جلسہ سالانہ UK کا کامیاب و بابرکت انعقاد۔ ایم ٹی اے سے متعلق عظیم الشان پیشگوئیوں کا ایک بار پھر ظہور
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’’جب امام مہدی آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اہلِ مشرق و مغرب کو جمع کر دے گا۔‘‘
ایم ٹی اے کا روحانی مائدہ دنیا میں عظیم روحانی انقلاب برپا کررہا ہے۔ اپنے تو اپنے غیر بھی اس روحانی مائدے سے مستفید و مستفیض ہوتے ہوئے اپنے اندرغیر معمولی روحانی تبدیلیاں پیدا کررہے ہیں۔ یہ روحانی مائدہ ایک عظیم الشان پیشگوئی کا بھی ظہور ہے۔ آئیے اس پیشگوئی کا جماعت احمدیہ سے تعلق اور اس کا متعدد مرتبہ عظیم الشان طریق پربار بار پورے ہونے اور ہوتے چلے جانے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ایم ٹی اے کے متعلق پیشگوئیاں
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’’جب امام مہدی آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اہلِ مشرق و مغرب کو جمع کر دے گا۔‘‘
(ینابیع المودۃ جلد 3صفحہ 90)
حضرت امام باقر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ’’امام مہدی کے نام پر ایک منادی کرنے والا آسمان سے منادی کرے گا اس کی آواز مشرق میں بسنے والوں کو بھی پہنچے گی اور مغرب میں رہنے والوں کو بھی۔ یہاں تک کہ ہر سونے والا جاگ اٹھے گا۔‘‘
(المہدی الموعود المنتظر عند علماء اہل السنۃ والا مامیہ صفحہ 284)
حضرت امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ’’ہمارے امام قائم جب مبعوث ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے گروہ کے کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کو بڑھا دے گا۔ یہاں تک کہ یوں محسوس ہو گا کہ امام قائم اور ان کے درمیان کا فاصلہ ایک برید یعنی ایک سٹیشن کے برابر رہ گیا ہے۔ چنانچہ جب وہ ان سے بات کریں گے تو وہ انہیں سنیں گے اور ساتھ دیں گے۔ جبکہ وہ امام اپنی جگہ پر ہی ٹھہرا رہے گا۔‘‘
(مہدی موعود ترجمہ بحارالانوار جلد13 صفحہ 1118)
اسی طرح ایک اور جگہ حضرت امام جعفر صادقؒ کا قول درج ہے کہ’’مومن امام مہدی کے زمانہ میں مشرق میں ہوگا اور اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مغرب میں ہے اور جو مغرب میں ہو گا وہ اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جومشرق میں ہے۔‘‘
(نجم الثاقب جلد1 صفحہ 101)
پیشگوئیوں کا مرحلہ وار ظہور
نئی نئی ایجادات اور اختراعات کا مسیح الزماںؑ کے ظہور کے زمانہ میںنکلنا اور میسر وسائل اور ذرائع کا اس زمانے میں تکمیل اشاعت حق کے لیے استعمال ہونا ایک بہت بڑا نشانِ صداقت ہے۔
فونو گراف کی ایجاد حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اس ایجاد کو استعمال کر نے کی خواہش ظاہر فرمائی ؎
آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے
اس نظم میں اس زمانےکی ایجاد فونو گراف سے دیا گیا مہدی معہود کا پیغام معرفتِ حق آج ایم ٹی اے کی شکل میں ہمارے سامنے ایک عظیم الشان صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دل سے خد ا کی تلاش میں سرگرداں سعید روحیں اِس زمانے کے فونو گراف کی جدید اشکال سے حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام سن کر مسیح دوراں پر ایمان لا رہی ہیں۔
