مسلمانوں کو اِس وقت ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے اندرونی اور بیرونی حالتیں دونوں خوفناک ہیں
جب منکروں کی شوخی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے ایک عذاب کا نشان زمین پر دکھلایا۔جیسا کہ ابتدا سے نبیوں کی کتابوں میں لکھا گیا تھا۔اور وہ عذاب کا نشان طاعون ہے جو چند سال سے اس ملک کوکھا رہی ہے اور کوئی انسانی تدبیر اس کے آگے چل نہیں سکتی۔ اِس طاعون کی خبر قرآن شریف میں صریح لفظوں میں موجود ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَا عَذَابًا شَدِیۡدًا(بنی اسرائیل:59)
یعنی قیامت سے کچھ دن پہلے بہت سخت مری پڑے گی اور اس سے بعض دیہات تو بالکل نابود ہو جائیں گے اور بعض ایک حد تک عذاب اُٹھا کر بچ رہیں گے اورایسا ہی ایک دوسری آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب قرب قیامت ہو گا ہم زمین میں سے ایک کیڑا نکالیں گے جو لوگوں کو کاٹے گا۔ اس لئے کہ انہوں نے ہمارے نشانوں کو قبول نہیں کیا۔ یہ دونوں آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور یہ صریح طور پر طاعون کی نسبت پیشگوئی ہے۔ کیونکہ طاعون بھی ایک کیڑا ہے اگرچہ پہلے طبیبوں نے اس کیڑے پر اطلاع نہیں پائی لیکن خدا جو عالم الغیب ہے وہ جانتا تھا کہ طاعون کی جڑھ اصل میں کیڑا ہی ہے جو زمین میں سے نکلتا ہے اِس لئے اس کا نام دآبّۃ الارض رکھا یعنی زمین کا کیڑا۔ غرض جب نشان عذاب ظاہر ہوااور ہزاروں جانیں پنجاب میں تلف ہو گئیں اور اس ملک میں ایک ہولناک زلزلہ پڑا تب بعض لوگوں کو ہوش آئی اور چند عرصہ میں دو لاکھ کے قریب لوگوں نے بیعت کر لی اور ابھی زور سے بیعت ہو رہی ہے کیونکہ طاعون نے ابھی اپنا حملہ نہیں چھوڑا اور چونکہ وہ بطور نشان کے ہے اس لئے جب تک اکثر لوگ اپنے اندر کچھ تبدیلی پیدا نہیں کریں گے تب تک اُمید نہیں کہ یہ مرض اس ملک سے دُور ہو سکے۔ غرض یہ سرزمین نوحؑ کے زمانہ کی سرزمین سے بہت مشابہ ہے کہ آسمان کے نشانوں کو دیکھ کر تو کوئی ایمان نہ لایا اور عذاب کے نشان کو دیکھ کر ہزاروں بیعت میں داخل ہوئے اور پہلے نبیوں نے بھی اس نشان طاعون کا ذکر کیا ہے۔ انجیل میں بھی مسیح موعود کے وقت میں مری پڑنے کا ذکر ہے اور لڑائیوں کا بھی ذکر ہے جو اَب ہو رہی ہیں۔
پس اے مسلمانو! تو بہ کرو۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر سال تمہارے عزیزوں کو یہ طاعون تم سے جُدا کر رہی ہے۔ خدا کی طرف جھکو تا وہ بھی تمہاری طرف جھکے اور ابھی معلوم نہیں کہ کہاں تک طاعون کا دَور ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ میرے دعوے کی نسبت اگر شبہ ہو اور حق جوئی بھی ہو تو اس شبہ کا دُور ہونا بہت سہل ہے کیونکہ ہر ایک نبی کی سچائی تین طریقوں سے پہچانی جاتی ہے۔
اوّل عقل سے۔یعنی یہ دیکھنا چاہئے کہ جس وقت وہ نبی یا رسول آیا ہے عقلِ سلیم گواہی دیتی ہے یا نہیں کہ اس وقت اُس کے آنے کی ضرورت بھی تھی یا نہیں اور انسانوں کی حالت موجودہ چاہتی تھی یا نہیں کہ ایسے وقت میں کوئی مصلح پیدا ہو؟
دوسرے پہلے نبیوں کی پیشگوئی۔ یعنی دیکھنا چاہئے کہ پہلے کسی نبی نے اُس کے حق میں یا اُس کے زمانہ میں کسی کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی کی ہے یا نہیں؟
تیسرے نصرتِ الٰہی اور تائیدِ آسمانی ۔یعنی دیکھنا چاہئے کہ اس کے شاملِ حال کوئی تائید آسمانی بھی ہے یا نہیں؟
یہ تین علامتیں سچے مامور من اللہ کی شناخت کے لئے قدیم سے مقرر ہیں۔ اب اے دوستو! خدا نے تم پر رحم کر کے یہ تینوں علامتیں میری تصدیق کے لئے ایک ہی جگہ جمع کر دی ہیں۔ اب چاہو تم قبول کرو یا نہ کرو۔ اگر عقل کی رُو سے نظر کرو تو عقلِ سلیم فریاد کر رہی ہے اور رو رہی ہے کہ مسلمانوں کو اِس وقت ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے اندرونی اور بیرونی حالتیں دونوں خوفناک ہیں اور مسلمان گویا ایک گڑھے کے قریب کھڑے ہیں یا ایک تندسیل کی زد پر آپڑے ہیں۔ اگر پہلی پیشگوئیوں کو تلاش کرو تو دانیال نبی نے بھی میری نسبت اور میرے اِس زمانہ کی نسبت پیشگوئی کی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا ہے کہ اسی اُمت میں سے مسیح موعود پیدا ہو گا۔ اگر کسی کو معلوم نہ ہو تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو دیکھ لے اور صدی کے سر پر مجدد آنے کی پیشگوئی بھی پڑھ لے اور اگر میری نسبت نصرت الٰہی کو تلاش کرنا چاہے تو یاد رہے کہ اب تک ہزار ہا نشان ظاہر ہوچکے ہیں۔
منجملہ ان کے وہ نشان ہے جو آج سے چوبیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور اُس وقت لکھا گیا جبکہ ایک فردِ بشر بھی مجھ سے تعلق بیعت نہیں رکھتا تھا اور نہ میرے پاس سفر کر کے کوئی آتا تھا اور وہ نشان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
یَأتِیْکَ مَنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ یَأتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔
یعنی وہ وقت آتا ہے کہ مالی تائیدیں ہر ایک طرف سے تجھے پہنچیں گی اور ہزار ہا مخلوق تیرے پاس آئے گی اور پھر فرماتا ہے۔
وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَ لَا تسئم مِن النَّاسِ۔
یعنی اس قدر مخلوق آئے گی کہ تو اُن کی کثرت سے حیران ہو جائے گا۔ پس چاہئے کہ تو اُن سے بداخلاقی نہ کرے اور نہ ان کی ملاقاتوں سے تھکے۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ240تا 242)