متفرق مضامین

سیرت و شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

اَلۡحَسَنُ وَالۡحُسَیۡنُ سَیِّدَ ا شَبَابِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ

حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں

٭…حضرت امام حسین ؓکا جسم نبی کریم ﷺکے جسم مبارک کے ساتھ بہت مشابہت رکھتا تھا۔
٭…حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین ؓبھی اسباط میں سے ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کاخدا تعالیٰ سے ایسا عاشقانہ تعلق تھا کہ آپؓ نے پچیس بار حج بیت اللہ کا شرف پاپیادہ حاصل کیا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ اسلام کی وہ مشہور شخصیت ہیں جن کی یاد صدیاں گزرنے کے باوجود ہر سال تازہ ہوجاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی المناک واقعہ پر اس قدر آنسو نہیں بہے ہوںگے جتنے آنسو اس واقعہ کی یاد میں بہائے گئے اور اب تک بہ رہے ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نبی کریم ﷺکے نواسے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے لخت جگر تھے۔عام شہرت ہے کہ آپؓ 3؍شعبان4ہجری بمطابق 626ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔جبکہ بعض نے آپ کی تاریخ پیدائش 5؍شعبان 4؍ہجری بمطابق جنوری 626ء بیان کی ہے۔امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں الحسین بن علیّ بن أَبِی طالِب أمہ فاطمۃ بنت رسولِ اللّٰہ ﷺ، یکنی أَبا عبداللّٰہ، ولد لخمس خلون من شعبان سنۃ أربع

(الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب صفحہ184،دارالاعلام، الأردن،الطّبۡعَۃ الأولٰی 2002ء )

حسین ؓبن علیؓ بن ابی طالب کی والدہ فاطمہ بنت رسول اللہﷺ ہیں۔ آپؓ کی کنیت ابوعبداللہ ہے،5شعبان 4 ہجری میں پیدا ہوئے۔جبکہ آپؓ10؍محرم 61 ہجری بمطابق 10؍اکتوبر680ء جمعہ کے روز کربلا میں شہید کردیے گئے۔آپ کوریحانۃ النبی یعنی باغ نبوت کا پھول اور آنحضرت ﷺ کا ہم شبیہ ہونے کا فخر حاصل تھا۔علامہ ابن اثیر الجزری نے اپنی کتاب’’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ‘‘ میںلکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:

فلما ولدالحسین سمیتہ حربًا، فجاء النبی ﷺ فقال:أرونی ابنی، ما سمیتموہ؟ قلنا:حربًا، قال:بل ھو حسین۔

جب حسین پیدا ہوئے تو میں نے ان کانام حرب رکھا نبی ﷺ تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ میرے بیٹے کو مجھے دکھائو تم نے اس کا کیا نام رکھا؟ ہم نے عرض کیا کہ حرب۔ آپؐ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ حسین ہے۔

نیز لکھتے ہیں کہ

الحسن والحسین من أسماء أھل الجنۃ لم یکونا فی الجاھلیۃ۔

(اسدُ الغابَۃِ فی مَعرفۃ الصّحَابۃ، المَجلّدالأَوّل، 1173۔الحسین بن علی،دارالفکر للطبَاعَۃ وَالنشر والتوزیع بیروت 1973ء)

حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں سے ہیں زمانۂ جاہلیت میں یہ نام نہ تھے۔

تاریخ عالم میں عہد نبوی سے پہلے حسن اور حسین ناموں کا ذکر نہیں ملتا۔یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے دونوں نواسوں کے یہ نام تجویز فرمائے۔اللہ تعالیٰ نے ان ناموں کوایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ اس کے بعدبے شمار لوگوں نے یہ نام رکھنا شروع کردیے،جن کی تعداد آسمان کے ستاروں کی طرح ان گنت ہے۔چنانچہ صاحب اسدالغابہ لکھتے ہیں کہ

اِنَّ اللّٰہَ حَجَبَ اِسۡمُ الۡحَسَنَ وَالۡحُسَیۡنَ حَتّٰی سمی بہما النَّبِیُّ ﷺ ابنیہ الحَسَنُ وَالۡحُسَیۡنُ۔

(اسدُ الغابَۃِ فی مَعرفۃ الصّحَابۃ، المَجلّدالأَوّل،1165۔الحسن بن علی،دارالفکر للطبَاعَۃ وَالنشر والتوزیع بیروت 1973ء)

اللہ تعالیٰ نے ان دونوں ناموں کو پردۂ غیب میں رکھا حتیٰ کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے جگر پاروں حسن وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لیے یہ نام نامی تجویز فرمائے۔

گویاجس طرح ربّ کائنات نے اپنے قادرانہ تصرف سے حضرت یحیٰ علیہ السلام کے نام کو پردۂ اخفا میں رکھا ہوا تھا:’’اے زکریا! یقیناً ہم تجھے ایک عظیم بیٹے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہوگا۔ ہم نے اس کا پہلے کوئی ہَمنام نہیں بنایا۔‘‘(مریم: 8)بالکل اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا کو حسنؓ اور حسینؓ نام رکھنے سے باز رکھا یہاں تک کہ امام الانبیاء حضرت اقدس محمدرسول اللہ ﷺ نے اپنے دو نہایت محبوب اور پیارے نواسو ں کو ان ناموں سے موسوم فرمایا جس کے بعد ان ناموں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

