عالم اسلام اور خلافت احمدیہ
(تقریر بر موقع جلسہ سالانہ یوكے 2021ء)
آج مجھے اس مجلس میں ’’عالم اسلام اور خلافتِ احمدیہ‘‘ کے موضوع پر کچھ عرض کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد عالم اسلام کو خلافت راشدہ کی صورت میں وہ عظیم نعمت عطا کی گئی جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا اور مسلمانوں نےنہ صرف روحانی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ترقیات کے ایسے نئے سنگ میل عبور کیے جن کی اس سے پہلے تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی۔ یہ عالم اسلام کا پہلا دَور تھا۔
عالم اسلام کے اس آخری دَور اور آخری زمانے کے لیے بھی آنحضرتﷺ نے ایک پیشگوئی فرمائی تھی کہ تم میں نبوت رہے گی اور پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔ پھر ایذا رساں بادشاہت اس کی جگہ لے لی گی اور پھر جابربادشاہت قائم ہوگی اور پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام ہوگا۔
(مشکوٰۃ المصابیح – کتاب الرقاق باب التحذیر من الفتن۔ الفصل الثالث)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے امام مہدی اور مسیح موعود ؑاور ان کے بعد قائم ہونے والی خلافت کا ذکر فرمایا ہے جس کا اصل مقصد ایمان کو دلوں میں دوبارہ قائم کرنا اور اسلام کو عالمگیر غلبہ عطا کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑنےنہ صرف خود اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی اس تخم ریزی کا آغاز فرمایا بلکہ اپنے بعد ان پاک وجودوں کا بھی ذکر فرمادیا جنہوں نے قیامت تک اس مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں رہنا تھا اور اسلام کی کھوئی ہوئی عزت اور عظمت کو ازسرنو دنیا میں قائم کرنا تھا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:’’میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو‘‘۔
(رسالہ الوصیّت،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 306)
پھراپنے بعد آنے والے ان پاک وجودوں کے مشن کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا:’’ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُن تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیاء اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا۔‘‘
(رسالہ الوصیّت،روحانی خزائن جلد 20صفحہ 306تا307)
27؍مئی 1908ء کو جماعت احمدیہ اس قدرت ثانیہ کےبابرکت دائمی دَور میں داخل ہوگئی اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے 113سال کی تاریخ گواہ ہے کہ خلافت احمدیہ ان تمام برکتوں اور رحمتوں کا مرکز بنتے ہوئے نہ صرف عالم احمدیت بلکہ تمام عالم اسلام اور تما م دنیا کی دینی اور دنیاوی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کوشاں ہے۔
آج دنیا کے 213سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ خلافت احمدیہ کی ان برکات کی زندہ گواہ ہے۔ جہاں دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کا کام جاری و ساری ہے وہاں زمین کے کناروں تک ہر شہر اور ہر بستی میں احمدیہ مساجد کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور نئی تعمیر کا کام بھی مسلسل جاری ہے۔ اور پھر جماعت میں ایسا بھرپورمالی نظام اور سسٹم جاری ہے جس کی دنیا کے تمام مالی نظاموں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
