حضرت چودھری محبوب عالم بقاپوری صحابی حضرت مسیح موعودؑ
آپ کی شخصیت انتہائی بارعب ہونے کے باوجود خودی، تکبر اور رعونت سے پاک تھی۔ آپ کی قوت فیصلہ بھی انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی
میرے پڑدادا حضرت محبوب عالم بقاپوری صاحبؓ نے 1906ءمیں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرکے سلسلہ احمدیت میں شمولیت اختیار کرنے کی سعادت پا ئی۔ آپ حضرت ابراہیم بقاپوریؓ (جن کا شمار حضرت مسیح موعودؑ کے 313 جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے) کے چھوٹے بھائی اور حضرت حفیظ بقاپوری صاحب درویش قادیان کے چچا تھے۔ حضرت ابراہیم بقاپوریؓ اپنی کتاب حیات بقاپوری جلد پنجم صفحہ 51پر تحریر فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ کے فضل سے شروع سے ہی ہمارا خاندان نیک اور متقی چلا آیا ہے۔ اور فضیلت اور علم سے ہمیشہ مرصع رہا ہے۔ چودھری بڈھا، حضرت محبوب عالم کے دادا تھے۔ اُن کے چار بیٹے تھے۔ (۱) امام دین (۲)چراغ دین (۳) شمس الدین(۴)صدرالدین۔
امام دین اور چراغ دین اچھے پڑھے لکھے فارسی دان تھے۔ چراغ دین اپنی بیوی کے فوت ہوجانے کے بعد حضرت محبوب عالم بقاپوریؓ کے گھر پر ان کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ مکرم چراغ دین صاحب مرحوم نیک ولی اللہ بزرگ تھے۔ وہ اکثر حصہ رات کا مسجد میں نوافل پڑھتے گذار دیتے تھے۔ اور جو مسافر بھی بقاپور میں آتا۔ خواہ آدھی رات ہوتی۔ آپ کی والدہ مرحومہ سے کہتے کہ تازہ روٹی پکا کردو چنانچہ وہ بہت خوشی سے تعمیل کرتی۔ آپ کی والدہ بھی بہت نیک، روزہ کی پابند خاتون تھیں۔ بچوں کا علاج بلا معاوضہ کیاکرتی تھیں۔ آپ کے وا لد ماجد چودھری صدرالدین، قوم جالب ایک زمین دارتھے۔ بہت ہمدردی رکھنے والے بزرگ تھے۔ آپ نے انتہائی بہادری سے چک چٹھہ (حافظ آباد) کے نمبردار کے حق میںجھوٹی گواہی دینے سے انکار کردیا تھا تو اس بدکردار نے آپ کو گاؤں سے نکال دیا۔ (چک چٹھہ چودھری صدر الدین کا ننھیالی گاؤں تھا)
چودھری صدرالدین کے تین بیٹے تھے۔ (۱) حضرت ابراہیم بقاپوری(۲) حضرت اسماعیل بقاپوری(۳)حضرت محبوب عالم بقاپوری۔
حضرت محبوب عالم بقاپوری صاحبؓ انتہائی مخلص احمدی، صالح اور مقبول الٰہی مرد تھے۔ آپ کے بارے میں حضرت ابراھیم بقاپوری صاحبؓ فرماتے ہیں :’’یہ ایک حقیقت ہے کہ جس شخص میں اعتقاد صحیحہ اور اعمال صالحہ اور فیوض و برکات الٰہیہ شامل حال ہوں۔ اس کی موت یقیناًقابل رشک موت ہوتی ہے۔ برادرم مرحوم (حضرت محبوب عالم بقاپوریؓ) میں یہ تینوں چیزیں پائی جاتی تھیں ‘‘
(روزنامہ الفضل جلد نمبر30ماہ تبلیغ 1941ہش)
اللہ تعالیٰ ان کی یہ تینوں خوبیاں۔ ان کی اولاد اور نسل میں جاری فرمائے آمین۔
آپ کی وفات پر حضرت ابراہیم بقاپوری صاحبؓ نے روزنامہ الفضل میں ایک مضمون تحریر کرکے شائع کروایا جس میں آپ فرماتے ہیں :