ولادت کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرتﷺکی خدمت میں پیش کیاگیا۔آپؐ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔آپؐ نے ان کے دونوں کانوں میں اذان واقامت کہی۔ساتویں دن عقیقہ کروایا۔ حضرت امام حسین ؓکا جسم نبی کریم ﷺکے جسم مبارک کے ساتھ بہت مشابہت رکھتا تھا۔

(البدایہ والنہایہ جلد 6صفحہ 150۔بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 5؍جنوری 2009ء)

ایک اور روایت میں ہے کہ ولادت کے بعد ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر آپ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کیے گئے، نبی کریم ﷺ نے آپؓ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت فرمائی، تحنیک کا عمل فرمایا، لعابِ دہن منہ میںڈالا اور برکت کی دعا فرمائی، سر پر زعفرانی خوشبو مل کر ان کی والدہ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے سپر د فرمایا، ساتویں روز سر کے بال مونڈ کر ان کے ہم وزن چاندی صدقہ کی، نام رکھا اور عقیقے میں دو مینڈھے ذبح کیے۔ایک ران دایہ کو دی اس کے بعد ختنہ کیا گیا۔

(الدرالمستطاب بحوالہ (الامام الحسین ؓ (مترجم )صفحہ 22۔ ناشرمکتبہ نفائس القرآن کریم پارک لاہور۔ سن اشاعت1428ھ)

حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ دو دو مینڈھوں سے کیا۔

(سنن نسائی کتاب العقیقہ بَاب کَمۡ یُعَقُّ عَنِ الۡجَارِیَۃِ حدیث4225)

پیدائش سے پہلے بشارت

حضرت حسینؓ ابھی شکم مادر میں تھے کہ حضرت حارثؓ کی صاحبزادی اُمّ الفضل ؓنے خواب میں دیکھا کہ کسی نے رسول کریم ﷺکے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اُن کی گود میں رکھ دیا ہے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یارسول اللہؐ !میں نے ایک بھیانک خواب دیکھا ہے۔آپؐ نے فرمایا:کیا؟انہوں نے عرض کیا :ناقابلِ بیان ہے۔فرمایا:بیان کرو۔ انہوں نے کہا :میںنے دیکھا ہے کہ آپؐ کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔آپؐ نے فرمایا:تم نے اچھا خواب دیکھا ہے۔فاطمہؓ کے ہاں ان شاء اللہ تعالیٰ بچہ پیدا ہوگا اور وہ تمہاری گود میں دیا جائے گا۔ چنانچہ حضرت فاطمہ ؓکے ہاں حضرت حسین ؓ کی ولادت ہوئی اور رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق وہ میری گود میں دیے گئے۔

(المستدرک،کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، اَوَّلُ فَضَائِلِ اَبِی عَبۡدِ اللّٰہِ الۡحُسَیۡنِ…حدیث4829)

آنحضرت ﷺ کی پدرانہ شفقت

حضرت حسن ؓ اور حسین ؓنبوت کی پاکیزہ گود میں بڑے اور نور ہدایت کی روشنی سے منور ہوئے۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تقریباً سات سال تک خیرالبشر ﷺ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی اور آپؓ تقویٰ و پرہیز گاری کے سرچشمے سے فیض پاتے ہوئے نورِ ایمان اور صفات ِخیر سے متصف ہوئے۔آنحضرت ﷺ کی اپنے نواسوں کے ساتھ مہر ومحبت کے بے شمار واقعات کتب احادیث و سیر کی زینت بنے ہوئے ہیں۔

حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺاُن کے ہاں تشریف لائے۔اُس وقت میں حسین بن علیؓ کو اپنے بیٹے قثم کے حصے کا دودھ پلا رہی تھی۔رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے حسینؓ مانگا، میں نے حسینؓ آپ کی گود میں دے دیا۔اس دوران حسین ؓنے آپؐ پر پیشاب کردیا۔کہتی ہیں کہ مَیں نے اپنے ہاتھ بڑھائے تاکہ حضرت حسین کو آپؐ سے لے لوں لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لَا تَزۡرِمِی ابۡنِی میرے بیٹے کو مجھ سے جدا مت کرو۔

(المستدرک،کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، اَوَّلُ فَضَائِلِ اَبِی عَبۡدِ اللّٰہِ الۡحُسَیۡنِ…حدیث4818)

حضرت حسینؓ ایک ایسے گھرانے کے چشم وچراغ تھے جو حق گوئی، پاکیزگی اخلاق، شجاعت و بہادری اورفصاحت وبلاغت میں خاص مقام رکھتا ہے۔ اس گھر کے افراد بلند ہمتی کے پیکر، سخاوت وشجاعت میں پیش پیش، اخلاق و شرافت کی زندہ تصویر اور جوش عمل میں سب سے آگے تھے۔آپ کے خاندان کی فضیلت و برتری کے سامنے تمام حسب و نسب ہیچ ہیں۔ایک طرف آپؓ کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے جن کے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

رَحۡمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ اِنَّہٗ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ

(ہود:74)

تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں اے اہلِ بیت ! یقیناً وہ صاحبِ حمد (اور) بہت بزرگی والا ہے۔

تو دوسری طرف آپؓ کی نسبت شاہِ عرب وعجم ﷺسے ہے جن کا وجود ِباجودرحمۃ للعالمین اور وجہ تخلیق کائنات ہے۔ آپﷺ کے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

اِنَّمَایُرِیۡدُاللّٰہُ لِیُذۡھِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ وَیُطَھِّرَکُمۡ تَطۡھِیۡرًا.

