خصوصی کمیٹی میں امام جماعت احمدیہ کا چیلنج اور مخالفین کا اعتراف شکست (قسط پنجم)
کوئی بھی مسلمان جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھتا ہے، وہ جب بھی آپؐ کی تعریف سنے گا اس کی روح مسرت سے بھر جائے گی۔خواہ یہ تعریف کرنے والااس شخص کا شدید مخالف ہی کیوں نہ ہو، وہ یہی کہے گا کہ اس کی یہ بات بالکل برحق ہے کیونکہ اس شخص نے میرے محبوب کی تعریف کی ہے۔ لیکن ہمیں اس بات پر شدید حیرت ہے کہ الاعتصام میں مضامین کا یہ سلسلہ لکھنے والے ابو دائود ارشد صاحب جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت اعلیٰ پائے کی تعریف بھی پڑھتے ہیں تو وہ شدت غضب میں آ کر اس پر اعتراض کرنا کیوں شروع کر دیتے ہیں؟
مثال کے طور پر اس مضمون کی دوسری قسط میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر درج کی :
’’اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اِسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 100)
سبحان اللہ!کتنے زبردست الفاظ میں یہ پُر معرفت نکتہ بیان کیا جا رہا ہے کہ تمام انبیاء میں سب سے بلند مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ آپ کی پیروی سے کمالات نبوت حاصل ہوتے ہیں۔اور کسی اور نبی کی پیروی سے ایسے کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔
رسول اللہ کی عظمت سے انکار
لیکن دائود ارشد صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعریف پڑھنے کے بعدجز بز ہوکر یہ اعتراض کر تے ہیں:
’’ ‘خاتم النبیین‘ کے یہ معنی کرنا قرآن کی کھلی تحریف معنوی ہے۔پوری دنیا کے قادیانی مل کر سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود یہ معنی کتاب اللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ، تابعین عظام ، اتباع تابعین ، ائمہ مفسرین، بلکہ لغت عرب (خواہ قدیم ہو یا جدید ، نظم ہو یا نثر ) سے ثابت نہیں کر سکتے۔‘‘
(الاعتصام 4؍تا 10؍جون 2021ء صفحہ 18)
دائود ارشد صاحب نےمغلوب الغضب ہو کر ایک اعتراض تو کر دیا ہے لیکن اس اعتراض کی عبارت واضح نہیں ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کے اس اقتباس کے کس حصہ پر اعتراض ہے؟ کیا ان کے نزدیک ’’خاتم‘‘ کا مطلب مہر کا نہیں ہو سکتا ؟ یا پھر ان کے نزدیک ’’خاتم ‘‘ کا مطلب مہر کا ہو سکتا ہے لیکن جب یہ لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں استعمال ہو تو اس کا نعوذُ باللہ مطلب یہ ہو گا کہ آپ خاتم تو ہیں لیکن آپ کو افاضہ کمالات کی صلاحیت نہیں ادا کی گئی۔ یا ان کو اس بات پر اعتراض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے کمالات تو حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ اس درجہ کے نہیں ہوتے کہ کسی انسان کو کمالات نبوت حاصل ہو سکیں۔گویا دوسرے الفاظ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی پیروی سے تو کمالات نبوت حاصل ہوجاتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی سے کمالات نبوت حاصل نہیں ہوتے۔مضمون نگار اپنے اعتراض کو واضح نہیں کر سکے ہیں اس لیے ہمیں ہر پہلو پر مختصراً تبصرہ کرنا پڑے گا۔
’’خاتَم ‘‘کا مطلب کیا ہے؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ’’خاتم ‘‘ کا مطلب مہر کا ہے کہ نہیں تو ہماری گذارش ہے کہ امام راغب اصفہانی کی مفردات القرآن میں اس لفظ کا مطلب دیکھ لیا جائے حقیقت واضح ہو جائے گی۔ نہ صرف یہ کہ لغت میں اس لفظ کے یہ معانی درج ہیں بلکہ دوسرے مسالک کے علماء اپنے تراجم اور تفاسیر میں بھی یہی لفظی مطلب درج کرتے رہے ہیں خواہ وہ ’’خاتم النبیین ‘‘ کی تفسیر کے بارے میں جماعت احمدیہ کے مسلک سے شدید اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ مثال کے طور پر دیوبند کے محمد نعیم صاحب تحریر کرتے ہیں:’’اسی طرح نبوت اور رسالت کے سارے منازل آپ پر خاتم ہیں اور انبیاء سابقین اپنے اپنے عہد میں بھی آپ کی روحانیت کبریٰ سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ آپ رتبی ، زمانی مکانی ہر لحاظ سے خاتم ہیں جن کو نبوت ملی آپ ہی کی مہر لگ کر ملی ہے۔‘‘
