ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب
بعد نما ز عصر ایک مجلس
فرمایا:۔جو لوگ محنت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیںوہ گویا اپنی کھال اتارتے ہیں۔اس لیے کہ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی۔کیونکہ یہ برف کے ٹکڑہ کی طرح ہے خواہ اس کو کیسی ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو،لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں۔لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہوتی جاتی ہیں۔اور روز بروز کچھ نہ کچھ فرق آتا ہی جاتا ہے۔دنیا میں ڈاکٹر بھی ہیں۔طبیب بھی ہیں۔مگر کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا۔جب لوگ بڈھے ہو جاتےہیں۔پھر ان کو خوش کرنے کو بعض لوگ آجاتے ہیں۔اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر کیا ہے؟ ساٹھ برس کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔رحمت علی ایک مذکوری تھا۔اس کا بیٹا فقیر علی منصف ہو گیا تھا اور لوگ اس وجہ سے اس کی عزت بھی کیا کرتے تھے۔ڈپٹی قائم علی نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ تمہاری کیا عمر ہے؟ اس نے کہا کہ 55سال کی ہوگی حالانکہ وہ 65سال کا تھا۔قائم علی نے اس کو کہاکہ کیا ہوا۔ابھی تو بچے ہو۔خود بھی وہ یہی عمربتایا کرتا تھا ۔میں نے کہا کہ 55کا سال بڑا مشکل ہے ۔یہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ غرض انسان عمر کا خواہشمند ہو کر نفس کے دھوکوں میں پھنسا رہتا ہے ۔دنیا میں عمریں دیکھتے ہیں کہ60کے بعد تو قویٰ بالکل گداز ہو نے لگتے ہیں ۔بڑا ہی خوش قسمت ہوتا ہے جو 80یا82تک عمر پائے اور قویٰ بھی کسی حد تک اچھے رہیں ورنہ اکثر نیم سودائی سے ہو جاتے ہیں ۔اُسے نہ تو پھر مشورہ میں داخل کرتے ہیں اور نہ اس میں عقل اور دما غ کی کچھ روشنی باقی رہتی ہے۔ بعض وقت ایسی عمر کے بڈھوںپر عورتیں بھی ظلم کرتی ہیں کہ کبھی کبھی روٹی دینی بھی بھول جاتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ درجوانی کار دوجہانی کن ۔ اور مشکل یہ ہے کہ انسان جوانی میں مست رہتا ہے اور مرنا یاد نہیں رہتا ۔ بُرے بُرے کام اختیار کرتا ہے ۔اورآ خر میں جب سمجھتا ہے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ غرض اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔
نشان زندگانی تا بسی سال
چو چل آمد فرو ریز د پرَو بال
انحطاط عمر کا چالیس سال سے شروع ہوجاتا ہے۔30 یا 35برس تک جس قدر قد ہونا ہوتا ہے ، وہ پورا ہوجاتا ہے اور بعد اس کے بڈھے ہو کر پھولنا شروع ہوجاتا ہے اور پھولنے کا نتیجہ فالج ہوجاتا ہے ۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 422-423)
اس گفتگومیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا ایک مصرع اور ایک شعر استعمال کیا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1۔ درْ جَوَانِیْ کَارِ دُوْ جَہَانِیْ کُنْ۔
ترجمہ:۔ جوانی میں دونوں جہانوں کے لیے کا م کر۔
2۔ نِشَانِ زِنْدِگَانِیْ تَا بِسِیْ سَال
چُو چِلْ آمَدْ فُرُوْرِیْزَدْ پَرُوبَال ۔
ترجمہ:۔ نوجوانی کی عمر تیس سال تک ہوتی ہے جب چالیس سال ہوئے سب بال وپر جھڑ جاتے ہیں ۔
۔شیخ نظامی کی ایک لمبی نظم میں اشعا ر اس طرح ملتے ہیں۔
چُوْعُمْرْ اَزْ سِیْ گُذَشْت یَاخُودْ اَزْ بِیْست
نِمِیْ شَایَدْدِگَرْچُوْن غَافِلَانْ زِیْسْت
ترجمہ :۔جب عمربیس یا تیس سال سے تجاوز کرجائے تو غافلوں کی طرح زندگی بسر کر نامناسب نہیں
نِشَاطِ عُمْر بَاشَدْ تَا چِھَلْ سَال
چِھَلْ سَالِہْ فُرُوْرِیْزَدْپَرُوبَال
ترجمہ:۔نوجوانی کی عمر چالیس سال تک ہوتی ہے۔ جب چالیس کے ہوئے سب پروبال جھڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