خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍اگست 2021ء
اے امیر المومنینؓ! ……آپؓ جو چاہیں کیجیے اور جو آپؓ کی اپنی رائے ہے اس پر عمل کیجیے۔ ہم آپؓ کے ساتھ ہیں۔ آپؓ ہمیں حکم دیں، ہم آپؓ کی اطاعت کریں گے۔ ہمیں بلائیں، ہم آپؓ کی آوازپر لبیک کہیں گے۔ ہمیں بھیجیں، ہم روانہ ہو جائیں گے۔ آپؓ ہمیں ساتھ لے جانا چاہیں، ہم آپؓ کے ساتھ ہوں گے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
نِہَاوَنْد کی فتح اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت اہم تھی۔ اس کے بعد ایرانیوں کو ایک جگہ مجتمع ہوکر مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا اور مسلمان اس جگہ کو فتح الفتوح کے نام سے یاد کرنے لگے
جنگِ جُنْدَی سَابُوْر، فتح الفتوح جنگِ نِہَاوَنْد اور جنگِ اصفہان کے حالات و واقعات کا تفصیلی بیان
تین مرحومین مکرم محمد دیانتو نوصاحب مبلغِ سلسلہ انڈونیشیا، مکرم صاحبزادہ فرحان لطیف صاحب آف شکاگو امریکہ اور مکرم ملک مبشر احمد صاحب لاہور سابق امیر جماعت داؤدخیل میانوالی کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍اگست 2021ء بمطابق 20؍ظہور 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا ذکر ہو رہا ہے۔ اُس وقت جو مختلف جنگیں لڑی گئیں ان کا ذکر چل رہا تھا۔ ان میں سے ایک جنگ جنگِ جُنْدَی سَابُوْر ہے۔ جب حضرت ابو سَبْرَہ بن رُھْم سَاسَانی بستیوں کی فتح سے فارغ ہوئے تو آپ لشکر کے ساتھ آگے بڑھے اور جُنْدَی سَابُوْرمیں پڑاؤ کیا۔ جندی سابور خوزستان کا ایک شہر تھا۔ بہرحال ان دشمنوں کے ساتھ صبح شام جنگی معرکے ہوتے رہے لیکن یہ اپنی جگہ ڈٹے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کی طرف سے کسی نے امان دینے کی پیشکش کردی۔ دشمن فصیل میں تھا۔ جب موقع ملتا تھا نکل کے حملہ کرتا تھا۔ تو جب ایک عام مسلمان نے پیشکش کی تو انہوں نے فوراً فصیل کے دروازے کھول دیے۔ جانور باہر نکل پڑے، بازار کھل گئے اور لوگ اِدھر اُدھر نظر آنے لگے۔ مسلمانوں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دے دی ہے اور ہم نے اسے قبول کر لیا ہے۔ ہم جزیہ دیں گے اور آپ ہماری حفاظت کریں گے۔ مسلمانوں نے کہا ہم نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جھوٹ نہیں کہہ رہے۔ پھر مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ مِکْنَفْ نامی ایک غلام نے یہ کیا ہے۔ جب اس کے متعلق حضرت عمرؓ سے استفسار کیا گیا تو حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے وفاداری کو بڑی اہمیت دی ہے۔ تم وفا دار نہیں ہو سکتے جب تک اس عہد کو پورا نہ کرو جو عہد کر لیا۔ چاہے غلام نے کیا اس کو پورا کرو۔ جب تک تم شک میں ہو انہیں مہلت د و اور ان کے ساتھ وفاداری کرو۔ چنانچہ مسلمانوں نے عہد و پیمان کی تصدیق کی اور واپس لَوٹ آئے۔
(ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ 425 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
(ماخوذ از سیدنا عمر بن خطاب، شخصیت کارنامے صفحہ 689 مکتبہ الفرقان خان گڑھ پاکستان)
(معجم البلدان جلد2 صفحہ198)
یہ معرکہ خوزستان کی فتوحات کا خاتمہ تھا۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ 135)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس طرح کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلاں فلاں رعایتیں تمہیں دی جائیں گی۔ جب اسلامی فوج گئی تو اس قوم نے کہا ہم سے تو یہ معاہدہ ہے۔ فوج کے افسر اعلیٰ نے اس معاہدہ کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کی تو بات حضرت عمرؓ کے پاس گئی۔ انہوں نے فرمایا مسلمان کی بات جھوٹی نہ ہونی چاہئے خواہ غلام ہی کی ہو۔‘‘
(بعض ضروری امور، انوار العلوم جلد12 صفحہ405)
حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دشمن فوج گِھر گئی اور اس نے سمجھ لیا کہ اب ہماری نجات نہیں ہے۔ پہلے جو واقعہ بیان ہوا ہےیہ اسی کی تفصیل ہے۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ اسلامی کمانڈر دباؤ سے ہمارا قلعہ فتح کر رہا ہے۔ اگر اس نے فتح کر لیا تو ہم سے مفتوح ملک والا معاملہ کیا جائے گا۔ ہر مسلمان مفتوح ہونے اور صلح کرنے میں فرق سمجھتا تھا۔ مفتوح کے لیے تو عام اسلامی قانون جاری ہوتا تھا اور صلح میں جو بھی وہ لوگ (دوسرا فریق) شرط کرلیں یا جتنے زائد حقوق لے لیں، لے سکتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ کوئی ایساطریق اختیا ر کرنا چاہیے جس سے نرم شرائط پر صلح ہو جائے۔ چنانچہ ایک دن ایک حبشی مسلمان پانی بھر رہا تھااس کے پاس جا کر انہوں نے کہا ۔کیوں بھئی! اگر صلح ہوجائے تو وہ لڑائی سے اچھی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا کہ ہاںاچھی ہے۔ وہ حبشی غیرتعلیم یافتہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پھر کیوں نہ اِس شرط پر صلح ہوجائے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی سے رہیں اور ہمیں کچھ نہ کہا جا ئے۔ ہمارے مال ہمارے پاس رہیں اور تمہارے مال تمہارے پاس رہیں۔ وہ کہنے لگا بالکل ٹھیک ہے۔ انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیے۔ اب اسلامی لشکر آیا تو دشمن نے کہا ہمارا تو تم سے معاہد ہ ہو گیا ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ معاہدہ کہاں ہوا ہے اور کس افسر نے کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے۔ ہمیں کیا پتہ کہ تمہارے کون افسر ہیں اور کون نہیں۔ ایک آدمی یہاں پانی بھر رہا تھا اس سے ہم نے یہ بات کی اور اس نے ہمیں یہ کہہ دیا۔ مسلمانوں نے کہا دیکھو ایک غلام نکلا تھا اس سے پوچھو کیا ہوا؟ اس حبشی غلام سے کہا تو اس نے بتایا کہ ہاں مجھ سے یہ بات ہوئی تھی۔ تو مسلمانوں نے کہا کہ وہ تو غلام تھا۔ اسے کس نے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا۔اس پر دشمنوں نے کہا کہ ہمیں کیا پتہ کہ یہ تمہارا افسر ہے یا نہیں۔ ہم اجنبی لوگ ہیں ہم نے سمجھا کہ یہی تمہا را جرنیل ہے، ہوشیاری دکھائی۔ اس افسر نے کہا کہ میں تو نہیں مان سکتا لیکن میں یہ واقعہ حضرت عمرؓ کو لکھتاہوں۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ خط مِلا تو آپؓ نے فرمایا کہ آئندہ کے لیے یہ اعلان کردو کہ کمانڈر اِنچیف کے بغیر کوئی معا ہدہ نہیں کر سکتا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو مَیں اس کو جھو ٹا کردوں۔ اب وہ حبشی جو معاہدہ کر چکا ہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا۔ ہاں آئندہ کے لیے اعلان کردو کہ سوائے کمانڈر اِنچیف کے اَور کوئی کسی قوم سے معا ہدہ نہیں کر سکتا۔
(ماخوذ از سیر روحانی (7)۔ انوار العلوم جلد 24صفحہ293۔294)