7؍جنوری 1938ء کوقادیان میں لاؤڈ سپیکر کا لگنا جماعت احمدیہ کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت کا حامل ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی تمام دقتیں دُور ہوجائیں گی۔ تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاوا کے لوگ اور امریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمن کے لوگ اور آسٹریا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح اور تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں۔ یہ نظارہ کیا ہی شاندار نظارہ ہوگا اور کتنے ہی عالیشان انقلاب کی یہ تمہید ہوگی کہ جس کا تصور کرکے بھی آج ہمارے دل مسرت و انبساط سے لبریز ہوجاتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍جنوری 1938ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 19صفحہ2)
پھر ٹیلی فون، ریڈیو اورکیسٹ کا دَور آیا اور اس ذریعہ سے خلفائے وقت کی آواز دنیاکے مختلف کناروں تک پہنچی۔ خلافتِ ثانیہ کی چند ریکارڈڈ ویڈیوز اب احمدیہ آرکائیوز کا ایک نہایت قیمتی خزانہ ہیں۔ افرادِ جماعت کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈر اٹھائے قریہ قریہ جا کر خلیفۂ وقت کی آواز احباب جماعت کو سنا کر ان کی تڑپتی روحوں کو تسکین بہم پہنچاتےہیں۔ گو اب بھی براعظم افریقہ میں پیغام حق پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ریڈیو ہی ہے۔ کئی ممالک میں مختلف احمدیہ ریڈیوز حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام دنیاکو پہنچانے میں سرگرمِ عمل ہیں۔
پھر ٹی وی کا زمانہ آیا۔ انٹینا، ویڈیو کیسٹ اور ریسیور کے نام عام ہوئے۔ بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین ٹی وی تک کا سفر اس پیشگوئی کے غیرمعمولی دَور کا آغاز تھا۔
خلافت ثالثہ میں بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین تصویر بینی کا آغاز اور پھر خلافتِ رابعہ میں رنگین ٹی وی کا عمومی استعمال اس پیشگوئی کو ایک اور جہت کی جانب لے جا رہا تھا اور وہ نئی جہت مزید شش جہات لیے کھڑی تھی یعنی ایم ٹی اے کا قیام۔ ایم ٹی اے کا ظہور ہوا تو یہ پیشگوئی ایک نئے انداز میں ظاہر ہوئی۔ خلیفۂ وقت ایک جگہ سے ساری دنیاکے احمدیوں سے مخاطب ہوئے جبکہ تشنہ لب روحوں نے اپنے محبوب آقا کا براہِ راست دیدار کر لیا۔ پھر ایم ٹی اے نے علوم و معارف کی نہریں جاری کر دیں۔ دینی و دنیاوی علوم پر مشتمل پروگرامز کا سلسلہ شروع ہوا اور آسمان سے بارش کی طرح یہ پوری دنیاکو سیراب کر گیا۔
حقیقت میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کا جلسہ سالانہ یوکے پر پیغامات کا فوری جواب دینے کا حسین منظر ایم ٹی اے کی بدولت ہوا اور پوری دنیا ایک لمحہ میں اسلام آباد میں قائم جلسہ گاہ میں روحانی طور پر آ موجود ہوئی اور اسلام آباد نے حقیقی اسلامی مرکز کانظارہ پیش کیا۔ حضرت علیؓ کا قول صادق آیا اور مسیح و مہدی کے لیے مشرق و مغرب جمع ہوگئے۔
اسی طرح 1993ء میں ایم ٹی اے کے ذریعہ عالمی بیعت نے ہر سال احمدیوں کو خلیفہ وقت سے تجدید بیعت کے سامان مہیا کیے اور ایم ٹی اے خلیفہ وقت سے براہِ راست روحانی تعلق پیدا کرنے کے سامان کر گیا۔
ڈش انٹینا اس پیشگوئی کے ظہور کی بنیادی اکائی ہے۔ اب بھی ڈش ہی ایک بنیادی ایجاد ہے جو موجودہ زمانے میں اس ٹیکنالوجی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سیٹلائٹ، ڈش، ریسیور، ڈیجیٹل ریسیور، بوسٹر یہ ایسے مراحل تھے جس سے گزر کر ہم آج ترقی یافتہ دور میں داخل ہوئے۔ ا ن میں سے بعض اشیاتو اب بسیار تلاش سے بھی نہیں ملتیں۔
لگاؤ سیڑھی اُتارو دِلوں کے آنگن میں
نِثار جاؤ، نظر وار وار کر دیکھو
جو اُس کے ساتھ، اُسی کی دُعا سے اُترا ہے
یہ مائدہ ہے، ڈِشوں میں اُتار کر دیکھو