’’برادرم مرحوم کواللہ تعالیٰ نے 1906ء میں سلسلہ حقہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اوراس وقت سے لے کر اس نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات و صفات اور افعال میں کلیۃً واحد لاشریک سمجھا۔ رسول کریمؐ کوان معنوں میں خاتم النبیین سمجھتے رہے کہ آپ کی اتباع میں نبوت مل سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ نبوت پر صدق دل سے یقین رکھتے تھے۔ اور بجز نبی کریم کے حضور کو دوسرے انبیاء سے افضل سمجھتے تھے۔ آپ خاتم النبیین کے معنی سمجھاتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ ختم کاصلا’’علیٰ‘‘ آئے تو بمعنی ’’بند کرنے‘‘ اور اس ’’مہر‘‘ کے ہوتے ہیں جوکاغذ پر لگائی جائے۔ اور ختم کا صلا ’’لام‘‘ آئے تو بمعنی ’’جاری‘‘ کے ہوتے ہیں۔ اس کی دلیل وہ لسان العرب سے پیش کرتے تھے۔
آپ باوجود کم علم ہونے کے ایسے ایسے باریک استدلال مخالفین کے سامنے پیش کرتے کہ ان کوایک بڑا عالم ہونے کاشبہ ہوتا تھا۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کومصلح موعودیقین کرتے تھے۔ اور اس بات پر علیٰ وجہ البصیرت قائم تھے کہ صحیح اور مکمل تعلق بااللہ فی زمانہ سوائے حضور کی بیعت کے ممکن نہیں۔ ‘‘
آپ نے حضرت مصلح موعودؑ کی تحریک ’’تحریک جدید‘‘ پرلبیک کہتے ہوئے 35روپے چندہ ادا کرکے پانچ ہزار مجاہدین میں شمولیت اختیارکی۔ آپ کا نمبر 2664ہے۔ اور کمپیوٹر کوڈ2531ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ کی نسل کوچندہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمارہا ہے۔ الحمد للہ۔
آپ کو قرآن کریم سے عشق اس قدر تھا کہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کی جیب میں ہمیشہ قرآن کریم کاچھوٹاسا نسخہ موجود رہتا تھا۔ اورزمینوں وغیر ہ کی دیکھ بھال کے لیے جایا کرتے تھے تواکثردوران فراغت قرآن پڑھتے تھے۔
آپ کی شخصیت انتہائی بارعب ہونے کے باوجود خودی، تکبر اور رعونت سے پاک تھی۔ آپ کی قوت فیصلہ بھی انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی بڑے بڑے پیچیدہ جھگڑوں کو اس طرح آسانی سے طے کرتے کہ فریقین اسی فیصلہ پر راضی ہوجاتے۔ آپ ہمیشہ سچائی اور راست گوئی کے پابند تھے۔ جو بات بھی کرتے صاف اور سبق آموز نصیحت کے پیرایہ میں کرتے۔ آپ کچھ عرصہ کے لیے پولیس کے شعبہ سے بھی منسلک رہے۔
ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک سکھ نے آپ کے پاس آکرشکایت کی کہ اس کے بھائی اور چند اور لوگوں کو پولیس ناجائز طور پر پکڑ کر تھانے لے گئی ہے۔ مہربانی فرما کر آپ کچھ کریں۔ آپ ہمدردی مخلوق خدا کے جذبہ کے تحت فوراً اُس کے ہمراہ تھانے کے لیے چل پڑے۔ جب تھانے پہنچے تو تھانےدار اپنی غلیظ زبان میں اُن افراد کو گالیاں دینے میں مصروف تھا۔ جونہی آپ کو آتے دیکھا تو شرمندہ ہوگیا اور اُٹھ کر اپنی کرسی آپ کو پیش کردی۔ اور کہا ’’آپ تشریف رکھیں ‘‘ آپ نے فرمایا:’’تم جن الفاظ میں ابھی گفتگو کررہے تھےاس سے مجھے تمہارے خاندان کی اصلیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ اس لیے مَیں تمہاری کرسی پر نہیں بیٹھوں گا۔ تم صرف اُن افراد کو چھوڑ دو، جن کو پکڑ کرلائے ہو۔ ‘‘اس پر تھانےدار نے فوراًحکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُن افراد کو چھوڑ دیا۔