حضرت عمرؓ نے جو ایران کو فتح کیا ہے تو اس کی کیا وجوہات تھیں، آپؓ کیوں مجبور ہوئے۔ ان کا بیان اس طرح ہو اہے کہ حضرت عمرؓ کی قلبی خواہش تھی کہ اگر عراق اور اَہْوَازْ کے معرکوں پر ہی اس خونریز جنگ کا خاتمہ ہو جائے تو بہتر ہے۔ جنگیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دشمن حملہ کر رہا ہے۔ دشمن کو ایک دفعہ ختم کر دیا، ان کی طاقت کو روک دیا اب یہیں ختم ہو جانا چاہیے۔ آپؓ نے بار بار اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ کاش ہمارے اور ایرانیوں کے درمیان کوئی ایسی روک ہو کہ نہ وہ ہماری طرف آ سکیں نہ ہم ان کے پاس جا سکیں مگر ایرانی حکومت کی مسلسل جنگی کارروائیوں نے آپؓ کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ سترہ ہجری میں محاذِ جنگ سے مسلمان سردارانِ لشکر کا ایک وفد حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت عمرؓ نے اس وفد کے سامنے یہ سوال رکھا کہ مفتوحہ علاقوں میں کیوں بار بار عہد شکنی اور بغاوت ہو جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ مسلمان مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہوں گے تبھی عہد شکنی ہو رہی ہے۔ وفد نے اس امر کی تردید کی۔ انہوں نے کہا نہیں اس طرح نہیں ہے اور بتایا کہ ہمارے علم میں تو مسلمان پوری وفاداری اور حسنِ انتظام سے کام لیتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا تو پھر اس گڑبڑ کی کیا وجہ ہے؟ باقی ارکان وفد تو اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے مگر اَحْنَفْ بن قَیس بولے کہ امیر المومنینؓ! میں آپؓ کو اصل صورتِ حال سے مطلع کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ آپؓ نے ہمیں مزید فوجی اقدام کی ممانعت کر دی ہے کہ مزید جنگ نہیں کرنی اور اس علاقے پر رُکے رہنے کی ہدایت کی ہے جو اَب تک فتح ہو چکا ہے مگر ایران کا بادشاہ ابھی زندہ موجود ہے اور جب تک وہ موجود ہے ایرانی ہم سے مقابلہ جاری رکھیں گے اور یہ کبھی ممکن نہیں کہ ایک ملک میں دو حکومتیں ہو سکیں۔ بہرصورت ایک دوسری کو نکال کر رہے گی۔ یا ایرانی رہیں گے یا ہم رہیں گے۔ اس نے کہا کہ آپؓ کو علم ہے کہ ہم نے کسی علاقے کو بھی خود نہیں لیا بلکہ دشمن کے حملہ آور ہونے کے باعث فتح کیا ہے۔ ہم نے تو خود کبھی جنگ کی نہیں اور یہی آپؓ کا حکم تھا۔ دشمن حملہ کرتا تھا تو مجبوراً جنگ کرنا پڑتی تھی اور پھر علاقے فتح بھی ہو جاتے تھے۔ بہرحال اس میں مسلمانوں میں سے بھی ان لوگوں کے لیے یہ واضح ہوگیا جو جنگوں کو بلا وجہ کرنے کے جواز پیش کرتے ہیں اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا جواب بھی اس میں آ گیا ہے کہ مسلمان کبھی زمینیں حاصل کرنے کے لیے، ملک فتح کرنے کے لیے جنگیں نہیں کرتے تھے۔ ان پہ حملے ہوئے تو امن قائم کرنے کے لیے جنگیں کرتے تھے اور پھر فتوحات بھی ہوتی تھیں۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ یہ فوجیں ان کے بادشاہ کی طرف سے آتی ہیں اور ان کا یہ رویہ آئندہ بھی اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آپؓ ہمیں اس امر کی اجازت نہ دیں کہ ہم آگے فوج کشی کے اقدام کریں اور بادشاہ کو فارس سے نکال دیں۔ اس صورت میں اہل فارس کی دوبارہ فتح کی امید منقطع ہو سکتی ہے۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ 136تا138)
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ502-503،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
اور بات بھی یہی تھی۔ حضرت عمر ؓنے اس رائے کو صائب قرار دیتے ہوئے یہ سمجھ لیا کہ اب ایران میں مزید پیش قدمی کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مجبوری ہے اس کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا اور مسلمانوں کا خون ہوتا رہے گا، جنگیں ہوتی رہیں گی مگر اس کا عملی فیصلہ پھر بھی حضرت عمرؓ نے ڈیڑھ دو سال کے بعد 21؍ ہجری میں نِہَاوَنْد کے معرکے کے بعد کیا جبکہ ایرانی زبردست طاقت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلے تھے اور نِہَاوَنْد کے مقام پر ایک زبردست جنگ ہوئی تھی۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ 138-139)
جنگِ نِہَاوَنْد کو فتح الفتوح بھی کہتے ہیں۔ ایران اور عراق میں مسلمانوں کی جنگی مہم میں تین معرکوں کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ یعنی قادسیہ کا معرکہ، جَلُولَاء کا معرکہ اور نِہَاوَنْد کا معرکہ۔ اور نِہَاوَنْد کی فتح اپنے نتائج کے لحاظ سے اس قدر اہم تھی کہ مسلمانوں میں فتح الفتوح کے نام سے معروف ہو گئی تھی یعنی تمام فتوحات سے بڑھ کر فتح۔
نِہَاوَنْد کی یہ جنگ پہلی دوزبردست شکستوں کے بعد ایرانیوں کی طرف سے ایسے حملے کی آخری کوشش تھی۔اس معرکے کی تفاصیل یہ ہیں کہ شاہِ ایران یَزْدَجَرْد نے جو اَب مَرْو میں مقیم تھا یا بروایت ابوحنیفہ دِیْنَوَرِی قُمْ میں رہائش پذیر تھا بڑی سرگرمی سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے لشکر جمع کرنا شروع کیا اور اپنے خطوط سے خراسان سے لے کر سندھ تک ملک میں ایک حرکت پیدا کر دی اور ہر طرف سے ایرانی فوج امڈ کر نِہَاوَنْد میں جمع ہونے لگی۔
(فتوح البلدان صفحہ 184،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ521،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)(اخبار الطوال،وقعۃ نہاوند،صفحہ192دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ 139)
نِہَاوَنْد ایران کا ایک شہر ہے جو کِرْمَان شاہ کے مشرق میں واقع ہے اور صوبہ ہَمْدَان کے دارالحکومت ہمدان سے تقریباً ستر کلو میٹر جنوب میں واقع ہے۔
(اٹلس فتوحات اسلامیہ جلد2صفحہ118 مکتبہ دار السلام ریاض 1428ھ)
نِہَاوَنْد مکمل طور پر پہاڑوں کے درمیان ایک شہر تھا۔
(سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ 426 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
حضرت سعدؓ نے اس لشکر کی اطلاع حضرت عمرؓ کی خدمت میں مدینہ ارسال کر دی۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ522،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
چند روز بعد جب خود حضرت سعدؓ کو حضرت عمر ؓنے ان کے عہدے سے سبکدوش کر دیا اور حضرت سعدؓ کو مدینہ جانے کا موقع ملا تو حضرت سعدؓ نے پھر یہ زبانی اطلاعات حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کر دیں۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ523،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
حضرت سعدؓ کو معزول کر کے یہ اہم عہدہ دربارِ خلافت کی طرف سے حضرت عَمَّارْ بن یَاسِرؓ کو دیا گیا۔ حضرت عمار ؓکو اس ایرانی جنگی کارروائی کے سلسلہ میں جو اطلاعات ملتی رہیں وہ آپؓ مدینہ بھجواتے رہے۔
(اخبار الطوال، وقعۃ القادسیہ، صفحہ192 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
(فتوح البلدان صفحہ 170،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ 140)
