصیل میں میر محمود احمد صاحب نے مقالے میں جوتحقیق اور اپنا تجزیہ کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ طبری اور بلاذری میں متعدد اختلافات ہیں جن کی وجہ غالباً یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس علاقے میں ایرانی سرداروں کی عہد شکنی کر کے بغاوت کے نتیجہ میں اسلامی لشکر کی دوبارہ جنگی نقل و حرکت کے واقعات روایات میں پہلی مرتبہ کی فتوحات کے واقعات سے مل کر مشتبہ ہو گئے ہیں۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ124تا 127)
(طبری جلد 2صفحہ494 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)
(فتوح البلدان صفحہ 225-226)
فتوحات جو تھیں وہ ، اور پھر دوبارہ جو امن قائم کرنے کے لیے ہوا ، وہ مشتبہ ہوگیا ہے لیکن بہرحال یہ ان کا ایک نقطہ نظر ہے۔
جنگ رَامَہُرْمُزْ اور تُسْتُ۔ یَزْدَجَرْد شاہِ ایران جو جَلُولَاء کے معرکے کے بعد رَے سے ہوتا ہوا اِصْطَخَرْ چلا گیا تھا۔ یہ اِصْطَخَرْ بھی ایک جگہ کا نام ہے۔ ابھی اس نے شکست نہیں مانی تھی اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے لوگوں کو غیرت دلا رہا تھا اور پوری کوشش میں تھا کہ اس علاقے خُوْزَسْتَان میں، جہاں کی فتوحات کا ہم ذکر کر رہے ہیں ،مسلمانوں کے مقابلے کے لیے امدادی فوج بھجوائی جائے ۔ دوسری وجہ جو اس علاقے میں جنگ کی آگ تیز کرنے کا موجب بنی ہوئی تھی وہ یہاں کے ایک نامی رئیس ہُرْمُزَان کی مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائی تھی۔ ہُرْمُزَان قادِسیہ کے معرکہ میں شریک ہو چکا تھا اور وہاں سے شکست کھا کر اپنے وطن میں آ گیا تھا اور یہاں مسلمانوں پر مسلسل چھاپے مار رہا تھا۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ127-128)
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ473و494،دارالکتب العلمیہ بیروت2012ء)
جَلُولَاءمیں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایرانی ہُرْمُزَان کی قیادت میں رَامَہُرْمُزْ میں جمع ہوئے۔ رَامَہُرْمُزْ جو ہے یہ بھی خُوْزَسْتَان کے نواح میں ایک مشہور شہر تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عمرؓ کی ہدایت پر نعمان بن مُقَرِّن کو لشکر کا سردار بنا کر کوفہ سے روانہ کیا اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو بصرہ سے روانہ کیا اور فرمایا کہ جب دونوں لشکر اکٹھے ہو جائیں تو اَبُوسَبْرَہ بن رُھْم ان کے کمانڈر ہوں گے۔ نعمان بن مُقَرِّن کی فوج کے بارے میں جب ہُرْمُزَانکو علم ہوا تو اس نے مقابلہ کیا اور شدید جنگ کے بعد ہُرْمُزَان شکست کھا کر تُسْتَرْ کی طرف بھاگ گیا۔ تُسْتَرْ بھی خُوْزَسْتَان سے ایک دن کے فاصلے پر ایک بڑا شہر ہے اور شہر میں محصور ہو گیا ۔ حضرت اَبُوسَبْرَہ ؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے شہر کا محاصرہ کر لیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔ ایرانی فوج بار بار باہر نکل کر حملہ آور ہوتی اور واپس آ کر دروازے بند کر لیتی۔ اس طرح اس جنگ میں اسّی معرکے ہوئے۔آخری معرکہ میں مسلمانوں نے بھرپور شدت سے حملہ کیا۔ جب مسلمانوں کی طرف سے حصار سخت ہو گیا تو دو فارسیوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ شہر سے پانی نکلنے والے راستے سے اندر جا کر شہر کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مسلمان شہر میں داخل ہو گئے۔
