بغیر آسمانی روشنی کے آنکھیں کچھ نہیں دیکھ سکتیں
ایک بڑااعتراض اُن (بعض نادان۔ ناقل) کایہ ہے کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا۔ اور احمد بیگ اگرچہ پیشگوئی کے مطابق مر گیا مگر داماد اس کا جو اسی پیشگوئی میں داخل تھا نہ مرا۔ یہ ان لوگوں کا تقویٰ ہے کہ ہزارہا ثابت شدہ نشانوں کا تو ذکر تک منہ پر نہیں لاتے اور ایک دو پیشگوئیاں جو اُن کی سمجھ میں نہ آئیں بار بار اُن کو ذکر کرتے ہیں اور ہر ایک مجمع میں شور ڈالتے ہیں۔ اگر خدا کا خوف ہوتا تو ثابت شدہ نشانوں اور پیشگوئیوں سے فائدہ اُٹھاتے۔ یہ طریق راست باز انسانوں کا نہیں ہے کہ کُھلے کُھلے معجزات سے منہ پھیر لیں اور اگر کوئی دقیق امر ہو تو اُس پر اعتراض کر دیں۔ اس طرح پر تو تمام انبیاء پر اعتراضات کا دروازہ کھل جائے گا اور آخر کار اس طبیعت کے لوگوں کو سب سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صاحب معجزات ہونے میں کیا کلام ہے مگر ایک شریر مخالف کہہ سکتا ہے کہ اُن کی بعض پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں جیسا کہ اب تک یہودی کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کی کوئی بھی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اُس نے کہا تھا کہ میرے بارہ۱۲ حواری بارہ تختوں پر بہشت میں بیٹھیں گے مگر وہ بارہ کے گیارہ رہ گئے اور ایک مرتد ہو گیا اور ایسا ہی اُس نے کہاتھا کہ اس زمانہ کے لوگ نہیں مریں گے جب تک کہ میں واپس آجاؤں۔ حالانکہ وہ زمانہ کیا اٹھارہ صدیوں کے لوگ قبروں میں جا پڑے اور وہ اب تک نہیں آیا اور اُسی زمانہ میں اس کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور اس نے کہا تھا کہ میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں مگر کوئی بادشاہت اس کو نہ ملی۔ ایسے ہی اور بہت اعتراض ہیں۔ ایسا ہی اِس زمانہ میں بعض ناپاک طبع آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض پیشگوئیوں پر اعتراض کر کے کل پیشگوئیوں سے انکار کرتے ہیں اور بعض حدیبیہ کے قصہ کو پیش کرتے ہیں۔ اب اگر ایسے اعتراض تسلیم کے لائق ہیں تو مجھے ان لوگوں پر کیا افسوس۔ مگر یہ خوف ہے کہ اس طریق کو اختیار کر کے کہیں اسلام کو ہی الوداع نہ کہہ دیں۔ تمام نبیوں کی پیشگوئیوں میں ایسا ہی میری پیشگوئیوں میں بعض اجتہادی دخل بھی ہوتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حدیبیہ کے سفر میں بھی اجتہادی دخل تھا۔ تب ہی تو آپ نے سفر کیاتھا مگر وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا۔ نبی کی شان اور جلالت اور عزت میں اس سے کچھ فرق نہیں آتا کہ کبھی اس کے اجتہاد میں غلطی بھی ہو۔ اگر کہو کہ اس سے امان اُٹھ جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کثرت کا پہلو اس امان کو محفوظ رکھتا ہے۔ کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے۔ اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ہے۔ پس اگر مجمل وحی میں اجتہاد کے رنگ میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو بیّنات محکمات کو اس سے کچھ صدمہ نہیں پہنچتا۔ پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبر واحد کی طرح ہو اور مجمل ہو اور اس کے سمجھنے میں اجتہادی رنگ کی غلطی ہو۔ اِس بات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ
اور ساتھ اس کے یہ بھی ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں خدا پر فرض نہیں ہے کہ اُن کو ظہور میں لاوے۔ یُونسؑ کی پیشگوئی اس پر شاہد ہے اِس پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے کہ خدا کے ارادے جو وعید کے رنگ میں ہوں صدقہ اور دعا سے ٹل سکتے ہیں۔ پس اگر وعید کی پیشگوئی ٹل نہیں سکتی تو صدقہ اور دُعا لاحاصل ہے۔ اب ہم اس تقریر کو ختم کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کا شکر کرتے ہیں جس نے باوجود علالت اور ضعفِ جسمانی کے اس کے لکھنے کی ہمیں توفیق دی۔ اور ہم جناب الٰہی میں دعا کرتے ہیں کہ اس تقریر کو بہتوں کے لئے موجبِ ہدایت کرے اور جیسا کہ اس مجمع میں ظاہری اجتماع نظر آ رہا ہے ایسا ہی تمام دلوں میں ہدایت کے سلسلہ میں باہم ربط اور محبت پیدا کر دے اور ہر ایک طرف ہدایت کی ہوا چلاوے۔ بغیر آسمانی روشنی کے آنکھیں کچھ نہیں دیکھ سکتیں۔ سو خدا آسمان سے رُوحانی روشنی کو نازل کرے تا آنکھیں دیکھ سکیں اورغیب سے ہوا پیدا کرے تا کان سُنیں۔ کون ہے جو ہماری طرف آ سکتا ہے مگر وہی جس کو خدا ہماری طرف کھینچے۔ وہ بہتوں کو کھینچ رہا ہے اور کھینچے گا اور کئی قفل توڑے گا۔ ہمارے دعویٰ کی جڑھ حضرت عیسیٰؑ کی وفات ہے۔ اِس جڑھ کو خدا اپنے ہاتھ سے پانی دیتا ہے اوررسول اس کی حفاظت کرتا ہے۔ خدا نے قول سے اور اس کے رسول نے فعل سے یعنی اپنی چشم دید رؤیت سے گواہی دی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے اور آپ نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت شدہ ارواح میں دیکھ لیا ہے مگر افسوس کہ پھر بھی لوگ اُن کو زندہ سمجھتے ہیں اور ان کو ایسی خصوصیت دیتے ہیں جو کسی نبی کو خصوصیت نہیں دی گئی۔ یہی امور ہیں جن سے حضرت مسیحؑ کی الوہیت کو عیسائیوں کے زعم میں قوت پہنچتی ہے اور بہت سے کچے آدمی ایسے عقائد سے ٹھوکر کھاتے ہیں۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ244تا 246)