احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
امرواقعہ یہ ہے کہ یہ ساراخاندان ہی مسیح الزمان کاگویاعاشق تھااور عاشق بھی ایسا کہ ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں …………ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حضرت میرناصرنواب صاحبؓ کی قادیان آمد
(حصہ دوم۔آخری)
حضرت میرناصرنواب صاحب ؓ نےگو ابتداءً بیعت نہیں کی تھی لیکن جس کی بابت خدانے بہت پہلے سے بتادیاہوکہ
اَلْحَمْدُلِلآٰہ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصّھْرَ وْالنَّسَب
وہ کب تک دور رہ سکتاتھا۔جلدہی وہ بیعت کرکے حلقۂ ارادت میں آگئے اور پھرمحبت واطاعت میں ایسے فناہوئے کہ اسی کے عاشق ہوکررہ گئے۔آپؑ کے دستِ راست بنتے ہوئے قریبی مقام پرفائز ہوئے۔ خدمت واعتماد کا وہ مقام پایا کہ کُن محسودًا کے مصداق بنتے ہوئے قابل رشک وجودبن گئے۔ حضرت میرصاحبؓ انہیں خدمات وقرب کاعاشقانہ رنگ میں ذکرکرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’گویامیں ان کاپرائیویٹ سکریٹری تھا۔ خدمتگارتھا۔ انجنیئرتھا۔مالی تھا۔زمین کا مختارتھا،معاملہ وصول کیاکرتا تھا۔‘‘
(حیات ناصرصفحہ198 بحوالہ سیرت وسوانح حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ازلجنہ اماء اللہ ضلع لاہور،صفحہ65)
امرواقعہ یہ ہے کہ یہ ساراخاندان ہی مسیح الزمان کاگویاعاشق تھااور عاشق بھی ایسا کہ
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
حضرت اقدسؑ کی وفات پراپنے فاروقی عاشقانہ جذبات کااظہارکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اب میرے متعلق کوئی کام نہ رہا۔ کیونکہ وہ کام لینے والاہی نہ رہا، دنیاسے اٹھ گیا۔میرصاحب! میرصاحب!کی صدائیں اب مدھم پڑ گئیں۔‘‘
(حیات ناصرصفحہ15بحوالہ سیرت وسوانح حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ازلجنہ اماء اللہ ضلع لاہور،صفحہ66)
……………………………
مسجداقصیٰ کی تعمیر
قدیم قادیان کی مساجد
قادیان،اس مقدس بستی کے بارہ میں بیان ہوچکا کہ شرع وورع کے اعتبار سے یہ بستی مکہ کے نام سے مشہورتھی کہ یہاں کی عورتیں بھی دینداری اورپرہیزگاری میں معروف تھیں۔ اورمساجدکی تعدادکے اعتبارسے تو اس کواگرمسجدوں کاشہرکہاجائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ہرچندکہ خاکسارابھی تک قادیان کی اس قدیم بستی میں موجودمساجدکی تعدادمعین کرنے سے قاصررہا ہے۔لیکن اگراس زمانے کے کاغذات دستیاب ہوجائیں تو اس ایک چھوٹی سی قلعہ نمابستی میں درجن دو درجن سے زائد مساجد تو ضرورہوں گی۔ سکھوں کے قبضہ میں جانے پرجوتباہی اورویرانی قادیان کی بستی پر آئی اس کے بیان میں حضرت اقدسؑ کی ایک تحریرسے خاکسارکایہ اندازہ ہے کہ اتنی مساجداس وقت قادیان میں ہوں گی۔چنانچہ آپؑ اپنی ایک تصنیف میں فرماتے ہیں:
’’بالآخرسکھوں نے قادیان پربھی قبضہ کر لیا اور دادا صاحب مرحوم معہ اپنے تمام لواحقین کے جلاوطن کئے گئے۔ اُس روز سکھوں نے پانچسو کے قریب قرآن شریف آگ سے جلادیااور بہت سی کتابیں چاک کردیں اور مساجدمیں سے بعض مساجد مسمار کیں بعض میں اپنے گھربنائے اور بعض کودھرم سالہ بناکرقائم رکھاجواب تک موجودہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد3صفحہ165حاشیہ)