اس بارے میں اخبار الطِّوَال کے مصنف ابوحنیفہ دِیْنَوَرِی نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کا محاصرہ طویل ہو گیا۔ ایک رات شہرکا ایک معزز شخص حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے پاس آیا اور اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کو امان ملنے کے عوض شہر میں قبضہ کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے اسے امان دی۔ فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ وہ شخص مسلمان بھی ہو گیا تھا۔ اس شخص نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی شخص بھیج دیں تا کہ میں اسے آگاہ کر دوں۔ یعنی رستہ بتاؤں کہ کس طرح مسلمان قلعہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے قبیلہ بنو شَیْبَان میں سے ایک شخص اَشْرَسْ بن عَوفکو اس کے ساتھ بھیجا۔ وہ دونوں ایک چھوٹی سی نہر میں سے ہوتے ہوئے ایک سرنگ کے راستے سے شہر میں داخل ہوئے۔ اس نے اَشْرَسْبن عَوف پر ایک چادر اوڑھا دی اور اسے کہا کہ تم میرے پیچھے پیچھے میرے خادموں کی طرح آؤ۔ وہ اسے لے کر شہر کے طول و عرض میں پھرا۔ پھر وہ شہر کے دروازے پر گیا جہاں پہرے دار موجود تھے پھر وہ ہُرْمُزَان کے پاس پہنچا جو کہ اپنے محل کے دروازے پر مجلس لگائے بیٹھا تھا۔ یہ سب دکھانے کے بعد وہ اس کو اسی راستہ سے واپس لے آیا۔ اَشْرَسْ بن عَوف نے واپس پہنچ کر حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓکو سب کچھ بتایا۔ اَشْرَسْ بن عوف نے کہا کہ آپ میرے ساتھ دو سو بہادر بھیج دیں میں پہرے داروں کو قتل کر کے دروازہ کھلوا دوں گا اورآپ باہر سے دروازے سے ہمارے ساتھ مل جائیں۔ اس طرح اَشْرَسْ بن عَوفاپنے ساتھیوں سمیت اس خفیہ رستے سے شہر میں داخل ہوئے اور پہرے داروں کو قتل کر کے شہر کے دروازے کھول دیے ۔ اسلامی لشکر اللّٰہ اکبر کے نعرے بلند کرتا ہوا شہر میں داخل ہوا۔ ہُرْمُزَان نعروں کی آواز سن کر اپنے قلعہ کی طرف بھاگا جو کہ اس شہر کے اندر ہی موجود تھا۔ مسلمانوں نے قلعہ کو گھیر لیا۔ ہُرْمُزَان اوپر سے دیکھ کر بولا کہ میرے ترکش میں سو تیر ہیں۔ جب تک ان میں سے ایک تیر بھی باقی ہے مجھے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ اس کے بعد اگر مَیں گرفتار ہوا تو میری گرفتاری کے کیا کہنے ۔ مسلمانوں نے کہا کہ پھر تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اس شرط پر ہتھیار ڈالتا ہوں کہ میرا فیصلہ حضرت عمرؓ پر چھوڑ دیا جائے۔ ہُرْمُزَان نے ہتھیار پھینک دیے اور خود کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے ہُرْمُزَان کو حضرت انس بن مالکؓ اور اَحْنَفْ بن قَیس کی نگرانی میں حضرت عمرؓ کی خدمت میں مدینہ بھجوا دیا۔ جب قافلہ مدینہ میں داخل ہوا تو انہوں نے ہُرْمُزَان کو اس کا اپنا ریشمی لباس پہنایا جس پر سونے کا کام ہوا ہوا تھا۔ قیدی تھا لیکن اس کو لباس پہنا دیا جو بڑا شان والا لباس تھا۔ اس کے سر پر ہیروں سے جڑا ہوا تاج رکھا گیا تا کہ حضرت عمرؓ اور مسلمان اس کی اصل ہیئت کو دیکھ لیں۔ یہ بتانے کے لیے کہ دیکھو اتنے بڑے سردار کو ہم نے زیر کیا ہے۔ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ وہ جب مسجد میں پہنچے تو حضرت عمرؓ اپنی پگڑی پر سر رکھ کر سوئے ہوئے تھے۔ ہُرْمُزَان نے پوچھا عمر کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ سو رہے ہیں۔ اس وقت مسجد میں آپ کے علاوہ اَور کوئی بھی نہیں تھا۔ ہُرْمُزَان نے پوچھا ان کے پہرے دار اور دربان کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا ان کو کسی پہرے دار، درباری، کاتب اور دیوان کی ضرورت نہیں ہے۔ ہُرْمُزَان نے بے ساختہ کہاکہ یہ شخص ضرور کوئی نبی معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ نبی تو نہیں مگر انبیاء کے طریق پر ضرور ہیں۔ حضرت عمرؓ لوگوں کی باتوں سے بیدار ہو گئے۔ حضرت عمر ؓنے پوچھا کیا ہُرْمُزَان ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں۔ تو حضرت عمر ؓنے اس کو اور اس کے لباس کو بغور دیکھا اور کہا میں آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں اور اللہ سے مدد مانگتا ہوں۔ قافلہ کے لوگوں نے کہا کہ یہ ہُرْمُزَانہے اس سے بات کرلیں۔ آپؓ نے کہا ہرگز نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنا زرق برق لباس اور زیورات اتار دے۔ تو اس کے تمام زیورات اور شاہانہ لباس کو اتار دیا گیا۔ ہُرْمُزَان سے گفتگو شروع ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے کہا عہد شکنی اور دھوکا دہی کا انجام دیکھا ہے۔ جو جنگ ہوئی تھی یا اس کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھی، اس کی عہد شکنی کی وجہ سے ہو رہی تھی اور دھوکا دینے کی وجہ سے ہو رہی تھی۔ اس نے کہا جاہلیت میں جب خدا ہم دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہ تھا تو ہم تم پر غالب تھے مگر اب خدا کی مدد تمہارے ساتھ ہے اس لیے اب تم غالب ہو۔ ہُرْمُزَان نے حضرت عمرؓ کو یہ جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں تم اس وجہ سے غالب تھے کہ تم میں اتحاد تھا اور ہم میں افتراق تھا۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تم لوگ اکٹھے تھے اور ہم میں افتراق تھا۔ پھر حضرت عمرؓ نے ہُرْمُزَان سے پوچھا۔ تم نے بار بار عہد شکنی کی اب تم کیا عذر کرتے ہو؟جیسا کہ میں نے کہا مسلمانوں نے ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ان سے جنگ کی تھی کیونکہ وہ لوگ جو تھے وہ پُرامن ہمسائے کے طور پر رہنا نہیں چاہتے تھے۔ ہُرْمُزَان نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ آپ مجھے یہ بتانے سے پہلے ہی قتل نہ کر دیں۔ حضرت عمر ؓنے کہا ڈرو نہیں۔ اس پر ہُرْمُزَان نے پانی مانگا تو اس کے لیے ایک پرانے پیالے میں پانی لایا گیا۔ ہُرْمُزَان نے کہا کہ میں اس طرح کے پیالے میں پانی نہیں پیوں گا خواہ میں پیاسا ہی مر جاؤں۔ چنانچہ اسے اس کے شایان شان برتن میں پانی دیا گیا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ ہُرْمُزَان نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ جب میں پانی پی رہا ہوں گا تو مجھے قتل کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا جب تک تو پانی پی نہ لے تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ یہ سن کر اس نے پانی زمین پر گرا دیا۔ ہوشیار تھا، اس نے کہا اچھا پانی پینا اگر شرط ہے تو مسلمان تو وعدے کے پکے ہیں۔ تو اس نے کہا میں پانی پیتا ہی نہیں اور پانی زمین پہ گرا دیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا اسے دوبارہ پانی دو اور اسے پیاسا قتل نہ کیا جائے۔ سزا تو اس کی یہی تھی عہد شکنی اور فتنہ و فساد اور مسلمانوں سے جنگ۔ ہُرْمُزَان نے کہا مجھے پانی کی پیاس نہیں تھی میں تو اس طرح امان حاصل کرنا چاہتا تھا۔ آخر وہ سچ بول پڑا۔ اس کے بعد ہُرْمُزَان نے اسلام قبول کر لیا اور مدینہ میں ہی رہائش اختیار کرلی۔ حضرت عمرؓ نے اس کا دو ہزار وظیفہ مقرر کر دیا۔
(ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ422تا 425 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
(ماخوذ از الاخبار الطوال از علامہ ابو حنیفہ دینوری صفحہ 188 تا 190 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
(فتوح البلدان صفحہ 536 مطبوعہ موسسۃ المعارف بیروت 1987ء)
(معجم البلدان جلد3 صفحہ19، جلد2 صفحہ34۔ دار صادر بیروت1977ء)