حضرت محبوب عالم بقاپوری صاحبؓ فطرتاً بہت ہی مہمان نواز تھے۔ آپ کی یہ مہمان نوازی کی صفت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی نسل میں بھی منتقل ہوئی ہے۔ خاکسار نے ذاتی طور پرمشاہدہ کیا ہے کہ میرے دادا محترم نور محمد بقاپوری مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے) بھی اس قدر مہمان نواز تھے کہ جب کوئی مہمان ان کے گھر آجاتا۔ انتہائی خوش ہوتے۔ اور ان کے قیام وطعام کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے اور سب اہل خانہ سے بار بار فرماتےمہمان اپنا نصیب اپنے ساتھ لے کرآتا ہے اور اپنے نصیب کا ہی کھاتا ہے۔
اور اُن کے بعد میرے والد مکرم چودھری بشارت احمد بقاپوری بھی مہمان نوازی میں فدائیت کا رنگ رکھتے ہیں اور ہمارے اقار ب سب جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک ہمیشہ مہمان، مہمان ہی ہوتا ہے۔ امیر یاغریب کی کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ یقیناً یہ نسلی فطرتی خوبیاں ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے خاندان کوآئندہ بھی ہمیشہ اس مہمان نوازی کی صفت کو جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
خاکسار نے ایک بار محترمہ پھوپھی امۃ الحفیظ بقاپوری(جو کہ حضرت ابراھیم بقاپوری کی صاحبزادی تھیں) سے پوچھا کہ آپ ہمارے پڑدادا کے بارے میں مجھے کچھ بتائیں۔ تو فرمانے لگیں ’’مجھے تو ان کی سب سے زیا دہ مہمان نوازی یاد ہے‘‘فرماتیں ’’ہم قادیان سے چھٹیاں گذارنے چچا جان (حضرت محبوب عالم بقاپوری) کے پاس بقاپور جایا کرتے تھے۔ تو ہمیں بار بار فرماتے تھے کہ ’’بچو خوب کھاؤ پیو‘‘ چنانچہ ہم اتنا کھاتے پیتے، اور خوش ہوتے تھے کہ واپسی پرہماری صحتیں اچھی ہو ئی ہوتی تھیں ‘‘
پھر حضرت ابراہیم بقاپوریؓ بھی فرماتے ہیں ’’آپ اس قدر مہمان نواز تھے کہ کوئی افسر یا مسافر بقاپور میں آتا تو اس کے کھانے کا خود انتظام فرماتے اور اس خدمت سے ان کو ایسی خوشی ہوتی کیونکہ اس طرح کی تقاریب میں ان کو تبلیغ کا خوب موقع مل جاتا۔ تبلیغ سلسلہ کا ان کو عشق تھا اور ایسے مواقع کے انتظار میں رہتے۔ جب وہ تبلیغ کرسکیں اور جیسے ہی کوئی موقع ملتا تبلیغ شروع کردیتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُن کے جوش تبلیغ ہی کا نتیجہ تھا کہ بقاپور میں ایک مختصر سی جماعت احمدیہ قائم ہوئی‘‘
الحمدللہ خاکسارکی جائے پیدائش بھی ’’بقاپور‘‘ ہے۔ ’’بقاپور‘‘گوجرانوالہ میں موجود ایک گاؤں کا نام ہے۔ جہاں ہمارے اجداد چودھری تھے۔ حضرت ابراھیم بقاپوری تحریر فرماتے کہ ’’محبوب عالم بقاپوریؓ متواضع، ملنسار اور ہمیشہ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے‘‘
اُن کی اسی صفت کے ضمن میں محترمہ پھوپھی امۃ الحفیظ بقاپوری صاحبہ نے خاکسار کو ایک واقعہ سنایا کہ ہمارے بھائی کی شادی لاہور میںتھی اور ہم سب مصروفیت میں چچا جان (حضرت محبوب عالم بقاپوریؓ ) کو دعوت دینابھول ہی گئے۔ جس دن شادی تھی تو ہمارے ابا جان یعنی حضرت ابراہیم بقاپوریؓ بہت اداس تھے کہ بھائی موجود نہیں ہے۔ ایسے میں کیا دیکھتے ہیں کہ اچانک دروازے پردستک ہوتی ہے تو چچاجان مع دیسی گھی اور تحائف کے ہنستے مسکراتے حاضر ہوجاتے ہیں۔ فرماتی ہیں ہم سب ان کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے اورپوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ شادی ہے؟ چچا جان فرمانے لگے مجھے کسی نے بتایا کہ آج میرے بھتیجے کی شادی ہے تو میں نے سوچا مجھے دعوت نامے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ جانا چاہیے۔
