خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ اگست 2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…وہ مسلمان جو بلاوجہ جنگ کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں اور وہ لوگ جواسلام پر اعتراض کرتے ہیں
دونوں کےلیے جواب آگیا کہ مسلمانوں نے کبھی زمینیں حاصل کرنےکےلیے یا ملک فتح کرنے کےلیے جنگیں نہیں کیں
٭…ایرانی فتوحات میں قادسیہ، جلولاء اور نہاوند اِن تین معرکوں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے
٭… تین مرحومین 1۔ مکرم محمد دیانتو نوصاحب مبلغِ سلسلہ انڈونیشیا ،2۔ مکرم صاحبزادہ فرحان لطیف صاحب آف شکاگو امریکہ اور
3۔ مکرم ملک مبشر احمد صاحب لاہور سابق امیر جماعت داؤدخیل میانوالی کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ اگست 2021ء بمطابق 20؍ ظہور 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 20؍ اگست 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت عمرؓ کے دَورِخلافت میں جو جنگیں لڑی گئیں اُن کا ذکر چل رہا تھا۔ ان میں ایک جنگ، جنگِ جندی سابور ہے،سابور خوزستان کا ایک شہر تھا۔جب حضرت ابوسبرة بن رھم ساسانی بستیوں کی فتح سے فارغ ہوئے تو آپ لشکر کے ساتھ آگے بڑھے۔ صبح شام دشمن کے ساتھ معرکے ہورہے تھے لیکن دشمن اپنی جگہ ڈٹا ہوا تھا۔ ایک روز کسی عام مسلمان کی طرف سے امان دیے جانے کی بات ہوئی جسے دشمن نے فوراً قبول کرلیا اور شہرکے دروازے کھول دیے۔ جب مسلمانوں نے دشمن سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دی ہے اور ہم نے اسے قبول کیا ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم نے تو ایسا نہیں کیا،تاہم بعدمیں تحقیق سے علْم ہوا کہ ایک غلام کی جانب سے یہ بات کی گئی ہے۔حضرت مصلح موعودؓ اس واقعے کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓکومعلوم ہوا تو آپؓ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو مَیں اس کو جھوٹا کردوں۔ اب وہ حبشی جو معاہدہ کرچکا ہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا۔ہاں! آئندہ کےلیے اعلان کردو کہ سوائے کمانڈر اِن چیف کے اَور کوئی کسی قوم سے معاہدہ نہیں کرسکتا۔
فتحِ ایران کی وجوہات کےذکر میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عمرؓکی یہ قلبی خواہش تھی کہ عراق اور اہواز کے معرکوں پر ہی اس خون ریز جنگ کا خاتمہ ہوجائے مگر ایرانی حکومت کی مسلسل جنگی کارروائیوں نے آپؓ کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ سترہ ہجری میں محاذِ جنگ سے سردارانِ لشکر کا ایک وفد حضرت عمرؓکی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے مفتوحہ علاقوں میں باربار بغاوت کی وجہ دریافت کی اور اس شبہ کا اظہار فرمایا کہ مسلمان مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کے لیے ضرور تکلیف کا باعث بنتے ہوں گے۔ تمام سرداروں نے اس امر کی تردید کی اور احنف بن قیس نے کہا کہ امیرالمومنین!آپ نےتو ہمیں مزید پیش قدمی سے روک دیا ہے مگر ایران کا بادشاہ جب تک زندہ موجود ہے وہ ہم سے مقابلہ جاری رکھیں گے۔آپؓ کے حکم کے مطابق ہم نے کسی علاقے کو خود نہیں لیا بلکہ دشمن کے حملہ آور ہونےکے باعث فتح کیا ہے۔ دشمن کا یہ رویّہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آپؓ ہمیں اس امر کی اجازت نہ دیں کہ ہم فوج کشی کرکے فارس کے بادشاہ کو نکال دیں۔ حضرت عمرؓ نے اس رائے کو صائب قرار دیا مگر پھربھی اس کا عملی فیصلہ آپؓ نے 21؍ ہجری میں نہاوند کے معرکے کے بعد کیا۔حضورِانورنے فرمایا کہ یہاں وہ مسلمان جو بلاوجہ جنگ کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں اور وہ لوگ جواسلام پر اعتراض کرتے ہیں دونوں کےلیے جواب آگیا کہ مسلمانوں نے کبھی زمینیں حاصل کرنےکےلیے یا ملک فتح کرنے کےلیے جنگیں نہیں کیں۔