اس مندرجہ بالا اقتباس سے مسجدوں کی تعدادکاکچھ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جن میں سے بعض مسماراور بعض میں گھربنائےگئے۔ان میں سے ایک گھرتوخاکسارنے خود دیکھاہواہے کہ ان کے گھرکے ایک کمرے میں محراب بعینہٖ موجودتھا۔یہ گھرمسجداقصیٰ کے پہلو میں غربی جانب،غالباً جنوب مغرب میں بنتاہے اور خاکسارکاخیال ہے کہ شایدیہ وہی مسجدہوکہ جس میں مسجداقصیٰ کی تعمیرسے پہلے حضرت اقدس علیہ السلام نمازیں پڑھا کرتے تھے۔بہرحال اس چھوٹی سی بستی میں اتنی تعدادمیں مساجدضرورتھیں کہ جب ایک اورمسجدیعنی اس مسجداقصیٰ کی تعمیرکے بارہ میں سنا تو کسی نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ
’’اتنی بڑی مسجدکی کیا ضرورت تھی۔کس نے نمازپڑھنی ہے۔ اس مسجدمیں چمگادڑ ہی رہاکریں گے۔‘‘
(حیات احمد جلد اول صفحہ 66)
اس وقت کی مساجد کی کثرت ہو یامسجداقصیٰ کا نسبتاً وسیع یابڑاہوناہوبہرحال یہ تبصرہ کرنے والے کاایک تبصرہ تھا لیکن بعدکے واقعات نے بتادیاکہ یہ اس کی کوتاہ نظری تھی اس کوکیامعلوم تھا کہ رحمت باری بہانہ می جوئیدکے مصداق اپنے خداسے ایک امیدرکھنے والے دل کی دلنوازی مقصودتھی ایسی ذرہ نوازی کہ اس ایک چھوٹی سی مسجدکو اس رحمٰن خدانے اپنے محبت بھرے ہاتھوں سے لیا اوراس کوبڑھایا ایسابڑھایاکہ ابھی تک بڑھاتاہی چلاجارہاہے۔ اپنے رقبہ کے اعتبارسے یہ مسجدوہ مسجدنہ رہی،اس کوبنانے والے اگرآج واپس آکرایک باردیکھ لیں تو مسجدمیں جانے کاراستہ تک بھول جائیں۔اس کے نمازیوں کودیکھیں تو کہاں صرف ایک ’قادیں‘ نام کی بستی کے لوگ نمازپڑھنے آتے تھے کہ جن میں آداب مساجدسے نابلد کچھ ایسے گنواربھی ہوتے کہ کیچڑسے لت پت اندر چلے آتے لیکن اب یورپ اورامریکہ وآسٹریلیا کے لوگ اس مسجدمیں دورکعات نمازپڑھنے کی تمنادلوں میں رکھے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب خداتوفیق دے اورہم وہاں ایک نظراس ’’دُور کی مسجد‘‘کودیکھ آئیں۔اب اس میں بڑے بڑے علماء وفلاسفراپنے سروں کوجھکانا سعادت سمجھتے ہیں۔کہ خداکے رسول اور فرستادہ کی تخت گاہ یہ بستی بن چکی ہے۔
خریدزمین برائے تعمیرمسجد
بہرحال حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒ جوکہ قادیان کی کھوئی ہوئی ریاست کوواگذارکرنے کے لیے انتھک کوشش میں مصروف رہے لیکن بجزناکامی وناکامیابی کی حسرتوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔قادیان کی اسی بستی میں جس مسجدکودھرم سالہ بنایاگیاتھااس غیورانسان نے قانونی جدوجہدکے ذریعہ اس کوبحال کرانے کی بھی کوشش کی لیکن مقامی باشندوں کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ کوشش بھی بارآورنہ ہوئی تا تاریخ کے اس دورکی کوئی نشانی باقی رہ جائے۔ لیکن خداکی محبت جوایک چنگاری کی صورت میں اس دل ناکام میں موجودتھی اس نے ہمت نہ ہاری اور وہ محبت ایک شعلہ کی صورت میں بھڑک اٹھی اور اس نے یہ پختہ ارادہ کرلیاکہ کچھ بھی ہو قادیان کی کئی سودیہاتوں اور 50کوس طول رکھنے والی ریاست قربان لیکن خدائے عزوجل کاایک گھربناکے رہوں گا کہ جہاں سے پانچ وقت خدائے واحدوأحد کی آوازصنم کدوں پرلرزہ طاری کرتی رہے گی۔اور خوداس مسجدکے صحن کے کونے میں ابدی نیندسونے کافیصلہ کیاکہ خدائے غفورو رحیم کی آواز ان کانوں میں پڑتی رہے۔خداکے پیارمیں ڈوباہوا یہ دل کیاجانتاتھا کہ اس کی یہ مرادکیسے بَرآئے گی کہ اس کی تمام ترناکامیوں اورحسرتوں کے داغ کودھوکر اس کے نام اور اس کے کام کوسورج کی طرح روشن کردے گی۔اور اس خانۂ خداسے بلندہونے والی
