احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت صاحب نے اس کے لکھوانے کا خاص اہتمام کیا اور خود ہی اس کا دو زبانوں فارسی اور اردو میں ترجمہ کیا اور یہ بھی تحریک فرمائی کہ اس کو لوگ یاد کر لیں
خطبہ الہامیہ کی بابت بعض روایات (حصہ دوم)
’’بعض اوقات حضرت مولوی صاحب کو لکھنے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یاکسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلاً الف اور عین۔ صاد وسین یا ثا اور ط و ت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کی ضرورت ہوتی تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عجب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوں بتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوکر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہوجاتی تھی اور انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسو س کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے، روح حضور پر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یا سن کر بول رہی تھی۔ زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی۔ مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہوکر کسی کے چلائے چلتی ہو۔ یہ سماں اور حالت بیان کرنا مشکل ہے۔ انقطاع، تبتل، ربودگی یاحالت مجذوبیت وبے خودی ووارفتگی اور محویت تامہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہوسکے ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیر تھا جو کم ازکم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں در نہاں اور غیر مرئی طاقت متصرف وقابویافتہ ہو۔ لکھنے والوں کی سہولت کے لئے حضور پُر نور فقرات آہستہ آہستہ بولتے اور دہرادہرا کر بتاتے رہے۔ خطبہ الہامیہ کے نام سے جو کتاب حضور نے شائع فرمائی وہ بہت بڑی ہے۔ 1900ء کی عید قربان کا وہ خاص خطبہ مطبوعہ کتاب کے اڑتیس صفحات تک ہے۔ باقی حصہ حضور نے بعد میں شامل فرمایا۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد دوم تتمہ صفحہ 369-370)
مکرم سید محمود عالم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’حضرت مولوی نور الدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے عربی میں خطبہ عید الاضحٰی پڑھا (جو کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتدا میں درج ہے) تو بعد میں جب اس کی کیفیت پوچھی گئی تو فرمایا کہ فرشتے میرے سامنے موٹے موٹے حروف میں لکھی ہوئی تختی لاتے جاتے تھے۔ جسے میں دیکھ دیکھ کر پڑھتا جاتا تھا۔ ایک تختی آتی۔ جب میں وہ سنا چکتا تو دوسری تختی آتی اور پہلی چلی جاتی۔ اس طرح تختیوں کا سلسلہ رہا۔ جب کوئی لکھنے والا پوچھتا تو گئی ہوئی تختی بھی واپس آجاتی۔ جسے دیکھ کر میں بتادیتا۔ ‘‘
(رجسٹرروایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ ) رجسٹرنمبر4صفحہ38)
مکرم امیر الدین احمدی صاحب بیان فرماتے ہیں :
’’حضرت صاحب جب خطبہ الہامیہ سنا کر نکلے تو راستے میں فرمایا کہ ’’جب میں ایک فقرہ کہہ رہا ہوتا تھا تو مجھے پتہ نہیں ہوتا تھا کہ دوسرا فقرہ کیا ہو گا۔ لکھا ہوا سامنے آجاتا تھا اور میں پڑھ دیتا تھا۔ ‘‘حضور بہت ٹھہر ٹھہر کر اور آہستہ آہستہ پڑھ رہے تھے۔ ‘‘
(رجسٹرروایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ )رجسٹر نمبر10صفحہ62)
حضرت مولانا شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