ایرانی فتوحات میں قادسیہ، جلولاء اور نہاوند اِن تین معرکوں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ نہاوند کی جنگ ایرانیوں کی طرف سے حملےکی آخری کوشش تھی۔ نہاوند صوبہ ہمدان کے دارالحکومت ہمدان سے تقریباً ستّر کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ شاہِ ایران یزدجرد نے بڑی سرگرمی سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیےاپنے خطوط کے ذریعے خراسان سے سندھ تک ایک حرکت پیدا کردی۔ ہر طرف سے ایرانی فوج امڈ کر نہاوند میں جمع ہونے لگی۔ حضرت سعدؓ نے اس لشکر کی اطلاع حضرت عمرؓ کو دی آپؓ نے حضرت سعدؓ کو سبک دوش کرکے یہ اہم عہدہ حضرت عمار بن یاسرؓ کو دیا۔مدینے میں حضرت عمرؓ نے مشاورت کے لیے جلیل القدر صحابہ کو جمع کیا۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرؓ کو حجاز کی افواج کے ساتھ خود روانہ ہونےنیز شام، یمن اور کوفہ سے فوجیں نہاوندمنگوانےکا مشورہ دیا ۔ دیگر صحابہ نے تو اس مشورے کو پسند فرمایا تاہم حضرت علیؓ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر آپؓ خود روانہ ہوئے تو مسلمان آپؓ کی معیت کے لیے امڈ پڑیں گے اور یوں ایک بڑا خطرہ یہاں پیدا ہوجائے گا۔پس آپؓ مسلم صوبہ جات کو یہ پیغام بھیجیے کہ وہ فوج کا ایک ایک حصّہ ایران روانہ کریں اور بقیہ فوج اپنے اپنے علاقے کی حفاظت کےلیے وہیں موجود رہے۔ حضرت عمرؓ نے اس مشورے کو پسند کرتے ہوئےحضرت نعمان بن مقرنؓ کولشکر کا کمانڈر مقرر فرمایا۔ آپؓ نے حضرت نعمانؓ کوکوفہ خط لکھ کر فرمایا کہ نہاوند میں ایرانیوں کا ایک زبردست لشکر جمع ہوا ہے۔تم اپنے ساتھی مسلمانوں کو لےکر اس لشکر کے مقابلے کے لیے روانہ ہوجاؤ۔
اس حکم کی تعمیل میں حضرت نعمانؓ دشمن کے مقابلے کےلیے روانہ ہوئے، آپ کی معیت میں بعض ممتاز،بہادرمسلمان بھی اس معرکے میں شامل ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے ہدایت فرمائی کہ اگر نعمان شہید ہوجائیں تو حذیفہ بن یمان اور ان کے بعد جریر بن عبداللہ بَجلی،،پھر مغیرہ بن شعبہ، پھر اشعث بن قیس امیر ہوں۔ حضرت نعمان نے جاسوسوں کے ذریعے یہ معلوم کرلیا کہ نہاوند تک راستہ صاف ہے۔ مؤرخین نے ایرانی لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار اور ایک لاکھ لکھی ہے تاہم بخاری میں تعدادچالیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ دشمن کے مطالبے پرگفتگو کے لیے حضرت مغیرہ بن شعبہ تشریف لے گئے۔ ایرانیوں نے بڑی شان و شوکت سے مجلس منعقد کی اور ایرانی سپہ سالار نے پرانی روِش کے مطابق اہلِ عرب کی زندگی کے ہر پہلو کا تحقیر آمیز نقشہ کھینچا۔ حضرت مغیرہ نے جواباً فرمایا کہ اب وہ زمانہ گیا ،رسول اللہﷺ کی بعثت نے عرب کا نقشہ بدل دیا ہے۔ بہرحال یہ سفارت ناکام ہوئی۔