پھرخلافتِ احمدیہ کی سرپرستی میں آج ساری دنیا میں مختلف زبانوں میں بڑے وسیع پیمانے پر کتب اور لٹریچر کی اشاعت کا کام جاری ہے۔ لکھوکھہاکی تعداد میں یہ لٹریچر ہرسال شائع ہورہاہے اور اسی طرح الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ لکھوکھہالوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچ رہاہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ! حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے روح پرور خطبات اور خطابات آج عالم اسلام میں ایک انقلابِ عظیم برپا کررہے ہیں۔یہ خطبات ساری دنیا میں مختلف زبانوں میں سنے جاتے ہیں ۔MTA کے مختلف چینلز پر مختلف زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ نشر ہوتے ہیں۔ MTAافریقہ پر افریقہ کی مختلف زبانوں میں نشر ہوتے ہیں۔ افریقہ کے جماعتی اور دوسرے ریڈیو سٹیشنز پر بہت سی زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ نشر ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک نے اپنی اپنی ویب سائٹ بنائی ہوئی ہیں۔ ان پر ان ممالک کی زبانوں میں اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کی آواز ساری دنیا تک پہنچانے کے لیے آج ایک ایسا نظام جاری ہے جس کی تاریخ عالم میں اور عالم اسلام میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ان خطبات سے جہاں افراد جماعت کی زندگیاں سنورتی ہیں اور ایمانوں کو جلا ملتی ہے اور ایک روحانی مائدہ کا سامان مہیّا کرتے ہیں وہاں غیر بھی اِن خطبات سے فیض پاتے ہیں اور جہاں اُن کے احمدیت میں داخل ہونے کا موجب بنتے ہیں وہاں ان کی زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوتا ہے۔
گنی بساؤ سے مبلغ انچارج صاحب بتاتے ہیں:ایک دوست عثمان بانڈے صاحب احمدیت کے مخالف تھے۔ان کے بعض رشتے داروں نے احمدیت قبول کی تو یہ بعض مولویوں کو اکٹھا کرکے اپنے ساتھ لے آئے۔انہیں کہا گیا کہ آپ بے شک جماعت کی مخالفت کریں لیکن ایک دن آکر ہمارا پیغام تو سن لیں پھر جو چاہے مرضی کریں۔چنانچہ یہ جمعہ کے دن آئے اور اس وقت حضورانور کا خطبہ جمعہ براہ راست MTAپر آرہا تھا۔ ان کو کہا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہوتو کچھ دیر خطبہ ضرور سنیں۔ کہنے لگے میں صرف تھوڑی دیر کے لیے خطبہ سنوں گا لیکن جب سننا شروع کیا تو وقت بھول گئے اور بڑے غور سے سارا خطبہ سنا۔جب خطبہ ختم ہوا تو کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ کافر نہیں ہوسکتی۔ آپ کے خلیفہ تو آنحضرت ﷺ کے صحابہ کی سیرت پیش کررہے ہیں ۔ کوئی کافر جماعت یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی تمام فیملی کے ساتھ احمدیت قبول کرلی اور اب وہ اپنے علاقے میں احمدیت کی تبلیغ کررہے ہیں ۔
امیر صاحب کانگو کنشاسا بیان کرتے ہیں کہ ایک گاؤں میں تبلیغ کے دوران حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کا آڈیو خطبہ سنوایا گیا۔اس خطبہ کو سن کر پانچ خاندان احمدیت میں داخل ہوئے۔ کہنے لگے کہ سنّی اماموں نے بہت زوروشور سے بتایا تھا کہ احمدی کافر ہیں لیکن خلیفۃ المسیح کا آج کا خطبہ سن کر ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ احمدی حق پر ہیں۔ آج ہم اللہ سے اپنے سابق عمل پر معافی مانگتے ہیں۔
