کیا مفتری کو تئیس 23 سال تک مہلت ملتی ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی آیات کی روشنی میں اپنی صداقت کی ایک دلیل اس طور سے بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ پر افتراکرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور اسے مہلت نہیں ملتی تو مخالف غیر احمدی علماء نےقرآنی آیات کے مضامین کو قبول نہ کرتے ہوئے یہ عذر تراش لیا کہ مفتری کو مہلت ملتی ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ انعامی چیلنج دیا۔
’’اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامورمن اللہ ہونے کا دعویٰ کرکے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سُناکر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تیئیس23 برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے زندہ رہا ہے تو مَیں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسو روپیہ نقد دے دوں گا۔‘‘
(اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 402)
غیر احمدی علماء اس انعامی چیلنج کے جواب میں آج تک کوئی نظیر تو پیش نہیں کر سکے لیکن اس چیلنج سے فرار کا ایک بہانہ تراشا ہوا ہے کہ مفتری کو 23سال تک مہلت نہ ملنے کا ذکر کسی جگہ بیان نہیں ہوا ہے حالانکہ گذشتہ علماءاس کا ذکر اپنی کتب میں کرتے رہے ہیں۔
علامہ سعد الدین تفتازانی جن کا پورا نام مسعود بن عمر بن عبد الله تفتازانى اور لقب سعد الدين ہے، جن کی ولادت 712ھ بمطابق 1312ء اور وفات 793ھ بمطابق 1390ءہوئی۔ آپ علم بیان میں عربی لغت اور منطق کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ مفسر، متکلم ،محدث اور ادیب بھی تھے۔ بعض کے نزدیک حنفی تھے اورایک خیال یہ بھی ہے کہ شافعی تھے۔ آپ نے کئی کتب تصنیف کیں۔ ان کی ایک مشہور کتاب شرح العقائد النسفیۃ ہے۔ اس کا شمار معتبر ترین کتب میں ہوتا ہے اس لیے وفاق المدارس میں یہ بطور نصاب پڑھائی جاتی ہے۔ اس کتاب پر کئی علماء نے شروحات لکھی ہیں۔
اس’’شرح العقائد‘‘میں لکھا ہے کہ
’’فَانَّ العَقلَ یَجزِمُ بِاِمتِنَاعِ اِجتِمَاعِ ھٰذِہِ الاُمُور فِی غَیرِ الاَنبِیَاءِ وَاَن یَجمَعَ اللّٰہُ ھٰذِہِ الکَمَالَاتِ فِی حَقِّ مَن یَعلَمُ اَنَّہ یَفتَرِی عَلَیہِ، ثُمَّ یُمھِلہ ثلاثًا وَعِشرِینَ سَنَۃ، ثُمَّ یُظھِرُ دِینَہ عَلی سَائِرِ الاَدیَانِ، وَیَنصُرُہ عَلی اَعدَائِہ، وَ یُحیِی آثارَہ بَعدَ مَوتِہ اِلٰی یَومِ القِیَامَۃِ ‘‘
(شرح العقائد النسفیہ از علامہ سعد الدین التفتازانی، صفحہ 88،مکتبۃ الکلیات الازھریۃ شارع الصنادقیۃ، الازھر، القاھرہ، 1987ء)
’’شرح العقائد‘‘ کی اردو شرح ’’اشرف الفوائد ‘‘ سے اس عربی عبارت کا ترجمہ یہ ہے۔
’’عقل غیر نبی میں ان باتوں (عظیم اخلاق اور عصمت وحفاظت وغیرہ) کی بیک وقت موجودگی اور اس بات کے محال ہونے کا یقین کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سارے کمالات ایسے شخص میں جمع فرما دیں جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ وہ (خدا کا رسول ہونے کا دعویٰ کرکے )اس پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ پھر اس کو تئیس سال تک مہلت دے پھر اس کے دین کو سارے ادیان پر غالب کر دے۔ اور اس کے دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی مدد کرے اور اس کی موت کے بعد بھی اس کے آثار واحکام کو قیامت تک زندہ رکھے۔‘‘
(اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد از مفتی فدا محمد، صفحہ 511،دارالعلوم رحمانیہ، مدنی کتب خانہ صوابی)