(الاحزاب:34)

اے اہلِ بیت! یقینا ًاللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کردے اور تمہیں اچھی طرح پاک کردے۔

رسول اللہﷺ حسنؓ اور حسین ؓ سے نہ صرف حد درجہ محبت کرتے تھے بلکہ انہیں اولاد سے بھی بڑھ کر چاہتے تھے اورمختلف انداز میں اپنی محبت کا اظہار فرماتے۔یہ اسی والہانہ محبت کا نتیجہ ہے کہ آپؐ نے حضرت حسن ؓاور حسین ؓ کواپنی طرف منسوب فرمایاہے۔حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہرعورت کی اولاد مرد کی جانب منسوب ہوتی ہے سوائے فاطمہ کے دونوں بیٹوں کے کہ ان کا ولی میں ہوں اور یہ میری جانب منسوب ہوتے ہیں۔

(المستدرک، کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، وَمِنۡ مَنَاقِبِ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ ابۡنَیۡ بِنۡتِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺحدیث4776)

ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا:

مَنۡ أَحَبَّ الۡحَسَنَ وَالۡحُسَیۡنَ فَقَدۡ أَحَبَّنِی وَمَنۡ أَبۡغَضَھُمَا فَقَدۡأَبۡغَضَنِی

(سنن ابن ماجہ مقدمۃ الؤلف فَضۡلُ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ… حدیث143)

جس نے حسن ؓاور حسین ؓسے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ آپ ﷺ اپنے دونوں نواسوں کے لیے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کرتے تھے کہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیۡ اُحِبُّھُمَا فَاَحِبَّھُمَا وَاَحِبَّ مَنۡ یُّحِبُّھُمَا

(جامع ترمذی ابواب المناقب باب مَنَاقِبُ اَبِیۡ مُحَمَّدِ الۡحَسَنِ وَالَحُسَیۡنِ بۡنِ عَلِیِّ حدیث3539)

اے اللہ ! یہ مجھے محبوب ہیں، تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا۔

حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:اَلۡحَسَنُ وَالۡحُسَیۡنُ سَیِّدَا شَبَابِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ

(جامع ترمذی ابواب المناقب باب مَنَاقِبُ اَبِیۡ مُحَمَّدِ الۡحَسَنِ وَالَحُسَیۡنِ بۡنِ عَلِیِّ حدیث3538)

حسنؓ اور حسین ؓجوانان جنت کے سردار ہیں۔

ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کا ایک مقرب فرشتہ خاص طور پر اس لیے دنیا میں بھیجا گیا تاکہ وہ آنحضور ﷺ کو یہ خوشخبری دے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓکو جنتی خواتین کی سرداربنایا ہے اور آپ کے دونوں نواسے نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ حضرت حذیفہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اُن سے مخاطب ہوکر فرمایا:

اِنَّ ھٰذَا مَلَکٌ لَمۡ یَنۡزِلِ الۡاَرۡضَ قَطُّ قَبۡلَ ھٰذِہِ اللَّیۡلَۃِ اسۡتَاۡذَنَ رَبَّہٗ اَنۡ یُّسَلِّمَ عَلَیَّ وَیُبَشِّرَنِیۡ بِاَنَّ فَاطِمَۃَ سَیَّدَۃُ نِسَآئِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ وَاَنَّ الۡحَسَنَ وَالۡحُسَیۡنَ سَیِّدَا شَبَابِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ

(جامع ترمذی ابواب المناقب باب مَنَاقِبُ اَبِیۡ مُحَمَّدِ الۡحَسَنِ وَالَحُسَیۡنِ بۡنِ عَلِیِّ حدیث3551)

یقینا ًیہ ایک ایسا فرشتہ ہے جو اس سے پہلے زمین پر نازل نہیں ہوا۔آج اس نے اپنے ربّ سے مجھے سلام کرنے اور یہ خوشخبری دینے کے لیے زمین پر آنے کی اجازت چاہی کہ فاطمہؓ جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حسن ؓ اور حسین ؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہوں گے۔

حضرت یعلیٰ بن مرہؓ نے بیان کیا کہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ ایک کھانے کی دعوت کے لیے چلے جس کےلیے انہیں بلایا گیا تھا۔ تو حسینؓ گلی میں کھیل رہے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ لوگوں سے آگے بڑھے اور اپنے ہاتھ پھیلائے اور لڑکا(یعنی حسینؓ) ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ نبی ﷺ اس کے ساتھ ہنسنے کھیلنے لگے یہاں تک کہ آپؐ نے اسے پکڑ لیا اور ایک ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا اُس کے سر کے اوپر اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا:

حُسَیۡنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنۡ حُسَیۡنٍ أَحَبَّ اللّٰہُ مَنۡ أَحَبَّ حُسَیۡنًاحسینؓ

مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین ؓبھی اسباط میں سے ہے۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فَضۡلُ الۡحَسَنِ وَالحُسِیۡنِ،حدیث نمبر144)

سبطکی جمع اسباطہے جس کے معنی اولاد کے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی اسباطکا ذکر ہے غالباً یہ اُسی کی طرف اشارہ ہے۔واللہ اعلم۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی اولادکا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:

قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ

(البقرۃ:137)

تم کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لے آئے اور اس پر جو ہماری طرف اُتارا گیا اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور (اس کی ) اولاد کی طرف اُتارا گیا۔

حضرت یعلیٰ بن منبہ رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ کا اپنے نواسوں کے ساتھ شفقت کے ایک انداز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حسن ؓ اور حسین ؓ دوڑتے ہوئے نبی اکرمﷺ کے پاس آئے، آپؐ نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا، پھر فرمایا:

اِنَّ الۡوَلَدَ مَبۡخَلَۃٌ مَجۡبَنَۃٌ مَحۡزَنَۃٌ۔

بے شک اولاد (کی محبت) کنجوسی، بزدلی اور پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔

(المستدرک، کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، وَمِنۡ مَنَاقِبِ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ ابۡنَیۡ بِنۡتِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺحدیث4771)

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓحضرت فاطمہؓ، حسن ؓ اور حسین ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میری اُس سے صلح ہے جس سے تم صلح کرو اور جنگ ہے جس سے تم جنگ کرو۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،باب فَضۡلُ الۡحَسَنِ وَالحُسِیۡنِ،حدیث نمبر145)

حسن ؓ اور حسینؓ سے آنحضرت ﷺ کی بے پناہ محبت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ؐ نے اپنے دونوں نواسوں کو دنیا کے دوپھول یا دنیا میں اپنی بہار قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے دونوں نواسوں کے بارہ میں فرمایاتھا کہ

ھُمَا رَیۡحَانَتَایَ مِنَ الدُّنۡیَا

(صحیح البخاری کتاب فضائل أصحاب النبیﷺ بَاب مَنَاقِبُ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ حدیث 3753)

وہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

اسدالغابہ میں بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے حوالے سے لکھا کہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ

اَلۡحَسَنُ وَالۡحُسَیۡنُ رَیۡحَانَتَایَ مِنَ الدُّنۡیَا۔

یعنی حسنؓ اور حسینؓ میری دنیا کی بہار ہیں۔

(اسدُ الغابَۃِ فی مَعرفۃ الصّحَابۃ، المَجلّدالأَوّل، 1173۔الحسن بن علی،دارالفکر للطبَاعَۃ وَالنشر والتوز یع بیروت 1973ء)

پس یہ اسی محبت اور دلی لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ آنحضرتﷺ اپنے نواسوں کی ذرہ برابر تکلیف سے بےقرار ہوجایا کرتے تھے۔حافظ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان بن قایماز ذہبی (748-673ھ) بیان کرتے ہیں کہ

أَنَّ النَّبِیُّ ﷺ سَمِعَ حُسَیۡنًا یُبکی، فقال لأمہ اَلَمۡ تَعۡلمی اَنَّ بُکَاء ہُ یُؤذِینی

(سیر اعلام النبلاء جزء3صفحہ 1487،الحسین بن علی،الناشر بیت الافکار الدولیۃ، طبع 2004ء فی لبنان)

نبی ﷺ نے حسین ؓکے رونے کی آواز سنی تو اُن کی والدہ سے فرمایا:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہااِسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا میرے دونوں بیٹے کہاں ہیں ؟میںنے جواب دیا علی ؓ کے ہمراہ گئے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اُن کی تلاش میں نکل پڑے، آپ کو وہ ایک حوض کے قریب کھیلتے ہوئے مل گئے، اس وقت ان کے سامنے کچھ کھجوریں تھیں۔ آپؐ نے فرمایا: اے علی ! کیا تم میرے بیٹوں کو گرمی سے نہیں بچاؤ گے۔

(المستدرک، کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، وَمِنۡ مَنَاقِبِ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ ابۡنَیۡ بِنۡتِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺحدیث4774)

آنحضرت ﷺ کو اپنے دونوں نواسوں سے جو شدید محبت تھی اُس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ اپنا خطبہ چھوڑ کر منبر سے نیچے اُترے، اُنہیں اُٹھایا اور پھر منبر پر جاکر اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوبردہؓ فرماتے ہیںکہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ اچانک حسن ؓاور حسین ؓآگئے۔ دونوں نے سرخ قمیصیں پہنی ہوئی تھیں۔چلتے تھے تو گر جاتے تھے۔ آپؐ ممبر پر سے نیچے تشریف لائے اور دونوں کو اُٹھا کر اپنے سامنے بٹھالیا۔پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ

اِنَّمَآ اَمۡوَالُکُمۡ وَاَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ

تمہارے اموال اور تمہاری اولادمحض ایک آزمائش ہیں۔ لہٰذا دیکھو کہ جب میں نے انہیں دیکھا کہ گر گر کر چل رہے ہیں تو صبر نہ کر سکا اور اپنی بات مکمل کیے بغیر انہیں اُٹھالیا۔

(جامع ترمذی اَبۡوَابُ الۡمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبۡ اَبِیۡ مُحَمَّدِ الۡحَسَنِ بۡنِ عَلِیِّ بۡنِ اَبِیۡ طَالِبٍ وَالۡحُسَیۡنِ…حدیث3544)

ایک روز نماز باجماعت کے دوران رسول کریم ﷺ حالت سجدہ میں تھے کہ حسین ؓ آپ کی پشت پر سوار ہوگئے۔ چنانچہ آپؐ نے اس وقت تک سجدہ سے سر نہ اُٹھایا جب تک حسینؓ خود آپ کی پشت سے اُتر نہ گئے۔اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شداد الہاد ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ظہر یا عصر کی نماز کے لیے تشریف لائے تو حسن ؓ یا حسین ؓ دونوں میں سے ایک کو اُٹھائے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ (نماز کے لیے ) تشریف فرما ہوئے تو ان کو اپنے دائیں پہلو کی جانب بٹھا دیا۔جب رسول اللہﷺ سجدہ میں گئے تو بہت طویل سجدہ کیا۔میں نے سر اُٹھا کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ سجدے میں تھے اور آپ کا نواسہ آپ کی پشت مبارک پر بیٹھا ہوا تھا، مَیں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ! آپؐ نے اس نماز میں اتنا طویل سجدہ کیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا لمبا سجدہ نہیں کیا۔ کیا آپ کو اس نماز میں کوئی خاص حکم ملا تھا یا آپؐ پر وحی نازل ہورہی تھی ؟ آپﷺ نے فرمایا:ان دونوں باتوں میں سے کوئی بھی پیش نہیں آئی بلکہ میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تھا، مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ مَیں اس کو اس کی مرضی کے بغیر نیچے اُتاروں۔

(المستدرک، کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، وَمِنۡ مَنَاقِبِ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ ابۡنَیۡ بِنۡتِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺحدیث4775)

پس نبی کریم ﷺ کو اپنے پیارے نواسوں کی خوشی ہر حال میں عزیز تھی۔آپ اُن کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کرتے اور اُن کی چھوٹی بڑی اداؤں سے لطف اندوزہوتے۔ اُنہیں اپنے کندھوں پر سوار کرتے، اپنی گود میں بٹھاتے، اپنے ساتھ چمٹاتے، پیٹھ پر بیٹھنے کا موقع فراہم کرتے تو کبھی اپنے ساتھ سواری پر بٹھا کر سیر کراتے۔ایاس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کے نبی ﷺ کے اس سیاہ وسفید خچر کو پکڑ کرآگے آگے چلا جس پر نبیﷺ اور حسنؓ اور حسین ؓ سوار تھے یہاںتک کہ میں انہیں نبی ﷺ کے گھر لے گیا۔ یہ آپؐ کے آگے اور وہ آپؐ کے پیچھے۔

(صحیح مسلم، بَاب مِنۡ فَضَائِلِ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ،کتاب فضائل الصحابۃ حدیث4435)

یعنی آپؐ نے حضرت حسنؓ کو اپنے آگے اور حضرت حسینؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا ہوا تھا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

رَأیتُ الۡحَسَنَ وَالۡحُسَیۡنَ عَلٰی عَاتِقَی النَّبِّی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ فَقلتُ نعمَ الۡفَرسُ تَحتَکُمَا فَقَال النَبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّم وَنَعمَ الۡفَارِسَانِ

(مجمع الزوائد 185/9)

میں نے حسن ؓ وحسین ؓکو دیکھا وہ نبی کریم ﷺ کے کندھوں پر سوار تھے۔میں نے کہا :تمہاری سواری کتنی اچھی ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: سوار بھی تو اچھے ہیں۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپؐ کے اہل بیت میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے۔فرمایا: حسن ؓاور حسین ؓسے۔ آپؐ حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا کرتے تھے کہ میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، آپؐ اُنہیں سونگھتے اور پھراپنے سینے سے لگالیتے۔

(جامع ترمذی اَبۡوَابُ الۡمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبۡ اَبِیۡ مُحَمَّدِ الۡحَسَنِ بۡنِ عَلِیِّ بۡنِ اَبِیۡ طَالِبٍ وَالۡحُسَیۡنِ…حدیث3542)

حضرت براء ؓکہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے حسن ؓ و حسینؓ کو دیکھا تو دعا کی اَللّٰھُمَّ اِنِّیۡ اُحِبُّھُمَا فَاَحِبَّھُمَااے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔

(جامع ترمذی اَبۡوَابُ الۡمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبۡ اَبِیۡ مُحَمَّدِ الۡحَسَنِ بۡنِ عَلِیِّ بۡنِ اَبِیۡ طَالِبٍ وَالۡحُسَیۡنِ…حدیث3552)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ حسین بن علی ؓ کو اُٹھائے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے : اللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُ فَاَحِبَّہُ اے اللہ ! مَیں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔

(المستدرک، کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، اَوَّلُ فَضَائِلِ اَبِی عَبۡدِ اللّٰہِ الۡحُسَیۡنِ…حدیث4821)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ حسن ؓ اور حسین ؓ کو یہ دم کیا کرتے تھے

اُعِیۡذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التّامَّۃِ مِنۡ کُلِّ شَیۡطَانٍ وَھَامّۃٍ، وَمِنۡ کُلِّ عَیۡنٍ لَامَّۃ۔

میں تم کو اللہ کے تام کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان سے اور ہر نقصان دہ چیز سے اور ہر نظر بد سے۔ پھر آپؐ فرماتے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے صاحبزادوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہماالسلام کو بھی یہی دم کیا کرتے تھے۔

(المستدرک، کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، وَمِنۡ مَنَاقِبِ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ ابۡنَیۡ بِنۡتِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺحدیث4781)

انسانی تعلقات میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کی اطاعت سب سے مقدم ہے۔اس لیے جو محبت اللہ تعالیٰ کی محبت میں سے ہوکر گزرے وہی اصل محبت ہے جو ایمان کا جزوبن جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ہماری محبت بھی اسی تعلق کی وجہ سے ہے کیونکہ آپؐ نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے وجود کو فنا کرلیا تھا۔آپ کا جو کچھ تھا وہ خدا تعالیٰ کا ہوچکا تھا اور آپؐ خدا تعالیٰ کی ذات میں فنا ہوچکے تھے اسی لیے آپؐ کے چہرے سے خدا تعالیٰ کا بابرکت چہرہ دکھائی دیتا تھا۔اسی لیے رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے کہ انسان کی کسی شخص کے ساتھ محبت صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہیے۔فرمایا:وَأَنۡ یُّحِبَّ الۡمَرۡئَ لَا یُحِبُّہُ اِلَّا لِلّٰہِ (صحیح البخاری کتاب الایمان بَاب حَلَاوَۃُ الۡاِیۡمَانِ حدیث15)جس انسان سے بھی محبت کرے صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے محبت کرے۔پس جس طرح اللہ تعالیٰ کے حسن اوراحسان کو یاد کرنے سے انسان کے جسم اور اُس کی روح کے نہاں خانوں میں اُس محبوب ازلی و ابدی کی محبت سرایت کرجاتی ہے بالکل اُسی طرح جب کوئی انسان آنحضرت ﷺ کے بے پایاں احسانات کو یاد کرے،اُن کا مطالعہ کرے یا اُن احسانات کا تذکرہ سنے تو آپ ﷺکی محبت اُس انسان کے دل کو گھیر لیتی ہے اور وہ آپ کی محبت میں رنگین ہوجاتا ہے۔

محبت ایسے جذبے کانام ہے جس میں محبوب کی ہر پسند اور خواہش محبت کرنے والے کی پسند اور خواہش بن جاتی ہے اوروہ اپنے محبوب کی ناپسند کو اپنی ناپسند جانتا ہے گویا محبت کرنے والے کی نہ تو اپنی کوئی پسندہوتی ہے اور نہ ہی اُس کی کوئی ناپسندہوتی ہے بلکہ اُسے وہی چیز محبوب اور پیاری لگتی ہے جو اُس کے محبوب کو پسند ہو۔ پس محبت رسولؐ کا مطلب یہ ہوا کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ کو پسند تھا وہی ہماری پسند ہو اور جو کچھ آپؐ کو ناپسند تھا وہ ہمیں بھی ناپسند ہو۔ حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لَا یُؤۡمِنُ أَحَدُکُمۡ حَتَّی أَکُوۡنَ أَحَبَّ اِلَیۡہِ مِنۡ وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجۡمَعِیۡنَ

(صحیح البخاری کتاب الایمان بَاب حُبُّ الرَّسُوۡلِﷺ مِنَ الۡاِیۡمَانِ حدیث15)

تم میں سے کوئی مومن نہیںہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے باپ اور اس کے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اسے پیارا نہ ہوں۔

حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اَحِبُّوۡاللّٰہَ لِمَا یَغۡذُوۡکُمۡ مِّنۡ نِعَمِہٖ وَاَحِبُّوۡنِیۡ بِحُبِّ اللّٰہِ وَاَحِبُّوۡا اَھۡلَ بَیۡتِیۡ بِحُبِّیۡ

اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتوں میں سے کھلاتا ہے اور مجھ سے اللہ کی محبت کی وجہ سے محبت کرو اور میری وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔

(جامع ترمذیاَبۡوَابُ الۡمَنَاقِبِ بَابُ مَنَاقِبۡ اَھۡلِ بَیۡتِ النَّبِیِّﷺحدیث 3559)