کونگو کنشاسا کے صوبہ کسائی کے شہر‘ اِیْلےبُو‘ کا واقعہ ہے۔ یہاں پر بعض غیراحمدیوں نے آپس میں مل کر منظم طور پر جماعت کی مخالفت کا آغاز کیا۔ایک دن ان میں سے ایک مخالف نے مشن ہاؤس سے رابطہ کیا کہ وہ اپنی ساری فیملی کے ساتھ جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک دن میری بیوی چینل تلاش کررہی تھی تو آپ کا چینل MTAلگ گیا۔اس وقت خلیفۃ المسیح کا خطبہ جمعہ آرہا تھا۔ میں نے وہ سارا خطبہ سنا تو مجھے یقین ہوگیا کہ آج خلیفۃ المسیح کی آوازجو میرے کانوں میں پڑی ہے یہی اسلام کی حقیقی تصویر ہے اور خلیفہ کو سننے کے بعد جماعت کی سچائی میں مجھے کوئی شک نہیں رہ گیا۔ تو میں نے فیملی کے ساتھ بیعت کرلی۔
بے شک حضورانور ایدہ اللہ کے خطبات جمعہ اور خطابات ایک انقلاب برپا کررہے ہیں۔سیرالیون سے مشنری محمد ایف سیسے صاحب نے بتایا کہ ہم نے اپنے ریجن میں 80؍غیراحمدی احباب کو حضورانور کا خطبہ سنانے کا انتظام کیا۔ ان میں سے ساٹھ افراد نے خطبہ سننے کے بعد بیعت کرلی اور احمدیت میں داخل ہوگئے۔
جو لوگ دوسرے مختلف مذاہب سےخلافتِ احمدیہ کی آغوش میں آرہے ہیں ان میں احمدیت قبول کرنے کے بعد حضورانور کے روح پرور کلمات سے ایک پاک تبدیلی پیداہورہی ہے۔ ان کو ایک سچا اور حقیقی باعمل مسلمان بنارہی ہے۔ ان کے اندر کی برائیاں اور برسوں پرانی لغویات دم توڑ رہی ہیں اور ان کے اندر ایک روحانی انقلاب پیداہورہاہے۔ایسا انقلاب جو صرف سچوں کو ہی نصیب ہواکرتاہے۔
ملک سنٹرل افریقہ کے ایک نومبائع ماپو کا عمر صاحب نے ایک تبلیغی مجلس میں زیرِ تبلیغ لوگوں کو مخاطب ہوکرکہا :
آج میں اپنے آپ کو احمدیت کی سچائی کےلیے گواہ کے طور پر پیش کرنا چاہتاہوں۔میں جب سے احمدی ہواہوں میرے اندر بہت تبدیلی آئی ہے۔پہلے میں جنوں بھوتوں ، جادو ٹونے کا قائل تھا اور اب میں ان تمام فضولیات سے باہر نکل چکاہوں۔میں خدا کو گواہ بناکر کہتاہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام خدا کے سچے مامور ہیں۔ اگر میں آپ لوگوں کے سامنے جھوٹ بولوں تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ مجھے جہنم کی آگ میں ڈالے۔
کانگو سے ایک دوست اسماعیل صاحب بیان کرتے ہیں: میں کیتھولک عیسائی تھا اورمجھے چرچ میں عبادت کرنے سے سکون نہیں ملتاتھا۔جب سے میں بیعت کرکے اسلام احمدیت میں داخل ہوا ہوں، میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔پہلے میں بہت جھگڑالو تھا اور کثرت سے شراب نوشی کیاکرتاتھا۔اور سال میں ایک آدھ مرتبہ ہی عبادت کرتاتھا لیکن اب میں اللہ کے فضل سے دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتاہوں ۔
فرنچ گیانا میں ایک عیسائی خاتون Linda Dilaire صاحبہ نے جب بیعت کی تو اپنے خیالات کا اظہاراس طرح کیاکہ میں متعدد چرچوں میں گئی ہوں، لیکن مجھے کہیں بھی دلی سکون نہیں ملا۔مجھے ایک زندہ خدا کی تلاش تھی اور اب احمدیت قبول کرنے کے بعد مجھے میرا خدا مل گیاہے۔مجھے ایک راحت اور سکون اور اطمینان حاصل ہواہے۔میری زندگی میں ایک انقلاب آگیاہے۔میں نماز اور قرآن کی تلاوت سے ایک لذت پاتی ہوں۔میرا دل اللہ کی محبت سے لبریز ہوگیاہے۔
یہ ہے وہ پاک تبدیلی جو آج خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ پیداہورہی ہے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے والے جنم لے رہیں۔
اپنے تو اپنے اب تو غیر بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ احمدیت لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپاکررہی ہے۔