عِقْدُ الْفَرِید میں لکھا ہے کہ جب ہُرْمُزَان کو حضرت عمرؓ کے پاس قیدی بنا کر لایا گیا تو آپؓ نے اسے اسلام کی دعوت دی لیکن ہُرْمُزَان نے انکار کر دیا۔ حضرت عمر ؓنے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ جب اسے قتل کیا جانے لگا تو اس نے کہا اے امیر المومنین! اگر آپؓ مجھے پانی پلا دیں۔ حضرت عمر ؓنے پانی پلانے کا حکم دیا۔ جب پانی کا برتن اس کے ہاتھ میں رکھا گیا تو اس نے حضرت عمرؓ سے کہا کیا میں پانی پینے تک امن میں ہوں؟ حضرت عمر ؓنے کہا ہاں۔ اس پر ہُرْمُزَان نے پانی کا برتن ہاتھ سے پھینک دیا اور کہا کہ آپ اپنا وعدہ پورا کریں۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ میں تجھے کچھ مہلت دیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تُو کیسے عمل کرتا ہے۔ جب اس سے تلوار دور کر دی گئی تو ہُرْمُزَان نے کہا کہ
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهٗ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ
کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور اس کے رسول ہیں۔ حضرت عمر ؓنے ہُرْمُزَان سے پوچھا کہ تُو پہلے کیوں نہ ایمان لے آیا۔ اس پر ہُرْمُزَان نے کہا کہ اے امیر المومنین! مجھے ڈر تھا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں تلوار کے ڈر سے، کیونکہ تلوار میرے سر پر رکھی ہوئی تھی، اس کے ڈر سے مسلمان ہوا ہوں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ ہُرْمُزَان سے ایران پر لشکر کشی میں مشورہ کیا کرتے تھے اور اس کی رائے کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔
(العقد الفرید جلد دوم صفحہ 144 مطبوعہ دار ارقم بیروت 1999ء)
پھر وہ حضرت عمر ؓکا مشیر بھی بن گیا۔
یہ بھی شبہ کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر ؓکی شہادت میں ہُرْمُزَان کا ہاتھ تھا۔ (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ 135) لیکن حضرت مصلح موعودؓ اس شبہ کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ قصاص کی آیت کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان لایا گیا جس نے ایک مُعَاہِد کا فر کو جو اسلامی حکومت کی رعایا بن چکا تھا قتل کر دیا تھا۔ جس سے معاہدہ ہوا ہوا تھا، عہد ہوا ہوا تھا اس کا قتل کر دیا تھا تو آپؐ نے اس کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں عہد پورا کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ عہد کی نگہداشت کرنے والا ہوں۔ جس سے عہد کیا اس کو کیوں قتل کیا، اس لیے سزا ہے۔مسلمان کو بھی قتل کیا گیا۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت روایت کی ہے کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا تو آپ نے اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ
لَا یُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِکَافِرٍ
کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلہ میں قتل نہیں کیا جائے گا مگر ساری حدیث دیکھنے سے بات حل ہو جاتی ہے۔ حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ
لَا یُقْتَلُ مُوْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْعَھْدٍ فِیْ عَھْدِہٖ۔
اس حدیث کا یہ دوسرا فقرہ کہ
وَلَا ذُوْعَھْدٍ فِیْ عَھْدِہٖ
اس کے معنوں کو حل کر دیتا ہے کہ اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ کافر کے بدلہ میں مسلمان نہ مارا جائے تو پھر ذُوْعَھْدٍ کے یہ معنے کرنے ہوںگے کہ
وَلَا ذُوْعَھْدٍ بِکَافِرٍ
کہ کسی ذوعہد کو بھی کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے۔ حالانکہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ پس یہاں کافر سے مراد محارب کافر ہے نہ کہ عام کافر۔ جنگ کرنے والے کافر (مراد)ہیں نہ کہ عام کافر۔ تبھی فرمایا کہ ذمی کافر بھی محارب کافر کے بدلہ میں نہیں مارا جائےگا۔
