فر حتِ شوقِ جنوں
یہ تمام علمی تحقیق میں نے بقول شخصے ’’ربوہ جیسے ویران اور بے اۤب و گیاہ‘‘ شہرمیں رہ کر سر انجام دی، اور جو وعدہ میں نے سالوں پہلے اپنے پروفیسر ڈاکٹر محمد احسن الاسلام صاحب مرحوم کے ساتھ کیا تھاالحمدُ للہ اُسے ربوہ کے سادہ پر سکون ماحول میں پورا کر دکھایا۔
گذشتہ سال خاکسار28؍نومبر سے 12؍دسمبر تک ربوہ کی با بر کت بستی میں قیام پذیر رہا۔ 1956ء سے 1999ء تک کا چالیس سالہ زمانہ ربوہ میں بتایا ہوا اۤنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ ایسوسی ایشن اۤف احمدی ٹیچر ز ربوہ چیپٹر نے خاکسار کو اپنے اجلاس میں تعلیم الاسلام کالج میں لمبا عرصہ پڑھا نے کے تناظر میں اپنے تحقیقی سفر کی رو ئیدادسنانے کی فر ما ئش کی۔
تحدیثِ نعمت کر تے ہو ئے ربوہ میں گزری چالیس سال سے زائد زندگی کے دوران، با وجود میری نا لا ئقی اور کمزوریوں کے، جو مہر بان خدا تعالیٰ کے افضال بارش کی طرح مجھ پر نازل ہو ئے ان کا تذکرہ میں نے کسی قدر تفصیل سے کیا، جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میںدعا کی درخواست کے ساتھ پیش ہے۔
ایم ایس سی کے لیے مقالہ(thesis)تحریر کر نے کےساتھ ہی میری اۤ ئندہ زندگی میں تحقیق کی تر جیہات طے پا چکی تھیں۔ 1963ءمیں مَیں نے لیکچرر کے طور پر تعلیم الا سلام کالج جا ئن کیا۔ اُس وقت کا ربوہ اتنا اۤباد نہیں تھا، محلوں میں کہیں کہیں مکان دکھائی دیتے، جگہ جگہ پہاڑیاں اور کلر سے بھرے سپاٹ میدان، کانٹے دار جھاڑیاں، مختلف اقسام کے کر لے، کیڑے مکوڑے رینگتے عام نظر پڑتے تھے۔
کالج کے میوزیم میں پتہ نہیں کب کے کچھ حنوط شدہ جانور: دو تین لُدھر، جنگلی بلیاں، اُلّو، کچھ مختلف پرندے گل سڑ رہے تھے، سرکنڈے اور گھاس کے پودے ان سب کو ترتیب سے دیوار کے ساتھ show case کی طرز پر سجا کر ایک مضبوط شفاف پلاسٹک شیٹ سے چاروں طرف سے بند کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تین بڑی اور بھاری شیشے دار الماریوں میں شیشے کے جاروں میں مختلف اقسام کی کچھ مچھلیاں، کِرلے، سانپ، پرندے وغیرہ صحیح سائنسی اصولوں کو نظر انداز کر کے محفوظ کرنے کی وجہ سے گل سڑ چکے تھے، فارملین گدلی ہو چکی تھی، یہ سب میرے کسی کام کے نہیں تھے۔
میری تحقیقاتی تر جیح میں پاکستان میں پا ئے جانے والے مینڈک، خزندے(کِرلے، چھپکلیاں ) اور سانپوں کی مختلف علاقوں میں پھیلی اقسام شامل تھیں۔ چیلنج بڑا تھا، مگر محکم ارادے سے خدا کا نام لےکر کام شروع کر دیا۔ ہم ہر ہفتے بیالوجیکل سو سائٹی کے تحت ربوہ اور گرد و نواح سے جانور پکڑنے کا پروگرام بناتے، اس کے علاوہ دور درازعلا قوں سے اۤ نے والے طلباء کے تعا ون سے materialکی فراہمی شروع ہو گئی۔
