کیا اکیلی عورت حج پر جا سکتی ہے؟
سوال: اکیلی عورت کے حج پر جانے کے بارے میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کے جاری کردہ ایک فتویٰ کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری 2020ءمیں درج ذیل ارشاد فرمایا:
جواب:میرے نزدیک حج اور عمرہ کےلیے عورت کے ساتھ محرم کی شرط ایک وقتی حکم تھا بالکل اسی طرح جس طرح اُس زمانہ میں اکیلی عورت کےلیے عام سفر بھی منع تھا، کیونکہ اُس وقت ایک تو سفر بہت مشکل اور لمبے ہوتے تھے، راستوں میں کسی قسم کی سہولتیں میسر نہیں تھیں اور الٹا سفروں میں راہزنی کے خطرات بہت زیادہ تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر جب حضورﷺ کی خدمت میں راہزنی کی شکایت کی گئی تو آپ نے آئندہ زمانہ کے پر امن سفروں کی بشارت دیتے ہوئے حضرت عدی بن حاتم کو فرمایا
فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِيْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتَّى تَطُوْفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّٰهَ۔
یعنی اگر تمہاری زندگی زیادہ ہوئی تو یقیناً تم دیکھ لوگے کہ ایک ہودج نشیں عورت حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرے گی، اللہ کے علاوہ اس کو کسی کا خوف نہ ہوگا۔
اسی حدیث کے آخر پر حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں
فَرَأَيْتُ الظَّعِيْنَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيْرَةِ حَتَّى تَطُوْفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللّٰهَ۔
یعنی میں نے ہودج نشین عورت کو دیکھا ہے کہ وہ حیرہ سے سفر شروع کرتی ہے اور کعبہ کا طواف کرتی ہے اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔
(صحیح بخاری کتاب المناقب)
حیرہ اس زمانے میں ایرانی حکومت کے تحت ایک شہر تھا جو کوفہ کے قریب واقع تھا۔اس لحاظ سے اُس زمانے میں یہ کئی دنوں کا سفر بنتا ہے۔پس اگر اُس زما نے میں ایک عورت حیرہ سے چل کر کئی دنوں کا سفر کر کے مکہ خانہ کعبہ کا طواف کرنے آسکتی ہے تو اِس زمانے میں چند گھنٹوں کا ہوائی جہاز کا سفر کرکے ایک عورت عمرہ اور حج وغیرہ کےلیے کیوں نہیں جا سکتی؟