میری مریم
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اَے دل تو جاں فدا کر
(رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)
(قسط نمبر 2)
غضب کی ذہانت
مریم کچھ زیادہ لکھی پڑھی نہ تھیں اور اِن کا خط بھی بہت خراب تھا۔ اِستقلال سے پڑھنے لکھنے کا ملکہ بھی نہ تھا۔ صرف چند دن سبق لےکر چھوڑ دیتی تھیں مگر ذہانت غضب کی تھی۔ آنکھ سے، ماتھے کی شکنوں سے، سانس سے، چال سے، اشارہ سے راز کو اِس طرح پا لیتی تھیں کہ حیرت آتی تھی۔ انسان خیال کرتا تھا کہ اِنہیں غیب معلوم کرنے کا کوئی نسخہ آتا ہے۔ طبیعت سخت حساس تھی۔ جہاں طنز مدنظر نہ ہوتی تھی انہیں طنز نظر آتی تھی، جہاں خفگی کا شائبہ بھی نہ ہوتا تھا وہ خفگی کے آثار محسوس کرتی تھیں دوسروں سے بڑھ کر بھی اِن سے سلوک کرو تو وہ سمجھتی تھیں کہ مجھ سے بے انصافی ہو رہی ہے۔ یہ معاملہ اِن کا مجھ سے ہی تھا اور اِسی معاملہ میں آ کر اِن کی ذہانت بے کار ہو جاتی تھی۔
احمدیت پر سچا ایمان
مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان تھیں اِن کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اِسکی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں۔ انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا اس لئے ط،ق خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ زورسے ادا کرتی تھیں۔علمی باتیں نہ کر سکتی تھیں مگر علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں۔ جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہوتا تھا تو واپسی پر مَیں اِس یقین سے گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہاہوگااور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پُل باندھ دے گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ قیاس میرا شاذہی غلط ہوتا تھا۔ مَیں دروازے پر انہیں منتظر پاتا۔ خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ سی پیدا ہو رہی ہوتی تھی۔
بہادر دل کی عورت
مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا مَیں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا۔ اِن کی نسوانی کمزوری اس وقت دَب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سِوا اِس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں کو اِس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ اِنہیں صرف اتنا کہناکافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو، بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو بلکہ بھول جاتی تھیں مجھ کو بھی اور صرف انہیں وہ کام ہی یاد رہ جاتا تھا اور اِس کے بعد جب کام ختم ہو جاتا تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں جن میں لپٹی ہوئی وہ اِس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورمِ پیٹ کو چاروں طرف سے ڈھانپے ہوئے لیٹ جاتیں کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ یہ عورت ابھی کوئی بڑا آپریشن کروا کر ہسپتال سے آئی ہے۔ اور وہ کام اِن کے بیمار جسم کے لئے واقعہ میں بڑا آپریشن ہوتا تھا۔
دیگر صفات
لذت حاصل کرنے کا مادہ مریم میںغضب کا تھا۔ ایک مردہ دل کو زندہ دل بنا دیتی تھیں۔ گھوڑے کی سواری کی بے انتہا شوقین تھیں، بندوق چلانا بھی جانتی تھیں اور اگر کبھی اِن کا نشانہ میرے نشانہ سے بڑھ جاتا تو اِن کی خوشی کی حد نہ رہتی۔ پہاڑو دریاکی سیر سے لذت اُٹھانا اِنہی کو آتا تھا۔۱۹۲۱ء میں کشمیر میرے ساتھ گئیں تو وہ اِن کے ساون بھادوں کا موسم تھا۔ میں سنجیدگی کی طرف بُلاتا اور وہ قہقہوں کی طرف بھاگتیں نتیجہ یہ ہوا کہ نہ سنجیدگی رہی اور نہ قہقہے ساون کی جھڑیوں کی طرح جو آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہوئے تو کشمیر سے واپسی تک بہتے ہی چلے گئے۔ دوسری دفعہ ہم پھر مریم ہی کے کہنے پر کشمیر گئے یہ ۱۹۲۹ء کا زمانہ تھا۔ اب تین بچے مریم کے اپنے تھے اور تین امۃ الحی مرحومہ کے اس سبب سے کچھ تو مریم میں سنجیدگی پیدا ہوگئی تھی کچھ مجھے امۃ الحی مرحومہ کے بچوں کے پالنے کی وجہ سے اِن کا لحاظ زیادہ ہوگیا تھا اِس لئے اب اِن کے قہقہوں کے لئے فضا سازگار ہوگئی تھی۔ پس اِس دفعہ کشمیر کی خوب سیر کی اور ۱۹۲۱ء کی کمی پوری کر لی مگر یہ حسرت پھر بھی رہ گئی کہ مجھے ایک دفعہ کشمیر اکیلے دکھا دو یعنی جب کوئی دوسر ی بیوی ساتھ نہ ہو۔