حضرت عمرؓ نے مجلسِ مشاورت منعقد کی اور منبر پر کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس میں فرمایا: اے قوم عرب! اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ تمہاری تائید کی اور افتراق کے بعد تمہیں متحد کر دیا اور فاقہ کشی کے بعد تمہیں غنی کر دیا۔ اور جس میدان میں بھی تمہیں دشمن سے مقابلہ کرنا پڑا اس نے تمہیں فتح دی۔ پس تم نہ کبھی ماندہ ہوئے نہ مغلوب۔ اور اب شیطان نے کچھ لشکر جمع کیے ہیں تا کہ خدا کے نور کو بجھائے اور یہ عَمَّار بن یَاسِر کا خط ہے کہ قُوْمِسْ، طَبَرِسْتَان، دُنْبَاوَنْد، جُرْجَانْ، اصفہان ، قُمْ ، ہَمَذَانْ، مَاھَیْن اور مَاسَبَذَانْ کے باشندے اپنے بادشاہ کے گرد جمع ہو رہے ہیں تا کہ تمہارے بھائیوں کے مقابلے کے لیے جو کوفہ اور بصرہ میں ہیں نکلیں اور ان کو اپنے وطن سے نکال کر خود تمہارے ملک پر حملہ آور ہوں۔ اے لوگو! اس بارے میں مجھے اپنا مشورہ دو۔
(اخبار الطوال صفحہ192،وقعۃ نہاوند،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
یہ معاملہ اہم ہے۔ میں نہیں پاتا کہ آپ لوگ زیادہ باتیں کریں اور آپس میں اختلاف رائے رکھیں۔ میں پاتا ہوں کہ آپ مختصراً مجھے مشورہ دیں کہ کیا یہ مناسب ہو گا کہ میں خود اس وقت ایران کو روانہ ہوں اور بصرہ و کوفہ کے درمیان کسی مناسب مقام پر قیام کر کے اپنے لشکر کا مددگار ہوں اور اگر خدا کے فضل سے اس معرکہ میں فتح ہو جائے تو اپنے لشکر کو دشمن کے علاقے میں مزید پیش قدمی کے لیے روانہ کروں۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ523،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
حضرت عمرؓ کی تقریر کے بعد حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓکھڑے ہوئے اور تشہد کے بعد بولے کہ اے امیرالمومنینؓ! امورِ مملکت نے آپؓ کو دانشمند بنا دیا ہے اور تجارب نے آپؓ کو ہوشیار بنا دیا ہے۔ آپؓ جو چاہیں کیجیے اور جو آپؓ کی اپنی رائے ہے اس پر عمل کیجیے۔ ہم آپؓ کے ساتھ ہیں۔ آپؓ ہمیں حکم دیں، ہم آپؓ کی اطاعت کریں گے۔ ہمیں بلائیں، ہم آپؓ کی آوازپر لبیک کہیں گے۔ ہمیں بھیجیں، ہم روانہ ہو جائیں گے۔ آپؓ ہمیں ساتھ لے جانا چاہیں، ہم آپؓ کے ساتھ ہوں گے۔ آپؓ خود ہی اس امر کا فیصلہ کیجیے کیونکہ آپؓ باخبر اور تجربہ کار ہیں۔ طلحہ یہ کہہ کر بیٹھ گئے مگر حضرت عمرؓ مشورہ لینا چاہتے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: لوگو کچھ کہو کیونکہ آج کا موقع ایسا ہے جس کے نتائج دیرپا ہیں۔ اس پر حضرت عثمانؓ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے امیر المومنینؓ! میری رائے یہ ہے کہ آپؓ شام اور یمن میں یہ احکامات بھیج دیں کہ وہاں کی اسلامی افواج ایران کی طرف روانہ ہوں۔(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ523-524،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)اسی طرح بصرہ کی افواج کو احکام بھیج دیں کہ وہاں سے بھی فوجیں روانہ ہو جائیں اور آپؓ خود یہاں سے حجاز کی افواج کو لے کر کوفہ کی طرف روانہ ہوں۔(اخبار الطوال، وقعۃ نہاوند،صفحہ193،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)اس صورت میں وہ جو دشمن کی کثرت تعداد کے خطرے کا احساس آپؓ کو ہے وہ دُور ہو جائے گا۔ یہ موقع واقعی ایسا ہے جس کے نتائج دیرپا ہوں گے۔ اس لیے آپؓ کی اس میں خود اپنی رائے اور اپنے رفقائے کار کے ساتھ موجودگی ضروری ہے۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ524،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
یعنی خود جانا چاہیے فرنٹ لائن پہ۔ حضرت عثمانؓ کی یہ تجویز مجلس کے اکثر لوگوں کو پسند آئی اور مسلمان ہر طرف سے بولے کہ یہ ٹھیک ہے۔
(اخبار الطوال صفحہ193،وقعۃ نہاوند،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
اس کو بھی حضرت عمر ؓنے مانا نہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مزید مشورہ دو۔ پھر حضرت علی ؓکھڑے ہوگئے۔ ایک لمبی تقریر کی جس میں فرمایا امیر المومنینؓ! اگر آپؓ نے شام کی افواج کو وہاں سے ہٹ جانے کا حکم دیا تو وہاں رومی حکومت کا قبضہ ہو جائے گا اور اگر یمن سے اسلامی افواج ہٹ آئیں تو حبشہ کی حکومت وہاں قبضہ کر لے گی۔ اگر آپؓ خود یہاں سے روانہ ہوئے تو ملک کے گوشہ گوشہ سے مسلمان آپؓ کا نام سن کر آپؓ کی معیت کے لیے امڈ پڑیں گے اور جس طرح کےخطرے کے مقابلے کے لیے آپؓ جا رہے ہیں اس سے زیادہ خطرہ ملک خالی ہوجانے کی وجہ سے خود یہاں پیدا ہو جائے گا۔ اس کے بجائے حضرت علیؓ نے تجویز یہ دی کہ آپ بصرہ یہ حکم بھیجیں کہ کل فوج کے تین حصےکر دیے جائیں۔ ایک حصہ تو اسلامی آبادی میں مکان و اطراف کی حفاظت کے لیے چھوڑا جائے۔ ایک حصہ ان مفتوحہ علاقوں میں مقرر کر دیا جائے جن سے صلح ہو چکی ہے تا کہ جنگ کے وقت وہاں کے لوگ عہد شکنی کر کے بغاوت نہ کر بیٹھیں اور ایک حصہ مسلمانوں کے لیے،کوفہ والوں کی امداد کے لیے روانہ کر دیا جائے۔(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ524،523،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)اسی طرح کوفہ والوں کو لکھ دیں کہ ایک حصہ فوج کا وہیں مقیم رہے اور دو حصے دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوں۔
اور اسی طرح شام کی افواج کو حکم بھیج دیں کہ دو حصے فوج شام میں مقیم رہے اور ایک حصہ ایران روانہ کر دی جائے اور اس قسم کے احکام عمان اور ملک کے دوسروں علاقوں اور شہروں کے نام صادر کر دیے جائیں۔
(اخبار الطوال، وقعۃ نہاوند،صفحہ193دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
آپؓ کا خود محاذ جنگ پرجانا اس لیے مناسب نہیں کہ آپؓ کی پوزیشن تو اس لڑی کی سی ہے جس میں موتی پروئے ہوتے ہیں۔ اگر لڑی کھل جائے تو موتی بکھرجائیں گے اور پھر کبھی اکٹھے نہ ہوں گے اور پھر اگر ایرانیوں کو یہ معلوم ہوا کہ خود حاکمِ عرب محاذ جنگ پر آیا ہے تو وہ اپنی پوری طاقت صرف کریں گے اور اپنا پورا زور لگا کر مقابلہ کے لیے آئیں گے۔ اور یہ جو آپؓ نے دشمن کی افواج کی نقل و حرکت کا ذکر کیا ہے تو خدا تعالیٰ آپؓ کی نقل و حرکت کے مقابلہ میں دشمن کی نقل و حرکت کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور وہ یعنی اللہ تعالیٰ جس چیز کو ناپسند کرتا ہے اس کو بدل ڈالنے کی بہت قدرت رکھتا ہے۔ اور یہ جو آپؓ نے دشمن کی تعداد کی زیادتی کا ذکر کیا ہے تو ماضی میں ہماری روایات کثرتِ تعداد کے بل پر لڑائی کرنا نہیں بلکہ ہماری جنگ خدائی امداد کے بھروسے پر ہوتی ہے اور ہمارے معاملے میں فتح و شکست فوج کی کثرت و قلت پر نہیں۔ یہ تو خدا کا دین ہے جس کو خدا نے غالب کیا ہے اور اس کا لشکر ہے جس کی اس نے مدد کی اور ملائکہ کے ذریعہ ان کی وہ تائید کی کہ اس سے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے۔ ہم سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اللہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا اور اپنے لشکر کی مدد کرے گا۔
