میری مریم (قسط نمبر 3)
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
(رقم فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)
لجنہ کے کام کو غیر معمولی ترقی دی
مَیں نے اوپر لکھا ہے کہ ان کا دل کام میں تھا کتاب میں نہیں۔ جب سارہ بیگم فوت ہوئیںتو مریم کے کام کی روح اُبھری اور انہوں نے لجنہ کے کام کو خود سنبھالا۔ جماعت کی مستورات اِس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اِس کام کو کیسا سنبھالا۔ انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی۔ آج کی لجنہ وہ لجنہ نہیں جو امۃ الحی مرحومہ یا سارہ بیگم مرحومہ کے زمانہ کی تھی۔ آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہاء قابلیت موجود ہے۔ انہوں نے کئی کو ناراض بھی کیا مگر بہتوں کو خوش کیا، بیوائوں کی خبر گیری،یتامیٰ کی پرورش، کمزوروں کی پُرسش، جلسہ کا انتظام، باہر سے آنے والی مستورات کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات، غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی اور جب یہ دیکھا جائے کہ اِس انتظام کا اکثر حصہ گرم پانی سے بھری ہوئی ربڑ کی بوتلوں کے درمیان چار پائی پر لیٹے ہوئے کیا جاتا تھا تو احسان شناس انسان کا دل اِس کمزور ہستی کی محبت اور قدر سے بھر جاتا ہے۔ اے میرے ربّ! تو اس پر رحم کر اور مجھ پر بھی۔
1942ء کی بیماری
1942ء میں مَیں سندھ میں تھاکہ مرحومہ سخت بیمار ہوئیں اور دل کی حالت خراب ہوگئی۔ مجھے تار گئی کہ دل کی حالت خراب ہے۔ مَیںنے پوچھا کہ کیا مَیں آ جائوں؟ تو جواب گیا کہ نہیں اب طبیعت سنبھل گئی ہے۔ یہ دورہ مہینوں تک چلا اور کہیں جون جولائی میں جا کر کچھ افاقہ ہوا۔ اُس سال اُنہی دنوں میں اُمِّ ناصر احمد کو بھی دل کے دورے ہوئے۔ نہ معلوم اس کا کیا سبب تھا۔ 1943ء کے مئی میں مَیں ان کو دہلی لے گیا کہ ان کا علاج حکیموں سے کروائوں۔ حکیم محمود احمد خان صاحب کے صاحبزادے کو دکھایا اور علاج تجویز کروایا مگر مرحومہ علاج صرف اپنی مرضی کاکروا سکتی تھیں چنانچہ وہ علاج انہیں پسند نہ آیا اور انہوں نے پوری طرح کیا نہیں۔ وہاں بھی چھوٹا سا ایک دورہ اندرونی تکلیف کا ہوا مگر جلدی آرام آ گیا۔ اس بیماری میں بھی جاتے آتے آپ ریل میں فرش پر لیٹیں اور میری دوسری بیویوں کے بچوں کو سیٹوں پر لٹوایا۔
دہلی سے واپسی کے معاً بعد مجھے سخت دَورہ کھانسی بخار کا ہوا جس میں مرحومہ نے حد سے زیادہ خدمت کی۔ ان گرمی کے ایام میں رات اور دن میرے پاس رہتیں اور اکثر پاخانہ کا برتن خود اُٹھاتیں اور خود صاف کرتیں، کھانا بھی پکاتیں حتیّٰ کہ پائوں کے تلوے ان کے گھس گئے۔ مَیں جاگتا تو ساری ساری رات ساتھ جاگتیں۔ سو جاتا اور کھانسی اُٹھتی تو سب سے پہلے وہ میرے پاس پہنچ چکی ہوتی تھیں۔ جب کچھ افاقہ ہوا اور ہم ڈلہوزی آئے تو وہاں بھی باورچی خانہ کا انتظام پہلے انہوں نے لیا اور کوٹھی کو باقرینہ سجایا۔ یہاں اِن کو پھر شدید دَورہ بیماری کا ہوا مگر میری بیماری کی وجہ سے زیادہ تکلیف کا اظہار نہ کیا۔
چنبہ کا سفر
جب مجھے ذرا اور افاقہ ہوا اور میں چنبہ گیا تو باوجود بیمار ہونے کے اصرار کے ساتھ وہاں گئیں اور گھوڑے کی سواری کی کیونکہ کچھ حصۂ سفر میں ڈانڈی(ڈانڈی: ایک قسم کی پہاڑی سواری جس کے دونوں طرف لکڑی اور بیچ میں دری لگی ہوتی ہے۔) نہ ملی تھی میں نے سمجھایا کہ اِس طرح جانا مناسب نہیں مگر حسبِ دستور یہی جواب دیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ مَیں سیر نہ کروں مَیں ضرور جائوں گی۔ آخر اِن کی بیماری کی وجہ سے مَیں نے دوسروں کو روکا اور اُن کو ساتھ لے گیا۔