عجیب متضادبات
مریم کی طبیعت میں یہ عجیب متضادبات تھی کہ میرے سب بچوں سے خوا ہ کسی ماں سے ہوں وہ بے انتہا محبت کرتی تھیں بلکہ ادب تک کر تی تھیں۔ لیکن میری بیویوں سے اِن کی نہ نبھتی تھی۔ گنواروں کی طرح لڑتی نہ تھیں مگر دل میں غصہ ضرور تھا۔ اِن کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ کسی نہ کسی امر میں اِن سے امتیازی سلوک ہو اور چونکہ خدا اور رسول کے ماتحت میں ایسا نہ کر سکتا تھا، وہ یہ یقین رکھتی تھیںکہ میَں اِن سے محبت نہیں کرتا اور دوسری بیویوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں ۔
سیدہ اُمِّ طاہر کا ایک سوال اوراُس کا جواب
بعض دفعہ خلوت کی گھڑیوں میں پوچھتی تھیں کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ اور مَیں اِس کا جو اب دیتا کہ اِس جواب سے مجھے خدا تعالیٰ کا حکم روکتا ہےاور وہ ناراض ہو کر خاموش ہوجاتیں۔ ہاں گزشتہ چند سال سے انہوں نے یہ سوال کرنا چھوڑ دیا تھا۔ آج اگر انہیں اللہ تعالیٰ اِس دنیا میں آکر میرے دل سے نکلتے ہوئے اِن شعلوں کو دیکھنے کا موقع دے جو دل سے نکل نکل کر عرش تک جاتے ہیںاور رحم کی استدعا کرتے ہوئے عرش کے پایوں سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ اِن کے سوال کا کیا جواب تھا۔ آج اگر انہیں دُنیا میں آنے کا موقع مل جائے اور وہ میرے ذکرِالٰہی کے وقت یہ دیکھیں کہ جب خداتعالیٰ کی سبوحیت بیان کرتے کرتے اُس کی پاکیزگی کا احساس میرے تن بدن کو ڈھانپ لیتا ہے تو میرے بدن پر ایک کپکپی آجاتی ہے اور اِس سبوحیت کے آخری جلوہ کے وقت میرے منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے کہ اے سبوح خدا! کیا میری مریم کو بھی تو پاک نہیں کر دے گا۔یا جب اُس کی حمد کاذکر کرتے کرتے ساری دنیا میری نگاہ میں اُس کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہے اور زمین وآسمان پر حمد ہی حمد کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے تو یکدم میرا جسم ایک جھٹکا کھاتا ہے، میرے دل کو ایک دھکا لگتا ہے اور میری زبان پر بے اختیار جاری ہو جاتا ہے اے وہ خدا جس کی حمد ذرّہ ذرّہ کر رہا ہے کیا میری مریم کو تو اپنی حمد کا مورد نہیں بنائے گا۔ ہاں اگر اِن کی روح اس نظارہ کو دیکھ لے تو وہ کتنی شرمندہ ہوں اُس لمبی بدگمانی پر جو اِنہوں نے مجھ پر کی ۔ اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! مَیں نے بھی ایک لمبے عرصہ تک تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے نفس پرجبر کیا ہے۔ کیا تو اِس کے بدلہ میں میری مریم کو اگلے جہان میں خوش نہیں کر دے گا۔ میرے آقا! تیری رحمت کے دامن کو چھوتا ہوںاور تیرے عرش کے سامنے جبینِ نیاز رگڑتا ہوں۔ میری اِس التجا کو سُن اور اس چنگاری کو جو تو نے میرے دل میں سُلگا دی ہے ہم دونوں کے لئے کافی سمجھ اور اسے ہر آسیب اور ہر وحشت سے محفوظ رکھ۔
رشتہ داروں سے محبت