(تاریخ الطبری جلد 2، صفحہ523، دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ اگرمیں خود روانہ ہوا تو اِدھر مسلمان تمام اطراف و اکناف سے ٹوٹ پڑیں گے اور اُدھر خود ایرانی پورے زور سے اپنے ساتھیوں کی امداد کے لیے نکلیں گے اور یہ کہیں گے کہ عرب کا سب سے بڑا حاکم خود میدان جنگ میں نکلا ہے۔ اگر اس معرکے کو ہم نے جیت لیا تو گویا سارے عرب کو مار لیا۔ اس وجہ سے میرا جانا مناسب نہیں۔ یعنی کہ دشمن یہ کہے گا کہ اگر ہم نے جیت لیا تو سارے عرب پہ ہمارا قبضہ ہو گیا ۔ اس وجہ سے میرا جانا مناسب نہیں۔ آپ لوگ مشورہ دیں کہ کس شخص کو لشکر کا کمانڈر بنایا جائے مگر ایسے شخص کا نام لیا جائے جو عراق کی جنگوں میں شریک ہو کر تجربہ حاصل کر چکا ہو۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کو کہا کہ حضور خود ہی اہل عراق اور وہاں کے لشکر کے متعلق زیادہ علم رکھتے ہیں۔ وہ لوگ آپ کے پاس وفد بن کر آتے رہے ہیں۔ آپؓ کو انہیں پرکھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ524،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
حضرت عمر ؓکی تیز نگاہ نے حضرت نُعْمَان بن مُقَرِّنؓ کو اس ذمہ داری کے لیے منتخب کیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بزرگ صحابہ میں سے تھے۔
(اخبار الطوال ،وقعۃ نہاوند،صفحہ193دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت نعمانؓ مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے کہ حضرت عمرؓ تشریف لائے اور انہیں دیکھ کر ان کے پاس جا بیٹھے۔ نعمان نماز سے فارغ ہوئے تو آپؓ نے انہیں فرمایا کہ میں تمہیں ایک عہدے پر مامور کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت نعمانؓ بولے اگر کوئی فوجی عہدہ ہے تو میں حاضر ہوں لیکن اگر ٹیکس جمع کرنے کا کام ہے تو وہ مجھے پسند نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں فوجی عہدہ ہے۔
(فتوح البلدان صفحہ 183،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
لیکن جو بات حقائق سے زیادہ قریب لگتی ہے وہ طَبْرِیکی یہ روایت ہے۔ نِہَاوَنْد کے محاذ پر حضرت نعمان بن مُقَرِّنؓ کو مقرر کرنے کے بارے میں جو طبری میں لکھا ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ یہ ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ نِہَاوَنْد کے واقعات میں یہ بھی مذکور ہے کہ نعمان بن مُقَرِّنؓ کَسْکَرْ پر عامل مقرر تھے۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ سعد بن ابی وقاصؓ نے مجھے خراج کی وصولی پر لگایا ہوا ہے جبکہ مجھے جہاد پسند ہے اور اس کی خواہش و رغبت ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے سعد بن ابی وقاصؓ کو لکھا کہ نعمانؓ نے مجھے لکھا ہے کہ آپؓ نے اسے خراج کی وصولی پر لگایا ہوا ہے جبکہ اسے یہ کام ناپسند اور جہاد میں رغبت ہے۔ اس لیے انہیں نِہَاوَنْد میں اہم ترین محاذ پر بھیج دیں۔ الغرض یہ اہم کمان حضرت نعمان بن مُقَرِّنْؓ کے سپرد ہوئی اور وہ دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے جب وہ غالباً کوفہ میں تھے انہیں یہ خط لکھا۔ یہ خط بھی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ وہ مدینہ میں نہیں تھے بلکہ کوفہ میں تھے تو اس وقت یہ خط لکھا اور خط اس طرح شروع کیا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نعمان بن مُقَرِّنْ کے نام۔ سَلَامٌ عَلَیْکَ ۔ پھر تحریر فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کی تعریف کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اَمَّا بَعْدُ مجھے اطلاع ملی ہے کہ ایرانیوں کا ایک زبردست لشکر شہر نِہَاوَنْد میں تمہارے مقابلے کے لیے جمع ہوا ہے۔ میرا یہ خط جب تمہیں ملے تو خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کی تائید و نصرت کے ساتھ اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر روانہ ہو جاؤ مگر انہیں ایسے خشک علاقے میں نہ لے جانا جہاں چلنا مشکل ہو۔ ان کے حقوق ادا کرنے میں کمی نہ کرنا مبادا وہ ناشکرگزار بنیں اور نہ ہی کسی دلدل کے علاقے میں لے جانا کیونکہ ایک مسلمان مجھے ایک لاکھ دینار سے زیادہ محبوب ہے۔ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ
اس حکم کی تعمیل میں حضرت نعمانؓ دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ آپؓ کی معیت میں بعض ممتاز اور بہادر مسلمان مثلاً حُذَیْفَہ بن یَمَان، ابنِ عمر، جَرِیْربن عبدُاللّٰہ بَجَلّیِ، مُغِیرہبن شُعْبَہ، عَمرو بن مَعْدِیْکَرِبْ، طُلَیحہ بن خُوَیلَد اَسَدِی اور قَیس بن مَکشُوح مُراد بھی تھے۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ518،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
حضرت عمر ؓنے ہدایت کی تھی کہ اگر نعمان بن مُقَرِّنْ شہید ہو جائیں تو امیر، حُذَیْفَہ بن یَمان ہوں گے۔ ان کے بعد جریر بن عبداللہ بَجلی۔ ان کے بعد حضرت مُغِیرہ بن شُعبہ اور ان کی شہادت پر اَشْعَثْ بن قیس۔ عمرو بن مَعْدِیْکَرِبْ اور طُلَیحہ بن خُوَیلَد کے بارے میں نعمان کو حضرت عمر ؓنے یہ لکھا کہ عمرو بن مَعْدِیْکَرِبْ اور طُلَیحہ بن خُوَیلَد دونوں تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ دونوں عرب کے شہسوار ہیں۔ ان سے جنگی امور میں مشورہ لیتے رہنا مگر ان کو کسی کام میں افسر نہ بنانا۔
(اخبار الطوال، وقعۃ نہاوند، صفحہ194دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
بہرحال اسلامی لشکر روانہ ہوا۔ حضرت نُعمانؓ نے جاسوسوں کے ذریعہ معلوم کر لیا تھا کہ نِہَاوَنْد تک راستہ صاف ہے جہاں دشمن کا لشکر جمع تھا۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ525،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
قبل ازیں جو اطلاعات ملی تھیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ دشمن بہت بڑی تعداد میں جمع ہو رہا ہے۔ مؤرخین نے اس لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار اور ایک لاکھ بھی لکھی ہے۔
(فتوح البلدان صفحہ183،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
مگر بخاری کی جو روایت ہے اس کے مطابق یہ تعداد چالیس ہزار تھی۔
(صحیح بخاری کتاب الجزیہ و الموادعۃ باب الجزیہ و الموادعۃ مع اھل الذمہ والحرب3159)
