طالبان کی شورش۔ عالمی دہشت گردی کی برطانوی؍افغانی بنیادیں
طالبان ایک بار پھر سے زور پکڑ چکے ہیں اور افغانستان کا بیشتر حصہ ان کے تسلط میں آگیا ہے۔ اسلامی ریاست، خلافت اور اسلام کی حکمرانی کا نعرہ ایک بار پھر بلند ہوا ہے اور اس کی گونج دن بہ دن بڑھتی چلی جارہی ہے۔
میڈیا اس صورتحال کوحالاتِ حاضرہ کے طور پر دیکھ رہا ہے، مگر اس کے تاریخی پس منظرکو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے ہے۔ یوں اس مسئلہ کو حل کرنے کی راہیں خود ہی مسدود کردی گئی ہیں۔
1857ء میں ہندوستان میں ہونے والی بغاوت کا ایک تاریخی پس منظر تھا اور اس کے دیرپا اور گہرے اثرات ایک صدی اور کئی دہائیوں بعد بھی آج تک سامنے آرہے ہیں۔ اگرچہ ہندو، سکھ اور مسلمان سب انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، لیکن برطانوی نوآبادیاتی مقاصد کے حصول کے لیے صرف مسلمانوں کے نقطۂ نظر کو ہی متشدد اور انتہا پسند قرار دیا گیا۔
برطانوی راج کے دور میں مسلمانوں میں شدت پسندانہ رحجانات پیدا کرنے میں برطانوی ذرائع ابلاغ نے بھرپور کردار ادا کیا مگر اس حقیقت کو عام طور پر اجاگر نہیں کیا جاتا۔
1857ء کی بغاوت کے بد نتائج میں سے ایک یہ بھی تھا کہ برطانوی ذرائع ابلاغ نے مسلمانوں کو باغی اور پرتشدد قرار دیا اورپھر بعض مسلم حلقوں نے اس الزام کا جواب باغیانہ اور پُرتشدد انداز میں دیا۔ اور اس طرح برطانوی پریس کو اسلام اور جہاد کے تصور پر حملہ کرنے کے لیے مزید مواد فراہم ہوا۔ یوں یہ ایک منحوس چکر بن گیا اور ہر پھیر کے ساتھ شدید تر ہوتا چلا گیا۔ انگریز مسلمانوں پر متشدد ہونے کا الزام لگاتے اور مسلمان متشدد رنگ میں جوابی کارروائی کرتے۔
نوآبادیاتی ایجنڈے کو ترویج دیتے ہوئے، برطانوی پریس نے مسلمانوں کو ایک مذہب کی بجائے باغیانہ سوچ کی حامل قوم کے طور پر پیش کیا (جو کہ آج بھی مغربی پریس اور میڈیا کاطریقہ کار ہے)۔
WW Hunter کی کتاب Indian Musalmans اس طریقہ کار کی ایک اچھی مثال ہے، حتّٰی کہ اس کتاب کا عنوان بھی اس حقیقت کا عکاس ہے اور مسلمانوں کو ایک خاص سوچ کی حامل قوم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ Hunterکی کتاب میں پیش کیا گیا نتیجہ مختصراً ایسے بیان کیا جاسکتا ہے : ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت ‘اچھے مسلمان ‘نہیں، جنون کی حد تک متشدد ہیں، اور اپنی بقا کے لیے اپنے عقیدۂ ’’جہاد‘‘ پر انحصار کرتے ہیں، جوکہ ان پر لازم ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں نے پرتشدد انتقامی کارروائی (جو آج تک مسلم دنیا کا شیوہ چلا آتا ہے) کو اپنایا۔ انگریز، جو زیادہ تر عیسائی تھے، کو اسلام کو مزید بدنام کرنے کے لیے کچھ زیادہ محنت نہ کرنا پڑی کیونکہ اس پراپیگنڈا کے لیے کافی ثبوت خود مسلمانوں کے جنونی ردّعمل سے فراہم ہو جاتا۔
بدقسمتی سے ایسےمسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی جو برطانوی پروپیگنڈے کا مقابلہ بالکل اُسی انداز میں اور ویسے ہی ہتھیاروں سے کر سکتے،یعنی ذرائع ابلاغ کے میدان میں الفاظ کے ذریعے۔
ایک شخص جو عام طور پر ایسی آزمائش میں مسلمانوں میں نمایاں طور پر دیکھا جاتا ہے وہ سر سید احمد خان ہیں جنہوں نے Hunter کی کتاب پر تفصیلی تبصرہ لکھا۔ عمومی طور پر Hunterکی اسلام مخالف تصنیف کو ردّکرنے کی ایک اچھی کوشش ہونے کے باوجود، سرسید احمد خان کےتبصرہ میں صرف برطانوی حکومت یا اعلیٰ علمی ذوق کے حامل انگریزی دان طبقے کو ہی مخاطب کیا گیا، مگر جہاد کے بارے میں مسلمانوں کی سوچ میں کوئی اصلاح نہیں کی۔
عیسائی مشنریوں نے Hunter کی تصنیف کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو ان کے مذہبی فریضۂ ’’جہاد‘‘ پر اُکسانے کے لیے ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اور بے چارے مسلمان انہیں خاطر خواہ نتائج فراہم کرتے رہے۔
صورتحال کا واحد علاج دو طرفہ طریقہ کار سے ہی ہو سکتا تھا، یعنی اُس صورتحال میں جہاد کے بارے میں مسلمانوں کی سوچ میں اصلاح اور حکومت اور عیسائی مشنریوں کو یہ بتانا کہ ان کا اسلام کو بدنام کرنے کا حربہ ہی دراصل متشدد ردّعمل کا باعث ہے۔
یہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی کاوش سے ہوا، جنہوں نے یہ ذمہ اٹھایا کہ مسلمانوں کے ذہن میں جہاد کے تصور کی تصحیح کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی بتایا جائے کہ عیسائی مشنریوں کے اشتعال انگیز کام بھی اس تمام ردّعمل کے برابر ذمہ دار ہیں۔
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ؑ کا یہ نقطہ نظر، آپ کی تصنیف ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ کو دَورِ حاضر میں عالمی دہشت گردی کی بنیادوں کو جانچنے کیلئے خاص اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ اس دوہرے علاج کو سمجھنے کے لیے، مذکورہ تصنیف سے دو مختصر اقتباسات پیش ہیں:
”یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اِس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے۔ اور اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بنادیں۔ اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کردیں۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔۔۔۔۔
’’اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے۔خدا کے پاک نبی کے نافرمان مت بنو۔۔۔۔۔
”اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کو مخفی رکھ کرلوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے۔ اِسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کارروائی کی۔ اور ہزاروں رسالے اور اشتہار اردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں اس مضمون کے شائع کئےکہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار چلانے کا نام اسلام ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کی دو گواہیاں پا کر،یعنی ایک مولویوں کی گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت، اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی۔میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ اِن پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراء سے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے۔‘‘
(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد،روحانی خزائن، جلد 17، صفحہ 7 تا9)
حضرت بانی ٔ جماعت علیہ السلام نے ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور اس کے پڑوسی علاقہ افغانستان کو اسلامی جہاد کے نام پر دکھائی جانے والی جنونیت کا منبع قرار دیا۔ اصل وجہ پر زور دیتے ہوئے، آپؑ نے مسلمان مولویوں اور عیسائی پادریوں کو یکساں طور پر ذمہ دار قراردیا، کیونکہ دونوں ہی جہاد کو ہر غیر مسلم کے خلاف ایک مسلمان کا فرض قرار دیتے۔
حضرت احمد علیہ السلام نے پشاور کے کمشنر، Francis Cunninghamکو ایک خط لکھا جس میں انہیں بتایا کہ ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ عام فہم بنانے کے لیے اردو میں لکھی گئی تھی اور اس کی کاپیاں مفت تقسیم کی گئی تھیں۔ آپؑ نے Francis Cunningham کو مزید کاپیاں اپنے خرچ پر پشاور ، سرحدی علاقہ اور افغانستان میں تقسیم کروانے کی پیشکش کی۔
حضرت احمد علیہ السلام کی طرف سے برطانوی حکومت کے سامنے پیش کی جانے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا برطانوی حکومت جہاد کے نام پر تشدد کو ختم کرنا چاہتی بھی تھی؟ بالکل اسی طرح جس طرح آج بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا مغرب دراصل اسلام کے نام پر جاری تشدد کا خاتمہ چاہتا بھی ہے؟ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس متشدد تاثر کو قائم رکھنا اسلام کے خلاف مغرب کے کسی وسیع تر ایجنڈے کیلئے سازگار ہے۔
غیر مسلموں کے خلاف جہاد کے تصور جیسا ہی ایک تصور ارتداد کی سزا تھی۔ برطانوی راج کے دنوں میں ارتداد کی سزا کا سرحدی علاقے اور افغانستان کے مسلمانوں نے بربریت سے بھرپور مظاہرہ کیا۔
خوست کے رہنے والے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید ؓ، جو کابل میں امیر کے دربار کےمعتمد رہ چکے تھے، ہندوستان تشریف لائے۔ آپؓ افغانستان کے اُس وفد کے اہم رُکن رہ چکے تھے، جس نے افغان سرحد کی حد بندی کے دوران ڈیورنڈ کمیشن کے ساتھ مذاکرات کئے۔