حضرت ابراہیم بقاپوریؓ، آپ کے خصائل حمیدہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں :’’برادرم مرحوم نماز پنجگانہ کے پابند اور تہجد خواں تھے۔ صیام رمضان اور چندہ زکوۃ کے بھی مثل نماز کے ایسے پابند تھے کہ کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ ‘‘
(روزنامہ الفضل 20؍تبلیغ 1941ء)
آپ کی اولاد میں ایک بیٹی حاجراں بیگم صاحبہ (جو کہ موصیہ تھیں اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں ) اور ایک بیٹا یعنی میرے دادا چودھری نور محمد بقاپوری صاحب مرحوم تھے۔ (وہ بھی بہت نیک، سادہ منکسر المزاج انسان تھے)حضرت محبوب عالم بقاپوری صاحبؓ کو بھی اپنی نسل دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اسی شوق کے پیش نظر آپ نے اپنے بیٹے کی شادی اپنی بھتیجی (یعنی حضرت حفیظ بقاپوری درویش قادیان کی ہمشیرہ) سے کی۔ ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو پیدا ہوتے ہی وفات پاگئی۔ اور خود بھتیجی (میرے دادا کی اہلیہ) بھی جوانی میں ہی فوت ہوگئی۔
چونکہ آپ کواپنی نسل دیکھنے کا بے انتہاشوق تھا۔ اس کے لیے دن رات بہت دعائیں کرتے رہتے تھے۔ میرے دادا کو فرماتے تھے کہ انشا للہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلے دو بیٹیاں دینی ہیں پھر دو بیٹے دینے ہیں اور پھر دو بیٹیاں دینی ہیں۔ الحمدللہ ویسا ہی ہوا۔ میرے دادا کی دوسری شادی میری دادی صابراں خاتون سے ہوئی اور پھر ایک اور شادی بھی ہوئی لیکن حضرت محبوب عالم بقاپوریؓ اپنی زندگی میں اپنی نسل دیکھنے سے محروم رہے۔ میری دادی بتاتی تھیں کہ ان کی شادی کو کوئی سات آٹھ ماہ کا عرصہ گذرا ہوگا تو انہوں نے حضرت محبوب عالم بقاپوریؓ یعنی اپنے سسر سے حلوہ کھانے کی فرمائش کی۔ اس پر وہ بہت خوش ہوگئے اور سمجھے کہ شاید کوئی خوشخبر ی ہے۔ ایک عورت کو میری دادی کے پاس بھیجا کہ میں تو نہیں پوچھ سکتا، آپ پوچھیں۔ اس پردادی نے بتایا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں، صرف دل چاہ رہا تھا حلوہ کھانے کا۔
ان کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری دادی کو اللہ تعالیٰ نے پہلے دو بیٹیوں (1) مکرمہ ناصرہ لطیف صاحبہ(حال مقیم جرمنی)(2)مکرمہ بشریٰ رفیق صاحبہ (حال مقیم جرمنی) سے نوازا، پھر دوبیٹوں (1) چودھری ناصر احمد بقاپوری مرحوم(2) مکرم چودھری بشارت احمد بقاپوری(حال مقیم کینیڈا) سے نوازا۔ اور پھر دوبیٹیوں (1) مکرمہ نصرت نصیر صاحبہ (حال مقیم ربوہ)(2) مکرمہ نصیرہ منیرصاحبہ (حال مقیم ربوہ) سے نوازا۔ الحمدللہ
آپ اکثر اپنے بیٹے یعنی میرے دادا سے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے تمہارے لیے اتنا خزانہ جمع کیا ہوا ہے کہ تمہاری نسلیں بیٹھ کربھی کھائیں تو ختم نہیں ہوگا۔ میرے دادا اپنی سادگی کی بدولت سمجھتے تھے کہ ابا نے شاید کسی جگہ سونے کی اینٹیں دبا رکھی ہیں۔ لیکن بعد کے حالات و واقعات نے سمجھایا کہ وہ سونے کی اینٹیں اور وہ خزانہ آپ کی دعائیں ہی تھیں جن سے آپ کی نسلیں فیض یاب ہورہی ہیں۔ اور وہ احمدیت کی دولت ہے جو انہوں نے اپنی نسل کو دی۔