یعنی جو پہلے ساٹھ ہزار یا لاکھ ہے یہ مبالغہ ہے۔ بخاری کے مطابق تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار تھی ۔ دشمن نے چاہا کہ کسی شخص کو گفتگو کے لیے بھیجا جائے۔ حضرت مُغِیرہ بن شعبہ تشریف لے گئے۔ ایرانیوں نے بڑی شان و شوکت سے مجلس منعقد کی۔ ایرانی سپہ سالار سر پر تاج پہنے سنہری تخت پر متمکن تھا۔ درباری ایسے ہتھیار لگائے بیٹھے تھے کہ دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔ مترجم موجود تھا۔ ایرانی سپہ سالار نے وہی پرانی کہانی دہرائی۔ اہل عرب کی زندگی کے ہر پہلو کے لحاظ سے رذیل حالت کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اپنے سرداروں کو جو میرے گرد بیٹھے ہیں اس لیے تم لوگوں کو ختم کردینے کا حکم نہیں دیتا کہ میں نہیں چاہتا کہ تمہارے گندے اجسام سے ان کے تیر ناپاک ہوں۔ (نعوذ باللہ)۔ اگر اب بھی تم واپس چلے جاؤ تو ہم تمہیں چھوڑ دیتے ہیں ورنہ پھر میدان جنگ میں تمہاری لاشیں نظر آئیں گی۔ دشمن کی ان مضحکہ خیز دھمکیوں سے کیا ہوتا تھا۔ حضرت مغیرہ ؓنے فرمایا کہ اب وہ زمانہ گیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے نقشہ ہی بدل دیا ہے۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ520،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
سفارت ناکام ہوئی بہرحال اور دونوں لشکر معرکہ آرائی کے لیے تیار ہوئے۔ اسلامی لشکر کے مقدمے پر نُعَیم بن مُقَرِّنؓ مقرر تھے۔ بازوؤں کی کمان حُذَیفَہ بن یَمان اور سُوَید بن مُقَرِّنْ کے ہاتھ میں تھی۔ مُجَرَّدَہ کے افسر قعقاع بن عمرو تھے۔ مجردہ گھڑ سواروں کی جو فرنٹ لائن کے گھڑ سواروں کا رسالہ ہے اس کو کہتے ہیں اور لشکر کا پچھلا حصہ مُجَاشِعکی سرکردگی میں تھا۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ525،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
جھڑپیں شروع ہو گئیں مگر میدان جنگ کی صورت حال مسلمانوں کے لیے سخت ضرررساں تھی کیونکہ دشمن خندقوں، قلعوں اور مکانوں کی وجہ سے محفوظ تھا۔ مسلمان کھلے میدان میں تھے۔ دشمن جب اپنے لیے مناسب دیکھتا اچانک باہر نکل کر حملہ کر دیتا اور پھر واپس اپنے محفوظ مقامات میں داخل ہو جاتا۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ526،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
اسلحہ کے لحاظ سے دشمن کی یہ حالت تھی کہ ایک راوی کا بیان ہے کہ میں نے انہیں ایک جگہ گزرتے دیکھا ایسے معلوم ہوتا تھا گویا لوہے کے پہاڑ ہیں۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ520،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
ان حالات کو دیکھ کر اسلامی لشکر کے سپہ سالار نعمان بن مُقَرِّنْ نے ایک مشورے کی مجلس منعقد کی جس میں لشکر کے تجربہ کار اور باتدبیر لوگوں کو بلوایا اور ان کو مخاطب ہو کر بولے۔ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دشمن اپنے قلعوں، خندقوں اور عمارتوں کی وجہ سے محفوظ بیٹھا ہوا ہے۔ جب اس کی مرضی ہوتی ہے باہر نکلتا ہے اور مسلمان اس وقت اس سے لڑائی نہیں کر سکتے جب تک خود اس کی مرضی باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی نہ ہو۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ526،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
ادھر دشمن کو امدادی کمک بھی مسلسل مل رہی ہے۔
(اخبار الطوال، وقعۃ نہاوند، صفحہ194دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
انہوں نے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان اس صورت حال سے کس مشکل میں مبتلا ہیں۔ اب کیا طریق اختیار کیا جائے کہ دیر کیے بغیر ہم دشمن کو کھلے میدان میں آ کر مقابلہ کے لیے مجبور کر دیں۔ سپہ سالار کی اس بات کو سن کر اس مجلس میں سب سے عمر رسیدہ شخص عَمرو بن ثُبَیّ بولے۔ وہ قلعوں میں محصور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دشمن قلعوں میں محصور ہے اور محاصرہ لمبا ہو رہا ہے اور یہ امر اسلامی لشکر کی نسبت دشمن پر زیادہ گراں اور تکلیف دہ ہے۔ اس لیے آپ اس طرح چلنے دیجیے اور محاصرہ لمبا کرتے چلے جائیں۔ ہاں ان میں جو لڑنے نکلتے ہیں ان سے مقابلہ جاری رکھا جائے مگر عَمرو بن ثُبَیّ کی یہ تجویز مجلس نے منظور نہ کی۔ اس کے بعد عمرو بن مَعدِیکَرِب نے کہا گھبرانے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ پوری طاقت سے آگے بڑھ کر دشمن پر حملہ کیا جائے مگر یہ تجویز بھی ردّ کر دی گئی۔ تجربہ کاروں نے یہ اعتراض کیا کہ آگے بڑھ کر حملہ کرنے کی صورت میں ہمیں انسانوں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑتا بلکہ دیواروں سے ٹکر لینی پڑتی ہے۔ یہ دیواریں ہمارے خلاف دشمن کو مدد دیتی ہیں۔ یعنی قلعہ میں بند ہیں۔ دشمن تو سامنے نہیں ہے۔ اس پر طُلَیحہ کھڑے ہوئے اور بولے میرے نزدیک ان دونوں صاحبوں کی رائے درست نہیں ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا رسالہ دشمن کی طرف بھیجا جائے جو قریب جا کر تیر اندازی کر کے کچھ لڑائی بھڑکانے کی صورت پیدا کرے۔ اس رسالے کے مقابلہ کے لیے دشمن باہر نکلے گا اور ہمارے رسالے کا مقابلہ کرے گا۔ اس صورت میں ہمارا رسالہ پیچھے ہٹنا شروع کر دے اور یہ ظاہر کرے گویا وہ شکست کھا کر بھاگ رہا ہے۔ امید ہے کہ دشمن فتح کی طمع میں باہر نکلے گا اور جب وہ باہر کھلے میدان میں آ جائے تو ہم اس سے اچھی طرح نمٹ لیں گے۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ526،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
حضرت نعمانؓ نے یہ تجویز منظور کر لی اور اسے حضرت قَعْقَاعؓ کے سپرد کیا کہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنائیں۔ انہوں نے طُلَیحہ کی تجویز پر عمل کیا اور بعینہٖ ویسا ہی ظہور میں آیا جو طُلَیحہ کا خیال تھا۔ قَعْقَاع آہستہ آہستہ شکست کھا کر ہٹتے چلے گئے اور دشمن کا لشکر فتح کے نشے میں بڑھتا چلا آیا حتی ٰکہ سب اپنے قلعوں سے باہر نکل آئے۔ صرف دروازوں پر مقرر کردہ پہرے دار، پہرہ دینے والے سپاہی اپنے محفوظ مقامات میں اندر رہ گئے۔ دشمن کی فوج اپنی مستحکم پوزیشنوں سے باہر آ کر بڑھتے بڑھتے اصل اسلامی لشکر سے اس قدر قریب آگئی کہ اس کے تیروں سے بعض مسلمان زخمی ہو گئے مگر حضرت نعمانؓ نے ابھی عام مقابلے کی اجازت نہ دی تھی۔ حضرت نعمانؓ عاشقِ رسول تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ اگر صبح جنگ شروع نہ ہو تو پھر زوال کے بعد لڑائی کا اقدام فرماتے جبکہ گرمی کی شدت نہ رہتی اور ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتیں۔ بعض مسلمان مقابلے کے لیے بےقرار تھے اور دشمن کے تیروں سے کچھ لوگوں کے زخمی ہو جانے سے یہ جوش اَور بھی بڑھ گیا تھا۔ وہ سردار لشکر کی خدمت میں جا کر اجازت مانگتے اور آپؓ کہتے کہ ذرا اَور انتظار کرو یعنی کمانڈر نے ان کو کہا کہ اَور انتظار کرو۔ حضرت مُغیرہ بن شعبہؓ بےقرار ہو کر بولے۔ میں ہوتا تو مقابلے کی اجازت دے دیتا۔ نُعمان نے جواب دیا ذرا دیر اَور صبر کرو۔ بےشک جب آپ امیر ہوتے تھے تو عمدہ انتظام کرتے تھے مگر آج بھی خدا ہمیں اور آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ جو چیز آپ جلدی کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں ہمیں اس کو تحمل سے کام لے کر حاصل کرنے کی امید ہے۔