میری مریم کو میرے رشتہ داروں سے بہت محبت تھی وہ ان کو اپنے عزیزوں سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔ میرے بھائی،میری بہنیں، میرے ماموں اور ان کی اولادیں انہیں بے حد عزیز تھے۔ ان کی نیک رائے کو وہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور اِس کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرتی تھیں۔ حضرت اُمّ المومنین کی خدمت کا بے انتہاء شوق تھا۔ اوّل اوّل جب آپ کے گھر میں رہی تھیں تو ایک دو خادمہ سے اُن کو بہت تکلیف پہنچی تھی اِس وجہ سے ایک دو سال کچھ حجاب رہا مگر پھر یہ حجاب دُور ہوگیا۔ ہمارے خاندان میں کسی کو کوئی تکلیف ہو سب سے آگے خدمت کرنے کو مریم موجود ہوتی تھیں اور رات دن جاگنا پڑے تو اِس سے دریغ نہ ہوتا تھا۔ بچوں کی ولادت کے موقع پر شدید بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود زچہ کا پیٹ پکڑے گھنٹوں بیٹھتیں اور اُف تک زبان پر نہ آنے دیتیں ۔
انتہاء درجہ کی مہمان نوازی
مہمان نواز انتہاء کی تھیں۔ ہر اک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقع پربھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگواتیں۔ خود تکلیف اُٹھاتیں، بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں۔ بعض دفعہ اپنے پر اِس قدر بوجھ لادلیتیں کہ مَیں بھی خفا ہوتا کہ آخر مہمان خانہ کا عملہ اِسی غرض کے لئے ہے تم کیوں اِس قدر تکلیف میں اپنے آپ کو ڈال کر اپنی صحت برباد کرتی ہو۔ آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اُٹھانی پڑتی ہے مگر اِس بارہ میں کسی نصیحت کا اِن پر اثر نہ ہوتا ۔ کاش! اَب جبکہ وہ اپنے ربّ کی مہمان ہیں اِن کی یہ مہمان نوازیاں اِن کے کام آجائیںاور وہ کریم میزبان اِس وادی غربت میں بھٹکنے والی اِس تنہا روح کو اپنی جنت الفردوس میں مہمان کر کے لے جائے۔
بلا کا حافظہ
امۃ الحی مرحومہ کی وفات پر لڑکیوں میں تعلیم کا رواج پیدا کرنے کیلئے مَیں نے ایک تعلیمی کلاس جاری کی اُس میں مریم بھی داخل ہوئیں مگر اِن کا دل کتاب میں نہیں، کام میں تھا۔ وہ اِس بوجھ کو اُٹھا نہ سکیں اور کسی نہ کسی بہانہ سے چند ماہ بعد تعلیم کو چھوڑ دیا۔ مگر حافظہ اِس بلا کا تھا کہ اُس وقت کی پڑھی ہوئی بعض عربی کی نظمیں اب تک انہیں یاد تھیں۔ ابھی چند ماہ ہوئے نہایت خوش الحانی سے ایک عربی نظم مجھے سنائی تھی۔
سیّدہ سارہ بیگم کے بچوں سے سلوک
جب مَیں نے تعلیمِ نسواں کے خیال سے سارہ بیگم مرحومہ سے شادی کی تومرحومہ نے خوشی سے اِن کو اپنے ساتھ رکھنے کا وعدہ کیا مگر اِس وعدہ کو نباہ نہ سکیں اور آخر الگ الگ انتظام کرنا پڑا۔ یہ باہمی رقابت سارہ بیگم کی وفات تک رہی مگر بعد میں اِن کے بچوں سے ایسا پیار کیا کہ وہ بچے اِن کو اپنی ماں کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔
بیماری کی ابتداء
مَیں بتا چکا ہوں کہ مریم بیگم کو پہلے بچہ کی پیدائش پر ہی اندرونی بیماری لگ گئی تھی جو ہر بچہ کی پیدائش پر بڑھ جاتی تھی اور جب بھی کوئی محنت کا کام کرنا پڑتا تو اِس سے اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ مَیں نے اِس کے لئے ہر چند علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوا۔ دو دفعہ ایچی سن ہاسپٹل میں داخل کروا کر علاج کروایا۔ ایک دفعہ لاہور چھائونی میں رکھ کر علاج کروایا۔ کرنل نلسن، کرنل ہیز، کرنل کاکس وغیرہ چوٹی کے ڈاکٹروں سے مشورے بھی لئے، علاج بھی کروائے مگر مرض میں ایسی کمی نہیں آئی کہ صحت عَود کر آئے بلکہ صرف عارضی افاقہ ہوتا تھا چونکہ طبیعت حساس تھی کسی بات کی برداشت نہ تھی، کئی دفعہ ناراضگی میں بے ہوشی کے دَورے ہو جاتے تھے اور اُن میں اندرونی اعضاء کو اور صدمہ پہنچ جاتا تھا۔ آخر مَیں نے دل پر پتھر رکھ کر اِن سے کہہ دیا کہ پھر دَورہ ہوا تو مَیں علاج کیلئے پاس نہ آئوں گا۔ چونکہ دَورے ہسٹیریا کے تھے۔ مَیں جانتا تھا کہ اس سے فائدہ ہوگا اس کے بعد صرف ایک دَورہ ہوا اور میں ڈاکٹر صاحب کو بلا کر خود چلا گیا اِس وجہ سے آئندہ انہوں نے اپنے نفس کو روکنا شروع کر دیا اور عمر کے آخری تین چار سالوں میں دَورہ نہیں ہوا۔
(باقی آئندہ)