امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی (طلبہ سکول) کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 21؍اگست 2021ء کو ممبران مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو سالانہ اجتماع 2021ء کے موقع پر آن لائن ملاقات سے نوازا۔
حضور انور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ 1500سے زائدممبران مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے FSV سٹیڈیم Frankfurt سے آن لائن شرکت کی۔ Covid-19کی وجہ سے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا اجتماع دو سال کے بعد منعقد ہورہا تھا۔
اس تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ممبران مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے چند سوالات کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
حاضرین مجلس میں سے ایک خادم نے حضور انور سے سوال پوچھا کہ کیا بطور خلیفۃ المسیح آپ کو اپنی مصروفیات مشکل لگتی ہیں۔
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ظاہر ہے کام جو ہے اگر صحیح طرح کرنا ہو تو کام تو مشکل ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو آسان کر دیتا ہے اور کام ہو جاتا ہے۔ تقریباً روز کا کام روز مَیں نکال ہی لیتا ہوں۔ باقی پھر بھی فکر یہ رہتی ہے کہ جو حق ہے کام کرنے کا وہ ادا ہو جائے۔ اگر نہیں ادا ہوا تو کہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نہ ہو تو اس لحاظ سے مشکل ہوتی ہے۔ باقی تو ہر کام اگر سنجیدگی سے آدمی نے کرنا ہے تو مشکل ہی ہوتا ہے، اس کو محنت کرنی پڑتی ہے۔
ایک خادم نے حضورِ انور سے پوچھا کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے بہت سارے جماعتی پروگرام منعقد نہیں ہوسکے۔ اب دو سال کے بعد جلسہ سالانہ برطانیہ منعقد ہوا، اس موقع پر حضور انور کے کیا جذبات تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اچھا محسوس کیا جلسہ سالانہ ہو گیا۔ الحمد للہ پڑھا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے چاہے چھوٹے پیمانے پہ سہی لیکن توفیق دی۔ لیکن یہ ہے کہ آن لائن اس جلسہ کو جو دنیا نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے جماعتوں میں مختلف جگہوں پر اکٹھے ہوکے،جمع ہو کے بھی سنا اور دوسرے گھروں میں بھی بیٹھ کے سنا اور گھروں سے مجھے لوگوں نے لکھا کہ ہم نے تو گھروں میں بھی اکٹھے ہو کے سنا اور وہی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لنگر کا آلو گوشت بنانے کی کوشش کی، لنگر کی دال بنانے کی کوشش کی۔ جماعتی طور پر تو ویسے ہی ہو رہا تھا انتظام تو اس میں بھی جو میری رپورٹس ہیں اس کے مطابق تو لاکھوں لوگوں نے جلسہ سن لیا۔ جو اکٹھے ایک جگہ جمع ہو کے مختلف جماعتوں نے سنا وہ بھی لاکھ سے زیادہ ہی ہوں گے۔ تو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس کووڈ کے بعد ایک بریک تھرو (breakthrough)کیا اور آئندہ انشاء اللہ رستے کھل گئے۔ یہ جو خیال تھا کہ اب جلسے پتہ نہیں کب ہوں گے کب نہیں ہوں گے اور جماعت کے لوگوں میں مایوسی کی ایک کیفیت، ایک یاس کی کیفیت طاری ہوگئی تھی وہ دور ہو گئی اور وہ جب دور ہو گئی تو ظاہر ہے اس سے مجھے خوشی ہونی تھی۔ اور میرا خیال ہے تم لوگ بھی خوش ہوگئے ہو گے۔
ایک خادم نے پوچھا کہ افغانستان کی جنگ کے بعد دنیا پہ کیا اثر پڑے گا۔