اس کےعلاوہ Pakistan Science foundation, Islamabad نے ہمیں پوٹھو ہار اور جہلم کے علاقوں میں تحقیق کے لیے تین سال کے لیے فنڈز مہیا کیے۔ پھر پاکستان میں World Wild Fund for Nature نے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے علاقے میں کام کر نے کے لیے دو سال کا پرا جیکٹ دیا، الحمدُ للہ تعالیٰ۔ ان پرا جیکٹس سے نئے نئے علاقوں سے کافی material حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ سارا سال تنخواہ سے تھوڑی تھوڑی بچت سے ہفتہ ڈیڑھ ہفتے کے لیے موسمِ گر ما کی چھٹیوں کے دوران پاکستان کے دور دراز علاقوں اۤزاد کشمیر، بلو چستان، چاغی، سندھ، چولستان وغیرہ میں collection کے لیے کئی سفر کیے۔ دن کے علاوہ رات کے دوران ٹارچ کی روشنی میں جنگل بیا بانوں میں جھاڑیوں، غاروں، پہاڑیوں میں تلاش میں سر گر داں رہتے۔ collectionکا مطالعہ باقی سال لیبارٹری میں ہو تا ا اور مقالے تحریر کرتا رہتا۔
ہرپ (Herp)لیبارٹری کا قیام
گھر میں ایک مخصوص کمرہ میری لیبارٹری تھا، جس میں میرا material، ٹائپ را ئیٹر(بعد میں کمپیوٹر)، کتب، مقالہ جات، کسی بیرونی اور بچوں کی دستبرد سے محفوظ تھے، میری یہ ایک کمرے کی لیبارٹری کواب تک
Herpetological Laboratory 15/6 Darul Sadar North Rabwah 35460, Pakistan
کے نام سے بین الاقوامی شہرت اور پہچان حاصل ہے۔ کالج سے چھٹی کے بعد ضروریات سے فارغ ہو کر رات گئے تک لیبارٹری میں مصروف رہتا۔
لٹریچر کی فراہمی
سائنسی تحقیق میں میٹیریل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مفیدِ مطلب لٹریچر کی تلاش میں کالج لا ئبریری کوکھنگال ڈالا۔کوئی کامیابی نہ ہو ئی۔ فضلِ عمر ریسرچ کی لائبریری میں چھپا خزانہ ملا۔ نہرو یونیورسٹی لائبریری نیو دہلی سے معجزانہ طور پر لٹریچرمہیا ہوا۔ اس کے علاوہ reprint exchange کے تحت میرے تحقیقی مقالوں کے بدلے جو مختلف ملکی اور غیرملکی سائنسی مجلات میں شائع ہو رہے تھے، دنیا بھر سے سائنس دانوں کے مقالے ڈاک کے ذریعے ملتے رہے۔ الحمدُ للہ، جوں جوں میرا تعارف عام ہو تا گیا، یہ سلسلہ بڑھتا رہا۔ اس کے علاوہ ماہرین کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعے exchange of ideas ہو تے رہے جس سے میں تحقیق کے نئے نئے اسلوب سے متعارف ہو تا رہا۔
مختلف زبانوں میں لٹریچر اور تر جمے میں مشکلات کا حل
بیرونِ ملک سے ملنے والا لٹریچر اکثر مختلف زبانوں میں ہو تا، میرے لیے عارضی تشویش تو ہو تی مگر ربوہ میں اللہ کے فضل سے ہر زبان کا جا ننے والا مل جا تا جو خوشی سے میری مدد کرتا، ان میں سرِ فہرست مکرم ملک زبیراحمد صاحب ابن ملک عمر علی صاحب ہیں، انہوں نے فرنچ، رشین اور اطالوی مقالات میں مدد کی، ان سے قبل احمد شمیرصاحب سو کیہ مر حوم اور ڈاکٹر بھنو صاحب فرنچ مقالات کے ترجمے میں ممد رہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔
بیرونِ پا کستان سے مہمانوں کی اۤمد
پا کستان اور بیرونِ پا کستا ن سے کئی پرو فیسر صاحبان مجھ سے ملنے تبادلہ خیالات کر نے اور میری لیبارٹری دیکھنے ربوہ اۤتے رہے۔ ملا قا توں میں ریسرچ کے با رے میں تبادلہ خیال ہو تا رہتا۔
میری ریسرچ کے مو ضوعات