(کمالین شرح اردو جلالین ، شرح محمد نعیم دیوبندی ، ناشر مکتبہ شرکت علمیہ ملتان صفحہ163)
یہ صاحب مسئلہ ختم نبوت پر جماعت احمدیہ کے مسلک سے شدید اختلاف رکھتے ہیں لیکن یہ بھی یہی نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ ’’ خاتم ‘‘ کے معنی مہر کے ہیں اور تمام انبیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مہر سے فیضیاب ہو کر آپ کی روحانیت سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ خصوصی کمیٹی کی اس کارروائی کے دوران محمد شفیع صاحب کی کتابوں کے حوالے بھی پیش کیے گئے تھے۔ وہ بھی اپنی تفسیر معارف القرآن میں ’’ خاتم النبیین ‘‘ کا ترجمہ نبیوں کی مہر کا ہی کرتے ہیں۔
پورا حوالہ پڑھیں
لیکن مضمون نگار نے یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر کو پوری طرح پڑھا ہی نہیں یا پھر جان بوجھ کر پورا حوالہ درج نہیں کیا اب ہم اس اقتباس کے بعد کی عبارت درج کرتے ہیں تا کہ یہ واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ نکات صرف مسئلہ ختم نبوت کی بحث تک محدود نہیں بلکہ آپ نے ایک عظیم وسعت کے ساتھ یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تمام عالم کی قابل روحوں کی روحانی پرورش کر رہی ہے؟ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:’’یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ علماء اُمّتی کانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہونگے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر اُن کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موھبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح اُن کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست اُن کو منصبِ نبوت ملا۔ اور اُن کو چھوڑ کر جب اور بنی اسرائیل کا حال دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کورشد اور صلاح اور تقویٰ سے بہت ہی کم حصہ ملا تھا اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی اُمّت اولیاء اللہ کے وجود سے عموماً محروم رہی تھی اور کوئی شاذونادر اُن میں ہوا تو وہ حکم معدوم کا رکھتا ہے بلکہ اکثر ان ؔ میں سرکش فاسق فاجر دنیا پرست ہوتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی نسبت حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کی قوت تاثیر کا توریت اور انجیل میں اشارہ تک نہیں ہے توریت میں جا بجا حضرت موسیٰ کے صحابہ کا نام ایک سرکش اور سخت دل اور مرتکب معاصی اور مفسد قوم لکھا ہے جن کی نافرمانیوں کی نسبت قرآن شریف میں بھی یہ بیان ہے کہ ایک لڑائی کے موقع کے وقت میں انہوں نے حضرت موسیٰ کو یہ جواب دیا تھا
فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ۔(المائدۃ:25)
یعنی تُو اور تیرا ربّ دونوں جاکر دشمنوں سے لڑائی کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھیں گے یہ حال تھا اُن کی فرمانبرداری کا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوش عشقِ الٰہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر اُنکے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سرکٹائے۔ کیا کوئی پہلی اُمّت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا یہ تو حضرت موسیٰ کے صحابہ کا حال تھا۔ اب حضرت مسیح کے صحابہ کا حال سنو کہ ایک نے تو جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا تیس روپیہ لیکر حضرت مسیح کو گرفتار کرا دیا اورؔ پطرس حواری جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں اس نے حضرت مسیح کے رُو برو اُن پر لعنت بھیجی اور باقی جس قدر حواری تھے وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بُزدلی اُن پر غالب آگئی۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ رُوح اُن میں پھونک دی۔ اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اُن میں اس قدر تبدیلی کر دی یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت اُن کی تھی کہ وہ دنیا کے کیڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو اُن سے ظہور میں نہیں آئی تھی۔اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا اُن کے اندر سکونت پذیر ہو گیا۔مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اس پاک نبی کی تھی جو اُن لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی اور جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اس تیرہ سال کی آہ وزاری اور دعااور تضرع کا اثر تھا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100تا 102)
ذرا ایک نظر مکمل عبارت پر ڈالیں۔یہاں صرف یہ ذکر نہیں کہ آپ کے بعد کوئی اور نبی آپ کی غلامی میں آ سکتا ہے کہ نہیں بلکہ ایک وسیع مضمون بیان ہو رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اور آپ کے فیضان کا اثر تمام انبیاء سے افضل ہے۔اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسیہ کا نتیجہ تھا کہ آپ کے صحابہؓ میں وہ عظیم الشان تبدیلی ہوئی اور بعد میں آپ کی امت میں اس شان کے اولیاء پیدا ہوئے جن کی مثال گذشتہ انبیاء کی امتوں میں نہیں ملتی۔ لیکن یہ عظیم مضمون سمجھے بغیر مضمون نگار نے اس عبارت کو معنوی تحریف قرار دے دیا۔
امت مسلمہ کے افراد کمالات نبوت حاصل کر سکتے ہیں
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ یہی مضمون ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:’’تو خاتم المرسلین علیہ و الہ و علی جمیع الانبیاء و الرسل الصلوت و تسلیمات کی بعثت کے بعد بطریق وراثت و تبعیت آپ کے پیروکاروں کو کمالات نبوت کا حصول آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں لہذا شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔‘‘
(مکتوبات امام ربانی اردو ترجمہ جلد دوئم از سعید احمد نقشبندی ناشر چوہدری غلام رسول مئی 2012ء صفحہ775)
یہ مضمون وہی مضمون ہے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کو آپ کے فیضان کی بدولت کمالات نبوت حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے ہماری دائود ارشد صاحب سے گذارش ہے کہ شک کرنے والوں میں سے نہ بنیں۔
اور یہی مضمون دوسرے مسالک کے مفسرین اور علماء نے بھی بیان کیا ہے۔جیسا کہ تذکرہ نقشبندیہ خیریہ میں لکھا ہے:’’بعض اولیاء اللہ کو کمالات نبوت میں سے ظلی طور پر حصّہ دیا جاتا ہے اور بعض کو صرف ولایت میں سے حصہ دیا جاتا ہے۔ فیضان نبوت قابل اظہار ہوتا ہے اور فیضان ولایت قابل استتار (یعنی چھپانے کے قابل)۔‘‘
(تذکرہ نقشبندیہ خیریہ از محمد صادق قصوری ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز ستمبر 1988ءصفحہ 164)
اسی طرح اسی کتاب میں لکھا ہے:’’چونکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کمالات نبوت سے حصہ وافر حاصل تھا۔اور یہ طریقہ ان سے شروع ہوتا ہے اس سبب سے اس طریقے سے کمالات نبوت کا راستہ کھلا ہوا ہے۔‘‘
(تذکرہ نقشبندیہ خیریہ از محمد صادق قصوری ناشر ضیاء القرآن پبلیکیشنز ستمبر 1988ءصفحہ64)
دائود ارشد صاحب یہ مضمون سمجھ نہیں پا رہے کہ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا صرف یہ مطلب ہے کہ آپ آخری نبی ہیں اور پہلے تو دنیا کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ انبیاء مبعوث کرتا تھا لیکن اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں گمراہی پہلے سے بھی زیادہ پھیل رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ دنیا کی اصلاح کے لیے کسی کو مبعوث نہیں کرے گا۔اور نعوذ ُباللہ آپ کے افاضہ کمال کا بھی انکار کر دیا جائے جیسا کہ دائود ارشد صاحب اس انکار کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ اس میں تو فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہے کیونکہ فقط کسی سلسلہ کا آخری ہونا تو اپنی ذات میں کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔
شیعہ،اہل حدیث اور علماء دیوبند بھی ختم نبوت کے منکر؟
اور اس موقف کا اظہار صرف جماعت احمدیہ کی طرف سے ہی نہیں کیا گیا۔ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں۔بانی دارالعلوم حضرت مولانا قاسم نانوتوی تحریر فرماتے ہیں: ’’اول معنے خاتم النبیین معلوم کرنے چاہییں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں
وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ
فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔‘‘
(تحذیر الناس مصنفہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارنپور صفحہ3)
اور اس کے بعد آپ یہ نتیجہ پیش کرتے ہیں: ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی پرکچھ فرق نہ آئےگا۔‘‘
(تحذیر الناس مصنفہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارنپور صفحہ28)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی توجہ نبی تراش ہے تو دائود ارشد صاحب کو غصہ آ گیا اور یہ چیلنج کر بیٹھے کہ یہ معنوی تحریف ہے۔ملاحظہ فرمائیں کہ مولانا قاسم نانوتوی صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’اہل فہم سمجھ گئے ہوں گے کہ موصوف نبوت بالذات تو ہمارے رسول اللہ صلعم ہی ہیں باقی اور انبیاء میں اگر کمال نبوت آیا ہے توجناب ختم مآب صلعم کی طرف سے ہی آیا ہے…یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اور انبیاء رسول اللہ صلعم سے فیض لے کر امتیوں کو پہنچاتے ہیں۔‘‘
(تحذیر الناس مصنفہ حضرت مولانا قاسم نانوتوی مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارنپور صفحہ32تا33)
اس تحریر میں حضرت مولانا قاسم نانوتوی یہی مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے دوسرے انبیاء میں کمالات نبوت آئے ہیں یعنی آپ کی روحانیت نبی تراش ہے۔ہماری گذارش ہے کہ دائود ارشد صاحب ذرا ہمّت کر کے یہ تحریر فرمائیں کہ کیا مولانا قاسم نانوتوی بھی قرآن کریم میں معنوی تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں۔
ویسے یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ آج سے تقریباََ ایک سو سال قبل بھی مولانا قاسم نانوتوی صاحب کی ان عبارات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ان پر نہ صرف کفر کے فتوے لگائے گئے بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے بھی یہ فتاویٰ منگوا کر ان کی تشہیر کی گئی۔تفاصیل کے لیے رضا خان صاحب بریلوی کی کتاب حسام الحرمین کو ملاحظہ فرمائیں۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے الزامات لگا کر صرف احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے نہیں دیے گئے بلکہ علماء دیوبند میں مولانا قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی صاحب بھی انہی کفر کے فتووں کی زد میں آئے۔ اور چونکہ الاعتصام کو اہل حدیث کا ترجمان ہونے کا دعویٰ ہے اس لیے یہ ذکر مناسب ہوگا حسام الحرمین میں اہل حدیث کے مشہور قائد نذیر حسین صاحب دہلوی کو بھی منکر ختم نبوت قرار دے کر کفر کا فتوی لگایا گیا تھا۔
(حسام الحرمین مصنفہ احمد رضا خان بریلوی صاحب اردو ترجمہ اقبال احمد فاروقی ناشر مکتبہ نبویہ لاہور 2009ء صفحہ 20)
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دائود ارشد صاحب اس طرف توجہ فرمائیں کہ ایسا نہیں کہ صرف احمدیوں کو منکر ختم نبوت قرار دے کے کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔یہی الزام لگا کر علماء دیوبند مثال کے طور پر مولانا قاسم نانوتوی صاحب کو بھی کافر قرار دیا گیا تھا، یہی الزام لگا کر اس دَور میں شیعہ احباب کو بھی کافر قرار دیا گیا تھا اور اہل حدیث میں سے مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی صاحب بھی اسی الزام کی وجہ سے کفر کےفتوے کی زد میں آئے تھے۔
