اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (قسط سوم)
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ختم نبوت کے نام پر خون بہانے کو تیار
چکوال (اگست 2020ء):پنجاب کے شہر چکوال میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے جس کا عنوان “قومی عہد” ہے۔ اس کے دیباچے میں قارئین سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ ملک کے دفاع میں کھڑے ہوجائیں اور یہ کہ وہ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں ۔
اس پمفلٹ میں راولپنڈی میں موجود احمدیوں کے24 کاروبار اور پاکستان بھر میں قائم احمدیوں کی ملکیت 60 کاروباروں کے پتے درج ہیں۔ علاوہ ازیں، قارئین کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر انہیں اس کے علاوہ بھی کسی اور احمدی دکان یا کاروبار کا علم ہے تو وہ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں اور یہ کہ پڑھنے والے اس پمفلٹ کی زیادہ سے زیادہ فوٹو کاپیاں کروا کر شیئر کریں۔
اس مختصر سے پمفلٹ میں ایک شعر بھی درج ہے
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
عید الاضحی کے موقع پر متعدد احمدیوں کو جانوروں کی قربانی میں مشکلات کا سامنا رہا
گذشتہ سال کی طرح اس برس بھی مخالفین نے احمدیوں کو عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کی قربانی کی وجہ سے ہراساں کیا۔قبل ازیں ہم نے پیر محل میں عیدِ قرباں کے موقع پر احمدیوں کے خلا ف پولیس مقدمہ کا ذکر کیا ہے، ان سطور میں اب ہم پاکستان کے مختلف علاقوں میں احمدیوں کو پیش آنے والے مسائل کا ذکر کریں گے۔
٭…ڈسکہ اور ضلع سیالکوٹ میں دیگر مقامات پر مخالفین نے احمدیوں کو جانور قربان کرنے سے روکنے کے لیے پولیس کے پاس شکایت درج کرائی کیونکہ بقول شکایت کنندگان کے احمدی’ غیر مسلم‘ ہیں۔ اس پر پولیس نے جماعتِ احمدیہ کے مقامی اراکین سے وضاحت طلب کرلی۔
٭…عید الاضحی والے دن قصور کے رہائشی ایک احمدی کا بیٹا قربانی کا گوشت اپنے دوست کے ہمراہ گھر لے کر آرہا تھا کہ راستے میں ایک مقامی مولوی نے انہیں روک لیا۔ دونوں لڑکوں نے قریب ہی ایک اَور احمدی گھرانے میں پناہ لی۔ مُلّا تھوڑی دیر تک گھر کے باہر کھڑا بلند آواز سے چلّاتا رہا۔ دونوں نوجوان صورت حال بہتر ہونے تک گھر کے اندر محصور رہے اور گوشت کو بعد ازاں کسی اور ذریعے سے گھر پہنچایا گیا۔
٭…سمن آباد ، لاہور کا ایک احمدی فہیم احمد ہر سال بقرعید کے موقع پر جانوروں کی قربانی کرتا ہے۔ اس سال فہیم احمد کے کچھ غیر احمدی دوستوں نے بھی اپنے جانور اس کے گھر بھجوائے تا کہ قربانی کی رسم ایک جگہ ہی ادا کی جاسکے۔ 31؍جولائی 2020ء کو قریباًآدھی رات کے قریب مولوی فہیم احمد کے گھر کے باہر جمع ہو کر نعرے بازی کرنے لگے۔ فہیم احمد نے خود جانے کی بجائے اپنے غیر احمدی بیٹے اور بھتیجے کو باہر بھیجا۔ علاقے کا ایس ایچ او اور ڈی ایس پی پولیس بھی موقع پر آگئے۔ فہیم احمد کے بیٹے نے انہیں بتایا کہ جانور کی قربانی کرنا ان کا بنیادی مذہبی حق ہے اور فہیم احمد کا اس گوشت میں صرف ایک حصّہ ہے۔ پولیس نے یہ بیان ان سے تحریری طور پر لینے کے بعد ہدایت کی کہ انہیں اس گوشت کاصرف ایک حصہ اپنے پاس رکھنا چاہیے اور باقی سب کسی مدرسے یا ادارے کو دے دینا چاہیے۔چنانچہ انہوں نے فی الفور ایک ادارے سے رابطہ کیا اور پولیس کی نگرانی میں رسید لے کر جانور ادارے کے حوالے کر دیے۔یاد رہے کہ فہیم احمد صاحب اپنے خاندان میں اکیلے احمدی ہیں۔
٭…عید الاضحی کے موقع پر معاندنین کی شرارت سے بچنے کی غرض سے جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی ہیڈکوارٹر ربوہ میں پولیس کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اضافی نفری تعینات کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ چنانچہ پولیس نے عید کے موقع پر ربوہ شہر میں اضافی نفری تعینات کی۔
