’’سچائی کا اظہار‘‘
اس میں عبداللہ آتھم صاحب رئیس امرتسر مسیحی کا بشرط مغلو بیعت اسلام لانےکا اقرار ہےاور نیز بعض فاضل اور مستند علماء عرب اورشام کی نسبت تصدیق ہے
مئی 1893ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے رسالہ ’’سچائی کا اظہار‘‘ شائع کیا۔ اس رسالے میں حضورؑ نے پادری ڈپٹی عبد اللہ آتھم رئیس امرتسر کا بشرط مغلوبیت اسلام لانے کا اقرارنامہ درج فرمایا اور ڈاکٹر مارٹن کلارک کے اشتہار مرقومہ 12؍مئی 1893ء کا جو بطور ضمیمہ ’’نور افشاں‘‘ لدھیانہ شائع ہوا تھا، ذکر فرمایا۔ا س اشتہار میں ڈاکٹر کلارک نے حضورؑ کے ساتھ مباحثہ سے بچنے کے لیے مسلمانان جنڈیالہ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ نے جسے اپنا پیشوا مقرر کیا ہے اس کو علمائے اسلام کافر اور خارج از اسلام قرار دیتے ہیں۔ مگر مسلمانان جنڈیالہ کی طرف سے میاں محمد بخش صاحب نے انہیں لکھا کہ ہم ایسے مولویوں کو خود مفسد سمجھتے ہیں جو ایک مسلمان مؤید اسلام کو کافر ٹھہراتے ہیں۔بعد ازاں حضور علیہ السلام نے ایسے علماء جن کو خدا تعالیٰ نے علم بخشا ہے اور نور فراست عطا کیا ہے اور وہ حضورؑ کے ساتھ ہیں ان کی تعداد چالیس بتائی۔ پھر اس امر کے ثبوت کے طور پر حرمین سے تین فاضل بزرگوں کے خطوط بھی شائع فرمائے جنہوں نے آپ کے دعویٰ کی تصدیق کی تھی۔اور آخر پر وہ اشتہار بھی شائع کیا جس میں عبد الحق غزنوی نے خود مباہلےکی دعوت دی تھی اور دوسرے علماء کو بھی اس کے ساتھ مباہلہ میں شریک ہونے کی دعوت دی۔
مضامین کا خلاصہ
ڈاکٹر مارٹن کلارک کی طر ف سے ایک اشتہار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پرچھپا جس میں مولوی محمد حسین بٹالوی کا ایک پیرایہ میں شکریہ بیان کیا گیاہے اور وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک اسلام اور عیسائی مذہب کی تنقید اور تحقیق اور حق و باطل کے پرکھنے کے لیے مباحثہ تو منظور کر بیٹھے مگر بعد میں خوفناک حالت طاری ہوئی اور راہ فرار اختیار کرنا چاہا۔
موصوف نے اپنے اشتہار میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے حوالے سے کتاب اشاعۃ السنۃ کا ذکر کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف علمائے اسلام پنجاب و ہندوستان کے کفر کے اور طعن و تشنیع کے فتاویٰ کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ اہل جنڈیالہ نے کس ہمت کا مظاہرہ کیا ہے جو حضور (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا مقرر کیا ہے۔ اس کے مقابل پر جنڈیالہ کے قوی الایمان لوگوں نے ذرہ جنبش نہ کھائی اور میاں محمد بخش صاحب نے نہایت دندان شکن جواب حضرات پادری صاحبوں کو دیا اور لکھا کہ کوئی مذہب اختلاف سے خالی نہیں ہے اور یہ کہ وہ خود ایسے فتوے دینے والے مولویوں کو مفسد سمجھتے ہیں جو ایک مسلمان مؤید اسلام کو کافر ٹھہراتے ہیں۔
اطلاع عام
بعد ازاں ایک اطلاع عام کے ذریعہ یہ اطلاع دی گئی ہے کہ شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب اشاعۃ السنۃ نے دو مرتبہ یہ پختہ عہد کیا تھا کہ وہ اس خط کا جواب جو عربی تفسیر اور قصیدہ بالمقابل کے بارے میں حضور کی طرف اتمام حجت کے لیے لکھا گیا تھا، فلاں تاریخ تک ضرور بھجوا دیں گے۔ ان دونوں تاریخوں پر اب سولہ دن گزر چکے ہیں۔ پھر بعد ازاں مولوی صاحب کی طرف سے ایک مجمل پیغام پہنچا کہ اگر وفات حیات مسیح کے بارے میں ڈاکٹر مارٹن کلارک سے مباحثہ ہوتا تو وہ ضرور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شامل ہوجاتےلہٰذا مولوی صاحب اور ان کے رفیقوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ بخار بھی نکال لو۔
ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کے ایک وہم کا ازالہ
