طالبان کی حکومت اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں پر اس کے اثرات
یہ خام خیالی ہے کہ مغرب میں بسنے والے مسلمان اس مسئلہ کا سد باب کر سکیں گے
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد سے مختلف نقطۂ نظر سے تجزیے کیے جا رہے ہیں ۔ ذیل میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کی وجوہات، علاقے کے ممالک پر اثرات، اور خصوصاً مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کی مشکلات اور ان کے حل پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔
امریکی انخلاکی وجوہات
افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا بعض مبصرین کے خیال میں نیٹو اور بالخصوص امریکہ کی شکست ہے اور اس کا موازنہ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا اور اس کے معاً بعد ٹوٹ جانے سے کیا جا رہا ہے۔بعض کے نزدیک یہ کفر و اسلام کی جنگ میں اہلِ ایمان کی واضح فتح ، طالبان کے جذبۂ ایمانی کا ثبوت اور گویا خدائی نصرت کا نشان ہے۔ تعجب ہے کہ بعض نے تو طالبان کے کابل میں داخلہ اور معافی کے اعلان کا موازنہ فتح مکہ سے بھی کیا ہے۔
حقائق کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خیال کہ طالبان نے امریکہ کو عسکری میدان میں شکست دی ہے بے بنیاد ہے۔اسی طرح یہ خیال بھی درست نہیں کہ امریکہ مالی یا جانی نقصان کے پیشِ نظر خود ہی افغانستان چھوڑ گیا ہے، گویا طالبان نے براہ راست تو نہیں مگر بالواسطہ طور پر امریکہ کو ایک war of attrition یعنی مسلسل نقصان پہنچانے والی گوریلا جنگ کے ذریعہ شکست دے دی ہے۔ کیونکہ حقائق یہ ہیں کہ 2015ء سے 2021ء تک سات سال میں طالبان کے حملوں میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 77تھی اور گذشتہ اٹھارہ ماہ میں ایک بھی امریکی فوجی کام نہیں آیا سوائے ان تیرہ کے جو امریکی انخلا کے آخری دن داعش نے اس وقت مارے جبکہ امریکی اپنا دفاعی نظام لپیٹ چکے تھے (دیکھیں امریکی وزارت دفاع کا Defence casualty analysis system) ۔ پس یہ سمجھنا کہ گویا امریکہ کو بڑا جانی نقصان ہو رہا تھا جس سے بچنے کی خاطر افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا، درست نہیں۔ امریکہ ویسے ہی افغانستان کو چھوڑ رہا تھا۔ چنانچہ 2010ء کے ایک لاکھ دس ہزار فوجیوں کے مقابل پر 2020ء میں صرف چار ہزار فوجی افغانستان میں تعینات تھے۔اسی طرح مالی نقصان کو دیکھا جائے تو 2019ء میں Federation of American Scientistsکے مطابق افغانستان میں امریکہ کا ماہانہ خرچ 3.3ارب ڈالرز تھا۔ اسی طرح پینٹاگون(Pentagon) اور کانگرس کے بنائے ہوئے ایک تھنک ٹینک RealClearDefenseکے مطابق 2015ء سے اب تک افغانستان میں فوجی آپریشنز کا کل خرچ 256ارب ڈالرز تھا۔ یعنی سالانہ 40ارب ڈالرز سے بھی کم۔ امریکہ جیسی بڑی معیشت کے لیے اس خرچ کی کچھ بھی حیثیت نہیں جس کا سالانہ دفاعی بجٹ ہی قریباً سات سو ارب ڈالر ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس رقم کا بھاری حصہ امریکی کمپنیوں سے اسلحہ خریدنے اورسیکیورٹی معاہدے کرنے کے نتیجے میں امریکہ ہی میں خرچ ہوتا ہے ۔گو بالواسطہ خرچ جو سود در سود اور امریکی فوجیوں کی وطن واپسی کے بعد طبی خرچوں اور دیگر معاملات پر ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ ہے، تاہم بڑے تخمینہ، یعنی دو ٹریلین ڈالر، کو دیکھا جائے تو بھی گذشتہ چھ سالوں میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کے باعث یہ بھی کوئی خاص تکلیف کا باعث نہیں تھا۔