شیانگاریجن تنزانیہ کے ریجنل کمشنر نے کہا:’’مجھے پتہ ہے کہ شیانگاکے لوگ زیادہ تر بے دین ہیں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ احمدیت کے پیغام سے متاثر ہورہے ہیں اور میں نے دیکھاہے کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد ان میں ایک نیک روحانی تبدیلی آرہی ہے۔اس لیے آپ لوگ زیادہ سے زیادہ کوشش کریں کہ شیانگا کے تمام لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچ جائے۔ کیونکہ جو دین آپ سکھارہے ہیں اس سے لوگ مہذب بن رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں جرائم کی شرح میں کمی آرہی ہے۔
یہی وہ مقصد تھا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لےکر آئے تھے کہ لوگ توحید کی طرف کھینچے جائیں اور بندوں کو دینِ واحد پر جمع کیاجائے۔
پس یہ ہے وہ انقلاب جو مخلوق خدا کو دنیاوی آلائشوں سے پاک کرکے اپنے رب سے ملارہاہے۔
بینن میں ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر جماعت ماکارا (Makara) کے صدرجماعت نے کہا: احمدیت ہی اصل اسلام ہے۔ ہم لوگ تو جاہل تھے۔نمازتک نہ جانتے تھے۔احمدیوں نے ہمیں اسلام سکھایا، ہمیں مساجد دیں، ہمارے بچوں کو دین سکھایا۔ اگر کوئی پوچھے کہ احمدیت نے ہمیں کیا دیاہے تو میں کہوں گاکہ خدا دیاہے۔اور مرتے دم تک ہم اس پر قائم رہیں گے۔
پس آج خلافتِ احمدیہ کی برکت سے ان محروموں کو خدا تعالیٰ مل رہاہے اور نئی زندگی عطاہورہی ہے۔
آج ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کو ایک منفرد اور ممتاز عالمی تشخص حاصل ہے۔آج عالم اسلام میں اس روئے زمین پر یہ واحد جماعت ہے جس میں آسمانی خلافت کا نظام جاری ہے۔ آج عالم اسلام میں چاروں طرف نظر دوڑائیں تو سوائے ایک وجود کے اور کوئی ایسا وجود نہیں ملتا جو عالم اسلام کے لیے اور بنی نوع انسان کے لیے راتوں کو اٹھ کر اپنے رب کے حضور تڑپتا ہو،آہ و بکا کرتا ہو اور ہرایک کے لیے خیر اور بھلائی مانگتا ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سالیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔‘‘
پھر حضورانور فرماتے ہیں:’’دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جون 2014ء)
کیوباجماعت کے ایک نومبائع علی عقبانی صاحب جو کہ اب وہاں صدرجماعت بھی ہیں بیان کرتے ہیں کہ امسال فروری 2021ء میں ایک دن مشن ہاؤس جاتے ہو ئے میری موٹرسائیکل کو ایک بہت ہی خوفناک حادثہ پیش آیا۔اُس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تصاویر فریم کروا کر مشن ہاؤس میں لگانے کے لیے جا رہا تھا کہ موٹر سائیکل پھسل گئی اور میں ایک بہت ہی مصروف سڑک کے درمیان جاگرا۔موت میرے سامنے تھی۔
میں اپنے بائیں پاؤں پر گرا جس سے ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ایک تیز رفتا ر گاڑی میرے ہاتھ سے ٹکرا کر رکی جسے میں نے اپنے تحفظ کے لیے آگے بڑھایا ہوا تھا ۔ وہ گاڑی مجھے کچل سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے موت سے بچالیا۔
ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے چیک اپ کرنے کے بعد کہا کہ ملک میں طبی بحران کی وجہ سے ادویات میسر نہیں ہیں، اس لیے آپریشن نہیں ہوسکتا۔