ایم ٹی اے کا قیام ہونا تھا کہ خلیفۂ وقت کے دنیا سے رابطے کا ایک نیا باب کھل گیا۔ پھر ارتھ سٹیشن کا قیام، چوبیس گھنٹوں کی نشریات، گلوبل بیم کے ذریعہ نشریات، ڈیجیٹل نشریات ایم ٹی اے کے ذریعہ ایم ٹی اے ترقی کرتا رہا۔ ایم ٹی اے انٹرنیشنل ایک سے دو، دو سے تین اور پھر آٹھ شاخوں میں منقسم ہو کراردو، انگریزی، عربی اور افریقن زبانوں میں بالخصوص ہمہ وقت شش جہات میں نور کی مشکیں لٹا رہا ہے۔
ایم ٹی اے کے ساتھ ساتھ اس پیشگوئی کا ظہور کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کی شکل میں بھی ہوا۔ فلاپی سے CD اور پھر USBیا ہارڈ ڈرائیوز کی شکل میں خلفائے وقت کی صوتی و صوری پیغامات اور ہدایات ہر یک احمدی تک بآسانی پہنچنے لگیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں کہ ’’ایم ٹی اے نے تمام دنیا میں وہ آواز پہنچا دی۔ … پہلے تو مسجد اقصیٰ ربوہ میں خلیفۃ المسیح کا خطبہ سنتے تھے اب ہر شہر، ہر گاؤں، ہر گھر میں یہ آواز پہنچ رہی ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد 2صفحہ350)
کمپیوٹر سے لیپ ٹاپ یا پھر جدید سمارٹ موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ملاپ نے ان مادی ذرائع کی ضرورت کو بھی کم کر دیا اور ہر وقت ہر چیز ہمارے لیے مہیا کر دی۔ مخالفین احمدیت کا اقرار حقیقت کا روپ دھار گیا اور ایم ٹی اے ڈرائنگ روم سے نکل کر بیڈ رومز میں داخل ہو گیا۔
انہی ذرائع کی بدولت ایم ٹی اے نے خلیفہ وقت کے دورہ جات کی براہِ راست کوریج شروع کی۔ خصوصاً حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں یہ پیشگوئی اس وقت بڑی شان سے پوری ہوئی جب 2005ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قادیان میں کھڑے ہو کر پوری دنیا سے خطاب کیا۔ قادیان کی سرزمین سے پہلی دفعہ کسی خلیفہ کی آواز ایم ٹی اے کی برکت سے دنیا کے کناروں تک سنی گئی اور جلسہ کے روح پرور نظارے براہ راست اہل دنیا نے دیکھے اور سنے۔
پھر 2008ء میں صد سالہ خلافت جوبلی کے جلسہ میں تین ممالک سے براہ راست شمولیت ممکن ہوئی۔ اس بابرکت موقع نے جہاں ایم ٹی اے کو ایک نئی جدت بخشی وہیں نئی صدی کے سنگم پر احباب جماعت کے خلیفة المسیح سے ملاقات کی نئی راہیں کھل گئیں۔
پھر انہی ذرائع کی بدولت انگلستان سے حضور انور کا مختلف ممالک کے جلسہ سالانہ کا خطبہ جمعہ سے افتتاح یا پھر یوکے میں مختصر تقریب سے اختتامی خطاب اور اجتماعی دعا میں ساری دنیا شامل ہونے لگی۔
گو یا امام باقرؒ کا قول یہاں صادق آیا کہ امام مہدی کے نام پر منادی کرنے والے کی آواز مشرق میں بھی اور مغرب میں پہنچ کر ہر سونے والے کو اٹھائے گی۔ گویا مشرق و مغرب کو منادی کر کے روحانی طور پر جگایا جائے گا۔
ایک اور طریقے سے اس پیشگوئی کا ظہور یوں ہوا کہ خلیفۂ وقت کسی ملک سے براہِ راست مخاطب ہوئے اور تمام دنیا کے احمدی اس سے مستفیض ہونے لگے۔ ابتدا میں یہ رابطہ یک طرفہ تھا لیکن جلد ہی سال 2007ء میں قادیان کے جلسے سے اختتامی خطاب میں لندن اور یوکے کے مناظر ایک ساتھ دکھائے گئے اور دو طرفہ رابطہ قائم ہوگیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’پہلے تو ذرائع وسائل اتنے نہیں تھے کہ خلیفۂ وقت جو بات کہہ رہا ہوتا تھا یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات جو بیان کئے جا تے تھے یا آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعلیم بتائی جاتی تھی… وہ اسی جگہ پر محدود ہوتے تھے جس مجمع کو یا جس جلسے کو وہ خطاب کیا جا رہا ہوتا تھا۔ … لیکن آج ایم ٹی اے کے بابرکت انعام اور انتظام کی وجہ سے یہ آواز اس وقت لاکھوں احمدیوں کے کانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ بلکہ آج ہمارے دعوے کی آواز اپنوں اور غیروں تک یکساں ایک ہی وقت میں پہنچ جاتی ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد 3صفحہ683)