جب دوپہر ڈھلنے کو تھی تو حضرت نعمان ؓگھوڑے پر سوار ہوئے اور سارے لشکر کا چکر لگایا اور ہر جھنڈے کے پاس کھڑے ہو کرنہایت پُرجوش تقریر کی۔(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ526-527،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)اور نہایت دردناک الفاظ میں اپنی شہادت کے لیے دعا کی جس کو سن کر لوگ رونے لگے۔ اس کے بعد آپ نے ہدایت کی کہ میں تین مرتبہ تکبیر کہوں گا اور ساتھ ہی جھنڈا ہلاؤں گا۔ پہلی مرتبہ ہر شخص مستعد ہو جائے۔ دوسری دفعہ ہتھیار تول لے یعنی ہتھیاروں کو تیار رکھے اور دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بالکل تیار ہو جائے اور تیسری مرتبہ تکبیر کہنے اور جھنڈا ہلانے کے ساتھ ہی میں دشمن کی صفوں پر جا پڑوں گا۔ تم میں سے ہر شخص اپنے مقابل کی صفوں پر حملہ کر دے۔ اس کے بعد دعا کی کہ اے خدا !اپنے دین کو عزت دے۔ اپنے بندوں کی نصرت فرما اور اس کے بدلے میں نعمان کو پہلا شہید ہونے کی توفیق عطا کر ۔ یعنی کمانڈر نے یہ دعا کی۔ حضرت نُعمانؓ نے تیسری بار تکبیر کہی تھی کہ مسلمان دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑے۔ راوی کہتا ہے کہ جوش کا یہ عالم تھا کہ کسی ایک کے متعلق بھی یہ تصورنہیں کیا جا سکتا کہ وہ مرے یا فتح حاصل کیے بغیر واپس جانے کا خیال بھی رکھتا ہو۔
نعمان جھنڈا لیے خود اس تیزی سے دشمن پر لپکے کہ دیکھنے والوں کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جھنڈا نہیں بلکہ کوئی عقاب جھپٹا مار رہا ہے۔ غرض مسلمان تلواریں لے کر یکجائی طور پر حملہ آور ہوئے مگر دشمن کی صفیں بھی اس ریلے کے سامنے جمی ہوئی تھیں۔ لوہے کے لوہے سے ٹکرانے سے سخت شور ہو رہا تھا۔ زمین پر خون بہنے کی وجہ سے مسلمان شہ سواروں کے گھوڑے پھسلنے لگے۔ حضرت نعمان جنگ میں زخمی ہو گئے تھے۔ آپؓ کا گھوڑا بھی پھسلا اور آپ زمین پر گِر پڑے۔ آپ اپنی سفید قبا اور ٹوپی کی وجہ سے نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔ آپ کے بھائی نَعیم بن مُقَرِّنؓ نے جب آپ کو گرتے دیکھا تو کمال ہوشیاری سے جھنڈا گرنے سے قبل ہی اٹھا لیا اور حضرت نعمانؓ کو کپڑے سے ڈھانک دیا اور جھنڈا لے کر حذیفہ بن یمان کے پاس آئے جو حضرت نعمانؓ کے جانشین تھے۔ حضرت حُذَیفہ نُعَیم بن مُقَرِّنْ کو لے کر اس مقام پر آ گئے جہاں نعمانؓ تھے اور اس جگہ جھنڈا بلند کر دیا گیا اور حضرت مغیرہؓ کے مشورہ کے مطابق لڑائی کا نتیجہ نکلنے تک حضرت نعمانؓ کی وفات کو مخفی رکھا گیا۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ527،521،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
اخبار الطوال میں لکھا ہے کہ حضرت نعمان بن مُقَرِّنْؓ جب زخمی ہو کر گرے تو ان کے بھائی انہیں اٹھا کر خیمہ میں لے گئے اور ان کا لباس خود پہن لیا اور ان کی تلوار لے کر ان کے گھوڑے پر سوار ہو گئے اور اکثر لوگوں کو یہی غلط فہمی رہی کہ یہ حضرت نعمان ہیں۔
(اخبار الطوال ،وقعۃ نہاوند،صفحہ195دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
مؤرخ طبری نے نہایت نازک مرحلے پر امیر کے حکم کی اطاعت کی عمدہ مثال لکھی ہے۔ حضرت نعمانؓ نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر نعمان بھی قتل ہو جائے تو کوئی شخص لڑائی چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ دشمن سے مقابلہ جاری رکھے۔ معقل کہتے ہیں کہ جب حضرت نعمانؓ گرے تو میں آپؓ کے پاس آیا پھر مجھے آپؓ کا حکم یاد آیا اور میں واپس چلا گیا۔ (تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ533،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)اور لڑائی شروع کر دی۔
بہرحال لڑائی دن بھر بڑے زور سے جاری رہی مگر رات ہوتے ہی دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور ایرانیوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ527-528،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
مَعْقِل کہتے ہیں کہ فتح کے بعد مَیں حضرت نعمانؓ کے پاس آیا۔ ان میں رمق باقی تھی۔ تھوڑی سی سانس لے رہے تھے۔ میں نے ان کا چہرہ اپنی چھاگل سے دھویا۔ آپؓ نے میرا نام پوچھا اور دریافت کیا کہ مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا آپؓ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت کی بشارت ہو۔ آپؓ نے فرمایا الحمد للہ عمرؓ کو اطلاع کر دو۔
(فتوح البلدان صفحہ183،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
حضرت عمرؓ نہایت شدت سے لڑائی کے نتیجہ کے منتظر تھے۔ جس رات لڑائی کی توقع تھی وہ رات حضرت عمرؓ نے نہایت بے چینی سے جاگ کر گزاری۔(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ528،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء) راوی کہتے ہیں کہ اس تکلیف سے دعا میں مصروف رہے کہ معلوم ہوتا کہ کوئی حاملہ عورت تکلیف میں ہے۔ قاصد فتح کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچا۔ حضرت عمرؓ نے الحمد للہ کہا اور نعمانؓ کی خیریت پوچھی۔ قاصد نے ان کی وفات کی خبر سنائی تو حضرت عمرؓ کو سخت صدمہ ہوا۔(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ521،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)اور سر پہ ہاتھ رکھ کر روتے رہے۔
(فتوح البلدان صفحہ 184،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
قاصد نے دوسرے شہداء کے نام سنائے اور کہا کہ امیر المومنینؓ! اَور بھی بہت سے مسلمان شہید ہوئے ہیں جنہیں آپؓ نہیں جانتے۔ حضرت عمرؓ روتے ہوئے بولے، عمر انہیں نہیں جانتا تو انہیں اس کا کوئی نقصان نہیں خدا تو انہیں جانتا ہے۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ521،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
گو مسلمانوں میں غیر معروف ہیں مگر خدا نے ان کو شہادت دے کر معزز کر دیا ہے۔ اللہ ان کو پہچانتا ہے۔ عمرؓ کے پہچاننے سے انہیں کیا غرض۔ معرکے کے بعد مسلمانوں نے ہَمَذَان تک دشمنوں کا تعاقب کیا۔ یہ دیکھ کر ایرانی سردار خُسْرَو شَنُوم نے ہَمَذَان اور دَسْتَبِیْ کے شہروں کی طرف سے اس ضمانت پر مصالحت کر لی کہ ان شہروں سے مسلمانوں پر حملہ نہیں ہوگا۔ اسلامی لشکر نے شہر نِہَاوَنْد پر قبضہ کر لیا۔
(تاریخ الطبری جلد 2،صفحہ528،دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء)
نِہَاوَنْد کی فتح اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت اہم تھی۔ اس کے بعد ایرانیوں کو ایک جگہ مجتمع ہوکر مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا اور مسلمان اس فتح کو فتح الفتوح کے نام سے یاد کرنے لگے۔
(فتوح البلدان صفحہ 184،دارالکتب العلمیۃ بیروت 2000ء)