ہندوستان میں قیام کے دوران، آپؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی اور آپؑ کی بیعت کر لی۔ افغانستان واپسی پر، ان پر ارتداد کا الزام لگا کر پہلے قید کیا گیا اور بالآخر کابل کے امیر کے حکم پر سنگسار کر دیا گیا۔
اس وحشیانہ فعل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت صدمہ ہوا اور حضور علیہ السلام نے تذکرۃ الشھادتین کے نام سے ایک تفصیلی کتاب تحریر فرمائی۔آپؑ نے اس حقیقت کی نشاندہی فرمائی کہ کابل ایک ایسی جگہ بن گیا ہے جہاں اسلام کے نام پر بدترین ظلم کیا گیا ہے۔ آپؑ نے تشدد کے اس عمل کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھا جس کے نتیجہ میں، آنے والے وقتوں میں سنگین مضمرات سامنے آنے والےتھے۔ مگر یہ انتباہ حسبِ دستور، حکام نے نظر انداز کردیا۔
یہ بات کہ برطانوی حکومت نے حضرت احمد علیہ السلام کے واضح انتباہات کو نظرانداز کیا،کوئی بے ثبوت دعویٰ نہیں۔ تذکرۃ الشہادتین کی اشاعت کے بعد، اخبار ِعام اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جیسے اخبارات نے اپنی اشاعتوں میں اس کے اقتباسات شائع کئے۔ کابل کے امیر نے اس پر ردِ عمل ظاہر کیا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ حضرت احمد علیہ السلام کی شائع کردہ کتاب کے خلاف ہتک عزت کی قانونی چارہ جوئی جائے۔
برطانوی ہند کے سرکاری عہدیداروں کے درمیان طویل خط و کتابت جس میں امیر کی شکایت درج ہے، وہ انڈین نیشنل آرکائیوز میں اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ افسر شاہی کے مابین اس خط وکتابت کا ہر ورق صرف یہ نشاندہی کرتا ہے کہ امیر کی درخواست کو شائستگی سے کیسے رد کیا جا سکتا ہے۔ یہ کاوشیں بھی کی گئیں کہ دیکھا جائے کہ کیا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے یا نہیں، تاکہ امیر کے ساتھ سفارتی خیر سگالی کو برقرار رکھا جا سکے۔
مثال کے طور پر، جنرل سپرنٹنڈنٹ کے اسسٹنٹ ،DE McCracken کا ایک خط بنام اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس، SE Wallace، بتاریخ 14 جنوری1904میں لکھا ہے کہ:
“I shall be much obliged if you can send mI urgently any papers you may have on record relating to discussion of the point whether legal action could be taken against Mirza Ghulam Ahmad of Kadian […]”
بہت غور و خوض کے بعد، حکومت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کارروائی کا کوئی معقول جواز میسر نہیں آسکا۔ بالآخروائسرائے ہند، لارڈ کرزن نے 2 فروری 1904 کو اپنی افسر شاہی کو ایک خط میں لکھا:
“I should have thought that the best course was to say frankly to the Envoy [of the Amir] that the Amir had laid himself open to violent attacks by the murder of Abdul Latif […]”
وائسرائے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید ؓ کے ساتھ پیش آنے والی صورتحال سے اچھی طرح واقف تھا،مگر اس کے باوجود کابل کے امیر کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اس بات کی مزید تصدیق کے لیے کہ برطانوی حکومت اسلام کے نام پر کیے جانے والے مظالم سے آگاہ تھی، مندرجہ بالا ریکارڈ،جس میں قریباً ورق پر Secretلکھا ہوا ہے، میں ایک اقتباس شامل ہے جو کہ Diary of the British Agent at Kabul سے بتاریخ 15جولائی 1903 لیا گیا ہے:
“Mulla Abdul Latif having obtained permission had started on a pilgrimage to Mecca from Khost. But on his arrival in India he became a follower of Mirza Ghulam Ahmad, Kadiani. Thereupon he altered his mind and returned to his province, and effected a change in the minds of the people of the province to a certain extent as to their religious creed. This matter was reported to the Kabul authorities. By order of the Amir he was arrested and brought in to the Darbar, in which all the Maulvis gave a unanimous opinion that both the Mulla and Ghulam Ahmad, Kadiani, were infidels. Under the orders of the Amir, Mulla Abdul Latif was stoned to death below the gallows. His remains were buried in that very place.”