دوسری طرف میری پنڈلی اور ٹخنے کی حالت بگڑ تی جا رہی تھی اور ڈاکٹرز نے بغیر آپریشن کے ہی خالی پلستر لگادیاتھا۔اُس وقت مایوسی کی حالت میں ،مَیںنے اپنے بہت ہی پیارے خلیفہ کو اپنی صحت کے لیے بھر پور یقین کے ساتھ خط لکھا ،اور یہی میری آخری امید تھی۔ خط لکھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اُسی رات حضرت امیرالمومنین نے میرے لیے دعا کی ہے اور اگلے دن معائنہ کےلیے آنے والے ڈاکٹر نے خوش ہو کر مجھے بتایا کہ ہڈی خود بخود اپنی جگہ پر آچکی ہے۔یہ ہمارے لیے کسی معجزے سے کم نہ تھاکہ کس طرح حضور کی دعا کے طفیل ہڈی بغیر آپریشن اور بغیر ادویات کے جڑ گئی تھی ۔
یہ نومبائع دوست کہتے ہیں کہ بلا شبہ خلیفۂ وقت کا بابرکت وجود بہت بڑی نعمت ہےجو راتوں کو جاگتا ہے تاکہ جماعت کے لیےاور غلبہ اسلام کے لیے دعائیں کر سکے ۔اللہ تعالیٰ نے خلافت کی نعمت عطا فرما کر مسلمانوں پریقیناً بہت عظیم احسان فرمایا ہے۔
پھر مالی کی ایک مقامی جماعت ‘ ڈُوگا بو گو‘ کے صدرصاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایک دفعہ جماعتی میٹنگ کے سلسلہ میں قریبی شہر‘سیگو‘ آنا تھا اور مقامی جماعت کے لوگوں نے انہیں حضورانور کی خدمت میں بھجوانے کےلیے دعائیہ خطوط دیے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے وہ خطوط دے دیے اور واپس آگیا۔چند دن بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ ‘وہ خطوط جو تم نے مجھے بھجوائے تھے، میں نے ان کے لیے دعا کی تھی اور ایک وہ خط جورہ گیا تھا اس کے لیے بھی دعا کی تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جب میں اٹھا تو مجھے خواب کی سمجھ نہیں آئی اور میں اپنے روز مرہ کاموں میں مشغول ہوگیا۔چند دن بعد جب میں اپنے کمرے سے کاغذات کی صفائی کررہا تھا تو مجھے ایک لفافہ ملا جس میں ایک خط تھا جوکہ کسی ممبر نے حضور کو دعا کی غرض سے بھجوانے کے لیے دیا تھا لیکن وہ غلطی سے رہ گیاتھا۔
صدرصاحب کہتے ہیں کہ تب انہیں وہ خواب یاد آئی کہ یہی وہ خط تھا جس کے بارے میں خواب میں حضورانور نے اشارہ فرمایا تھا کہ میں نے اس کےلیے بھی دعاکی تھی۔
ایسے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں کہ ابھی حضورانور کی خدمت میں دعاکےلیے کسی بیماری، مصیبت، دکھ، تکلیف یاپریشانی سے نجات کےلیے خط لکھاہی ہوتاہے اور ابھی پوسٹ بھی نہیں کیاجاتا تو خلیفہ وقت کی دعا خط لکھنے والے کے حق میں قبول ہوجاتی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایاتھا:’’جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے۔وہ دنیا میں خدا اور رسولِ کریم ﷺ کا نمائندہ ہے۔‘‘
(الفضل27؍اگست1937ءصفحہ8)
پس خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کے نمائندہ کی حیثیت سے ایک بڑا عظیم الشان انقلابی کام جو اس دورِ مبارک میں ہوا وہ یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں حضورانورنے دنیا کے سرکردہ حکام کے سامنے بڑی جرأت اور شجاعت کے ساتھ اسلام کی امن و صلح و آشتی کی تعلیم ، اسلام کی حقیقی تعلیم پیش فرمائی اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچایا۔ کیپٹل ہل امریکہ میں حضورانور نے خطاب فرمایا، یورپین پارلیمنٹ میں، برٹش پارلیمنٹ میں، نیوزی لینڈ پارلیمنٹ میں ، ملٹری ہیڈ کوارٹرز جرمنی میں، پھر سنگاپور ، آسٹریلیا، جاپان اور کینیڈا میں ایسی تقریبات منعقد ہوئیں۔ فرانس میں اقوامِ متحدہ کے ادارے UNESCO میں، برلن جرمنی میں تقریبات منعقد ہوئیں جہاں بڑی تعداد میں ممبرانِ پارلیمنٹ، دیگر اعلیٰ حکام اور اسکالرز شامل ہوئے۔