رمضان میں مشقّت
اس کے بعد رمضان آگیا اور ہندوستانی عادت کے ماتحت قافلہ کے لوگوں نے غذا کے بارہ میں شکایات شروع کیں اورملازم آخر ملازم ہوتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ مرحومہ نے اِس جان لیوا بیماری میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر تین تین چار چار سیر کے پراٹھے سحری کے وقت پکا کر لوگوں کے لئے بھیجے جس سے بیماری کے مقابلہ کی طاقت جسم سے بالکل جاتی رہی۔ مَیں تو کمزور تھا روزے نہ رکھتا تھا جب مجھے علم ہوا تو میں نے اِن کو روکا مگر اِس کا جواب اِنہوں نے یہی دیا کہ کیا معلوم پھر ثواب کمانے کا موقع ملے یا نہ ملے اور اِس عمل سے نہ رُکیں۔
شدید دَورہ
ہم واپس آئے تو اُن کی صحت ابھی کمزور ہی تھی۔ تین چار ہفتوں کے بعد ہی پھر شدید دَورہ ہو گیا۔ میں اُس وقت گردے کی درد سے بیمار پڑا ہوا تھا۔اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ دورہ ایسا سخت ہے کہ بچنے کی امید نہیں یہ پہلا موقع تھا کہ مریم کی موت میری آنکھوں کے سامنے آئی۔ مَیں چل تو سکتا نہ تھا، اِس لئے جب میرا کمرہ خالی ہوا چار پائی پر اوندھے گر کر مَیں نے اپنے ربّ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ اِن کیلئے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور اُس وقت موت ٹل گئی اور مَیں اچھا ہوکر وہاں جانے لگ گیا۔
مرض الموت کا حملہ
کچھ دنوں بعد پھر مجھے نقرس کا دَورہ ہوا اور پھر وہاں جانا چھٹ گیا۔ اُس وقت ڈاکٹروں کی غلطی سے ایک ایسا ٹیکہ لگایا گیا جس کے خلاف مریم بیگم نے بہت شور کیا کہ یہ ٹیکہ مجھے موافق نہیں آتا۔ اِس کے بعد اُس ٹیکہ کے متعلق مجھے لاہور کے قیام میں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے معلوم ہوا کہ مرحومہ کے مخصوص حالات میں وہ ٹیکہ واقعہ میں مضر تھا۔ اُس ٹیکہ کا یہ اثر ہوا کہ اِن کا پیٹ یکدم پھول گیا اور اتنا پھولا کہ موٹے سے موٹے آدمی کا اتنا پیٹ نہیں ہوتا۔ میں بیماری میں لنگڑاتا ہوا وہاں پہنچا اور اِن کی حالت زیادہ خطرناک پا کر لاہور سے کرنل ہیز کو اور امرتسر سے لیڈی ڈاکٹر وائن کو بُلوایا۔ دوسرے دن یہ لوگ پہنچے اور مشورہ ہوا کہ انہیں لاہور پہنچایا جائے جہاں سترہ دسمبر 1943ء کو موٹر کے ذریعہ سے انہیں پہنچایا گیا۔ کرنل کی رائے تھی کہ کچھ علاج کر کے کوشش کروں گا کہ دوائوں سے ہی فائدہ ہو جائے چنانچہ 17؍دسمبر سے8، 9؍جنوری تک وہ اس کی کوشش کرتے رہے۔
آپریشن
مگر آخر یہ فیصلہ کیا کہ آپریشن کے بغیر کچھ نہیںہو سکتا۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی رائے اس کے خلاف تھی مگر مجھے اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا۔اس لئے میں نے مرحومہ سے ہی پوچھا کہ یہ حالات ہیں، تمہارا جو منشاء ہو اُس پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کروا ہی لیں۔ گو مجھے اِس طرح محفوظ الفاظ میںمشورہ دیا مگر اُن کے ساتھ رہنے والی خاتون نے بعد میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ مجھ سے کہتی رہتی تھیں کہ دعا کرو کہیں وقت پر حضرت صاحب کا دل آپریشن سے ڈر نہ جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے نزدیک آپریشن کو ضروری سمجھتی تھیں۔ بہرحال 14؍جنوری کو اِن کا آپریشن ہوا۔ اُس وقت اِن کی طاقت کا پورا خیال نہ رکھا گیا اور 15؍جنوری کو اِن کے دل کی حالت خراب ہونی شروع ہوگئی۔ اُس وقت ڈاکٹروں نے توجہ کی اور انسانی خون بھی جسم میں پہنچایا گیا اور حالت اچھی ہوگئی اور اچھی ہوتی گئی۔
افاقہ کے بعد تشویشناک حالت
