جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی نہیں کرتا
ہم گواہ ہیں کہ خدا نے ہمیں خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔ اب اُن کے زندہ کرنے میں دین کی ہلاکت ہے۔ اور اِس خیال میں لگنا خواہ مخواہ کی خاک پیزی ہے۔ اسلا م میں پہلا اجماع یہی تھا کہ کوئی نبی گذشتہ نبیوں میں سے زندہ نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت
مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ
سے ثابت ہے۔ خدا ابوبکررضی اللہ عنہ کو بہت بہت اجر دے جو اس اجماع کا موجب ہوئے۔ اور منبر پر چڑھ کر اس آیت کو پڑھ سنایا۔
اخیر پر ہم گورنمنٹ انگریزی کا سچے دل سے شکر کرتے ہیں جس نے اپنی کشادہ دلی سے ہمیں مذہبی آزادی عطا فرمائی۔ یہ آزادی جس کی وجہ سے ہم نہایت ضروری دینی علوم کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ یہ ایسی نعمت نہیں ہے جس کی وجہ سے معمولی طور پر ہم اس گورنمنٹ کا شکر کریں بلکہ تہ دل سے شکر کرنا چاہئے۔ اگر یہ گورنمنٹ عالیہ ہمیں کئی لاکھ کی جاگیر دیتی مگریہ آزادی نہ دیتی تو ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ وہ جاگیر اُس کے برابر نہ تھی۔ کیونکہ دنیا کا مال فانی ہے۔ مگر یہ وہ مال ہے جس کو فنا نہیں۔ ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس محسن گورنمنٹ کے سچے دل سے شکر گذار رہیں۔ کیونکہ جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی نہیں کرتا۔ نیک انسان وہی ہے کہ جیسے خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہے اس انسان کا بھی شکر کرے جس کے ذریعہ اس منعم حقیقی کی کوئی نعمت اُس کو پہنچی ہے۔
وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔
الراقم میرزا غلام احمد قادیانی
یکم نومبر۱۹۰۴ء روز سہ شنبہ ۔ سیالکوٹ
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ246تا 247)
قول اور فعل میں مطابقت
بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر ممبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تکبّر، غرور، بدکاریوں سے بچو۔ مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دلوں پر کہاں تک ہوتا ہے۔ اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن شریف میں
لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَاتَفْعَلُوْنَ (الصّف: 3)۔
کہنے کی کیا ضرورت پڑتی؟ یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے۔
تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی۔ اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہےکیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپؐ کے حصہ میں آئی۔ اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اور یہ سب اس لیے ہوا کہ آپؐ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی۔
(ملفوظات جلد1 صفحہ67-68 ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)