ایران پر عام لشکر کشی کی تجویز بھی ہوئی۔ کس طرح ہوئی؟ اس بارہ میں لکھا ہے کہ گو اخلاقی اور قانونی نقطہ نظر سے مسلمان اس امر کے بالکل مجاز تھے کہ مملکت کی جارحانہ طاقت کو پوری طرح توڑ کر دم لیں کیونکہ دشمن بار بار حملہ کر رہا تھا۔ حضرت عمرؓ کا درد مند دل ہرمرحلے پر مزید خونریزی سے متنفر تھا لیکن حضرت عمرؓ کو یہ چیز پسند نہیں تھی اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سچے خادم کی قلبی خواہش تھی کہ ایرانی سلطنت سرحدی علاقوں پر ہی شکست کھا کر مزید فوجی کارروائیاں بند کر دے اور یہ جنگ و جدال کا سلسلہ بند ہو جائے۔ حضرت عمر ؓنے نہ صرف اس خواہش کا متعدّد مرتبہ اظہار کیا بلکہ ایران و عراق کی افواج کو خود بخود کسی پیش قدمی سے کلیةً منع کر دیا تھا مگر دشمن کی مزید فوجی کارروائیوں اور مفتوحہ علاقوں میں بار بار بغاوت کرا دینے کے سبب سے آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور محاذِ جنگ سے آمدہ اہل الرائے کے ایک وفد سے گفتگو کر کے آپؓ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مزید فوجی اقدام کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ سترہ ہجری کی بات ہے مگر اس کے باوجود بھی ایک لمبےعرصہ تک آپؓ نے افواج کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ مگر اب حالات جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے مزید صبر کی اجازت نہ دیتے تھے۔ حضرت عمر ؓنے دیکھ لیا تھا کہ یَزْدَجَرْد متواتر ہر سال فوج کو بھیج کر جنگ کی آگ بھڑکانے کا موجب بن رہا ہے۔ لوگوں نے بار بار آپؓ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ جب تک وہ اپنی سلطنت میں موجود ہے اس رویہ میں تبدیلی نہیں کرے گا اور اب نِہَاوَنْد کے معرکے نے اس رائے کو اَور بھی مضبوط کر دیا تھا۔ ان حالات سے مجبور ہو کر حضرت عمرؓ نے معرکہ نِہَاوَنْد اکیس ہجری کے بعد فوجی پیش قدمی کی اجازت دے دی تھی اور کُل ایران کی فتح کے لیے پلان (plan) بنا کر فوج کوفہ روانہ کی جو ان جنگی سرگرمیوں کے لیے چھاؤنی کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ایران کے مختلف علاقوں کے لیے مختلف سپہ سالار مقرر کیے اور مدینہ سے ان کے لیے خود جھنڈے بنوا کر بھجوائے۔ خُرَاسَان کا جھنڈا اَحْنَفْ بن قَیس کو، اِصْطَخْرکا جھنڈا عثمان بن ابو عاص کو، اَرْدَشِیْر اور سَابُور کا جھنڈا مُجَاشِع بن مسعود کو اور فَسَا اور دَارَا بَجِرْد کا سَارِیہ بن زُنَیم کو، سَجِسْتَان کا عاصِم بن عمرو کو مکران کا حَکم بن عَمرو کو بھیجا اور کَرْمَان کا جھنڈا سُہیل بن عَدِی کو دیا۔آذر بائیجان کی فتح کے لیے عُتْبَہبن فَرْقَ داور بکُیَربن عبداللہ کو جھنڈے بھیجے اور حکم دیا کہ ایک آذر بائیجان پر دائیں طرف حُلْوَانسے حملہ کرے اور دوسرا بائیں طرف موصل کی طرف سے حملہ آور ہو۔ اصفہان کی مہم کا جھنڈا عبداللہ بن عبداللہ کو عنایت ہوا۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ164تا166)
اصفہان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ اصفہان کی مہم عبداللہ بن عبداللہ کے سپرد ہوئی۔ وہ نِہَاوَنْد میں تھے کہ حضرت عمرؓ کا خط ملا کہ اصفہان کی طرف روانہ ہوں اور ہراول دستوں کا کمانڈر عبداللہ بن وَرْقَاء رِیَاحِی کو بنائیں۔ بازوؤں کی کمان عبداللہ بن وَرْقَاء اَسَدِی کو اورعِصْمَہ بن عبداللہ کے سپرد کریں۔ عبداللہ روانہ ہوئے۔ شہر کے مضافات میں اصفہان والوں کے ایک لشکر سے مقابلہ ہوا جو ایرانی سپہ سالار اُسْتَنْدَارکی سرکردگی میں تھا۔ دشمن کے ہراول کا افسر یعنی جو پہلا دستہ تھا اس کا افسر ایک تجربہ کار بوڑھا شَہْرَ بَرَازْ جَاذَوَیْہ تھا۔ اس نے اپنے دستوں کو لے کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ شدید جنگ ہوئی۔ جَازَوَیْہ نے مُبَارَز طلبی کی۔ عبداللہ بن وَرْقَاء نے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سخت لڑائی کے بعد دشمن شکست کھا کر بھاگ گیا اور سپہ سالار اُسْتَنْدَارْ نے عبداللہ بن عبداللہ سے مصالحت کر لی۔ اسلامی لشکر خاص اصفہان کی طرف بڑھا جوکہ جَیّکے نام سے موسوم تھا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ ایک روز شہر کا حاکم فَاذُوسْفَان باہر نکلا اور عبداللہ بن عبداللہ امیر اسلامی لشکر کو کہا کہ ہماری افواج کی لڑائی سے بہتر ہے کہ ہم تم آپس میں لڑیں جو اپنے حریف پر غالب ہو گیا وہ فاتح سمجھا جائے گا۔ عبداللہ نے یہ تجویز منظور کر لی اور کہا کہ پہلے تم حملہ کرو گے یا میں۔فَاذُوسْفَان نے پہلے حملہ کیا۔ عبداللہ اس کے سامنے جمے رہے اور دشمن کی ضرب سے صرف ان کے گھوڑے کی زین کٹ گئی۔ عبداللہ گھوڑے کی ننگی پشت پر جم کر بیٹھ گئے اور وار کرنے سے پہلے اس کو مخاطب کیا۔ اب ٹھہرے رہنا۔ فَاذُوسْفَان بولا کہ آپ کامل اور عقلمند اور بہادر انسان ہیں میں آپ سے مصالحت کر کے شہر آپ کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہوں چنانچہ صلح ہو گئی اور مسلمان شہر پر قابض ہو گئے۔ طبری سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فتح 21؍ ہجری میں ہوئی۔
(طبری۔ جلد نمبر 2۔ صفحہ531تا532)
مؤرخ بلاذری نے اس معرکے میں شریک ہونے والے اسلامی لشکر کی امارت پر عبداللہ بن عبداللہ کے بجائے عبداللہ بن بُدَیل بن وَرْقَاء خُزَاعِی کا نام لیا ہے۔
(فتوح البلدان صفحہ188)
مگر مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے عبداللہ بن وَرْقَاء اَسَدِی کو جو اس معرکے میں شریک تھے اور ایک بازو کے کمانڈر تھے عبداللہ بن بُدَیل بن وَرْقَاء سے مخلوط کر دیا ہے۔ حالانکہ عبداللہ بن بُدَیل، حضرت عمرؓ کے زمانے میں کم عمر تھے اور صِفِّین کی جنگ میں جب وہ قتل ہوئے تو ان کی عمر صرف چوبیس سال تھی۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ166تا168)
ہَمَذَان کی بغاوت اور دوبارہ فتح۔ نِہَاوَنْد کے بعد مسلمانوں نے ہَمَذَان بھی فتح کر لیا تھا تاہم ہَمَذَان والوں نے صلح کے معاہدے کو توڑ دیا اور آذربائیجان سے بھی فوجی مدد حاصل کر کے لشکر تیار کر لیا۔ حضرت عمرؓ نے نُعَیم بن مُقَرِّن کو بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ وہاں جانے کی ہدایت فرمائی۔ ایک سخت معرکے کے بعد مسلمانوں نے شہر فتح کر لیا۔
(ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ 431 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
حضرت عمرؓ کو اس معرکے کے نتیجہ کی خاص فکر تھی۔ قاصد فتح کی خوشخبری لایا۔ حضرت عمر ؓنے اس کے ذریعہ نُعیم بن مُقَرِّنْ کو حکم بھیجا کہ ہَمَذَان میں کسی کو اپنا قائمقام بنا کر خود رَے کی طرف بڑھیں اور وہاں جو لشکر ہے اس کو شکست دے کر رَے میں ہی قیام کریں کیونکہ اس شہر کو اس تمام علاقے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
(مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب صفحہ169)