مفتی فدا محمد صاحب نے اس کی شرح لکھنے کے بعد خلاصہ کے طور پر لکھا کہ ’’خلاصہ کلام یہ کہ آپؐ کے بلند وبالا اخلاق اور عظیم شخصیت کی وجہ سے کفار مکہ کو اتنی شدید دشمنی کے باوجود آپؐ کی ذات پر انگلی اٹھانے کی جگہ نہیں ملتی جب یہ حال ہے تو عقلاً یہ محال ہے کہ اتنے عظیم کمالات پیغمبر کے علاوہ کسی اور کی ذات میں جمع ہوجائیں۔ پھر 23سال کے اندر اندر دین کی تکمیل اور ادیان باطلہ پر اس دین حق کا غلبہ اور قیامت تک اس دین کا باقی رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ صفات ایک نبی کے لئے ہوسکتے ہیں کسی اور کے لئے بالکل نہیں۔‘‘
(اشرف الفوائد اردو شرح شرح العقائد از مفتی فدا محمد، صفحہ 511، 512، دار العلوم رحمانیہ، مدنی کتب خانہ صوابی )
شرح العقائد کی ایک اور شرح ’’بیان الفوائد‘‘ میں بھی اسی طرح لکھا ہے۔
(بیان الفوائد فی حل شرح العقائد از مولانا مجیب اللہ گونڈوی استاد دارالعلوم دیوبند، حصہ دوم، صفحہ 183، مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک )
شرح العقائد کی ایک اور شرح ’’نشر الفوائد ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ان سب باتوں کے پیش نظر عقل یہ حکم لگانے پر مجبور ہے کہ غیر انبیاء میں ایسے امور جمع نہیں ہوسکتے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ ان کمالات کو ایسے شخص کے حق میں اکٹھا کر دے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ افتراء پرداز ہے اور اس کو تئیس سال تک مہلت دے۔ پھر اس کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی مدد کرے اور موت کے بعد قیامت تک اس کے آثار کو زندہ رکھے۔‘‘
(نشر الفوائد الجلالی شرح ونوٹ شرح العقائد النسفی از مولانا عبید الحق صاحب فاضل دیوبندی، صفحہ 182، ناشر قدیمی کتب خانہ کراچی، 1990ء )
ایک اور شرح ’’توضیح العقائد‘‘ میں عربی عبارت کا ترجمہ کرنے کے بعدمصنف نے پہلا استدلال بیان کیا۔ اس پہلے استدلال کو امام غزالیؒ کی طرف منسوب کرنے کے بعد لکھا کہ ’’عقل اس بات کے محال ہونے کا یقین کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے کمالا ت ایک ایسے شخص کے اندر جمع کر دیں کہ جس کے بارے میں وہ جانتا ہو کہ اس نے خدا کا رسول ہونے کا دعویٰ کرکے اس پر جھوٹ باندھا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو تیئیس سال تک مہلت دے اور اس کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اس کے دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی مدد کرے اور اس کی موت کے بعد اس کے آثار کو قیامت تک زندہ رکھے، تو ان چیزوں کا اجتماع پیغمبر کے علاوہ کسی اور میں نہیں ہوسکتا، تو لہٰذا آپ کی نبوت ثابت ہے اور ظاہر ہے۔‘‘
(توضیح العقائد فی حل شرح العقائد از مولانا اکرام الحق مدرس جامعہ عمر بن خطاب، صفحہ 445، جامعہ عمر بن خطاب، شاہ رکن عالم ملتان )
ان تمام حوالہ جات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والے کو تئیس سال تک مہلت نہیں ملتی۔ اور جو شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرکے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سنائے اور برابر تئیس23برس تک زندہ رہے وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہوتا ہے۔ جھوٹے مدعی نبوت کا کام چند دن سے زیادہ نہیں چلتا۔
شرح العقائد کی شرح النبراس میں لکھا ہے۔
’’وَقَد اِدّعی بَعضُ الکَذّابِینَ النُّبُوۃَ کَمُسَیلَمَۃِ الیَمَامِی وَالاَسوَدِ العَنسِی وَ سَجَّاحِ الکَاھِنَۃِ فَقُتِلَ بَعضُھُم وَتَابَ بَعضُھُم وَبِالجُملَۃِ لَم یَنتَظِم اَمرُ الکَاذِبِ فِی النّبوۃِ اِلّا اَیَّامًا معدودات‘‘
(النبراس شرح شرح العقائد از علامہ محمد عبد العزیز صفحہ 279)
کہ بعض جھوٹوں نے نبوت کا دعویٰ کیا جیسا کہ مسیلمہ یمامی، اسود عنسی اور سجاح کاہنہ وغیرہ نے۔ پس ان میں سے بعض قتل ہوگئے اور باقیوں نے توبہ کر لی اور نتیجہ یہ ہے کہ جھوٹے مدعی نبوت کاکام چند دن سے زیادہ نہیں چلتا۔
(مرسلہ: ابن قدسی)