الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کی مسحورکُن تلاوتِ قرآن کریم
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍مئی 2013ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کی پُراثر تلاوت کے حوالے سے ایک مختصر تاریخی مضمون شامل اشاعت ہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طرف سے کیے جانے والے مقدمہ حفظِ امن کے سلسلے میں حضرت مسیح موعودؑ 13؍فروری 1899ء کو بٹالہ اور پٹھانکوٹ تشریف لے گئے۔ اس سفر میں اتفاق ایسا ہوا کہ جس مقام پر مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کا خیمہ لگا ہوا تھا اس کے نزدیک ہی ایک مکان میں حضرت مسیح موعودؑ قیام فرما ہوئے۔ راجہ غلام حیدر خاں صاحب تحصیلدار نے حضرت مسیح موعودؑ کے قیام کے اہتمام میں خاص حصہ لیا۔ حضور علیہ السلام کی جائے سکونت اور ڈپٹی کمشنر کے خیمہ کے درمیان میں ایک میدان تھا جہاں حضورؑ اور دیگر احباب نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے۔ مغرب کا وقت تھا۔ نماز کے لیے حضرت مسیح موعودؑ میدان میں تشریف لائے اور مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ حسب معمول امام بنے۔ انہوں نے نماز میں جو قرآن پڑھنا شروع کیا تو ان کی بلند مگر خوش الحان اور اثر میں ڈوبی ہوئی آواز مسٹر ڈوئی کے کان میں پڑی۔ وہ اپنے خیمے کے آگے کھڑے ہوکر ایک انہماک کے عالَم میں کھڑے قرآن سنتے رہے۔ جب نماز ختم ہوئی تو راجہ غلام حیدرخان صاحب کو بلا کر پوچھا کہ آپ کی ان لوگوں سے واقفیت ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں۔ کہا کہ مَیں نے ان لوگوں کو نماز میں قرآن پڑھتے سنا ہے۔ اس قسم کا ترنّم اور اثر مَیں نے کسی کلام میں کبھی محسوس نہیں کیا۔ کیا پھر بھی یہ نماز پڑھیں گے اور مجھے نزدیک سے سننے کا موقع دیں گے؟ را جہ صاحب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر کُل ماجرا عرض کیا۔ آپؑ نے فرمایا: ہمارے پاس بیٹھ کر قرآن سنیں۔ چنانچہ اب کی دفعہ نماز کے وقت ایک کرسی قریب بچھا دی گئی اور صاحب بہادر آکر ا س پر بیٹھ گئے۔ نماز شروع ہوئی اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے قرآن پڑھنا شروع کیا اور صاحب بہادر مسحور ہو کر جھومتے رہے۔
اسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اکتوبر 1898ء میں ایک رسالہ انگریزی میں شائع کیا اور گورنمنٹ انگریزی سے مراعات حاصل کرنے کے لیے امام مہدی کی پیشگوئی کا صریحاً انکار کیا اور حضرت مسیح موعودؑ کو حکومت کا باغی قرار دیا۔ انگریزی حکومت نے اس پر انہیں چار مربعوں سے نوازا اور ان کی مخبریوں پر انگریز کپتان پولیس اور انسپکٹر پولیس (رانا جلال الدین صاحب)سپاہیوں کا ایک دستہ لے کر بوقت شام قادیان پہنچ گئے اور حضرت اقدسؑ کے مکان کا محاصرہ کرلیا۔ کپتان اور انسپکٹر پولیس مسجد کی چھت پر چڑھ گئے۔ حضورؑ اطلاع ملنے پر باہر تشریف لائے تو کپتان پولیس نے کہا ہم آپ کی خانہ تلاشی کرنے آئے ہیں، ہم کو خبر ملی ہے کہ آپ امیر عبدلرحمٰن خاں والی افغانستان سے خفیہ خط و کتابت کرتے ہیں۔ حضورؑ نے ارشاد فرمایا کہ یہ بالکل غلط ہے، ہم تو گورنمنٹ انگریزی کے عدل و انصاف اور امن اور مذہبی آزادی کے سچے دل سے معترف ہیں اور ہم دین کو بزور شمشیر پھیلانے کو ایک بہتان عظیم سمجھتے ہیں لیکن اگر آپ کو شک ہے تو آپ بےشک ہماری تلاشی لے لیں۔ البتہ ہم اس وقت نماز پڑھنے لگے ہیں اگر آپ اتنا توقف کریں تو بہت مہربانی ہوگی۔ کپتان پولیس نے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں پھر تلاشی ہو جائے گی۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے پہلے اذان دی اور پھر نماز مغرب پڑھائی۔ پہلی رکعت میں سورت بقرہ کا آخری رکوع پڑھا۔ حضرت مولانا کی جادو بھری آواز سن کر کوئی مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا مگر اس دن تو اذان اور قراءت دونوں میں وہ بجلیاں بھری ہوئی تھیں کہ انگریز کپتان خدا کا پُرشوکت کلام سن کر محوِ حیرت ہو گیا اور اس کی تمام غلط فہمیاں خودبخود دُور ہوگئیں۔ وہ نماز ختم ہوتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت اقدسؑ سے کہنے لگا کہ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ ایک راستباز اور خدا پرست انسان ہیں اور جو کچھ آپ نے کہا ہے وہ بالکل سچ ہے۔ آپ لوگ جھوٹ بول نہیں سکتے۔ یہ دشمنوں کا آپ کے متعلق غلط پراپیگنڈا تھا۔ پس خانہ تلاشی کی کوئی ضرورت نہیں، مَیں رخصت ہوتا ہوں۔ اور یہ عرض کرکے وہ قادیان سے چل دیا اور گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوا دی کہ مرزا صاحب کے خلاف پراپیگنڈا سرتا پا غلط ہے۔
………٭………٭………٭………
محترم سید لال شاہ صاحب اورمحترم منشی محمد الدین صاحب آف چوڑا سگھر
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 3؍مئی 2013ء میں مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب نے اپنے مضمون میں جماعت چوڑاسگھر کے دو ابتدائی مخلصین کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم سیّد لا ل شاہ صاحب آف گجرات ظاہری حسن سے متّصف اور جوانی میں ہی صاحب ِکشف و رؤیا تھے۔ میراںپور ضلع شیخوپورہ کے پرائمری سکول میں ان کی تقرری ہوئی تو یہ علاقہ نہایت پسماندہ تھا۔ لیکن لوگ سادات کی بہت عزت و احترام کرتے۔ یہی و جہ تھی کہ شاہ صاحب گو احمدی تھے لیکن کسی نے مخالفت نہ کی بلکہ ان کے کہنے پر معزز گھرانوں نے اپنی بچیوں کو سکول میں بھی بھیجنا شروع کردیا۔ شاہ صاحب کی تبلیغ سے ایک مسجد کا امام گھرانہ اور چند معزز زمیندار گھرانوں کے نوجوان بھی احمدی ہوئے۔ اتفاق سے منشی محمدالدین صاحب (چندر کے راجپوتاں ضلع سیالکوٹ) بطور نائب مدرس اسی سکول میں تعینات ہوگئے اور جلد ہی شاہ صاحب کی تبلیغ اور حسن سلوک سے وہ بھی احمدی ہوگئے۔ جب میراں پور کے قریبی ایک گاؤں چوڑا سگھر کے نمبردار بیگ صاحب نے کوشش کرکے اپنے گاؤں میں پرائمری سکول منظور کروالیا تو منشی صاحب کا تبادلہ بطور مدرس وہاں ہوگیا۔ منشی محمد نذیر صاحب بطور نائب مدرس وہاں تعینات ہوئے اور وہ بھی تین چار سال بعد احمدی ہوگئے۔ الحمدللہ۔