ان تمام تقریبات میں حضورانور نے اسلام کا امن کا پیغام دنیا کے ان لیڈروں ،سربراہوں اور حکومتوںکو دیاہے اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اسلام کے اس امن کے پیغام کو اپناتے ہوئے اور دوسروں کے حقوق ، عدل و انصاف سے اداکرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچاسکتے ہو۔
حضورانور نے اس مادی دنیا کے ایک بہت بڑے اور طاقتور ایوان ‘کیپٹل ہِل‘میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اسلام ہم سے یہ چاہتاہے کہ ہم کبھی بھی دوسروں کی دولت کی طرف حسد اور لالچ کی نظر سے نہ دیکھیں۔اسلام یہ بھی چاہتاہے کہ ترقی یافتہ اقوام اپنے مفادات کو ایک طرف رکھ کر غریب اور کم ترقی یافتہ اقوام کی درحقیت بے غرضانہ مدد اور خدمت کریں۔اگر ان تمام اصولوں کی پابندی کی جائے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہوجائے گا۔‘‘
(عالمی بحران اور امن کی راہ، صفحہ77تا78)
ہر جگہ ، ہر موقع پر ان سرکردہ افراد نے اس بات کا کھل کر برملااظہارکیاہے کہ اگر آج کوئی وجود دنیا کو تباہی سے بچانے کےلیے قریہ قریہ، ملک ملک، امن کےلیے کوشاں ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب ہیں۔
انڈیا میں بُک فیئر کے موقع پر ایک غیرازجماعت دوست جماعتی سٹال پر آئے اورکہنے لگے:’’بیشک دوسرے مسلمان آپ لوگوں کو کافر یا دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں مگر امام جماعت احمدیہ نے دنیا کے بڑے بڑے راہنماؤں کے سامنے جس طرح اسلام کو پیش کیا ہےاس طرح آج تک کسی مسلمان بادشاہ یا عالم دین کو بھی توفیق نہیں ملی۔خدا تعالیٰ ضرور آپ لوگوں کی مدد کرےگا۔‘‘
حضورانور نے 22؍اکتوبر 2019ء کو برلن میں ایک تاریخی خطاب فرمایاجس میں بڑی تعداد میں ممبرانِ پارلیمنٹ اور دیگر اعلیٰ حکام شامل ہوئے۔ اس موقع پر جرمنی کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر Bettina Muller (بیٹینا مولر) نے کہا کہ’’امام جماعت احمدیہ کے خطاب سے بھی امن کی خوشبو آتی ہے اور آپ کے وجود میں بھی امن، سلامتی اور سچائی کی تاثیر تھی جو دورانِ پروگرام سارے ماحول میں مجھے محسوس ہوتی رہی۔‘‘
پھر یونائیٹڈ نیشن کے ادارہ UNESCO میں حضورانورنے ایک تاریخی خطاب فرمایا۔وہاں مالی سے UNESCO کے ایمبیسڈر عمر کائتا صاحب نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا:امام جماعت احمدیہ وسیع النظر شخصیت ہیں اور امن کے قیام کےلیے کوشاں ہیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی امتِ مسلمہ کو ضرورت ہے۔ عالمی انصاف، ہم آہنگی کا جو تصور امام جماعت احمدیہ پیش کرتے ہیں دنیا کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ اور آج امت مسلمہ کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے۔ آج میں ایک ایسے انسان کے قریب تھا جو امن و انصاف کا سپوت ہے۔
پھر خدا اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ نے اسلام کے حسین چہرہ پر جو دہشت گردی ،انتہا پسندی اور شدت پسند مذہب ہونے کا داغ ہے اس کو دھویا ہے۔ اسلام کا خوبصورت چہرہ غیروں کے سامنے پیش کیا ہے۔مختلف تقریبات کے ایڈریسز ہوں، خواہ پریس کانفرنسز ہوں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے انٹرویوز ہوں، سرکردہ افراد سے ملاقاتیں ہوں ۔ہر جگہ حضورانور نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھایا ہے۔اور غیروں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ آج ہمیں علم ہوا ہے کہ اسلام کتنا پُر امن خوبصورت مذہب ہے۔