پس محبت رسولﷺ کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی ذات اقدس سے انتہادرجہ محبت ہو بلکہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ کو محبوب ہو وہ ہمیں محبوب ہو اورجن لوگوں سے آپؐ نے محبت کی وہ ہمارے محبوب بن جائیں۔رسول اللہ ﷺنے اہل بیت سے محبت کا خود حکم دیا۔آپؐ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اُن کے بعد آنے والے لوگوں کووصیت کے رنگ میں فرمایا کہ تم کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور حُبِّ اہلِ بیت سے دُور نہ ہوجانا۔اس ضمن میں امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک حدیث نقل کی ہے۔

یزید بن حیان کہتے ہیں کہ میں اور حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم حضرت زید بن ارقم ؓ کے پاس گئے جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو حصین نے ان سے کہا کہ اے زیدؓ! آپؓ نے بہت خیر پائی۔ آپؓ نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، آپ کی باتیں سنیں اور آپؐ کی معیت میں غزوات کیے اور آپؐ کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ زیدؓ! آپ نے بہت خیر پائی ہے۔ اے زیدؓ! جو رسول اللہ ﷺ سے آپؓ نے سنا ہے ہمیں بتائیں۔ انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے ! اللہ کی قسم میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اور مجھ پر ایک عرصہ گزر گیا ہے اور میں بعض باتیں بھول چکا ہوں جو رسول اللہﷺسے مجھے یاد تھیں۔ پس جو بات میں تمہیں بتاؤں اسے قبول کرلو اور جو نہ بتاؤں اس پر مجھے مجبور نہ کرو۔ وہ کہنے لگے ایک روز رسول اللہ ﷺ مکہ اور مدینہ کے مابین ایک چشمہ کے پاس جسے خُم کہا جاتا تھا ہمارے درمیان خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کی حمدوثنا کی اور وعظ ونصیحت فرمائی پھر فرمایا:امابعد! سنو اے لوگو! میں تومحض ایک انسان ہوں قریب ہے کہ میرے ربّ کا پیغام لانے والا آئے اور میں اس کے بلاوے پر ہاں کہوں۔ میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ پس اللہ کی کتاب کو لو اور اس کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ پھر آپؐ نے کتاب اللہ کے بارے میں بہت ترغیب وتحریض دلائی پھر فرمایا:اور میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ حصین نے انہیں کہا اے زیدؓ! آپؐ کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپؐ کی ازواج مطہرات آپؐ کے اہل بیت میں شامل نہیں؟زیدؓ نے کہا آپ کی ازواج آپؐ کے اہل بیت ہیں لیکن آپؐ کے اہل بیت وہ ہیں جن پر آپؐ کے بعد صدقہ حرام قرار دے دیا گیا ہے انہوں (حضرت حصین نے ) کہا وہ کون ہیں ؟ انہوں (حضرت زیدؓ ) نے کہا وہ حضرت علیؓ کی آل، حضرت عقیل ؓ کی آل، حضرت جعفر ؓ کی آل اور حضرت عباسؓ کی آل ہے۔ اس نے کہا کیا ان سب پر صدقہ حرام قرار دیا گیا ہے ؟ انہوں نے کہا :ہاں۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب مِنۡ فَضَائِلِ عَلِّیِّ بۡنِ أَبِیۡ طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُ حدیث4411)

حضرت سلمان ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں، جس نے ان سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی اورجس نے ان سے بغض رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔

(المستدرک، کِتَابُ مَعۡرِفَۃِ الصَّحَیَۃِ، وَمِنۡ مَنَاقِبِ الۡحَسَنِ وَالۡحُسَیۡنِ ابۡنَیۡ بِنۡتِ رَسُوۡلِ اللّٰہِ ﷺحدیث4776)

اس زمانے میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ کے بے پناہ احسانات کو جانتے ہوئے آپ کی ذات والا صفات سے بے پناہ محبت کی ہے گویاآپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کے بعد رسول کریم ﷺ سے والہانہ عشق کا جذبہ موجزن تھا۔جبکہ رسو ل کریم ﷺ کے ساتھ محبت کی وجہ سے آپ کورسول اللہﷺ کی آل اولاد کے ساتھ بھی دلی محبت تھی۔جس کا اظہار آپ کی مختلف تحریرات اور واقعات میں ملتا ہے۔ حضور علیہ السلام اپنے ایک فارسی شعر میں فرماتے ہیں:

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است

خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است

میری جان اور دل محمد ﷺ کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک نبی کریم ﷺ کی آل کے کوچہ پر قربان ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب ’’سیرت طیبہ ‘‘میں حضور علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جسے پڑھ یا سن کر اُس والہانہ محبت کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو آپ کے دل میں آل رسول ﷺکے لیےپائی جاتی تھی۔حضرت صاحبزادہ صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود ؑاپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ ؑنے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم (سلمہا) اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب سے بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں۔‘‘ پھر آپؑ نے بڑے درد ناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ ؑاپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ ؑنے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم ؐ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔ ‘‘اس وقت آپؑ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا ﷺکے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور یہ سب کچھ رسول پاک ؐ کے عشق کی وجہ سے تھا۔

