کیا یہ درست ہے کہ اگر ایک نماز رہ جائے تو پچھلی چالیس سال کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں؟
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک مومن کےلیے ہمیشہ بھلائیاں ہی آتی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ یہ دنیا مومن کےلیے جہنم ہے۔ اس میں کونسی بات ٹھیک ہے۔ نیز یہ کہ کیا یہ درست ہے کہ اگر ایک نماز رہ جائے تو پچھلی چالیس سال کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍فروری2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب:درحقیقت ایک سچے مومن کو دنیاوی چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، وہ انہیں اللہ کے حکم پر صرف عارضی سامان کے طور پر ضرورت کی حد تک استعمال کرتا ہے۔اور ہر وقت اس کی نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی پر ہوتی ہے۔پس ایک مومن چونکہ دنیوی چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگتا کہ وہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد کو محو نہ کر دیں اس لیے دنیاوی لحاظ سے اس پر بظاہر تنگی آتی ہے لیکن وہ اس سے تکلیف محسوس نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر وہ اس دنیاوی تنگی کو بھی خوشی سے برداشت کر لیتا ہے۔ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے ربّ! قید خانہ مجھے ان دنیاوی آسائشوں اور آلائشوں سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ خواتین مجھے بلاتی ہیں۔ (یوسف :34)
اس کے مقا بلے پر ایک کافر چونکہ اس دنیا کو ہی اپنا سب کچھ خیال کرتا اور ہر وقت اسی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اوردنیاوی سامانوں سے خوب حظ اٹھاتا اور وہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہوتے ہیں۔پس اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا مومن کےلیے قید خانہ اور کافر کےلیے جنت ہے۔
نماز کے بارے میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر بھول کر کوئی نماز رہ جائے تو حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب وہ نماز یاد آئے اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے یہی اس نماز کے بھولنے کا کفارہ ہے۔ لیکن اگر جان بوجھ کر کوئی نماز چھوڑ دی جائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی معافی توبہ ،استغفار اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کے عہد سے ہی ہو سکتی ہے۔