ریسرچ کا تھیم میرے عملی دنیا میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی متعین ہو گیا تھا، یعنی پا کستان کے طول و عرض میں پائے جانے والے مینڈک، ہر طرح کی چھپکلیوں (کرلے، کچھوے، مگر مچھ) اور سا نپوں کی انواع کا جائزہ اور نئی انواع کاتعین کرنا شامل ہے۔ ان جانوروں کے لیے اردو میں ’’ہوام ‘‘اور انگریزی میں Herpsکی اصطلاح را ئج ہے۔ نئی انواع کے جسمانی تقا بلی جا ئزے میں جسمانی او صاف کی مکمل تشریحmorphology، عا دات و خصائل adaptations، رہن سہن، ما حول ecology انڈے بچے دینے کا عمل اور عادات reproduction and development، پاکستان میں جغرافیائی پھیلاؤ zoogeographyکا مطا لعہ شا مل ہے۔
میرا پہلا ریسرچ پیپر 1965ء میں پا کستان میں شا ئع ہوا، پھر یکے بعد دیگرے کئی مقالات چھپے، ہر سال کم از کم ایک سے لےکر چار تک شائع ہوتے رہے۔ بیرونِ ملک پہلا مقالہ 1972ءمیں امریکی جرنل Herpetologica میں شا ئع ہوا جس کا نفسں ِمضمون عام فہم زبان میں ’’ضلع جھنگ پاکستان کے کر لے ‘‘تھا۔ اب تک 300سے زائدمقالات عالمی اہمیت کے جرائد میں شا ئع ہو چکے ہیں، چار کتب amphibians (مینڈکوں ) اور reptiles(چلپائیوں ) پر، دو کتب سانپوں سے متعلق چھپ چکی ہیں۔ الحمدُللہ
یہ تمام علمی تحقیق میں نے بقول شخصے ’’ربوہ جیسے ویران اور بے اۤب و گیاہ‘‘ شہرمیں رہ کر سر انجام دی، اور جو وعدہ میں نے سالوں پہلے اپنے پروفیسر ڈاکٹر محمد احسن الاسلام صاحب مرحوم کے ساتھ کیا تھاالحمدُ للہ اُسے ربوہ کے سادہ پر سکون ماحول میں پورا کر دکھایا۔ اب اللہ کے فضل سے پاکستان میں میری کتب دستیاب ہیں جن کی مدد سے ہر پاکستانی اور بیرونِ ملک سے اۤنے والا پاکستان میں پائے جانے والے ہر پس کو نہ صرف پہچان سکتا ہے، بلکہ ہر نوع کا سا ئنسی اور عام فہم نام جان سکتا ہے۔
جاری ریسرچ
جب دوستوں کو میرے امریکہ جا نے کا پتہ چلا تو گورنمنٹ کالج یو نیورسٹی لاہور والوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اپنی collection انہیں donateکر دوں، دو ویگنوں میں لاد کر لے گئے جو اب اس یو نیورسٹی کے میو زیم میں محفوظ پڑی ہے۔
میں 1999ء میں امریکہ اۤتے وقت اپنے collected جانوروں سے متعلق data اپنے ساتھ لے اۤ یا تھا، جس کی بنا پر ریسرچ پیپر ترتیب دےکر اب اشا عت کے لیے بھجواتا رہتا ہوں، اور reprints مختلف یو نیورسٹیوں اور ریسرچ اداروں کی در خواست پرPDF فارمیٹ میں بھجواتا رہتا ہوں، جوا باً مجھے reprints ملتے رہتے ہیں۔
بعض اوقات ایسا ہو تا ہے کہ کو ئی مو ضوع اَڑ جا تا ہے، کہ اچا نک اس مو ضوع سے متعلق لٹریچر ملتا ہے اور میری مشکل حل ہو جا تی ہے۔ یہ اللہ تعا لیٰ کا فضل ہے کہ اس کی رحمت نے کئی بار ایسے موا قع پر میری دستگیری فر مائی ہے۔ الحمدُللہ
میں نے مسلسل خدائی مدد کا نظارہ بار ہا دیکھا ہے، الحمدُ للہ
اے جذبۂ دل گر میں چا ہوں ہر چیز مقابل اۤ جا ئے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل اۤ جا ئے
اس کے علاوہ پاکستان، ایران، ہندوستان، اور دوسرے ممالک سے طلباء ریسرچرز اور فوٹو گرافر (خاص طور پر افغانستان میں لڑائی کو کور کرنے والے) دور دراز کے جانوروں کی تصاویر اور فیس بک کی سہو لت کے ذریعے پہچان میں مجھ سے مدد حاصل کر تے رہتے ہیں۔
٭…٭…٭