بوئے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
مخالفین جماعت خوفزدہ کیوں ہیں؟
ہماری گذارش ہے کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین تعصب کو ایک طرف رکھ کر غور کریں کہ کیا وجہ ہے جماعت احمدیہ کی طرف سے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں ایک شائع شدہ ضمیمہ ’’خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صوفیاء و اولیاء امت کے ایمان افروز ارشادات ‘‘ کے نام سے پیش کیا گیاتاکہ اسے اس موقف کا حصہ بنایا جائے جو جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔اور اس سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ سب سلف صالحین ’’ خاتم النبیین ‘‘ کا وہی مطلب سمجھتے تھے جس موقف کو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے۔ لیکن جب اللہ اللہ کر کے یہ کارروائی شائع کی گئی تو جماعت احمدیہ کے محضرنامہ کی طرح اسے بھی اس اشاعت میں شائع نہیں کیا گیا۔ آخر آپ کو کس بات کا خوف ہے؟ اگر جماعت احمدیہ کا موقف کمزور اور خلاف عقل تھا تو چاہیے تھا کہ آپ خود اسے بار بار شائع کرتے تاکہ دنیا دیکھے کہ احمدیوں کا موقف کتنا کمزور تھا لیکن آپ تو اتنی دہائیوں کے بعد بھی اس کی ہمت نہیں کر پا رہے۔مضمون نگار نے مضامین کے اس سلسلہ کے آغاز میں بہت طمطراق سے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی یہ کارروائی اب شائع ہو چکی ہے اور کوئی بھی شخص اسے پڑھ سکتا ہے۔انہوں نے حقیقت کو چھپایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا محضرنامہ دو دن اس کارروائی کے دوران پڑھا گیا تھا۔ اسے کارروائی میں تحریف کر کے حذف کر دیا گیا۔ اور یہ کام بھی اس بھونڈے انداز سے کیا گیا کہ سوال و جواب کے دوران اس محضرنامہ کا حوالہ بار بار دیا گیا اور پڑھنے والا حیران ہوتا ہے کہ محضرنامہ تو اس میں شامل نہیں یہ حوالہ کس چیز کا دیا جا رہا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے مخالفین نے جو عدالتی فیصلے بطور ضمیمے جمع کرائے تھے، انہیں اس کارروائی کا حصہ بنایا گیا جسے قومی اسمبلی کی طرف سے شائع کیا گیا تھا لیکن جماعت احمدیہ نے جو ضمیمے جمع کرائے تھے انہیں اس کارروائی سے حذف کر دیا گیا حالانکہ یہ ضمیمے جماعت احمدیہ کے موقف کا حصہ تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ یک طرفہ موقف شائع کیا گیا ہے۔اور اس شائع ہونے والی کارروائی میں جماعت احمدیہ کا موقف شائع نہیں کیا گیا۔ہمارا چیلنج ہے کہ حکومت کی طرف سے مکمل کارروائی شائع کی جائے جس میں جماعت احمدیہ کا محضرنامہ اور اس کے ضمیمے بھی شامل ہوں تا کہ ہر پڑھنے والا موازنہ کر کے اپنی رائے قائم کر سکے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر جماعت احمدیہ کا موقف کمزور تھا تو یہ حضرات اس تحریف پر کیوں مجبور ہوئے کہ جماعت احمدیہ کا اصل موقف تحریف کر کے کارروائی سے غائب ہی کر دیا جائے؟ امید ہے کہ دائود ارشد صاحب اس نکتہ کی طرف توجہ فرمائیں گے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا چیلنج اور مخالفین کی خاموشی
ان مضامین کے آغاز میں دائود ارشد صاحب نے اس بات پر خفگی کا اظہار کیا ہے کہ اس کتاب ’’ خصوصی کمیٹی میں کیا گذری ‘‘ میں اس بات کا اظہار کیوں کیا گیا ہے کہ سوال و جواب کے دوران کئی روز کارروائی کا وقت غیر متعلقہ سوالات میں ضائع کیا گیا اور کیے جانے والے سوالات میں اس خصوصی کمیٹی کے مقرر کردہ موضوع کی طرف رخ بھی نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس مرحلے پر جماعت احمدیہ کا وفد وہاں پر موجود تھا۔ اور جو بھی خلاف واقع دعویٰ کیا جا رہا تھا اس کے جوابات کے نتیجے میںممبران قومی اسمبلی کو شرمندگی بھی اُٹھانی پڑ رہی تھی۔ اگر دائود ارشد صاحب کو اس حقیقت سے انکار ہے تو اس بحث کا حل تو بہت آسانی سے نکل سکتا ہے۔ہم ممنون ہوں گے اگر وہ سوال و جواب کے مرحلے کے دوران ہزاروں صفحات کی کارروائی میں ان صفحات کے صفحہ نمبر الاعتصام میں شائع کروادیں جن پر وہ سوال درج ہیں جو کہ اصل موضوع پر کیے گئے تھے۔اور وہ اتنا تو جانتے ہوں گے کہ اس خصوصی کمیٹی کے سپرد یہ کام ہوا تھا کہ یہ تعین کرے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں تسلیم کرتا اس کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟
جب کئی روز غیر متعلقہ سوالات میں ضائع کر دیے گئے تو جماعت احمدیہ کی طرف سے یہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح یہ کارروائی اپنے موضوع پر شروع ہو۔چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے ایک معین چیلنج ان معین الفاظ میں دیا:’’میں نے ابھی عرض کی ہے کہ امت محمدیہ شروع سے لے کر تیرہ سو سال تک حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہوئے ایک ایسے مسیح کا انتظار کرتی رہی جسے مسلم کی ایک حدیث میں خود آنحضرتؐ نے چار مرتبہ نبی اللہ کہا۔اوروہ ’’خاتم النبیین‘‘پر بھی ایمان لاتے تھے۔اس لئے میرے نزدیک تو اس میں کوئی الجھن نہیں ہے۔ساری امت تیرہ سو سال تک ’’خاتم النبیین ‘‘کے خلاف اس عقیدہ کو نہیں سمجھتی رہی کہ ایک مسیح آئے گا جو نبی اللہ ہو گا۔ اور میں نے ابھی بتایا ہے کہ امت کے سلف صالحین کی سینکڑوں عبارتیں یہاں بتائی جا سکتی ہیں جو کہ آنے والے کے مقام کو ظاہر کر رہی ہیں…۔
اس طرح کے سینکڑوں حوالے ہیں اگر آپ کو ضرورت ہو تو آٹھ دس دن میں وہ سینکڑوں حوالے آپ کو دکھا سکتا ہوں…کہ تیرہ سو سال تک امت محمدیہ ایک نبی کا انتظار بھی کرتی رہی اور تمام سلف صالحین اس بات پر متفق تھے کہ اس نبی کا انتظار ختم نبوت کو توڑنے والا نہیں۔‘‘
(کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ 688)
کتنا واضح چیلنج ہے جس کو قبول کر کے اس کارروائی کو اصل موضوع پر لایا جا سکتا تھا۔پڑھنے والوں سے گذارش ہے کہ وہ کارروائی کا یہ حصہ پڑھ لیں۔ کیا جماعت احمدیہ کے مخالفین یہ چیلنج قبول کرنے کی ہمت کر سکے؟ افسوس ایسا نہیں ہوا۔اور ساری کارروائی پڑھ جائیں کسی ایک ممبر نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں یہ چیلنج قبول کر لینا چاہیے۔بلکہ بجائے اس طرف توجہ کرنے کے اٹارنی جنرل صاحب نے موضوع تبدیل کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
اس احتراز کی وجہ یہ تھی کہ محضرنامہ اور اس کے ضمیموں میں اس بات کے مضبوط دلائل پیش کر دیے گئے تھے کہ امت محمدیہ میں ایک نبی آنے کی مسلمہ پیشگوئی موجود ہے۔ آخر کار مولوی عبد الحکیم صاحب کو اس کمیٹی میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آنے کی پیشگوئی موجود ہے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:’’آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلم اور معمولی محاورہ مکالمات الہیہ کا ہے۔‘‘
(کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ2420)
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آخر میں خود جماعت احمدیہ کے شدید مخالف ممبران کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا تھا کہ احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی کے مبعوث ہونے کی پیشگوئی موجود ہے۔اور ایک اور ممبر ڈاکٹر محمود عباس بخاری صاحب کو بھی اپنی تقریر میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آ سکتا ہے لیکن انہوں نے اپنی طرف سے یہ زائد بات شامل کی کہ آنے والے نبی کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے ہو۔ انہوں نے کہا :
’’جناب چیئر مین ! میں حدیث ثقلین کی بات کر رہا تھا کہ جس میں میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا کہ کوئی نبی یا مہدی نہیں آسکتا جب تک وہ عترت رسول نہ ہو۔‘‘
(کارروائی خصوصی کمیٹی صفحہ2736)
یہی وجہ تھی کہ جماعت احمدیہ کے مخالفین اتنی دہائیوں تک اس کارروائی کی اشاعت کی ہمت نہیں کر سکے کیونکہ کارروائی کے آخر میں ان ممبران کو ان الفاظ میں جماعت احمدیہ کے موقف کے صحیح ہونے کا اعتراف کرنا پڑا تھا۔
٭…٭…٭