فرمایا ’’ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب نے اپنے اشتہار 12مئی 1893ء میں جو بطور ضمیمہ نور افشاں لدھیانہ کے شائع ہوا، اس میں یہ دھوکہ کھایا ہے یا لوگوں کو دھوکہ دینا چاہا ہے کہ گویا مستند علماء اسلام اس عاجز کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اس لئے عام و خاص کی اطلاع کے لئے لکھا جاتا ہے کہ تمام مستند علماء اسلام جن کو اللہ تعالیٰ نے علم بخشا ہے اور نور فراست ایمانیہ عطا کیا ہے وہ میرے ساتھ ہیں اور اس وقت چالیس کے قریب ہیں۔پھر اسلام کے مستند علماء کا تخت گاہ حرمین شریفین ہے اور یہی بلاد خاص کر مکہ و مدینہ دین کا گھر سمجھے جاتے ہیں سو ان متبرک مقامات کے جگر گوشے اور فاضل مستند بھی اس عاجز کے ساتھ ہیں۔ بطور نمونہ تین بزرگوں کی تحریرات ذیل میں لکھتا ہوں۔
ایک فاضل عرب کی اس عاجز کی کتاب آئینہ کمالات اسلام اور تبلیغ کے اعلیٰ درجہ کی بلاغت پر گواہی یوں ہے اخی مکرم مولوی حافظ محمد یعقوب صاحب سلمہ اللہ دیرہ دون سے لکھتے ہیں کہ ’’میں ایمان لاتا ہوں اس بات پر کہ آپ امام زمانہ ہیں، مؤید من اللہ ہیں، علماء کو اللہ تعالیٰ نے بزور آپ کا شکار بنایا ہے…مجھے اللہ تعالیٰ آپ کے خادموں میں زندہ رکھے اور اسی میں مارے۔ ایک عرب عالم اس وقت میرے پاس بیٹھے ہیں، شامی ہیں، سید ہیں، بڑے ادیب ہیں …آ پ کی عبارت آئینہ کمالات اسلام جو عربی میں ہے ان کو دکھائی گئی۔ کہا واللہ ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا ہندوستانی کی تو کیا طاقت ہے۔ قصیدہ نعتیہ دکھایا…پڑھ کر رو دیا اور کہا …میں ان اشعار کو حفظ کروں گا…میں نے حضرت کو اپنی جان اور اپنے اہل اور اولاد میں مالک کردیا۔
محبت نامہ فاضل عربی اس عاجز کی طرف(چند فقرات کا ترجمہ پیش ہے)
’’اے وہ عظیم الشان وجود کہ جس کے اوصاف حمیدہ کے بارہ میں مجھے نسیمِ شوق نے آگاہی دی ہے، اور اے وہ ہستی کہ جس کے فیوض کے عطر سے نرگس کے پھولوں نے مہک مستعار لی ہے۔اللہ کرے کہ حضور کے نجات کے سفینے علوم وفنون کے سمندروں میں محو سفر رہیں۔اور لوگوں کے سر آپ کے بلند وبالا مرتبہ کے سامنے جھکے رہیں،اور زبانیں آپ کے محاسن کی گواہی دیتی رہیں۔ میرا آپ سے ملنے کا شوق ناقابل بیان ہے۔مجھے قضا وقدر نے ملک ملک پھراتے ہوئے اس علاقے میں لا پھینکا اورایک شفیق بھائی مولوی محمد یعقوب سے ملایا۔ اس کے ساتھ باتوں میں آپ کا ذکر چل نکلااور جب آپ کے اخلاق ومحاسن سے آگاہی ہوئی تو آپ سے ملاقات کی جستجو پیدا ہوگئی۔ لیکن راہ کی تکلیف، گرمی کی تپش، تہی دستی، اور قلت زاد جیسے امور میری راہ میں حائل ہیں۔ اگر مجھے قوت پرواز ہوتی تو مَیں وفور شوق سے آپ کی طرف اڑتا چلا جاتااورکبھی گریز نہ کرتا۔ لیکن کیا کروں کہ میرے پر کٹے ہوئے ہیں اورپرکٹا پرندہ پرواز کرنے سے قاصر ہوتاہے۔‘‘
ایک عالم عرب مکی کا خط (احقر العباد محمد بن احمد مکی)
بسم اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام اورحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کوعزت واحترام کے اعلیٰ القاب سے مخاطب کرنے،آپ کو مسیح ومہدی تسلیم کرنے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضورؑ کا نامہ گرامی ملا۔ ہم نے اسے پڑھ لیا ہے اور اس کے مضمون کو سمجھ لیا ہے، اور حضور ؑکے بخیر وعافیت ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا ہے۔سیدی، میں پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور اور اس کے بعدآپ کی خدمت میں اپنی غلطی پر عفو ودرگزر کی درخواست کرتا ہوں۔سیدی، میں حضور کا بیٹا اورحضور کا خادم ہوں، اور اللہ کے سامنے اوربعد ازاں حضور ؑکو جوابدہ ہوں۔میں اپنی غلطی پر توبہ کرتا ہوں اوریہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ایسی بات نہیں کہوں گا جیسی پہلے مجھ سے سر زد ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کے حالات بہتر فرمائے اور آپ کے فضل واحسان کی بہتر جزا عطا فرمائے۔