میراں پور سے چھ سات میل کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں آنبہ کالیہ تھا جہاں پر کافی گھرانے احمدیوں کے تھے۔ مسجد بھی تھی۔ شاہ صاحب نے یہاں اپنا تبادلہ کروالیا اور پھر جلد ہی ان کی شادی قادیان کے ایک سید خاندان میں ہوگئی۔ ان کی اہلیہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان سے میٹرک کرکے جےوی کی سندیافتہ تھیں۔ چنانچہ شاہ صاحب اور گاؤں کے معززین نے کوشش کرکے آنبہ کالیہ میں لڑکیوں کا سکول بھی منظور کروالیا اور محترمہ اس سکول میں بطور مدرس مقرر ہوگئیں۔
جماعت آنبہ کالیہ آٹھ دس میل کے علاقے میں چھ سات دیہات کے گھر وں پر مشتمل تھی۔ صدر جماعت خود سیّد لال شاہ صاحب تھے اور سیکرٹری مال منشی محمد الدین صاحب تھے۔ ہر جمعے کو منشی صاحب اور دیگر احباب آنبہ کالیہ کی مرکزی مسجد میں جمعہ ادا کرتے۔ منشی صاحب جمعے کے بعد تو چندہ وصولی کا کام کرتے ہی تھے مگر ہر عید کی نماز پڑھنے کے بعد بھی وہ چندے کی وصولی کے لیے گھر سے نکل جاتے۔ اگر اُن کی اہلیہ کہتیں کہ عید کا دن تو گھر پر گزار لیا کریں تو وہ جواب دیتے کہ فلاں گاؤں کا فلاں آدمی عید پر ہی گھر میں مل سکتا ہے ورنہ اگلی عید تک انتظار کرنا پڑے گا۔
مکرم سید لال شاہ صاحب نے جلسہ سالانہ آنبہ کی بنیاد بھی رکھی جس میں مرکز سے علماء بلوائے جاتے۔ اسی دوران غیراحمدیوں نے بغرض مناظرہ اپنے مولویوں کو بھی بلوانا شروع کردیا تو ہر سال مناظرہ بھی منعقد ہونے لگا۔ اس سلسلے کے آخری مناظرے کی تفصیل یوں ہے کہ شاہ صاحب کی درخواست پر حضرت مصلح موعودؓ نے جلسے اور مناظرے کے لیے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کو بھجوایا۔ مناظرے سے ایک روز قبل حضرت مولوی صاحبؓ نے آنبہ کالیہ پہنچ کر مخالف مناظر کو ایک خط عربی میں لکھا لیکن اس پر زیر، زبر اور نقطے نہ ڈالے۔ پھر یہ خط ایک سرکردہ آدمی کے ذریعے اس پیغام کے ساتھ بھجوادیا کہ اس خط پر زیر، زبر اور نقطے ڈال کر مجھے بھجوادو۔ جب یہ خط مناظر مولوی صاحب کو ملا تو اگلے دن علی الصبح وہ ریل گاڑی پر سوار ہوگیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ اس کے ساتھ ہی مناظروں کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔
مکرم شاہ صاحب او ر منشی محمد الدین صاحب گرمیوں کی تعطیلات میں مکیریاں ضلع ہوشیار پور میں وقف عارضی پر جایا کرتے۔ وہاں قیام ایک احمدی گھرانے میں ہوتا۔ ایک بار گندم کی کٹائی پر گاؤں والوں نے اُس احمدی کی گندم کی کٹائی کا بائیکاٹ کردیا۔ گندم گرنے کو تھی کہ ان دونوں صاحبان کو اطلاع ہوئی تو یہ چند مزید احمدیوں کے ہمراہ وہاں پہنچے اور اپنے بھائی کی فصل کاٹ کر اُس کے گھر تک پہنچادی۔ یہ نظارہ دیکھ کر گاؤں والے سخت شرمندہ ہوئے اور آئندہ اس حرکت سے باز آگئے۔ احمدیوں کا باہمی حسن سلوک دیکھ کر چند نوجوانوں نے وہاں بیعت بھی کرلی۔