(سیرت طیبہ صفحہ 31۔ کمپوزڈ ایڈیشن)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین ؓ کو خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندوںمیں سے قرار دیا ہے بلکہ آپؑ کے نزدیک ائمہ عشریہ نہایت درجہ مقدس اور راستباز انسان تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے گئے۔جیسا کہ حضور علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے:’’ائمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور اُن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں اس لئے ممکن اور بالکل قرین قیاس ہے جو بعض اکابر ائمہ نے خدا ئے تعالیٰ سے الہام پاکر اس مسئلہ کو اُسی طرز اور ایسے رنگ میں بیان کیا ہوجیسا کہ ملاکی کی کتاب میں ملاکی نبی نے ایلیا ہ نبی کے دوبارہ آنے کا حال بیان کیا تھا۔‘‘

(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 344)

ائمہ اثنا عشریہ یا بارہ امام شیعہ فرقوں بارہ امامی، علوی اور اہل تشیع کے نزدیک رسول کریمﷺکے سیاسی اور روحانی جانشین ہیں۔ امامت پر یقین رکھنا شیعہ اعتقاد کا اہم جزو ہے جس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کی راہ نمائی کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نما بھیجتا ہے۔ان کے نزدیک حضرت علی ؓ پہلے امام تھے جبکہ شیعوں کے نزدیک اماموں کی نسل حضرت فاطمہؓ کی نسل کے ذریعہ سے ملنی چاہیے اور ان کا مرد ہونا لازمی ہے۔ تمام ائمہ اپنے سے گذشتہ امام کے بیٹے تھے ماسوائے حضرت حسین ؓ بن علیؓ کے جو اپنے سے پہلے امام حضرت حسنؓ کے بھائی تھے۔ بارھویں امام کانام محمدی مہدی ہے جو شیعوں کے نزدیک زندہ اور غیبت کبریٰ میں ہے اور قیامت کے قریب وہ بحکم خدا ظہور فرماکر دنیا میں انصاف قائم کریں گے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں امام الزمان حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا ارشاد درج کردیا جائے جو آپ نے اس شیعہ عقیدہ کے بارے میں تحریرفرمایا ہے:

’’یاد رہے کہ شیعہ لوگ امام محمد مہدی کی نسبت بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیںکہ وہ زندہ ہونے کی حالت میں ہی ایک غار میں چھپ گئے اور مفقود ہیں اور قریب قیامت ظاہر ہوں گے اور سنّت جماعت کے لوگ اُن کے اس خیال کو باطل تصور کرتے ہیں اور یہ حدیثیں پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سو برس کے بعد کوئی شخص زمین پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ سو سُنّت جماعت کا یہ مذہب ہے کہ امام محمد مہدی فوت ہوگئے ہیں اور آخری زمانہ میں انہیں کے نام پر ایک اور امام پیدا ہوگا۔ لیکن محققین کے نزدیک مہدی کا آنا کوئی یقینی امر نہیں ہے۔

اس جگہ مجھے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت اس مسئلہ میں شیعہ اور سنّت جماعت میں جو اختلاف ہے اُس میں کسی تاریخی غلطی کو دخل نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ شیعہ کی روایات کی بعض سادات کرام کے کشفِ لطیف پر بنیاد معلوم ہوتی ہے چونکہ ائمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور اُن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں اس لئے ممکن اور بالکل قرین قیاس ہے جو بعض اکابر ائمہ نے خدا ئے تعالیٰ سے الہام پاکر اس مسئلہ کو اُسی طرز اور ایسے رنگ میں بیان کیا ہوجیسا کہ ملاکی کی کتاب میں ملاکی نبی نے ایلیا ہ نبی کے دوبارہ آنے کا حال بیان کیا تھااور جیسا کہ مسیح کے دوبارہ آنے کا شور مچاہوا ہے اور درحقیقت مراد صاحبِ کشف کی یہ ہوگی کہ کسی زمانہ میں اس امام کے ہمرنگ ایک اَور امام آئے گا جو اس کا ہمنام اور ہم قوت اور ہم خاصیت ہوگا گویا وہی آئے گا۔ پھر یہ لطیف نکتہ جب جسمانی خیالات کے لوگوں میں پھیلا تو اُن لوگوں نے موافق اپنی موٹی سمجھ کے سچ مچ یہی اعتقاد کرلیا ہوگا کہ وہ امام صدہا برس سے کسی غار میں چھپا ہوا ہے اور آخری زمانہ میں باہر نکل آئے گا۔ مگر ظاہر ہے کہ ایسا خیال صحیح نہیں ہے۔ یہ عام محاورہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی کا ہمرنگ اور ہم خاصیت ہوکر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ گویا وہی آگیا۔ متصوّفین بھی اِن باتوں کے عام طوپر قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ بعض اولیاء گزشتہ کی روحیں اُن کے بعد میں آنے والے ولیوں میں سماتی رہی ہیں اور اس قول سے اُنکا مطلب یہ ہے کہ بعض ولی بعض اولیاء کی قوت اور طبع لیکر آتے ہیں گویا وہی ہوتے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ343تا344)

(جاری ہے)

(تصویر: https://en.wikipedia.org/wiki/Husayn_ibn_Ali)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button