آپ نے اپنے مکتوب میں جوکچھ لکھا ہے وہ مجھے بہت پسند آیا ہے۔آپ کے خدا کی طرف سے ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، اس پرہم ایمان لاتے ہیں اوراس کی تصدیق کرتے ہیں۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔‘‘
عالم عربی سید علی ولد شریف مصطفیٰ عرب
یہ خط جناب عالی صاحبِ بصیرت و عقل،مشرق کے درخشندہ ستارہ، صاحبِ الہام،ابدی سلطنت کے شہنشاہ مرزا غلام احمد کی طرف ہے۔آپ کے فضائل ستاروں کی مانند دنیا کے کناروں تک عقلمند اور جاہلوں کے لئے یکساں طور پر مفيد ہيں جو کہ اوس كے سمندر كی مانند ہیں جس کے ساحل کا تاحد نگاہ پتہ نہیں لگتا اور جو علوم اور کرامات کا منبع ہیں۔
چند خطوط بطور نمونہ پیش کرنے کے بعد حضور ؑنے تحریر فرمایا۔
مسٹر عبدا للہ آتھم صاحب اور وکیل ڈاکٹر مارٹن کلارک و دیگر عیسائیوں کا بصورت مغلوب ہو جانے کے مسلمان ہوجانے کا وعدہ:9 مئی 1893 ء کو مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے امرت سر سے یہ تحریر بھجوائی کہ اگر جناب(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) یا کوئی صاحب کسی صورت سے بھی یعنی بہ تحدی معجزہ یا دلیل قاطع عقل تعلیمات قرآنی کو ممکن اور موافق صفات اقدس ربانی کے ثابت کر سکیں تو میں اقرار کرتا ہوں کہ مسلمان ہو جاؤں گا۔
اعلان مباہلہ بجواب اشتہار عبد الحق غزنوی
حضورؑ نے تحریر فرمایا کہ ’’ایک اشتہار مباہلہ مورخہ 26شوال 1310ھ شائع کردہ عبد الحق غزنوی میری نظر سے گزرا۔ اس لئے یہ اشتہار شائع کیا جا تا ہے کہ مجھ کو اس شخص اور ایسا ہی ہر ایک مکفر سے جو عالم یا مولوی کہلاتا ہے مباہلہ منظور ہے…میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ القدیر تیسری یا چوتھی ذی قعدہ تک امرتسر پہنچ جاؤں گا اور تاریخ مباہلہ دس یا گیارہ ذیقعدہ قرار پائی ہےبمقام عید گاہ نزد مسجد خان بہادر محمد شاہ مرحوم۔ چونکہ دن کے پہلے حصہ میں قریباً بارہ بجے تک عیسائیوں سے دوبارہ بابت حقیقت اسلام، اس عاجز کا مباحثہ ہوگا اور یہ مباحثہ برابر بارہ دن تک ہوتا رہے گا۔ اس لئے مکفرین جو مجھ کو کافر ٹھہرا کر مجھ سے مباہلہ کرنا چاہتے ہیں دو بجے سے شام تک مجھ کو فرصت ہوگی۔ مباہلہ کی تاریخ دس ذیقعدہ اس لئے قرار پائی ہے تا دیگر علماء بھی جو اس عاجز کلمہ گو اہل ِقبلہ کو کافر ٹھہراتے ہیں شریک مباہلہ ہو سکیں۔ حضور علیہ السلام نے کئی علماء کے نام بھی تحریر فرمائے کہ جن میں بالخصوص محی الدین لکھووالے، محمد حسین بٹالوی، میاں نذیر حسین دہلوی، مولوی غلام دستگیر قصوری، مولوی رشید احمد گنگوہی وغیرہ شامل ہیں۔ فرمایا بالخصوص سب سے پہلے شیخ محمد حسین بٹالوی کا فرض ہے کہ میدان میں مباہلہ کے لئے تاریخ مقررہ پر امرت سر آجاوے کیونکہ اس نے خود بھی مباہلہ کے لئے درخواست دی ہے۔ بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ مباہلہ سے پہلے ہمارا حق ہوگا کہ ہم مکفرین کے سامنے جلسہ عام میں اپنے اسلام کے وجوہات پیش کریں۔
اتمام حجت
اگر مولوی محمد حسین بٹالوی دہم ذیقعدہ کو مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تو اسی روز سے سمجھا جائے گا کہ وہ پیشگوئی جو اس کے حق میں چھپوائی گئی تھی کہ وہ کافر کہنے سے توبہ کریگا پوری ہو گئی۔‘‘
فرمایا ’’بالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ اے خداوند قدیر اس ظالم اور سر کش اور فتان پر لعنت کر اورذلت کی مار اس پر ڈال، جو اب اس دعوت مباہلہ اور تقرری شہر اور مقام اور وقت کے بعد مباہلہ کے لئے میرے مقابل پر میدان میں نہ آوے اور نہ کافر کہنے اور سب و شتم سے باز آوے۔‘‘
٭…٭…٭