اسلام کے نام پر کابل کے امیر کی بربریت پر برطانوی حکومت نے جس خاموشی کا مظاہرہ کیا،وہ واضح کردیتا ہے کہ دراصل کوتاہیاں کہاں سرزد ہوئیں، جن کے مضمرات آج تک اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔
مؤرخ بہتر طور پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ برطانوی راج کے دنوں میں برطانوی سفارتکاری درست نہج پر تھی یا نہیں۔مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ آج تک بالکل سچ ثابت ہورہےہیں:
’’اے کابل کی زمین! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اے بدقسمت زمین! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن، جلد 20،صفحہ 74)
تاریخ کے اوراق کو تیزی سے پلٹتے ہیں اور 1924ء میں آجاتے ہیں۔
اسی طرز کا ایک اور وحشیانہ عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو اورپیرووں کے ساتھ دوبارہ کابل کے امیر کے براہ راست احکامات کے تحت دہرایا گیا۔
انڈیا آفس کے ریکارڈ میں ایک فائل بعنوانAfghanistan: Persecution of Ahmadiyya Sect موجود ہے۔ اس میں برطانیہ کے معروف اخبارات کے متعدد تراشے موجود ہیں جن میں لندن کے ایسیکس ہال میں منعقدہ احتجاجی اجلاس کی خبر دی گئی ہے۔ ہم نمونے کے طور پر 4 ستمبر 1924 کے اخبار دی ٹائمز، لندن کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ پیش کرتے ہیں، جس کی سرخی تھی:
Priest stoned to death
اور عنوان لگایا گیا تھا
Sacrifice for his faith
خبر کی تفصیل میں درج تھا کہ:
“His Holiness the Khalifa-tul-Masih, head of the Ahmadia movement, who is in London, received news yesterday that Niamatullah Khan, the chief priest of the movement in Afghanistan, had been stoned to death by order of the Amir on Saturday […]
“His Holiness stated that the outrage was the culmination of a series of atrocious and barbarous acts directed by the Afghans against the Ahmadia movement owing to its opposition to the preaching of the Holy War.
“He added that he intended to appeal to the British Government and the League of Nations to protest against the action of the Amir.”
دی ٹائمز، لندن نے 6 ستمبر 1924 کو ایک تفصیلی نوٹ شائع کیا کہ کس طرح کابل کے امیر نے ایک احمدی کو ارتداد کی سزا کے طور پر سنگسار کر نے کا حکم دیا تھا، جس میں واضح طور پر کہا گیا :
“The execution by the Ameer’s orders of Maulvi Nimatulla Khan, who was stoned to death after months of torture, is regarded as significant of the seriousness of the position in Afghanistan”.
یعنی افغانستان میں مذہب کے نام پر تشدد کی سنگینی اس واقعہ سے صاف ثابت ہو رہی تھی۔
شملہ اور لندن میں برطانوی حکومت اور افسر شاہی حضرت مصلح موعود ؓ کے ایما پر ہونے والے اس احتجاجی جلسہ کو نظر انداز نہیں کر سکی۔ برطانوی پریس میں اس جلسہ کا چرچا بھی بہت ہو رہا تھا۔
احتجاجی جلسہ کی صدارت Dr Walter Walshنے کی تھی اور اس جلسہ کی خاص بات اس کے دوران منظور کی گئی قرارداد تھی جس اور اس پر نہ صرف مسلم معززین بلکہ انگریزی دانشوروں نے بھی دستخط کیے تھے۔ انگریز دستخط کنندگان میں مشہور ناول نگارHG Wells, Sir Arthur Conan Doyle اور Francis Younghusbandجیسے عمائدینِ علم و ادب بھی شامل تھے۔
اس قرارداد نے، جو برطانیہ کے وزیر اعظم اور لیگ آف نیشنز کے صدر کو بھیجی گئی تھی، اس طرف توجہ مبذول کروائی، کہ اس سے پہلے کہ معاملات بالکل ہاتھ سے نکل جائیں، افغانستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو موجودہ مراحل میں ہی روکنا چاہیئے۔
اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے صدر نے اسے وصول کیا اور اس کا شکریہ ادا کیا،لیکن لیگ آف نیشنز ریکارڈز (جو اب جنیوا میں UNO archive کا حصہ ہیں) میں مزید کسی کارروائی کے شواہدنہیں مل سکے۔