جاپان کے ایک پروگرام میں ایک مشہور وکیل نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہم نے اسلام کا ایک خوبصورت چہرہ دیکھا ہے اور اس یقین پر پہنچے ہیں کہ اگر دنیا کسی ایک معاملے پر جمع ہوسکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے امام کا ہاتھ ہی ہوسکتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی ایک تقریب میں شامل ہونے والے ایک بہائی دوست نے کہا آج تک میرا اسلام کے متعلق انتہائی بُرا تأثر تھا۔میں جو کچھ میڈیا پر دیکھتا تھا اس پر یقین کرلیتا تھا ۔ خلیفۃ المسیح کا خطاب سن کر اب میری رائے مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے۔
2009ء میں جب یورپ میں یہ تحریک چلی کہ مسلمانوں کی مسجدوں کے میناروں پر پابندی لگائی جائے تو اس وقت خلافت احمدیہ ہی اس تحریک کی راہ میں عالم اسلام کے لیے ڈھال بن گئی اور جماعت کے اعلیٰ کردار اور نمونہ کی بنیاد پر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 18؍ دسمبر 2009ء میں فرمایا:’’اسلام کی یہ روشنی پھیلانے کا کام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا ہی مقدر ہے اور اسی کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ چنانچہ صرف سوئٹزرلینڈ میں ہی نہیں،سپین کے ایک بہت بڑے سیٹلائٹ چینل نے یہ خبردی اورخبر کے ساتھ پیڈروآباد میں جو ہماری مسجد بشارت ہے اس کی تصویر دی اور مقامی لوگوں کے انٹرویو دئیے اور سب نے یہ کہا کہ اس قسم کے قوانین غلط ہیں اور یہ بتایا کہ ہمارے علاقہ میں مسلمانوں کی یہ مسجد ہے یہاں سے تو امن و محبت کا پیغام پھیلانے والی آواز اٹھتی ہے۔ بلکہ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ’’تم ان لوگوں سے Terrorismکی بات کرتے ہو، یا کسی قسم کی نفرت کی بات کرتے ہو، میں تو کہتا ہوں کہ اصل امن پسند یہ لوگ ہیں اور ہمیں بھی ان جیسا ہونا چاہیئے‘‘۔ یہ ایک انقلاب ہے جو دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت نے آپؑ سے تربیت پاکر پیدا فرمایا ہے کہ وہ ملک جہاں چند دہائیاں پہلے مسلمان سے سلام کرنا بھی شاید ایک دوسرے کو خوفزدہ کردیتا تھا۔ آج ٹی وی پر کھل کر وہاں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر سپینش لوگ امن چاہتے ہیں تو ان مسلمانوں جیسے بنیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور وہ یہ لوگ ہیں جو امن اور محبت کا سمبل (Symbol) ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍دسمبر2009ء)
آج عالم اسلام خلافت کے قیام کے لیے بے چین نظر آتا ہے۔عام مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام دانشور اور صاحب علم و قلم بھی اس کے لیے اپنی تمنا کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
روز نامہ نوائے وقت (پاکستان)کے ایک کالم نگار لکھتے ہیں: اس وقت عالم اسلام کا کوئی لیڈر نہیں۔اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کی جاسکتی ہے کہ وہ عالم اسلام کو مخلص قیادت عطا فرمائے۔ جس طرح مسلمان بارش نہ ہونے پر نماز استسقاء ادا کرتے ہیں۔اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک روز ‘نماز قیادت ‘ادا کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعا کرنی چاہیے کہ وہ انہیں مخلص لیڈر شپ عطا فرمائے۔