حضور انور نے فرمایا کہ افغانستان میں یہ جنگ تو پچھلے سو سال سے لڑی جا رہی ہے۔ اس طرح ہی ہے، فساد فتنے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔یہ تو صورت حال افغانستان کی اس وقت سے چل رہی ہے جب سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ عبداللطیفؓ کی شہادت کے بعد فرمایا تھا کہ تُو امن میں نہیں رہے گی سرزمین کابل۔ تو امن تو برباد ہوگیا ان کا اور یہ جو بے امنی کی کیفیت ہے وہ چل رہی ہے اور اب بھی طالبان آگئے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کس طرح حکومت چلاتے ہیں اور کتنی دیر باہر کی حکومتیں ان کے ساتھ چل سکتی ہیں۔ دنیا میں آجکل کوئی بھی حکومت جب تک ان کی انٹرنیشنل برادری کے اندر شامل نہ ہو جائے وہ چل نہیں سکتی۔ آپس میں اتنا رابطہ ہو چکا ہے ملکوں کا اور ہر ایک ملک دوسرے پہ dependent ہے، تجارت ہے۔ تو یہ چیزیں جو ہیں بہرحال طالبان کو بھی realise،کرنی پڑیں گی۔ اگر تو یہ شرافت سے حکومت چلائیں گے تو دنیا کے ساتھ کچھ دیر چلتے رہیں گے لیکن جو ان کی شدت پسندی کی سوچ ہے اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد وہاں دوبارہ فساد پیدا ہوں گے اور ان لوگوں میں سے خود ہی لوگ اٹھیں گے بلکہ اب بھی جس طرح طالبان نے آتے ہی افغانستان کے جھنڈے کو نیچے گرا کے اپنا طالبان کا جھنڈا لہرا دیا یہ کوئی ملک فتح تونہیں کیا تھا کیونکہ افغانستان کا جھنڈا تو رہنا چاہیے تھا اس پہ لوگوں نے reactکیا اور جلوس بھی نکالے اور اس کے خلاف افغانستان کا جھنڈا بھی لہراتے رہے۔ اس کے نتیجے میں یہی خبریں ہیں کہ طالبان نے ان پہ فائرنگ بھی کی، کچھ لوگ مرے بھی۔ تو فساد اور فتنہ تو ابھی بھی پڑا ہوا ہے۔ دنیا پہ اس کا کیا اثر ہونا ہے ہاں ملک کے اوپر یہ اثر ہے کہ وہاں فتنہ و فساد پہلے سے بڑھ جائے گا۔ اگر یہ طالبان اپنی پالیسی کو change کر کے امن اور صلح اور صفائی کی پالیسی پہ عمل نہ کریں گے تو۔ باقی دنیا والی قومیں دیکھیں گی اگر دنیا کو یہ محسوس ہوا کہ یہ دنیا کے لیے خطرہ ہے تو پھر دوبارہ وہاں کوئی نہ کوئی حکومت آئے گی اور قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ پہلے رشیا تھا، رشیا نکلا تو امریکہ نے قبضہ کر لیا۔ اب امریکہ نکلا ہے تو چائنا شاید اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے وہاں دخل اندازی کرے۔ پھر اور بعض ملک آئیں گے وہ بھی دخل اندازی کریں گے تو اس طرح اس ریجن کی importance کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا ہوگی کہ افغانستان پہ کسی کا قبضہ رہے لیکن یہ سب depend کرتا ہے کہ جو طالبان ہیں وہ کس طرح behave کرتے ہیں۔ تو ابھی آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے ،دو چار مہینے گزرنے دو تو پتہ لگ جائے گا، ساری صورتحال واضح ہو جائے گی۔
پھر ایک خادم نے عرض کی کہ کچھ سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا سے انسانوں کی نفسیات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ حضور انور کا اس بارہ میں کیا نظریہ ہے اور اس سے حضور کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے۔
اس سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ میری زندگی میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سائنٹسٹ اس لیے کہتے ہیں کہ جو لوگ دنیا دار ہیں، دنیا داری کی سوچ رکھنے والے جن کا کلبوں میں جائے بغیر گزارہ نہیں ہے، جن کا اکٹھے بیٹھ کے شراب پئے بغیر گزارہ نہیں ہے، جن کا ہاہو کیے بغیر، ناچ گانے کیے بغیر گزارہ نہیں ہے، ان پہ جب پابندیاں لگی ہیں تو وہ پریشان ہوگئے ہیں۔ ویسے بھی جب کوئی بھی بیماری آتی ہے اور جب اتنے زیادہ وسیع پیمانے پر پھیل جاتی ہے، pandemic ہو جاتی ہے اور ساری دنیا اس میں involve ہو جاتی ہے ایک نفسیاتی اثر یہ پڑتا ہے کہ پتہ نہیں ہم بچیں گے کہ نہیں بچیں گے۔ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور جو احتیاطی تدابیر اللہ تعالیٰ نے کہی ہوئی ہیں ان کو اختیار کرنا چاہیے، جو میسر علاج ہیں وہ کرنے چاہئیں تو پھر دنیا کی بعض چیزیں نہ ملنے کی وجہ سے، بعض activities نہ ہونے کی وجہ سے یا روٹین کے تبدیل ہونے کی وجہ سے ایک معمولی پریشانی تو ہوتی ہے لیکن اتنے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ حالات جلد بدلے اور دنیا والے اللہ تعالیٰ کی طرف اگر رجوع کریں تو یہ جو ڈپریشن والی بیماری ہے جو اگر کسی کو ہے اس pandemic کی وجہ سے وہ بھی دور ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے۔ اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب۔ کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوںکو اطمینان ملتا ہے تو اس میں زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن دنیا دار اس طرف رجوع نہیں کرتے اس لیے وہ زیادہ متاثر ہوتے جاتے ہیں۔