یہاں تک کہ 25؍تاریخ کو مجھے کہا گیا کہ اب چند دن تک اِن کو ہسپتال سے رُخصت کر دیاجائے گا اور میںاجازت لے کر چند دن کے لئے قادیان آگیا۔ میرے قادیان جانے کے بعد ہی اِن کی حالت خراب ہوگئی اور وہ زخم جسے مندمل بتایا جاتا تھا پھر دوبارہ پورا کا پورا کھول دیا گیا مگر مجھے اِس سے غافل رکھا گیا اور اِس وجہ سے میں متواتر ہفتہ بھر قادیان ٹھہرا رہا۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ جنہوں نے اُن کی بیماری میںبہت خدمت کی۔ جَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔ انہوں نے متواتر تاروں اور فون سے تسلی دلائی اور کہا کہ مجھے جلدی کرنے کی ضرورت نہیںـ لیکن اچانک جمعرات کی رات کو شیخ بشیر احمد صاحب کا فون ملا کہ برادرم سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہمشیرہ مریم کی حالت خراب ہے، آپ کو فوراً آنا چاہئے۔ جس پر مَیں جمعہ کو واپس لاہور گیا اور ان کو سخت کمزور پایا۔ یہ کمزوری ایسی تھی کہ اِس کے بعد تندرستی کی حالت ان پر پھر نہیں آئی۔
بیماری پر خرچ
دو نرسیں اِن پر رات اور دن کے پہرہ کے لئے رکھی جاتی تھیں اور چونکہ اِن کا خرچ پچاس ساٹھ روپیہ روزانہ ہوتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ اِس کااِنکے دل پر بہت بوجھ ہے اور وہ بعض سہیلیوں سے کہتیں کہ میری وجہ سے اِن پر اِس قدر بوجھ پڑا ہوا ہے۔ مجھے کسی طرح یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے ان کو تسلی دلائی کہ مریم! اِس کی بالکل فکر نہ کرو میں یہ خرچ تمہارے آرام کے لئے کر رہا ہوں تم کو تکلیف دینے کیلئے نہیں اور ان کی بعض سہیلیوں سے بھی کہا کہ اِن کو سمجھائو کہ یہ خرچ میرے لئے عین خوشی کا موجب ہے اور میرا خدا جانتا ہے کہ ایسا ہی تھا۔ یہاں تک کہ ان کی بیماری کے لمبا ہونے پر میرے دل میں خیال آیا کہ خرچ بہت ہو رہا ہے، روپیہ کا انتظام کس طرح ہوگا ؟ تو دل میں بغیر ادنیٰ انقباض محسوس کئے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں کوٹھی دارالحمد اور اُس کا ملحقہ باغ فروخت کر دوں گا۔ میں نے دل میں کہا کہ اِس کی موجودہ قیمت تو بہت زیادہ ہے لیکن ضرورت کے وقت اگر اِسے اَونے پونے بھی فروخت کیا جائے تو پچھتر ہزار کو وہ ضرور فروخت ہو جائے گی اور اِس طرح اگر ایک سال بھی مریم کیلئے یہ خرچ کرنا پڑا تو چھ ہزار روپیہ ماہوار کے حساب سے ایک سال تک اِن کے خرچ کی طرف سے بے فکری ہو جائے گی اور یہی نہیں میرا نفس مریم بیگم کے لئے اپنی جائداد کا ہر حصہ فروخت کرنے کیلئے تیار تھا تا کسی طرح وہ زندہ رہیں خواہ بیماری ہی کی حالت میں۔
بیماری کی تکلیف سے بچانے کیلئے دعا
مگر کچھ دنوں کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ بیماری سے سخت اذیت محسوس کر رہی ہیں جو زخم کے درد کی وجہ سے ناقابلِ برداشت ہے۔ تب مَیں نے اپنے ربّ سے درخواست کرنی شروع کی کہ اے میرے ربّ! تیرے پاس صحت بھی ہے پس تجھ سے میری پہلی درخواست تو یہ ہے کہ تو مریم بیگم کو صحت دے لیکن اگر کسی وجہ سے تو سمجھتا ہے کہ اب مریم بیگم کا اِس دنیا میں رہنا اِس کے اور میرے دین و دنیا کیلئے بہتر نہیں تو اے میرے ربّ! پھر اِسے اِس تکلیف سے بچا لے جو اِس کے دین کو صدمہ پہنچائے۔ اِس دعا کے بعد جو اِن کی وفات سے کوئی آٹھ نو دن پہلے کی گئی تھی میں نے دیکھا اِن کی درد کی تکلیف کم ہونی شروع ہوگئی مگر اِن کے ضعف اور دل کے دَوروں کی تکلیف بڑھنے لگی۔ ظاہری سبب یہ بھی پیدا ہوا کہ ڈاکٹر بڑوچہ نے جن کے علاج کے لئے اب ہم اِنہیں سرگنگارام ہسپتال میں لے آئے تھے انہیں افیون بھی دینی شروع کر دی تھی۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