٭…ضلع گوجرانوالہ کے علاقوں ترگڑی، کوٹ مرزا جان، اور عامر پارک میں مخالفین نے انتظامیہ سے احمدیوں کے جانوروں کی قربانی کے حوالے سے شکایت کی تھی۔چنانچہ پولیس نے احمدیوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جس مقام پر فساد کا اندیشہ ہو وہاں قربانی سے اجتناب کیا جائے۔
٭…اسی طرح کے دیگر مسائل دیگر مقامات پر احمدیوں کو پیش آئے جن میں سے اکثر کی رپورٹ احمدیہ مرکز تک نہیں پہنچ پاتی یا تاخیر سے پہنچتی ہے۔
لاہور میں احمدیوں کا سوشل بائیکاٹ عروج پر
سبزہ زار، ضلع لاہور (اگست 2020ء):ایک دکاندار نے تحریک لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے شائع کیا جانے والا بینر اپنی دکان پر آویزاں کیا جس پر واضح الفاظ میں ’احمدی کافر ہیں ‘لکھا ہوا تھا۔
اس دکان کے قریب تین احمدی خاندان رہائش پذیر ہیں اور جب دکاندارکو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے احمدیوں کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی اور اپنے دوست احباب کو احمدیوں کے بائیکاٹ کی ترغیب دی۔ چنانچہ ایک دوست نے احمدیوں کے ساتھ اپنے تعلقات بالکل ختم کر لیے۔ علاقے کے واٹس ایپ گروپ سے بھی تمام احمدیوں کو نکال دیا گیا۔
احمدیوں کو کہا گیا کہ جب تک وہ مسلمان نہیں ہوں گے، ان کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھا جائے گا۔ایک احمدی نوجوان کے دوست نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی جس پر احمدی نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ مذہبی معاملات پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اگر کوئی غیر احمدی انہیں کافر سمجھتا ہے، تو بے شک وہ رائے رکھ سکتا ہے۔
یہ دکاندار ہر جمعرات کو مدرسہ کے طالب علموں کو کھانے پر بلاتا ہے جس کے بعد یہ سب تحریک لبیک کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں، لاہور کی دو مرکزی شاہراہوں پر احمدیوں کے خلاف نفرت پر مبنی نعرے دیواروں پر آویزاں کیے گئے۔ جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف انتہائی گستاخانہ اور حقارت آمیز فقروں کا استعمال کیا گیا۔
شکایت کے باجود انتظامیہ احمدیوں کے خلا ف اس قدر نفرت اور تحقیر آمیز تحریروں پر ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
احمدیوں کو دھمکیاں
اوکاڑہ، پنجاب(اگست 2020ء):ایک احمدی شیخ خالد محمود صاحب کی اوکاڑہ صدر بازار میں دکان ہے۔17؍ اگست 2020ء کو ان کے غیر احمدی ملازم نے انہیں بتایا کہ ایک مقامی مولوی نے اسے دھمکایا کہ وہ مرزائی کی دکان پر نوکری چھوڑ دے ورنہ اسے بھی مالک کے ساتھ ہی مار دیا جائے گا۔ ملازم نے مولوی کو جواب دیا کہ وہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔
اس پر مولوی نے کہا کہ تجھے اور تیرے (احمدی) مالک کو تھوڑے دنوں میں پتہ چل جائے گا۔
اوکاڑہ ہی میں ایک اور احمدی معظم سعید بٹ صاحب کا آئس کریم ڈسٹری بیوشن کا کاروبار ہے۔وہ اپنے علاقے میں ایک حجام کے پاس بال کٹوانے گئے تو حجام نے انہیں بتایا کہ دکان کے مالک نے انہیں کہا ہے کہ وہ معظم صاحب کو دکان میں داخل نہ ہونے دیں ورنہ ان سے بھی قادیانیوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔
ضلع گجرات میں احمدیوں کو تدفین میں مشکلا ت کا سامنا
دیونا ماجرا ضلع گجرات (8؍اگست 2020ء):اس علاقے میں گذشتہ کئی دہائیوں سے احمدیوں اور اہل سنت کا ایک مشترکہ قبرستان ہے۔ایک احمدی بیوہ صغریٰ بی بی زوجہ محمد اشرف کا انتقال 8؍اگست 2020ء کو ہوا۔ پہلے کی طرح قبرستان میں تدفین کے انتظامات کیے گئے تھے۔ بعض غیراحمدیوں نے اعتراض کرتے ہوئے پولیس کو شکایت کردی۔ پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اس تدفین کے بعد اس قبرستان میں کسی اور احمدی کو دفنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔چنانچہ ایک احمدی بھائی نے اپنی زمین کا ایک حصہ احمدیہ قبرستان کے لیے ہبہ کردیا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