اللّٰہُ اَکْبَرْ، اللّٰہُ اَکْبَرْ،اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰــہُ، اَشْھَــــــــدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہ
کی آواز نفخ صوربن کر دنیامیں ایک حشربپاکردے گی۔اوردنیاکے کونے کونے سے آنے والے زائرین جب اس مسجدمیں آئیں گے تو جاتے ہوئے اس کے صحن کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر اس ابدی نیندسونے والے کے لیے ہاتھ اٹھاکریہ دعاکریں گے:
اللّٰھُمَّ ارحمہ و ادخلہ الجَنَّۃ
بہرکیف حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ نے اس جگہ نئی زمین خرید کر مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ موجودہے۔یہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی۔ (کاردار: جن کافرض تھا کہ زمینداروں سے لگان وصول کریں اورعدالت وانصاف کاقیام کریں)یہ جگہ جب نیلام ہونے لگی تو اہالیان قادیان کو چونکہ معلوم ہوچکاتھا کہ میرزا صاحب اس جگہ مسجد بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں اس لیے ان لوگوں نے حضرت مرزا صاحب کا خوب مقابلہ کیا۔معمولی سی قیمت والی جگہ کی سینکڑوں روپے تک بولی پہنچ گئی۔ایسی صورت حال کو دیکھ کر اس اولوالعزم دل نے عہد کیا کہ مجھے اگراپنی ساری جائیداد بھی فروخت کرناپڑی تو میں وہ فروخت کردوں گا لیکن خداکے گھر کی تعمیرکرنے کے لیے یہ جگہ خرید کے رہوں گا۔چنانچہ معمولی سی قیمت کا یہ قطعہ نیلامی میں سات سوروپے تک گیا جسے بالآخر حضرت مرزاصاحب نے خریدلیا۔
اس مسجدکی تعمیرکے متعلق مزیدیہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ کو جب انگریزحکومت نے نیلام کرناچاہاتویہاں کے مقامی ہندوؤں نے اس جگہ ٹھاکردوارہ بنانے کامنصوبہ بنایا۔حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی غیرت دینی نے یہ گوارانہ کیااور میاں جان محمدصاحب جوکہ مسجداقصیٰ کے مؤذن اورامام وغیرہ بھی تھے ان کوحضرت مرزاصاحب نے فرمایاکہ تم بولی میں کھڑے ہوگے اوریادرکھناکہ آخری بولی ہماری ہی ہونی چاہیے۔
میاں جان محمدصاحب ؓ کی ایک روایت الحکم میں شائع ہوئی اس کے مطابق’’ایک مجلس میں … میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا۔ کہ میاں جان محمد صاحب رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا تھا کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے یہ جگہ پہلے سکھوں کے قبضہ میں تھی۔ اور خالصہ حکومت کی طرف سے یہاں کوئی حاکم رہتا تھا۔ انگریزی حکومت آنے پر اس جگہ کی نیلامی کا اعلان ہوا۔ اس پر ہندو لوگ مشورہ کررہے تھے کہ اس جگہ کو خرید کر ٹھاکر دوارہ بنایا جائے۔ اس بات کا علم جب حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ مرحوم کو ہوا تو انہوں نے مجھے بلاکر کہا کہ ہماری طرف سے تم نیلامی میں بولی دو۔ میں نے عرض کیا کہ مقابلہ ہوگا۔ کہانتک بولی دیتا جاؤں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اس جگہ مسجد بنائی جائے گی۔ آخری بولی ہماری ہو۔ چنانچہ میں نیلامی کے وقت حاضر ہوگیا۔ اور بولی دیتا رہا۔ حتٰی کہ 700 روپیہ تک بولی چڑھ گئی۔ اور یہی بولی ہماری طرف سے آخری تھی۔‘‘
(الحکم قادیان، جلد 40 نمبر 10-11-12، مورخہ 7؍اپریل 1937ء صفحہ 3کالم 1)
گویاتمام ترمخالفت اور مقابلے کے باوجود دینی غیرت رکھنے والایہ مردمومن اپنے عزم کاپکارہااور خانۂ خداکے لیے اس جگہ کوحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