’’اس دن صبح کو حضرت مسیح موعودؑ عید کے لئے نکلے مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے تو آپ نے فرمایا کہ رات کو مجھے الہام ہوا ہے کہ کچھ کلمات عربی میں کہو۔ اس لئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب دونوں کو پیغام بھیجا کہ وہ کاغذ اور قلم دوات لے کر آویں۔ کیونکہ عربی میں کچھ کلمات پڑھنے کا الہام ہوا ہے۔ نماز مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھائی اور مسیح موعود نے پھر اردو میں خطبہ فرمایا غالباً کرسی پر بیٹھ کر۔ اردو خطبے کے بعد آپ نے عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا کرسی پر بیٹھ کر۔ اس وقت آپ پر ایک خاص حالت طاری تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ہر جملے میں پہلے آواز اونچی تھی پھر دھیمی ہو جاتی تھی۔ سامنے بائیں طرف حضرت مولوی صاحبان لکھ رہے تھے۔ ایک لفظ دونوں میں سے ایک نے نہ سنا۔ اس لئے پوچھا تو حضرت صاحب نے وہ لفظ بتایا اور پھر فرمایا کہ جو لفظ سنائی نہ دے وہ ابھی پوچھ لینا چاہئے کیونکہ ممکن ہے مجھے بھی یاد نہ رہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک اوپر سے سلسلہ جاری رہا میں بولتا رہا اور جب ختم ہو گیا بس کر دی۔ پھر حضرت صاحب نے اس کے لکھوانے کا خاص اہتمام کیا اور خود ہی اس کا دو زبانوں فارسی اور اردو میں ترجمہ کیا اور یہ بھی تحریک فرمائی کہ اس کو لوگ یاد کر لیں جس طرح قرآن مجید یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس کو یاد کر کے مسجد مبارک میں باقاعدہ حضرت صاحب کو سنایا۔ اس کے بعد میرے بھائی حافظ عبدالعلی صاحب نے حضرت مولوی صاحب سے اس کے متعلق پوچھا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ حضرت صاحب کی طاقت سے بالا ہے۔ ان کے اس جواب سے یہ مطلب تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ حضرت صاحب کا نہیں۔ ‘‘
(رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)رجسٹرنمبر10صفحہ303-304)
حضرت میاں محمد یٰسین صاحب احمدیؓ بیان فرماتے ہیں :
’’خطبہ الہامیہ حضورؑ نے عید ذوالحجہ کے دن فرمایا۔ خطبہ کے دوران میں حضور کی آواز خلاف معمول بالکل باریک تھی۔ اور نماز کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں جب ایک فقرہ کہہ لیتا تھا تو آگے مجھے علم نہیں ہوتا تھا کہ میں کیا کہوں گا۔ آگے مجھے لکھا ہوا دکھایا جاتا تھا۔ اور پھر میں بولتا تھا۔ یہ خطبہ حضور نے بالکل آہستہ آہستہ پڑھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی حضور کو پڑھاتا ہے اور پھر آگے حضور بول رہے ہیں۔ اس وقت حضور کی حالت معمول سے بالکل مختلف نظر آتی تھی۔ یہ خطبہ حضور نے مسجد اقصیٰ میں جبکہ ابھی بہت چھوٹی تھی پڑھا تھا۔ اس وقت حاضرین کی تعداد ایک سو کے قریب ہو گی اور خطبہ پڑھنے سے ایک دن پیشتر یعنی9تاریخ ہجری کے 12بجے تک آنے والے مہمانوں کی نسبت حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو فرمایا تھا کہ جو مہمان12بجے تک آجائیں۔ ان کے نام لکھ کر مجھے دے دیں تا کہ میں ان کے لئے دعا کروں۔ مولوی امیر الدین صاحب نے فرمایا کہ میں بھی وقت مقررہ سے چند منٹ پیشتر پہنچ گیا تھا اور میرا نام بھی ان لوگوں میں لکھا گیا تھا۔ اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ آپ بہت خوش قسمت انسان ہیں کہ آپ کا نام حضور کے سامنے دعا کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ ‘‘
( رجسٹرروایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر12صفحہ102-103)