جنگ کی ابتدا میں جھڑپیں شروع ہوئیں تو میدانِ جنگ کی صورتِ حال مسلمانوں کے لیے نہایت ضرررساں تھی۔دشمن خندقوں، قلعوں اور مکانوں کی وجہ سے محفوظ تھا۔مسلمان کھلے میدان میں تھے۔ دشمن جب مناسب دیکھتا باہر نکل کر اچانک حملہ کردیتا۔ان تشویش ناک حالات میں اسلامی لشکر کے امیر نعمان بن مقرنؓ نے مشورے کےلیے مجلس منعقد کی۔ مختلف مشوروں کےبعد طلیحہ کی طرف سے یہ رائے سامنے آئی کہ دشمن کی طرف ایک چھوٹاسا رسالہ روانہ کیا جائے جو تیراندازی کے ذریعے جنگ کو بھڑکائے۔ جب دشمن مقابلے کے لیے نکلے تو رسالہ یوں ظاہر کرے گویا وہ پسپا ہورہا ہے۔ امید ہے کہ فتح کی طمع میں دشمن مزید پیش قدمی کرے گا اور جب وہ باہر کھلے میدان میں آئے گا تو ہم اچھی طرح اس سے نمٹ لیں گے۔ حضرت نعمان ؓنے اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کےلیے حضرت قعقاع ؓ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے طلیحہ کی تجویز پر عمل کیا تو بعینہ ویسا ہی ظہور میں آیا جو طلیحہ کا خیال تھا۔ حضرت نعمانؓ عاشقِ رسول تھے اور حضورﷺ کا یہ طریق تھا کہ اگر صبح جنگ شروع نہ ہوتی تو پھر زوال کےبعد لڑائی کا اقدام فرماتے۔ جب دشمن کی فوج آگے بڑھتی ہوئی اسلامی لشکر کے قریب پہنچ گئی تو کئی مسلمان سپاہی مقابلے کے لیے بےقرار ہوکر حضرت نعمانؓ کے پاس اجازت طلب کرنے پہنچے۔ حضرت نعمانؓ نے اجازت نہ دی، کئی اہم سرداروں نے بھی آپ کو مقابلے کی اجازت دینے کا مشورہ دیا لیکن آپ صبر کی تلقین کرتے رہے۔ دوپہر ڈھلنےکےبعد حضرت نعمان نے سارے لشکر کا چکر لگایا پھر نہایت دردناک الفاظ میں تقریر کی اور اپنی شہادت کےلیے دعا کی جسے سن کر لوگ رونے لگے۔ حکمتِ عملی کے مطابق موقع آنے پر مسلمان دشمن کی صفوں پرٹوٹ پڑے۔حضرت نعما ن نہایت بےجگری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے لیکن حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور نعیم بن مقرن نے جنگ کا نتیجہ نکلنے تک آپ کی شہادت کو مخفی رکھا۔ایک اَور روایت میں معقل سے مروی ہے کہ فتح کےبعد مَیں حضرت نعمان کے پاس آیا اُن میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ مَیں نے ان کے دریافت کرنے پر بتایا کہ اللہ کی طرف سے فتح عطا ہوگئی ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ حضرت عمرؓ کو اطلاع کردو۔
حضرت عمرؓ نہایت بےقراری سے جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے، قاصد نے فتح کی خبر سنائی تو آپؓ نے نعمان کی خیریت پوچھی اور وفات کا سن کر آپؓ کو دلی صدمہ ہوا۔ نہاوند کی فتح اپنے نتائج کے لحاظ سے نہایت اہم فتح تھی۔
نہاوند کے بعد 21؍ہجری میں اصفہان فتح ہوا۔ مسلمانوں کی طرف سے اس مہم کی کمان عبداللہ بن عبداللہ یا عبداللہ بن بدیل ورقاء خزاعی کے سپرد تھی۔ نہاوندکےبعد مسلمانوں نے ہمذان فتح کیا لیکن ہمذان والوں نے معاہدہ توڑتےہوئے بغاوت کردی۔ حضرت عمرؓ نے نعیم بن مقرن کو12 ہزار کے لشکر کے ساتھ بغاوت کو کچلنے کی ہدایت فرمائی۔ایک سخت معرکےکےبعد مسلمانوں نے شہر فتح کرلیا۔
خطبے کے آخری حصّے میں حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
1۔ مکرم محمد دیانتونو صاحب مبلغِ سلسلہ انڈونیشیا جو 15 جولائی کو46سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
2۔ مکرم صاحبزادہ فرحان لطیف صاحب آف شکاگو امریکہ۔ آپ 45برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔
اناللہ واناالیہ راجعون۔
مرحوم کو شکاگو جماعت میں بطور آڈیٹر بڑی خوش اسلوبی سےفرائض ادا کرنے کی توفیق ملی۔
3۔ مکرم ملک مبشر احمد صاحب لاہور سابق امیر جماعت داؤدخیل میانوالی۔آپ21؍نومبر2020ء کو وفات پاگئے تھے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون۔
٭…٭…٭