الغرض ان دونوں بزرگوں نے بڑی باعزت اور فعال زندگی گزاری۔ ملازمت سے ریٹائرہوکر مکرم شاہ صاحب نے واربرٹن ضلع شیخو پورہ میں آڑھت کا کاروبار شروع کردیا اور منشی محمد الدین صاحب نے حکمت اور اجناس کی خریدو فروخت کا۔ یہ دونوں تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے۔ اس وقت شاہ صاحب کے دونوں بیٹے بھی فوت ہوچکے ہیں، ایک پوتا ڈاکٹر ہے جو اپنے بزرگوں کا نام تحریک جدید میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ منشی صاحب کا ایک بیٹا زندہ ہے جو بہت مخلص ہے نیز ایک پوتا مربی سلسلہ ہے۔
………٭………٭………٭………
فِن لینڈ
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 12؍جنوری 2013ء میں فِن لینڈ کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون مکرم مدثر احمدصاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
فِن لینڈ کا پرانا نام Suomi ہے۔ بارھویں سے اٹھارھویں صدی تک سویڈن اور 1809ء سے روس کے قبضے میں رہنے کے بعد 1917ء میں یہ آزاد ہوا۔ روس اور سویڈن کے علاوہ اس کی سرحد ناروے سے بھی ملتی ہے جبکہ ایک جانب Baltic Sea واقع ہے۔ آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک دس ہزار سال قبل بھی آباد تھا۔ 2012ء میں اس کی کُل آبادی 52 لاکھ 63 ہزار تھی جن میں 82فیصد عیسائی ہیں۔ سرکاری زبان Finnishہے۔ رقبہ تین لاکھ 38 ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہےجس میں برف پگھلنے کی وجہ سے 7 مربع کلومیٹر سالانہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ فِن لینڈ کو جھیلوں کی سرزمین کہلاتا ہے، یہاں قریباً 55 ہزار جھیلیں واقع ہیں۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے یہ یورپ کا امیر ترین ملک ہے۔ لکڑی اور کاغذ کی صنعت کے علاوہ ٹیلی کمیونیکیشن (خصوصاً نوکیا موبائل) اس کی وجۂ شہرت ہیں۔ وسیع جنگلات بھی معیشت کو مضبوط کرتے ہیں۔
یہاں کا تعلیمی نظام بہترین ہے۔ سولہ سال کی عمر تک تعلیم لازمی ہے جبکہ یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہے۔ سیکنڈری کلاسز تک کتب، کاپیاں، دوپہر کا کھانا اور دودھ بھی مفت ہے۔ ملک بھر میں کئی یونیورسٹیاں ہیں۔ دارالحکومت Helsinki میں پہلی یونیورسٹی 1640ء میں قائم ہوئی۔
معاشرہ پُرامن اور جرائم سے پاک ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے عورتوں کو ووٹ دینے کا حق اور پارلیمنٹ میں شامل کرنے کا اعزاز بھی فِن لینڈ کو حاصل ہے۔
ایک شہر Rovaniemi میں زمین کا Arctic Circle واقع ہے اور قریبی گاؤں میں کرسمس کے حوالے سے مشہور سانٹاکلاز کی رہائش گاہ موجود ہے۔ بعض شمالی علاقوں میں گرمیوں میں دو ماہ دن رہتا ہے جبکہ سردیوں میں دو ماہ کی رات ہوتی ہے۔ سردیوں میں یہاں کے آسمان پر پھیلنے والے دلکش نظاروں کو دیکھنے کے لیے دنیابھر سے لوگ آتے ہیں۔ یہاں ہرن اور بارہ سنگھے بہت ہیں۔ برفباری کے دوران بارہ سنگھا پہاڑوں پر طویل سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
احمدیت کا آغاز یہاں 1990ء کی دہائی میں ہوا۔
………٭………٭………٭………