پھر مدیر رسالہ ‘تنظیم اہلحدیث لاہور‘ لکھتے ہیں: اگر زندگی کے آخری لمحات میں بھی ایک دفعہ خلافت علیٰ منہاج نبوت کا نظارہ نصیب ہوگیا تو ہوسکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بگڑی سنور جائے۔
عالم اسلام کی یہ بے قرار تمنا مختلف شکلیں دھارتی رہتی ہے اور متعدد ادوار میں خلافت کے قیام کی کوششیں بھی ہوتی رہیں لیکن ہر مرتبہ خدا تعالیٰ نے ان کے ارادوں اور منصوبوں کو خلافت احمدیہ جو خلافت علیٰ منہاج النبوۃ ہے اور خدا تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اس کے مقابل پاش پاش کردیا ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان مخالفین کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا: ’’اب خلافت صرف اور صرف خاتم الخلفاء، مسیح و مہدی موعود علیہ السلام کی خلافت ہی کی شکل میں ممکن ہے۔ …ہماری طرف سے چیلنج ہے کہ اگر مسلم دنیا کے تمام ممالک کے سر براہان، اور امتِ مسلمہ کے تمام افراد متفقہ طور پر کسی ایک شخص کو بطور خلیفہ تسلیم کرلیں اور اس کی بیعت میں شامل ہو جائیں، تو جماعت احمدیہ بھی اس خلیفہ کو تسلیم کرنے اور امت کے باقی مسالک کے ساتھ اس کی بیعت کرنے پر ضرور غور کرے گی! لیکن تم ایسا نہیں کرسکو گے۔ نہیں کر سکو گے۔ ایسا تم کر ہی نہیں سکتے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری 2021ءصفحہ3)
پس آج خلافت کے جھنڈے تلے جماعت احمدیہ دن بدن ترقیات کی نئی سے نئی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے اور ہر آنے والا دن فتوحات کی نوید لے کر طلوع ہوتاہے۔
امسال 5؍جون کو حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے کبابیر جماعت کی ایک آن لائن ، ورچوئل ملاقات میں فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی جو ترقی ہورہی ہے اور جماعت جس طرح پھیل رہی ہے ، ہر ملک میں اور ہر ملک کے کئی شہروں میں جماعت کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جماعت کا تعارف ہوگیاہے اور دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں بھی جماعت کا تعارف ہوگیاہے۔تو ہمیں امید ہے کہ جلد انشاء اللہ آئندہ بیس، پچیس سال جماعت کی ترقی کے بہت اہم سال ہیں۔اور آپ دیکھیں گے کہ اکثریت انشاء اللہ مسیح موعودعلیہ السلام کے جھنڈے تلے آجائے گی یا کم از کم مسلمانوں میں سے اکثریت ایسی ہوگی کہ جو یہ تسلیم کرنے والی ہوگی کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔‘‘
حضورنے فرمایا:’’انشاء اللہ ایک دن آئے گا جب امّت مسلمہ مسیح موعود علیہ السلام کے جھنڈے تلے خانہ کعبہ میں داخل ہو گی۔‘‘
آخر پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک ارشاد پر اپنی گزارشات ختم کرتاہوں۔
حضور فرماتے ہیں: ’’پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری آپ کو یہی نصیحت ہے اور میرا یہی پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 23؍مئی2003ءصفحہ1)
پس آج ہم لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہر روز اپنی آنکھوں سے اپنے پیارے آقا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عظیم قیادت میں اسلام کی ترقی اور فتوحات کے نظارت دیکھ رہے ہیں اور روز دیکھتے ہیں۔
پس اُٹھیں اور اپنی ہر مادی و روحانی ترقی کےلیے خلافت کے قدموں میں اپنا سررکھ دیں۔اسی میں ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