اب ہم صحابہ کا طریق عمل دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ بھی غیر مسلم کے قاتل کو قتل کی سزا ہی دیتے تھے۔ چنانچہ طبری میں قُمَاذْبَان بن ہرمزان اپنے والد کے قتل کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ ہُرْمُزَان ایک ایرانی رئیس اور مجوسی المذہب تھا اور حضرت عمر خلیفہ ثانیؓ کے قتل کی سازش میں شریک ہونے کا شبہ اس پر کیا گیا۔ اس پر بلا تحقیق جوش میں آکر عُبَیْدُ اللہ بن عمر نے اس کو قتل کر دیا۔ وہ کہتا ہے کہ ایرانی لوگ مدینہ میں ایک دوسرے سے ملے جلے رہتے تھے۔ جیسا کہ قاعدہ ہے کہ دوسرے ملک میں جاکر وطنیت نمایاں ہو جاتی ہے تو ایک دن فیروز جو حضرت عمرؓ کا قاتل تھا، میرے باپ سے ملا اور اس کے پاس ایک خنجر تھا جو دونوں طرف سے تیز کیا ہوا تھا۔ میرے باپ نے اس خنجر کو پکڑ لیا اور اس سے دریافت کیا کہ اس ملک میں تُو اس خنجر سے کیا کام لیتا ہے یعنی یہ ملک تو امن کا ملک ہے اس میں ایسے ہتھیاروں کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے کہا کہ میں اس سے اونٹ ہنکانے کا کام لیتا ہوں۔ جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے تو اس وقت کسی نے ان کو دیکھ لیا اور جب حضرت عمرؓ مارے گئے، شہید کیے گئے تو اس نے بیان کیا کہ میں نے خود ہرمزانکو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اِس پر ہُرْمُزَان کا بیٹا کہتا ہے کہ عُبَیْدُاللہ جو حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے تھے انہوں نے جا کر میرے باپ کو قتل کر دیا۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلایا اور عُبَیْدُاللہ کو پکڑ کر میرے حوالے کر دیا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے اور تُو ہماری نسبت اس پر زیادہ حق رکھتا ہے۔ پس جا اور اس کو قتل کر دے۔ میں نے اس کو پکڑ لیا اور شہر سے باہر نکلا۔ راستہ میں جو شخص مجھے ملتا میرے ساتھ ہو جاتا لیکن کوئی شخص مقابلہ نہ کرتا۔ وہ مجھ سے صرف اتنی درخواست کرتے تھے کہ میں اسے چھوڑ دوں۔ پس میں نے سب مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا میرا حق ہے کہ میں اسے قتل کر دوں؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں تمہارا حق ہے کہ اسے قتل کر دو اور پھر عُبَیْدُاللہ کو برا بھلا بھی کہنے لگے کہ اس نے ایسا برا کام کیا ہے۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کو حق ہے کہ اسے مجھ سے چھڑالو؟ انہوں نے کہا نہیں ہرگز نہیں اور پھر عُبَیْدُاللہ کو برا بھلا کہا کہ اس نے بلا ثبوت اس کے باپ کو قتل کر دیا ہے۔ اس پر میں نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا۔ اتنی سفارشیں جب ہو گئیں۔ پوچھ لیا، سوال جواب ہو گئے تو کہتے ہیں میں نے اللہ اور اس کے لوگوں کی خاطر اس کو چھوڑ دیا اور مسلمانوں نے فرطِ مسرت سے مجھے اس خوشی میں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور خدا تعالیٰ کی قسم! میں اپنے گھر تک لوگوں کے سروں اور کندھوں پر پہنچا اور انہوں نے مجھے زمین پر قدم تک نہیں رکھنے دیا۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہ کا طریق عمل بھی یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواہ کسی ہتھیار سے کوئی شخص مارا جائے وہ مارا جائےگا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکومت ہی ہوتی ہے۔ گو یہاں بھی یہ ہے کہ مسلمان ہو گیا تھا لیکن اگر یہ غیر مسلم بھی ہو تب بھی یہ ساری جو پچھلی باتیں بیان ہوئی ہیں ان سے بھی یہی لگتا ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہو جیسا مسلمان کے قاتل کے ساتھ ہو گا۔ خاص طور پہ جب معاہدہ ہوا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنے والی اور اس کو سزا دینے والی حکومت ہی ہے۔ ہر شخص نہیں دے سکتا حکومت دیتی ہے کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہے کہ عُبَیْدُاللہ بن عمر کو گرفتار بھی حضرت عثمانؓ نے ہی کیا تھا اور اس کو قتل کرنے کے لیے ہرمزانکے بیٹے کے سپرد بھی انہوں نے ہی کیا تھا۔ نہ ہُرْمُزَان کے کسی وارث نے اس پر مقدمہ چلایا اور نہ اس نے گرفتار کیا۔حضرت خلیفة ثانیؓ فرماتے ہیں کہ اس جگہ اس شبہ کا ازالہ کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کو سزا دینے کے لیے آیا مقتول کے وارثوں کے سپرد کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عثمانؓ نے کیا یا خود حکومت کو سزا دینی چاہیے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ معاملہ ایک جزوی معاملہ ہے اس لیے اس کو اسلام نے ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق عمل کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ قوم اپنے تمدن اور حالات کے مطابق جس طریق کو زیادہ مفید دیکھے اختیار کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں طریق ہی خاص خاص حالات میں مفید ہوتے ہیں۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 359تا 361)
یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ چلے گا۔ اس وقت میں کچھ مرحومین کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں اور پھر ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
ان میں سے پہلا ذکر مکرمہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صاحبہ کا ہے جو محمد سعید صاحب کی اہلیہ تھیں اور حضرت الحاج حافظ ڈاکٹر سید شفیع صاحب محقق دہلوی کی بیٹی تھیں۔ گذشتہ دنوں 88 سال کی عمر میں پاکستان میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے والد حضرت الحاج حافظ ڈاکٹر سید شفیع احمد محقق دہلوی ؓتھے۔ کئی کتب کے مصنف تھے۔ بہترین مناظر، محقق اور اعلیٰ پائے کے صحافی تھے۔ دہلی سے سولہ اخبارات انہوں نے شائع کیے۔ حضرت سید شفیع احمد صاحب نے بارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ برصغیر کے معروف صوفی شاعر اور بزرگ خواجہ میر درد کی نسل میں سے تھے۔ اور اس لحاظ سے حضرت میر ناصر نوابؓ کے عزیزوں میں سے تھے۔ حضرت سید شفیع احمد صاحبؓ رشتہ میں حضرت اماں جانؓ کے بھانجے تھے۔ 1957ء میں مکرم محمد سعید احمد سب انجنیئر لاہور چھاؤنی کے ساتھ ان کی شادی ہوئی اور ان کی بیٹی خالدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری نانی نے والدین کا رشتہ کرتے ہوئے شرط تقویٰ کو مدّنظر رکھا۔ محض یہ دیکھا کہ لڑکا بائیس تئیس سال کی عمر میں ایسا قائد ہے جس کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک نیم مردہ جماعت تھی جس میں زندگی کی روح پھونک دی گئی اور اس خدمت کا سہرا ان کے قائد محمد سعید احمد اور ان کے چار پانچ مددگاروں پر ہے۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ نے ان کی خدمت خلق کا ذکر کیا کہ پچھلے سیلاب کے موقع پر انہوں نے غیر معمولی طور پر کام کیا۔ پس اس لحاظ سے وہ خاص طور پر تعریف کے قابل ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نسیم سعید صاحبہ کے خاوند کی بڑی تعریف کی تھی اور اسی چیز کو مدّ نظر رکھتے ہوئے نسیم سعید صاحبہ کی والدہ نے ان کا رشتہ بھی ان سےکیا۔ نسیم سعید صاحبہ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ دینی خدمات کا سلسلہ ان کا 1954ء میں شروع ہوتا ہے جو انہوں نے حضرت سیدہ چھوٹی آپا کے ساتھ کام سے شروع کیا اور 2015ء تک تقریباً 61 سال یہ جاری رہا۔ سعیدصاحب کیونکہ فوج میں تھے اور ان کی ٹرانسفر ہوتی رہتی تھی اس لیے مختلف شہروں میں یہ بھی ان کے ساتھ جاتی تھیں اور وہاں مختلف شہروں میں ان کو خدمات کا موقع ملا اور خود بھی یہ بڑی پڑھی لکھی اور صاحب علم خاتون تھیں۔ بیس کے قریب ان کی تصنیفات ہیں جن میں انبیاء کے متعلق کہانیاں بھی ہیں اور بزرگوں کے بارے میں بھی بہت ساری کتابیں انہوں نے لکھی ہیں۔ ان کی بیٹی حامدہ غفور منان کہتی ہیں کہ میری والدہ عبادت گزار، عالم باعمل، اخلاص ووفا، ایثار و قربانی، محبت و شفقت اور انکسار کا پیکر تھیں۔ ہمیشہ ان کو سوز و گداز سے دعائیں کرتے دیکھا ۔ تہجد، نوافل اور نمازوں کا التزام کرتے دیکھا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ سے لے کر اب تک انہوں نے چار خلفاء کے ساتھ ذاتی تعلق رکھا اور ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق بھی ملتی رہی۔ یہاں مجھ سے ملاقات تو ان کی نہیں ہوئی تھی لیکن خط و کتابت کے ذریعہ سے یہ ہمیشہ اپنا اظہار کرتی تھیں۔ ان کے بچوں نے بھی یہی لکھا ہے اور خود مجھے بھی جب ان کے خط آتے تھے تو ان کے خطوط میں غیر معمولی اظہار ہوتا تھا ۔ صرف باتوں کی حد تک نہیں بلکہ حقیقت میں نظر آتا تھا کہ خلافت کے ساتھ ان کا اخلاص اور وفا کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی اس تعلق کو قائم کرنے کی توفیق دے۔
ان کے بڑے بیٹے خالد سعید صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں صرف یہ کہا کرتی تھیں کہ تعلق باللہ پر ہمیشہ قائم رہو کہ تعلق باللہ ایسا ہو جیسے اللہ آپ کے سامنے دوست کی طرح ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچا عشق کرو۔ خود بھی کیا اور بچوں کو کہا یہ کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت سے گہری روحانی وابستگی خود بھی رکھی اور بچوں کو نصیحت کی۔ خلافت سے گہرا تعلق، مکمل اطاعت خود بھی کی اور ہمیں بھی سکھائی۔ جماعت کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ چھوٹی عمر سے ہی نمازوں اور اسلامی باتوں پر باقاعدہ عمل کرنے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور ہمیں اس کی عادت ڈالی۔ راہ چلتے خدمت خلق کرتیں اور کہا کرتی تھیں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو۔ مالی قربانی کی طرف خاص توجہ تھی۔ مالی قربانی کرنے کے بعد پھر گھر کا خرچ چلاؤ۔ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتیں اور اس کی ہمیں بھی تلقین کرتیں۔ صلہ رحمی اور ہر امیر غریب رشتہ داروں سے مضبوط جو تعلق رکھنا ان کا خاص امتیاز تھا اور ہمیں بھی اس کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ دعوت الی اللہ کے لیےہمہ تن تیار رہتی تھیں۔ تہجد پڑھنے کی ہمیں بار بار تلقین کرتیں۔ علم بڑھانے کے لیے ہم سے درس دلواتی تھیں اور یہی کہا کرتی تھیں کہ ہر وقت مسکراتے رہو اور کسی کا برا نہ چاہو۔ مہمان نوازی اور اکرام ضیف کوٹ کوٹ کر ان میں بھرا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا ذکر داؤد سلیمان بٹ صاحب جرمنی کا ہے جو 46 سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے پڑدادا حضرت عبدالحکیم بٹ صاحب کے ذریعہ احمدیت ان کے خاندان میں آئی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے ۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں۔ آپ کی اہلیہ سمیرا داؤد صاحبہ کہتی ہیں۔ ہمیشہ جماعت کی خدمت کرنے کے لیے تیار رہتے۔ یہی کوشش ہوتی کہ کسی طرح جماعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ حقیقی معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے انسان تھے۔ سب جاننے والوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی اور صدقہ و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور ہر وقت خدمت کے لیے تیار رہنے والے تھے۔ یہاں جرمنی میں حفاظت خاص کی ڈیوٹی دیا کرتے تھے اور ان کی ٹیم کے جو ممبران ہیںانہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ بڑی بشاشت سے اور پوری ذمہ داری سے ڈیوٹی ادا کیا کرتے تھے اور ایک خوبی ان کی یہ تھی کہ ہر کام شروع کرنے سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ یہ میں نے بھی دیکھاہے کہ بڑی خوش اسلوبی سے انہوں نے ہمیشہ ڈیوٹی ادا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ بھی عطا فرمائے اور ان کے بچوں کو ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔
اگلا ذکر زاہدہ پروین صاحبہ اہلیہ غلام مصطفی اعوان صاحب ڈھپئی ضلع سیالکوٹ کا ہے جو 61سال کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کی بیٹی ہبة الکلیم صاحبہ جو ہمارے مبلغ جمیل تبسم بشکرتستان رشیا کی اہلیہ ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میری والدہ اللہ کے فضل سے پیدائشی احمدی تھیں۔ موصیہ تھیں۔ ان کے گھر اورخاندان میں احمدیت ان کے والد اور والدہ کے دادا دیوان بخش صاحب اعوان کے ذریعہ سے آئی تھی۔ کہتی ہیں میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی بھی تہجد کی نماز کو ضائع ہوتے نہیں دیکھا اور بچوں کو بھی ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتیں کہ جماعت اور خلافت احمدیہ سے ہمیشہ والہانہ عقیدت رکھو۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ تین داماد ان کے واقف زندگی ہیں اور دو بیٹیاں جو مبلغین سے بیاہی ہوئی ہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ ملک سے باہر تھیں اس لیے آخری وقت میں اپنی والدہ کے پاس نہیں آ سکیں، دیکھ نہیں سکیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی نیکیاں ان کی اولاد کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا ذکر رانا عبدالوحید صاحب لندن ولد چودھری عبدالحی صاحب تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد کا ہے۔ 26؍ جون کو ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا تو وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ کے فضل سے موصی تھے اور انصار اللہ میں انہوں نے بڑی تن دہی سے کام کیا۔ اس کے علاوہ مسجد فضل کے سیکرٹری مال اور سیکرٹری ضیافت کے طور پر بھی خدمت انجام دے رہے تھے۔ بڑے محنتی کارکن تھے اور بڑی خوشی سے تمام خدمات کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی، لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
اگلا ذکر الحاج میر محمد علی صاحب سابق امیر جماعت بنگلہ دیش کا ہے۔ یہ 84سال کی عمرمیں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ مقامی اور نیشنل جماعت میں کئی عہدوں پر فائز رہے۔ 1997ء سے 2003ء تک بطور نیشنل امیر بنگلہ دیش خدمت کی توفیق پائی۔ پھر سیکرٹری رشتہ ناطہ اور سیکرٹری تبلیغ کی ذمہ داری سرانجام دی۔ 2013ء سے آخر دم تک بطور امیر جماعت ڈھاکہ خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کے دور امارت میں بنگلہ دیش جماعت نے کافی ترقی کی ہے، خاص طور پر جماعت کی جائیداد اورتعمیرات کا بڑا کام ہوا ہے۔ مرکزی مشن ہاؤس بھی انہوں نے بنوایا تھا۔ پھر مساجد وغیرہ بھی بہت بنوائیں۔ بہت نیک ،مخلص ،دیندار، تہجدگزار، ہمدرد، دعا گو، مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے، بہت ہی غریب پرور، نافع الناس وجود تھے۔ خلافت کے شیدائی اور جماعت کے فعال خادم تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد ان سب کے جنازہ غائب ادا کروں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل20؍اگست2021ء صفحہ5تا10)
٭…٭…٭