اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
آج پاکستان مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے دنیا کا ساتواں بدترین ملک ہے۔
پشاور اور دیگر شہر(اگست 2020ء):مورخہ12؍ اگست 2020ء کو پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی معراج احمد کو نامعلوم افراد نے بدھ کے روز رات 9 بجے کے قریب ان کی دکان کے نزدیک گولیاں مار کر شہید کردیا۔ مرحوم اچھی شہرت رکھنے والے معروف احمدی تھے۔ اس اندوہناک واقعہ سے قبل معراج احمد کو فیس بک پر نفرت انگیز پراپیگنڈے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی اطلاع متعلقہ اداروں کو کردی گئی تھی۔
مقتول معراج احمد کی عمر 61 برس تھی اور آپ نے پسماندگان میں ایک بیوہ ، تین بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑی ہے جو میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔
منظرِ عام پر آنے والی چند تصاویر سے واضح ہے کہ معراج احمد کا قتل سوشل میڈیا، بالخصوص واٹس ایپ کے چند گروپس، پر احمدی مخالف منظم نفرت انگیز مہم کا شاخسانہ ہے۔ ان گروپس کے ممبران نے علانیہ اس بات کا اعادہ کیا کہ عید کے بعد ڈبگری گارڈن سے قادیانیت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ اورعید کے ٹھیک 11 دن بعد، معراج احمد صاحب کو شہید کردیا گیا۔
یاد رہے کہ اس قتل سے چند روز قبل پشاور کے کمرۂ عدالت میں ایک نوجوان نے توہینِ مذہب کے ملزم مبینہ احمدی کو جج کے سامنے قتل کردیا تھا۔ ملاؤں اور انتہا پسند عناصر نے اس قتل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا جبکہ کسی اعلیٰ سطحی ریاستی قوت نے اس بہیمانہ قتل کی مذمت نہیں کی تھی۔
11؍اگست 2020ء کو گجرات کے ضلع لالہ موسیٰ میں رات ساڑھے نو بجے نامعلوم افراد نے ایک احمدی شیخ ناصر احمد صاحب کو گولیاں مار کر شدید زخمی کردیا۔ شیخ ناصر احمد اس وقت بازار سے واپس گھر آرہے تھے۔ اُن کو چار گولیاں ماری گئیں اور خوش قسمتی سے بروقت ہسپتال میں طبی امداد ملنے پر شیخ ناصر احمد کی جان بچ گئی۔ اس حملے کے نتیجے میں جو زخم انہیں لگے ہیں اس کی وجہ سے ان کے جسم کے حرکات و سکنات کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔
12؍اگست 2020ء کوپنجاب کے ضلع سرگودھا کے شہر ساہیوال میں ایک احمدی سید نعیم احمد بشیر صاحب کے گھر پر حملہ کیا گیا۔ حملہ آوروں نے گھر کے صحن میں متعدد گولیاں برسائیں۔ کیونکہ پنجاب کے شہروں میں اس موسم کے دوران اکثر لوگ اپنے مکانوں کے صحن میں سوتے ہیں۔ جس وقت حملہ ہوا، اس وقت سید نعیم احمد بشیر صاحب اور آپ کے اہل خانہ صحن میں نہیں سورہے تھے۔ بصورت دیگر، اکثر افراد اپنی جان سے جا سکتے تھے۔
ناظر امورِ عامہ اور ترجمان جماعت احمدیہ پاکستان نے احمدی مخالف کارروائیوں پر بیان دیتے ہوئے ٹوئیٹر پرلکھا کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی سکیم ہے۔ ان متشددانہ کارروائیوں کے بعد ہمیں خدشہ ہے کہ احمدیوں کے خلاف نفرت اور خونریزی میں مزید اضافہ ہوگا۔ بحیثیت جماعت ہم (احمدی) اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں کیونکہ حکومت، اس کے وزرا راور پوری ریاستی مشینری ہماری زندگیوں سے کھیل رہی ہے اور انہیں اس کھیل کے خوفناک نتائج کی پروا ہے نہ ادراک۔احمدیوں کے خلاف ان نفرت انگیز حملوں میں شدّت احمدی مخالف پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے۔ اور بلاشبہ ان کا خیال بالکل درست ہے۔
ایک وفاقی وزیر نے کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ قادیانیت اسلام کے خلاف ایک فتنہ ہے …ہم ختم نبوت اور شانِ رسالت کے سپاہی ہیں۔ مزید برآں، ایک خبر کے مطابق موصوف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ گستاخانِ رسول کی سزا ، سر تن سے جدا ہے۔
اسی طرح ایک اور وفاقی وزیر نے گذشتہ برس نومبر 2019ء میں ایک ٹی وی شو کے دوران کہا تھا کہ میں (احمدیوں) پر لعنت بھیجتا ہوں اور عمران خان بھی اُن (یعنی احمدیوں) پر لعنت بھیجتا ہے۔