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیدالاضحی کے روز مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ میں الہامًا چند الفاظ بطور خطبہ عربی میں سنانا چاہتا ہوں۔ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب دونو صاحب تمام و کمال لکھنے کے کوشش کریں۔ یہ فرما کر آپ نے خطبہ الہامیہ عربی میں فرمانا شروع کر دیا۔ پھر آپ اس قدر جلدی بیان فرما رہے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ اور ہم نے اس خطبہ کا خاص اثر یہ دیکھا کہ سب سامعین محویت کے عالم میں تھے اور خطبہ سمجھ میں آرہا تھا۔ ہر ایک اس سے متاثر تھا۔ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب بعض دفعہ الفاظ کے متعلق پوچھ کر لکھتے تھے۔ ایک لفظ خناطیل مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق بھی پوچھا۔ خطبہ ختم ہونے پر جب حضور مکان پر تشریف لائے تو مجھے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور میر حامد شاہ صاحب ہم تینوں کوبلایا اور فرمایا کہ اس خطبہ کا جو اثر ہوا ہے ا ور جو کیفیت لوگوں کی ہوئی ہے اپنے اپنے رنگ میں آپ لکھ کر مجھے دیں۔ مولوی عبداللہ صاحب اور میر صاحب نے تو مہلت چاہی لیکن خاکسار نے اپنے تاثرات جو کچھ میرے خیال میں تھے اسی وقت لکھ کر پیش کر دئیے۔ میں نے اس میں یہ بھی لکھا کہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب بعض الفاظ دوران خطبہ دریافت فرماتے رہے۔ وغیرہ۔ حضور کو میرا مضمون بہت پسند آیا۔ اس میں لوگوں کی محویت کا عالم اور کیفیت کا ذکر تھا۔ کہ باوجود بعض لوگوں کے عربی نہ جاننے کے وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ (حق بات یہ ہے کہ اس کا عجیب ہی اثر تھا جو حیطۂ تحریر میں نہیں آسکتا) دوران خطبہ کوئی شخص کھانسا تک نہیں تھا۔ غرض حضرت صاحب کو وہ مضمون پسند آیا۔ اور مولوی عبدالکریم صاحب کو بلا کر خود حضور نے وہ مضمون پڑھ کر انہیں سنایا۔ اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ خطبہ کے ساتھ اس مضمون کو شائع کروں۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور اس نے (عاجز نے) تو ہمیں زندہ ہی دفن کر دیا ہے (مولوی عبدالکریم صاحب کی خاکسار سے حد درجہ دوستی اور بے تکلفی تھی) حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا اچھا ہم شائع نہیں کریں گے۔ پھر میں کئی روز قادیان رہا اور خطبہ الہامیہ کا ذکر اذکار ہوتا رہا۔ مولوی عبدالکریم صاحب زبان سے بہت مذاق رکھتے تھے اس لئے خطبہ کی بعض عبارتوں پر جھومتے اور وجد میں آجاتے تھے اور سناتے رہتے تھے۔ اس خطبہ کے بعض حصے لکھ کر دوستوں کو بھی بھیجتے رہتے تھے۔ ‘‘
( رجسٹرروایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ )رجسٹر نمبر13صفحہ385-386)
کتاب ’’خطبہ الہامیہ‘‘ روحانی خزائن کی جلد نمبر16 میں صفحہ1تا334موجود ہے۔
اس میں صفحہ 3تا11عربی میں ایک اعلان ہے جس کا ترجمہ موجود نہیں۔
اس کے بعد صفحہ12و 13 پر ’’تتمہ حاشیہ ٹائٹل پیج متعلقہ خطبہ الہامیہ‘‘ ہے جو کہ انگلش میں ہے اور اس کا ترجمہ صفحہ14پر ہے۔
اس کے بعد صفحہ15تا30 اردو زبان میں ’’اشتہار چندہ منارۃالمسیح‘‘ ہے۔ اس کے پہلے صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منارۃ المسیح کا نمونہ Sketchبنایا ہے۔
اس منارہ کے بارہ میں ایک روایت تذکرہ میں درج ہے:
’’ عزیز دین صاحب نے بواسطہ عیدا صاحب گمہارسکنہ موضع کنڈیلا بیان کیا کہ (مسجد اقصیٰ میں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد) حضورؑ نے اٹھ کر کاغذ پر نقشہ منار کھینچا اور فرمایا کہ ’’مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اس قسم کا مینار تم تیار کراؤ۔ ‘‘
(تذکرہ صفحہ663 ایڈیشن چہارم )
اس کتاب کا صفحہ31تا73کا حصہ اس خطبہ پر مشتمل ہے جو کہ حضور نے الہاماً بیان فرمایا تھا۔ یہ خطبہ
یَا عِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُوْا
… سے شروع ہوتا ہے اور
وَ سَوْفَ یُنَبِّئُھُمْ خَبِیْرٌ
پر ختم ہوتا ہے۔ یہ وہ خطبہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں ارشاد فرمایا جو خطبہ الہامیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا فارسی و اردو ترجمہ اس کے ساتھ موجود ہے۔
(باقی آئندہ)