بہرحال ابھی اَور دوسری جنگوں کا بھی ذکر ہے اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں جو فتوحات ہوئیں ان کا ذکر چل رہا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ یہ ذکر ہوگا۔
اس وقت میں بعض مرحومین کا بھی ذکر کروں گا اور جمعہ کی نماز کے بعد ان کا جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ ان میں جو پہلا ذکر ہے وہ محمد دیانتونوصاحب انڈونیشیا کا ہے جو 15؍ جولائی میں 46سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی اہلیہ نے لکھا کہ مرحوم ایک غیر احمدی خاندان میں پیدا ہوئے لیکن آپ کو بچپن سے مسجد جانے کا شوق تھا اور وہ دوسرے بچوں سے الگ تھلگ تھے۔ دیر دیر تک مسجد میں رہنا، اسلام کی تعلیم سیکھنا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا انہیں پسند تھا۔ کہتے تھے کہ یہ سب ان کے لیے حقیقی نعمت تھی تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے۔ گاؤں میں ان کا ایک دوست تھا جو احمدی تھا۔ جب یہ ہائی سکول میں پڑھتے تھے تب ان کے اس دوست سے ان کو جماعت کے بارے میں پتہ چلا۔ موصوف نے جماعت چی لیدوگ (Ciledug) اور چی ریبون میں بیعت کی۔ جب ان کے والد صاحب کو ان کی بیعت کا پتہ چلا تو انہیں بہت غصہ آیا اور گھر سے نکال دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا بیٹا گمراہ ہو گیا ہے۔ بہرحال گھر کا دروازہ بھی ان کے لیے نہیں کھولا جاتا تھا۔ ان کو باہر سونا پڑتا تھا۔ کچھ دیر یہ اسی طرح چلتا رہا پھر کچھ معاف بھی کر دیا، گھر بھی آنے لگ گئے۔ بہرحال 1997ء میں لوکل جماعت کے عہدیداران نے ان کو جامعہ جانے کی تجویز دی کیونکہ ان کے نزدیک وہ مبلغ بننے کے قابل تھے۔ ان کو جوانی سے ہی تبلیغ کا شوق تھا۔ بہرحال انہوں نے جامعہ میں داخلہ لیا اور 2002ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے۔ ان کی پہلی تقرری جماعت جے نے پونتوہ (Jeneponto) میں ہوئی۔ کیونکہ ان کو تبلیغ کا شوق تھا اس لیے داعیان کے ساتھ تبلیغ کے لیے گاؤں گاؤں جاتے تھے۔ اللہ کے فضل سے ایک گاؤں میں سینکڑوں بیعتیں کروانے کی بھی توفیق پائی اور جب مشن ہاؤس کی تعمیر شروع ہوئی تو آپ خود بھی کام کرتے تھے۔ اس وقت جماعت میں اس جگہ پہ کوئی مشن ہاؤس نہیں تھا۔ ان کی بیوی کہتی ہیں مجھے یاد ہے کہ ہم بہت ہی سادہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ اتنا سادہ تھا کہ گھر میں سامان بھی کوئی نہیں ہوتا تھا۔ گھر کا کُل سامان کیا تھا۔ صرف ایک کمبل تھا، ایک تکیہ تھا، ایک چٹائی تھی جس پہ سو جاتے تھے اور کھانا پکانے کے لیے جو برتن تھا اسی سے کام چلاتے تھے۔ ہر کام اسی سے لیتے۔ اسی سے کھانا پکاتے تھے اور اسی میں پانی وغیرہ رکھتے تھے۔ ایک دن کہتی ہیں کہ رئیس التبلیغ سیوطی عزیز صاحب اور صوبائی مبلغ سیف العیون صاحب ہمارے گھر آئے۔ گھر کی حالت دیکھ کر دونوں حیران ہو گئے۔ بہرحال اس کے بعد جماعت جےنے پونتوہ نے مشن ہاؤس بنانے کے لیے مرکز سے درخواست کی اور وہاں مشن ہاؤس کی تعمیر بھی ہو گئی۔ اس کے بعد مسجد بھی وہاں بن گئی۔ پہلے یہ لوگ مسلمانوں کی ایک مشترکہ مسجد تھی وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ پھر مخالفت کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنی بند ہو گئی۔ پھر ایک گھر میں نماز پڑھتے تھے اور مسجد بنانے میں بھی بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ مسجد بنانا چاہتے تھے لیکن مستریوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ گاؤں کا جو سردار تھا اس نے بھی دھمکی دی کہ نہیں بننے دوں گا۔ بہرحال ان تمام رکاوٹوں کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بڑے مضبوط ارادے کے ساتھ مسجد کی تعمیر کرواتے رہے اور اگر مزدور وغیرہ نہیں آتے تھے تو خدام، اطفال سے وقار عمل کرواتے تھے بلکہ غیر احمدی بچے بھی وقار عمل میں شامل ہو جاتے تھے جن سے اچھا تعلق تھا اور یوں یہ مسجد بن گئی۔ یہ کہتی ہیں جب جکارتہ میں ان کی تقرری ہوئی تو وہاں بھی بہت زیادہ مخالفت تھی لیکن وہاں سیلاب آیا تو غیر احمدی مخالف پناہ لینے کے لیے ہماری مسجد میں آنے لگ گئے اور کہتے ہیں دو سال لگاتار سیلاب آتا رہا اور یہ لوگ ہماری مسجد میں ہی پناہ لیتے رہے۔ ایک طرف مخالفت کرتے رہے پھر پناہ لینے کے لیے آتے رہے۔ پھر کچھ معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔ ان کے کارناموں میں سے ایک نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے انڈونیشیامیں ریڈیو اور انٹرنیٹ کے ذریعہ جماعت کا پیغام اور خلیفۂ وقت کے خطبات کا ترجمہ براہ راست پیش کرنے کا انتظام کروایا۔ اس وقت یہاں یوٹیوب کے ذریعہ خطبہ کا لائیو ترجمہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ بہرحال انہوں نے ساری زندگی بڑی محنت کی اور ایک مثالی مبلغ سلسلہ تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بچے شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ صاحبزادہ فرحان لطیف صاحب شکاگو امریکہ کا ہے کچھ عرصہ ہوا ان کی وفات ہوئی تھی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے پڑپوتے تھے۔ مرحوم شکاگو جماعت کے فعال رکن تھے۔ ہمہ وقت مدد اور خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ چہرے پر مسکراہٹ اور سلام کرنے میں پہل آپ کا نمایاں وصف تھا۔ مسجد میں کوئی بھی بڑا چھوٹا کام ہوتا اس کے لیے فوراً لبیک کہتے اور خدمت کے لیے ہمیشہ صف اول میں ہوتے تھے۔ شکاگو جماعت میں آڈیٹر کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں تین چھوٹے بچے اور بوڑھے والدین شامل ہیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر45سال تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ بچوں کو بھی جماعت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔
اگلا ذکر ملک مبشر احمد صاحب لاہور کا ہے۔ کافی عرصہ ہوا 21؍ نومبر کو ان کی وفات ہو گئی تھی لیکن جنازہ نہیں ادا کیا گیا تھا۔ ان کے بیٹے نے لکھا تھا کہ ان کا جنازہ پڑھ دیا جائے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور مفسر قرآن حضرت مولانا غلام فرید صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے تھے۔ داؤد خیل ضلع میانوالی میں امیر جماعت کے علاوہ حیدرآباد میں مختلف جماعتی عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔ قرآن کریم کی ڈکشنری کی تکمیل میں بھی ان کو کام کا موقع ملا جس کو خلیفة المسیح الرابع ؒکے ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے اپنے والد ملک غلام فرید صاحب کی وفات کے بعد چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر ترتیب دیا۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
ان سب کا جیسا کہ میں نے کہا نماز جنازہ نماز جمعہ کے بعد ادا کروں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل 10 ستمبر 2021ءصفحہ 5تا10)
٭…٭…٭