اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا تعلق رکھنے والے کو ضائع کرے
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت
دیکھو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جنہوں نے ہمیشہ نازو نعمت میں پرورش پائی تھی اور سیّد سیّد کرکے پکارے جاتے تھے۔انہوں نے بھی تو سختی کا زمانہ نہ دیکھا۔ان کو ایسے ایسے زمانے دیکھنے کا موقعہ ہی نہ ملا تھاکہ وہ ان صحابہ ؓکے مراتب کو پہنچ سکتے۔ان کی ساری زندگی ناز و نعمت میں گزری تھی نہ انہوں نے کسی جہاد میں حصّہ لیا تھا نہ کسی کفر ہی کو توڑا تھا تو خدا نے جو اُن کو شہید کیا ۔کیا ان پر ظلم کیا ؟ہر گز نہیں۔ انہوں نے پچاس پچپن برس کی عمر تک وہ زمانہ نہ دیکھا تھا کہ شدائد کیا ہوا کرتے ہیں اور انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ جب صحابہؓ بکریوں کی طرح ذبح ہوتے تھے تو پھر اُن کا کیا حق تھا کہ وہ شہداء میں درجہ پاتے یا کسی طرح آخرت میں خدا کے قرب میں عزت پاتے ۔کیااُن کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بیٹا کہلانے کا فخر بس تھا؟ اور ان کےواسطے یہی کافی تھا؟ نہیں اس سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی منع فرمایا تھا۔اس سے کوئی حق قرب الٰہی نہیں ہوسکتاتھا۔غرض ان کی اپنی تو ایسی بظاہر کارنمائی نہ تھی جس سے وہ ان درجات اعلیٰ کے وارث یا حقدار ہوتے۔مگر چونکہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قسم کا تعلق تھا۔اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا تعلق رکھنے والے کو ضائع کرے٭۔ سو ان کے واسطے ایسے ایسے سامان میسر کر دیئے کہ وہ خدا کی راہ میں شہادت پانے کے قابل ہوگئےاور اس طرح وہ سابقین کے ساتھ مل گئےجن کے حالات سے وہ محض نا واقف تھے۔ایک ذرا سی تکلیف اور اجر عظیم مل گیا۔شیعہ ہیں کہ اس حکمت الٰہی کی طرف تو غور نہیں کرتے اور الٹا روتے ہیں کہ ان کو شہید کر دیا۔
(ملفوظات جلد3صفحہ149تا150،ایڈیشن1988ء)
یاد رکھو انبیاء کا دوسرا نا م اہل بلاء و اہل ابتلا ء بھی ہے۔ابتلاؤں سے کوئی نبی بھی خالی نہیں رہا۔ایک روایت میں ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے گیارہ بیٹے فوت ہو ئے تھے اور پھر انبیا ء کو تو رہنے دو۔امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھا کتنا خوفناک ہے۔لکھا ہےکہ اُس وقت اُن کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئےاور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کردیا گیا۔اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئےاور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی اُن کے قتل کئے گئےاور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لیے تھا۔جاہل تو کہیں گے کہ وہ گناہ گار اور بد اعمال تھے اس لیے ان پریہ تکلیف آئی مگر ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ آرام سے کوئی درجہ نہیں ملا کرتا۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ336،ایڈیشن1988ء)
حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ کے بارے میں فرمایا:
ہم تو دونوں کے ثناء خواں ہیں ۔اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں ۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے ا ورخو ن ہوں ۔ انہوں نے امن پسندی کو مد نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔دونوں کی نیت نیک تھی ۔
اِنَّمَاالْاَ عْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔
(ملفوظات جلد4صفحہ580،ایڈیشن1988ء)
حضرت عیسیٰ ؑاور امام حسینؓ کے اصل مقام اوردرجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسینؓ کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض نا واقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا ویں مگر وہ ان کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔
(ملفوظات جلد3صفحہ530،ایڈیشن1988ء)