تاہم انڈیا آفس ریکارڈ میں محفوظ خط و کتابت بتاتی ہے کہ لندن کے شاہی محل اور حکومتی ایوانوں میں وزرا اور افسرشاہی کے کارندے کس طرح اس صورتحال سے نبرد آزما تھے۔ یہ ریکارڈ چونکا دینے والے حقائق کو ظاہر کرتا ہے۔
Home Officeاور Foreign Officeکے وزراء،اسکاٹ لینڈ یارڈ سے مشورہ لیتے نظر آتے ہیں کہ آیا انہیں جماعت احمدیہ کی دعوت قبول کر کےاحتجاجی اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے یا نہیں؟
An Extract from Report by New Scotland Yard کے عنوان سے وہ رپورٹ موجود ہے جو Arthur Field نامی Scotland Yard کے ایک اہلکارنے وزراء کو بھجوائی۔ رپورٹ کا آغاز مندرجہ ذیل الفاظ سے ہوتا ہے:
“Regarding a meeting called for Wednesday, 17th September, 1924, at 8.15 at Essex Hall, when ‘His Holiness the Khalifat ul Masih’ will speak at a meeting to protest against the Muslim populace stoning one of the Ahmadi schismatics to death, I unhesitatingly ask you not to attend.”
وزراء آپس میں خط و کتابت کرتے رہے، اور ان کے مشیران خطوں پر اپنے تبصرے لکھ کر واپس بھیجتے رہے۔ اور پھر، آخر کار، ہندوستان کے Foreign and Political Department نےLD Wakely (Secretary, Political Department, India Office, London) کو 25نومبر 1924کو لکھا :
“The Government of India consider that it would be dangerous to make any representation, however informal, to the Afghan Government in the matter […]” (India Office Records, Political/Secret P4828, 1924)
اُس وقت جبکہ افغانستان میں مذہبی انتہا پسندی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی، برطانوی حکومت اس سے مکمل طور پر واقف تھی اور اس کےممکنہ نتائج سے بھی آگاہ تھی ۔کابل کا امیر ایک کٹھ پتلی تھا جس کے تار ہندوستان میں برطانوی سفارت کاروں کی انگلیوں سے بندھے ہوئے تھے (جس کا ثبوت ایک الگ مضمون میں دیا جائے گا)۔ یعنی انگریز حکومت کے پاس مکمل اختیار تھا کہ وہ اس سنگین صورتحال کو بدل سکتے جو افغان مسلم منظر نامے پر ابھر رہی تھی۔
اس کے باوجود، برطانوی حکومت نے اس خطرے سے آنکھیں چُرا لیں اور اسے اس خطرہ کو پروان چڑھنے دیا جو اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
طالبان کی شورش تشویشناک ہے۔ ان کے منصوبے انتہائی خطرناک ہیں۔ لیکن آج جب مغرب صورتحال کے حل کی تلاش میں نظر آرہا ہے، تو اُسے تاریخ پر بھی نظر دوڑانا ہوگی۔ اس مسئلہ کے حل کے اشارے اب بھی وقت کی دھول میں ڈھکے ہوئے مل سکتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بھی مغربی طاقتوں کو اس امر کی طرف متعدد مواقع پر متوجہ فرماچکے ہیں کہ دہشت گردی کی موجودہ فضا کا ذمہ دار صرف مسلمانوں کو ٹھہرانا چنداں درست نہیں۔ یقیناً مغربی طاقتوں کی پشت پناہی کے بغیر غریب اسلامی ممالک یوں مسلح نہ ہوپاتے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلحہ کی فراہمی کے سلسلہ میں بڑے کھلے الفاظ میں مغربی طاقتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی تلقین فرمائی ہے۔
پس جماعت احمدیہ کا ماضی اور حال دونوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہر دور کے صاحبانِ بسط و کشاد کو جماعت احمدیہ کے ائمہ کی طرف سے بروقت متنبہ کیا جاتا رہا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان الفاظ پر توجہ کی جائے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
(جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس کے خطابات جو ان معاملات پر ایک ٹیکسٹ بک درجہ رکھتے ہیں یہاں کلک کرکے پڑھے جاسکتے ہیں)
خطبہ جمعہ Archives – الفَضل انٹرنیشنل (alfazl.com)
اس مضمون کو انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر جائیں:
Taliban Resurgence: The Anglo-Afghan roots of global terrorism – Al Hakam