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےایم ٹی اے کو نصف ملاقات قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’خلیفۂ وقت کو جماعت سے براہ راست اور جماعت کو خلیفۂ وقت سے بغیر کسی واسطے کے ملنے کی تڑپ بھی دونوں طرف سے ہے…اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس کے لئے نصف ملاقات کا ایک راستہ بھی ہمارے لئے کھول دیا ہے جو ایم ٹی اے کے ذریعے سے انتظام فرمایا ہے۔‘‘
(خطباتِ مسرور جلد 8 صفحہ663)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے خلیفہ کے مبارک الفاظ پورے فرمائے اور گذشتہ سال ایم ٹی اے کے ذریعہ باقاعدہ طورپر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
2020ء میں یوں لگا کہ جیسے ان وبائی حالات کے سبب دنیااور خلیفۂ وقت کا بظاہر رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ تب یہ پیشگوئی ایک اور رنگ میں پوری ہوئی۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ ورچوئل یا آن لائن ملاقاتوں، میٹنگز، کلاسز اور پریس کانفرنسز کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ سلسلہ جہاں دنیا کی اس غیر یقینی صورت حال میں احمدیوں کی پیاسی روحوں کو سیرابی دینے کی نوید ثابت ہوا۔ وہیں ایم ٹی اے ایک اور پیشگوئی کا مصداق بنا۔ فضائی مستقر کے ذریعہ حضور انورایدہ اللہ نے ایک سال کے مختصر دورانیہ میں ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ کے احمدیوں سے ملاقاتیں فرمائیں۔
حضرت امام جعفر صادقؒ کے الفاظ بعینہٖ پورے ہوئے کہ ’’یوں محسوس ہو گا کہ امام قائم اور ان کے درمیان کا فاصلہ ایک برید یعنی ایک سٹیشن کے برابر رہ گیا ہے۔ چنانچہ جب وہ ان سے بات کریں گے تو وہ انہیں سنیں گے اور ساتھ دیں گے۔ جبکہ وہ امام اپنی جگہ پر ہی ٹھہرا رہے گا۔‘‘
ہر احمدی اس بات کا شاہد ہے کہ ہم نے اپنے امام کو اپنے درمیان محسوس کیا۔ کیا یورپ اور کیا ایشیا، امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ خود چل کر امام الزماں کےپاس آ رہے تھے اور ہمارے امام اپنی جگہ ہی موجود تھے۔ بات چیت ہوئی۔ امام الزماں کو سنا اور جواب دیا اور ایک برید کا فاصلہ بھی ختم ہوگیا۔
پھر یہ مختصر ملاقاتیں اور کلاسز جماعت احمدیہ کی سب سے بڑی میٹنگ اور کلاس یعنی جلسہ سالانہ پر منتج ہوئیں۔ جہاں آٹھ ہزار سے زائد احباب و خواتین نے حضور انور کو براہ راست دیکھا وہیں رسول کریمﷺ کی حدیث میں مذکور پیشگوئی ایک اور شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ کجا یہ کہ صرف خلیفہ وقت کی آواز دنیا کو پہنچتی تھی یا پھر ایک ملک سے یک طرفہ رابطہ ہوا اورپھر سہ ملکی لیکن آج ہر آنکھ نے دیکھا اور ہر کان نے سنا کہ مسیح و مہدی کی صداقت کو ثابت کرتی ہوئی یہ پیشگوئی پوری دنیا کو خدا کے نمائندہ کے قدموں میں لے آئی اور ایم ٹی اے کی کھڑکی جو ہر ملک میں کھلی تھی اور مشرق، مغرب، شمال اور جنوب ہر جہت سے مختلف ممالک اپنی اپنی کھڑکیاں خلیفة المسیح کی مجلس کے پنڈال میں کھولے بیٹھے تھے۔
قرآن کریم کی آخری زمانے کے بارے میں اس پیشگوئی
وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ
کے ظہور کوہم نے ایک اور طریق پر مشاہدہ کیا۔ دنیا کی سعید روحوں کا اجتماع ایک نئے طرز پر ہوا اور یہ حضرت امام جعفرؒ کی اس پیشگوئی کا لفظاً ظہور تھا جو ہم نے فی زمانہ مشاہدہ کیا۔ حضرت امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ’’مومن امام مہدی کے زمانہ میں مشرق میں ہوگا اور اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جو مغرب میں ہے اور جو مغرب میں ہو گا وہ اپنے اس بھائی کو دیکھ لے گا جومشرق میں ہے۔‘‘
گویا مشرق سے بھارت، انڈونیشیا، آسٹریلیا، کبابیر وغیرہ نے اور مغرب سے کینیڈا و امریکہ کے ممالک نے براہِ راست ایک دوسرے کو دیکھا۔ اور پیشگوئی کے مطابق ہر فردِ جماعت نے ایم ٹی اے کے ذریعہ اپنے مقام سے مشرق میں موجود اور اپنے مقام سے مغرب میں موجود بھائیوں کو دیکھا۔ یہ نظارہ براعظم افریقہ میں بھی تھا۔ یورپ میں بھی، ایشیا میں بھی اور امریکہ میں بھی غرضیکہ ہر کوئی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا عینی شاہد ہے۔
ہم جنہوں نے 20ویں اور 21ویں صدی کے سائنسی ترقی کے ملاپ کو دیکھا۔ اس نسل کو ایکس جنریشن کہا جاتا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ اور انسانی ذہن کی ساتھ ساتھ تدریجاً ترقی دراصل حضرت مسیح موعودؑ کے کام ،تکمیل اشاعت ہدایت،کی خاطر ہوئی۔ جیسے جیسے ذرائع ابلاغ میں ترقی ہوتی گئی دنیا کو پیغام پہنچانا آسان ہوا تو یہ افراد جماعت پر ذمہ داری بھی ڈالتا گیا۔ گو اس وقت ایک کلک (click) پر آپ بیک وقت ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں لیکن یہ کبھی بھی ان بزرگ صحابہ اور مبلغین کی قربانیوں کا بدل نہیں ہوسکتا جنہوں نے اشاعت کے لیے سینکڑوں میل پیدل سفر کیا اور ایک ایک فرد سے مل کر حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچایا۔
گو دنیا کہہ سکتی ہے کہ کئی دنیاوی اور مذہبی کانفرنسز اور میٹنگز بھی ہوتی ہیں۔ لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ کیا ان کو اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس قرآنی پیشگوئی اور اس کے ساتھ دیگر پیشگوئیوں کے بھی مصداق ہیں۔ کیا وہ صرف ایک آواز پر کھڑے ہو جانے اور بیٹھ جانے کا اقرار کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر کیا وہ مسیح دوراں اور مہدی آخرالزماں کی آمد کے قائل ہیں۔ جماعت احمدیہ تو ان وسائل کو اسلام کی اشاعت اور اسلام کا تابع سمجھ کر ابتدا سے ان کے ذریعہ پیغام حق پہنچانے میں مصروف عمل ہے جبکہ مخالف ان وسائل، ذرائع، ایجادات کا استعمال خلافِ شریعت بتا کر ان سے روکتے رہے۔ اور جب ان کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایم ٹی اے کی برکت سے تبلیغ و تکمیل اشاعت ہدایت کا یہ کام غیر معمولی طور پر مؤثر ثابت ہو ر ہاہے۔ کتنی ہی سعید روحیں ایم ٹی اے کی برکت سے احمدیت کے نور سے منور ہورہی ہیں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچا ؤں گا ‘‘آج MTA کی برکت سے پورا ہوا اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اللہ کرےکہ ہم ان ذرائع ابلاغ کا حقیقی اور نیک استعمال کرنے والے ہوں اور جس مقصد کی خاطر خدا تعالیٰ نے انسان کو ان نتائج پر پہنچایا ہے کہ وہ انسانی سہولت کی خاطر ان ایجادات کو عمل میں لائیں۔ اسی طرح بنی نوع اس کو سمجھنے والے ہوں اور مسیح الزماں کے پیغام کو سمجھنے والے ہوں جو حقیقی پیغام اسلام ہے۔
٭…٭…٭
ماشاء اللہ بہت عمدہ اور ایمان افروز مضمون ہے۔ ایم ٹی اے کی بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ جزاکم اللہ خیراً