تلاش
اکیلے بیٹھ کر جب بھی
دریچہ فکر کا کھولوں
میں اپنے آپ سے بولوں
صبا خوشبو گلابوں کی
چُرا لاتی ہے گلشن سے
شعائیں نور کی
باطِن کے آئینے پہ
آپڑتی ہیں روزن سے
تو اس عالم میں اک چہرہ
حجابوں سے نکل کر
دل کے آنگن میں اُترتا ہے
وہ اک چہرہ
کبھی جو چاند بن کر مسکراتا ہے
مری راتوں کی تاریکی مٹاتا ہے
کبھی صدہا ستاروں کی طرح وہ ٹمٹماتا ہے
سر نوکِ مژہ یوں جھلملاتا ہے
وہ اک چہرہ
کبھی بادل، کبھی باراں
کبھی وصلش، کبھی ہجراں
کبھی مشکل، کبھی آساں
وہ ہر اک رنگ میں، ہرآں
یہاں بھی وہ، وہاں بھی وہ
اور ان کے درمیاں بھی وہ
میں جاتا ہوں جہاں بھی، وہ
نہاں بھی وہ، عیاں بھی وہ
وہی شاعر کے آوارہ خیالوں میں
وہی صحرا کے بے رہرو غزالوں میں
حسینوں کے حسیں شب رنگ بالوں میں
شفق میں،سرخیٔ رخسار و لب میں
برف کے ژالوں میں، لعلوں میں
کنول نینوں،چراغوں کی لَووں میں
خوش گلو آوازمیں،پُر درد نالوں میں
سُروں میں اور تالوں میں
وہ اک چہرہ، وہی چہرہ
اندھیروں اور اُجالوں میں
وہ اس دنیا سے بے بہرہ نہالوں میں
وہ مظلوموں کے بے آواز نالوں میں
وہ محروموں کےلب بستہ سوالوں میں
وہ مسکینوں کی آہوں میں
مسافر کی دعاؤں میں
وہ مضطر کی کراہوں میں
وہ شاہوں میں نہ میروں میں
نہ پیروں اور فقیروں میں
نہ وہ دنیا کے کیڑوں میں
نہ خواہش کے اسیروں میں
وہ عاشق کے دلِ صادق میں
وہ زندہ ضمیروں میں
وہ یعنی سُچے ہیروں میں
٭٭٭
میں!؟
مَیں ہر دم اپنے خوابوں میں
کبھی کھویا ہؤا رہتا ہوں
منطق کی کتابوں میں
سوالوں اور جوابوں میں
کبھی مَیں فلسفے میں گم
حقیقت یا سرابوں میں؟
کبھی دریا کی موجوں سے مَیں لڑتا ہوں
کبھی صحرا کے ذرّوں سے جھگڑتا ہوں
کبھی سورج کی کرنوں کو پکڑتا ہوں
کبھی پھولوں کی خوشبو سے بگڑتا ہوں
سنورتا یا اُجڑتا ہوں!؟
کبھی اپنا گریباں چاک
کبھی تسخیرِ ہفت افلاک
میں کس کس در کی چھانوں خاک
میں کیا ہوں جُز خس وخاشاک
میں کس کس وہم میں غلطاں
کبھی بر بینش و دانش
کبھی عملوں کی گوں نازاں
گہے دل کی طرح غمگیں
تو گاہے آنکھ سُوں حیراں
کبھی در دشت بھی آباد
کبھی شہروں میں بھی ویراں
یہ میرے دل کی بے تابی
یہ میری آتشِ سوزاں
نہ جانے کس کی ہے جویاں!؟
٭٭٭
(میر انجم پرویز)