پنجاب علماء بورڈ کے صدر نے بین المذاہب میٹنگ کے دوران سرِ عام اپنے بیان میں کہا تھا کہ میں اس ملک (پاکستان) میں احمدیوں کا وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں…قادیانیوں کے خلاف بولنا دراصل مذہبی ہم آہنگی کے عین مطابق ہے۔
13؍اگست 2020ء کو یو کے کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی کمیٹی نے اپنی پریس ریلیز میں احمدیوں کے قتل اور ان پر قاتلانہ حملو ں کو بجا طور پر بے رحم اور سنگدلانہ قرار دیا۔ اس پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ جس قاتل نے کمرۂ عدالت میں ایک ملزم کو قتل کردیا تھا اُسے پاکستان میں اسلامی ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور اس نے سرِ عام اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اُس نے ایک قادیانی (احمدی) کو قتل کیا ہے۔ ریاست اس معاملے میں شریک ہے، جس کا نتیجہ احمدیوں کےعقائد کی بنیاد پر اُن کے قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔
پشاور میں قتل ہونے والے توہینِ مذہب کے ملزم طاہرنسیم کے واقعے پر تقریر کرتے ہوئے ن لیگ کے ممبر قومی اسمبلی سید عمران احمد شاہ نے جو کچھ کہا، اس کا ذکر کرنا ناگزیر ہے۔یاد رہے کہ سید عمران احمد شاہ ایک سینئر رکن قومی اسمبلی ہیں اور انہوں نے قومی اسمبلی کے سیشن میں قاتل کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مندرجہ ذیل بیانات دیے۔
٭…اسلام کی خدمت کے صلے میں غازی فیصل (جو کہ قاتل ہے )کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فی الفور رہا کیا جائے۔
٭…اگر ایسا نہیں کیا جاتا، تو شریعت کا قانون ِدیت لاگو ہونا چاہیے اور دیت کی رقم ریاست اپنی طرف سے ادا کرے۔
٭…اگر یہ دونوں مطالبے نہیں مانے جاسکتے تو میں اور میری طرح کے کروڑوں لوگ دیت کی رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ میں اس کی دیت ادا کرنے کو تیار ہوں چاہے مجھے اس کے لیے اپنی ساری جائیداد بیچنی پڑے۔
اپنی تقریر میں سید عمران احمد شاہ نے تحریک انصاف کے رکن اور وزیر مملکت علی محمد خان اور نون لیگ کے ممبر جنید انور کا خاص طور سے نام لیا جوان کے ساتھ مل کر دیت کی رقم ادا کریں گے۔
اس تقریر کے بعد اسد قیصر نے ، جو کہ قومی اسمبلی کے سپیکر ہیں، سید عمران شاہ کو عاشقِ رسول کہا اور یہ تجویز دی کہ وہ اس معاملے کو قانونی طور پر حل کرنے کے لیے کوئی بل لائیں۔ اسد قیصر نے یہ بھی کہا کہ اس بارے میں اگر قانون میں کوئی سقم موجود ہے تو اسے دور کیا جائے گا ۔اس پر قومی اسمبلی کا سیشن ختم ہوا۔
چنانچہ اسی نفرت انگیزی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے دنیا کا ساتواں بدترین ملک ہے۔
جعلی مقدمے میں ایک احمدی کو گرفتار کرلیا گیا
چونڈہ، ضلع سیالکوٹ (15؍اگست 2020ء):ایک احمدی وحید احمد بٹ صاحب کے خلاف احمدیہ مخالف شق 298-Cاور توہین مذہب کی شق 295-A، کے تحت مقدمہ در ج کرکے گرفتار کرلیا گیا۔ وحید احمد بٹ صاحب پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے احمدیت کی تبلیغ کی اور شعائرِ اسلام کا مذاق اُڑایا۔
اطلاعات کے مطابق مورخہ 15؍اگست 2020ء کو 62 سالہ وحید احمد بٹ صاحب اپنی کباڑکی دکان پر ایک غیراحمدی دوست کے ساتھ بین الاقوامی سیاسی معاملات پر بات کررہے تھے ۔ باتوں ہی باتوں میں معاملہ مکہ اور یروشلم کے مستقبل پر آن پہنچا۔ اس پر ان کا دوست غصّے میں آگیا اور زور زور سے چلاّنے لگا ۔ دکان کے گرد لوگوں کا مجمع اکٹھا ہوگیا اور پولیس کو اس واقعہ کی اطلا ع دی گئی ۔
پولیس نے وحید احمد بٹ صاحب کے خلاف مجرمانہ مقدمہ درج کرلیا اور ان کے گھر پر چھاپہ مار کر تلاشی بھی لی گئی۔ چونکہ وحید صاحب گھر پر نہیں تھے، پولیس نے ان کے بیٹے وجاہت احمد کو گرفتار کرلیا۔ یاد رہے کہ وجاہت احمد سکول کا طالب علم ہے۔ بعد میں پولیس نے وجاہت احمد کو رہا کردیا اور وحید احمد بٹ صاحب کو گرفتار کرلیا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