باقی جہاں تک میری روٹین کا سوال ہے، سوائے یہ کہ ملاقاتیں بند ہو گئیں جو آمنے سامنے ہوا کرتی تھیں، اس کے علاوہ تو میری روٹین میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ مجھے تو صبح سے لے کر شام تک کام کے بعد فرصت ہی نہیں ملتی۔ مجھے پتہ ہی نہیں لگتا pandemic باہر پھیلا بھی ہوا ہے کہ نہیں۔ اور وہ جو تھوڑی بہت کمی تھی ملاقاتوں کی وہ اس طرح تم لوگوں سے ورچوئل ملاقاتوں سے میں کر کے پوری کر لیتا ہوں۔ کم ازکم ہفتہ میں دو دن تو اس طرح گذر جاتے ہیں۔ باقی مصروفیت ہوتی ہے پھر دفتری ملاقاتیں بھی چل رہی ہوتی ہیں میری۔ باقی خط و کتابت بھی چل رہی ہوتی ہے ڈاک بھی چل رہی ہوتی ہے۔ یہ سارا سسٹم چل رہا ہے اللہ کے فضل سے۔ جماعت احمدیہ اتنی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس کے کاموں کو دیکھنا، نگرانی کرنا وقت کا پتہ ہی نہیں لگتا کس طرح گزر گیا بلکہ وقت تو تھوڑا لگتا ہے اور کام زیادہ لگتا ہے۔
ایک خادم نے سوال کیاکہ ان دنوں کورونا کی وجہ سے جو مشکلات چل رہی ہیں جیسے گھروں میں لڑائی جھگڑے وغیرہ ان کا کیا حل ہو سکتا ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ اس کورونا کی وبا میں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا چاہیے ناں۔ اگر یہ وبا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے توتب بھی آپس میں محبت پیار قائم ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے معافی اور توبہ مانگنی چاہیے، آپس میں صلح صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس ابتلا کو ہمارے سے دور کر دے، وبا کو دور کر دے اور اگر یہ کوئی امتحان ہے تو تب بھی اللہ سے دعا کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں اس امتحان میں کامیاب کر دے اور اس میں آپس میں محبت اور پیار پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو ہے حقوق العباد کی طرف بہت توجہ دلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنا حق جو ہے وہ معاف کردیتا ہے، چھوڑ دیتا ہے لیکن بندوںکا حق اگر تم ادا نہیں کرتے تو وہ معاف نہیں کرتا۔ اگر خاوند بیوی کا حق ادا نہیںکر رہا اور لڑائیاں بلا وجہ کر رہا ہے، ابھی میں نے تقریر کی ہے لجنہ کے جلسہ پہ، تو وہ گناہگار ہے۔ اگر بیوی خاوند کا حق ادانہ کرے، بلا وجہ لڑائیاں کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو وہ بھی حق ادا نہیں کر رہی۔ اگر بہن بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں تو وہ بھی حق ادا نہیں کر رہے۔ اگر باپ بیٹوں بیٹیوں کو بچوں کے ساتھ صحیح سلوک نہیںکر رہا تو وہ بھی حق ادا نہیں کر رہا۔ اگر ماں چڑ چڑی ہو گئی ہے اور بچوں کو تنگ کر رہی ہے تو وہ بھی۔ یعنی ایسے حالات میں تو سب کو ایک ایسی طاقت بن جانا چاہیے جو اکٹھی ہو۔ تو پھر ہی اللہ تعالیٰ کے فضل بھی جذب ہوتے ہیں۔ اس میں تو ٹھیک ہے حالات کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتے لیکن اتنے بھی حالات کوئی نہیں ہیں۔ تم لوگ، سارے گھر والے کونسی پابندی کرتے ہو ۔کورونا کی وجہ سے کام تھوڑا سا اوپرنیچے ہو گیا لیکن بازاروں میں بھی نکل جاتے ہو، سڑکوں میں بھی پھر رہے ہوتے ہو، پارکوں میں بھی چلے جاتے ہو۔ جہاں باپ کا دل چاہتا ہے وہ بھی اپنے دوستوں میں گپیں مارنے چلا جاتا ہے۔ جہاں ماں کا دل چاہتا ہے وہ بھی اپنی سہیلیوں میں گپیں مارنے چلی جاتی ہے یا تم لوگوں کا دل چاہتا ہے، تم لوگ بھی نکل جاتے ہو۔ تو اتنی تو پابندی کوئی نہیں ہے کر رہے تم لوگ۔ سو فیصد پابندی کر رہے ہوتے تو وبا پہلے ہی ختم ہو جاتی۔ ہاں بعض restrictions کی وجہ سے بعض دفعہ نفسیانی اثر ہو جاتے ہیں لیکن اس کا طریقہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری کو دور کرے اور restrictions ختم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ہم سب پہ فضل فرمائے۔ یہ تو دعاؤں کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اور یہ realise کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کے حق کس طرح ادا کرنے ہیں۔ وہ کرو گے تو سب گھر میں سکون کا ماحول ہوگا۔ کورونا تو بہانہ بن گیا ہے۔ پہلے خاوند باپ جو تھا وہ گھر سے باہر رہتا تھا سارا دن تو وہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ اس کا مزاج کیسا ہے۔ اب وہ کیونکہ گھرمیں رہتا ہے اس لیے اس کی سختیاں بچوںکو بھی جھیلنی پڑتی ہیں بیوی کو بھی اس لیے تم کہتے ہو ابا نے اس طرح کر دیا، ابا نے اس طرح کر دیا یا اماں چڑ چڑی ہو گئی۔ پہلے تم لوگ بھی باہر گھومتے تھے اب تم لوگ ذرا کم باہر گھومتے ہو لیکن گھومتے ہو یہ مجھے پتہ ہے۔ بس دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کو دور کردے۔
اس آن لائن ملاقات کے اختتام پر پیارے آقا نے خدام کو چند نصائح کرتے ہوئے فرمایا:
ہاں تو اجتماع اگر ہو رہا ہے تو اس کا تو تبھی فائدہ ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ آپ کا مقصد کیا ہے۔ انسان کو اگر اس کا مقصد نہ پتہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں۔ زندگی کامقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ میں نے انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا اور ایک احمدی مسلمان کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے، اس نے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے اور جو اجتماعات ہیں یا تربیتی اجلاسات ہیں یا gatherings ہیں یا اب کچھ عرصہ کے بعد آپ کا جلسہ ہو رہا ہے۔ یہ سب باتیں اس لیے ہیں تاکہ انسان کی روحانی، اخلاقی حالت اچھی ہو۔ علمی حالت اچھی ہو اور علم حاصل کرنے کے بعد اگر اس کو اپنے اوپر اپلائی نہیں کرتے، اس پر عمل نہیں کرتے تو ان جلسوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کوشش کریں اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں کہ جو کچھ یہاں سے سیکھیں اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ اپنے اللہ تعالیٰ سے تعلق میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں۔ تقویٰ کے معیار کو بڑھانے والے ہوں۔ نمازوں کی طرف توجہ کرنے والے ہوں۔ یہی ایک احمدی کی خاص نشانی ہے اور ہونی چاہیے۔ اپنے اخلاق اچھے ہوں تا کہ دوسرے بھی دیکھ کے آپ کو یہ کہیں کہ ہاں یہ لوگ ایسے ہیں کہ جن کے اعلیٰ اخلاق ہیں اور یہ لوگ حقیقی مذہب کی تصویر پیش کرتے ہیں۔
اب گذشتہ دنوں جرمنی میں سیلاب آیا اور سیلاب کے دنوں میں خدام الاحمدیہ نے بڑی خدمت کی ہے اور لوگوں نے آپ کی خدمات کو بڑا سراہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب خدام کو بھی جزا دے جنہوں نے خدمت کی اور اس کا نیک اثر بھی لوگوں پہ پڑا۔ اب نیک اثر صرف دنیاوی لحاظ سے نہ ہو بلکہ دینی لحاظ سے بھی نیک اثر ہونا چاہیے اور انہی علاقوں میں فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ویسے بھی جاتے رہیں۔ وہاں اب خدمت ایک دفعہ کر لی، وہاں پیار اور محبت اور امن کا پیغام بھی پہنچاتے رہیں تاکہ وہاں سے آپ کے رابطے وسیع ہوں۔ لوگوں کے دل اس وقت نرم ہیں ان علاقوں میں آپ کے لیے اور ان کی نرمی سے فائدہ اٹھائیں اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے کہ وہ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