آپؓ کچھ عرصےتک بعارضہ پیچش بیمار تھے۔ بعض حکیموں اور ڈاکٹروں نے شراب بطور دوا پینے کا مشورہ دیا۔ تو آپ نے یہ کہہ کر ر د کردیا کہ ’’مرنا تو ہے حرام پی کرکیوں مروں؟ ‘‘
آپؓ اپنی حالت کو خوب دیکھ رہے تھے کیونکہ بیماری سے حددرجہ نحیف و مغلوب ہوچکے تھے۔ اس لیے قادیان سے اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا ابراہیم بقاپوری صاحبؓ کو بلوایا۔ اس پر حضرت مولانا صاحب 20؍دسمبر 1941ءکو قادیان سے بقاپور پہنچے۔ تو انہوں نے آپ کی جسمانی کمزوری کو دیکھتے ہوئے تسلی دی اور آپ کی دلداری کرنے کی کوشش کی۔ اس پر آپ نے فرمایا:’’میں اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کے لیے تیار ہوں اور راضی ہوں۔ ‘‘اور اُن سے بار بار یہ درخواست کرتے رہے کہ مجھے قادیان کی سرزمین مقدسہ پر لے جائیں۔ لیکن حضرت مولانا صاحب ان کی نازک حالت اور بڑے دنوں کی تعطیلات ہونے کے گاڑیوں میں حد درجہ بھیڑ ہونے کی وجہ سے اُن کو اپنے ہمراہ قادیان نہ لاسکے اور اکیلے ہی22؍دسمبر کو واپس چلے گئے لیکن آپ کوقادیان کی سرزمین میں داعی اجل کو لبیک کہنے کا اس قدر شوق تھا کہ حضرت مولانا صاحب کے جانے کے بعد ہمارے دادا(یعنی اپنے بیٹے نورمحمد) کومجبور کیا کہ وہ قادیان پہنچادے۔ چنانچہ سفر میں ہرقسم کی صعوبت اٹھاکر آپ 24؍دسمبر کی شام ا پنے بیٹے کے ہمراہ قادیان پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد تین چارڈاکٹروں کا مشترکہ علاج شروع ہوگیا۔ لیکن 26؍دسمبر بروزجمعہ کی شام پہلے سے بھی زیادہ حالت خراب ہوگئی۔ اپنے بھائی (حضرت مولانا صاحب) کوگھبرایا ہوا دیکھ کر کہا کہ ’’بھائی جی گھبرانا تو میں نے تھا۔ لیکن میں تونہیں گھبرایا آپ کیوں گھبرا رہے ہیں؟ ‘‘ اس کے بعد پانچ سات منٹ کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
27؍دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت اقدس میں اطلاع بھجوائی گئی تو حضورؓ نے نماز ظہر کے بعد جلسہ گاہ کے میدان میں نماز جنازہ پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ نماز کے بعدتیس پینتیس ہزار کے مجمع نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود المصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی اقتدا میں آپ کا جنازہ جلسہ گاہ کے میدان میں پڑھا اور4بجے شام سپرد خاک کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو اور ہرآن آپ کے درجات بلند سے بلندفرماتا چلاجائے۔ آمین
آپ کی وفات کے بعد روزنامہ الفضل میں شائع شدہ مضمون میں حضرت مولاناابراہیم بقاپوریؓ فرماتے ہیں :
’’حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان اپنے معاملات سے پہچانا جاتا ہے۔ برادرم مرحوم لین دین کے معاملہ میں ایسے صاف تھے کہ جو وعدہ کرتے اس سے ایک دو دن قبل ہی قارض کے گھر جاکر ادا کردیتے۔ لین دین کے معاملہ میں اس قسم کی پابندی کا ہی نتیجہ تھا کہ مرحوم کی وفات کے وقت ہر قسم کا لین دین صاف تھا‘‘
آپ کا ذکر تاریخ احمدیت جلد نہم میں ملتا ہے۔ نیز روزنامہ الفضل 7؍اکتوبر 2002ء میں تاریخ احمدیت منزل بہ منزل۔ دین اور انسانیت کی خدمت کاسفر۔ مرتبہ۔ ابن رشد صفحہ نمبر2 پر بھی موجود ہے۔
٭…٭…٭