درحقیقت افغانستان سے امریکی انخلا کی حقیقی وجہ پالیسی میں وہ تبدیلی ہے جس کے متعدد محرکات ہیں۔ایک محرک امریکی عوام کی افغانستان اور عراق کی جنگوں سے اکتاہٹ ہے۔ امریکی پبلک میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد 2002ء میں صرف 6 فیصد کا خیال تھا کہ افغانستان کی جنگ ایک غلطی ہے۔ لیکن اس کے بعد یہ تناسب بڑھتے بڑھتے 2014ء میں 48 فیصد ہو گیا ۔ یعنی امریکہ کی نصف کے قریب آبادی اس جنگ کے خلاف ہو گئی۔ 2011ء کے ایک جائزہ میں 60 فیصد لوگوں نے کہا کہ جنگ کو دو سال کے اندر اندر ختم ہو جانا چاہیے۔ (The Washington Post, 19.8.2021)
2011ء میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی عوام میں جنگ کو مزید جاری رکھنے کی خواہش تیزی کے ساتھ کم ہوئی اور 56 فیصد نے کہا کہ فوجوں کو جلد از جلد واپس بلا لینا چاہیے۔(Pew research 2.9.2021)
چنانچہ ایک عرصہ پہلے یہ واضح ہو چکا تھا کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنا ہو گا۔پالیسی میں تبدیلی کا ایک اور محرک امریکی انتظامیہ کا یہ ادراک تھا کہ افغان عوام میں وہ تبدیلی نہیں لائی جا سکی جس کے نتیجے میں ایک مضبوط جمہوری اور ملائیت مخالف نظام تشکیل پا سکے۔طالبان کے علاوہ علاقائی وار لارڈز کا اثرو رسوخ امریکی افواج سے کہیں زیادہ رہا۔ایک اور محرک عالمی سطح پر امریکی پالیسی میں تبدیلی بھی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ (war on terror) کے مسلسل بیس سال کے بعد اب فوجوں کی واپسی اور تنظیم نَو کا دور شروع ہو رہا ہے۔
افغانستان میں تبدیلی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
افغانستان سے انخلا کی وجوہات کی نسبت اس کے نتائج زیادہ اہم ہیں۔ اول تو طالبان اور ان کے حمایتیوں نے ایک بیانیہ گھڑ لیا ہے جس کے مطابق وہ اپنے آپ کو فاتح روس و امریکہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ اب سوویت یونین ہی کی طرح امریکہ کا خاتمہ نزدیک ہے وغیرہ۔ ایک طبقہ اس بیانیہ پر یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ اس طبقہ کی حد تک ملائیت کو تقویت ملے گی۔ انتہا پسند سیاسی قوتوں کی حمایت میں اضافہ ہو گا اور معاشرہ میں عمومی طور پر ہیجانی کیفیت بڑھے گی۔ اس کے نتائج کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔
ایک اَور بیانیہ طالبان کے حالیہ بظاہر معتدل اعلانات کے متعلق ہے۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب طالبان پہلے سے مختلف ہیں، انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے، ان کی سرپرستی کرنے والے ان کو ایک حد تک راہ راست پر رکھ سکیں گے وغیرہ۔ تعجب یہ کہ بعض مغربی مبصرین بھی ایسا کہہ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ طالبان سے مذاکرات کر کے ان پر اثرانداز ہونا چاہیے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملائیت کی سرشت میں ہی سختی، شدت پسندی ، ظلم اور منافقت پائی جاتی ہے خواہ اس کا تعلق کسی مذہب اور کسی فرقہ سے ہو۔ چنانچہ عنقریب ملائیت اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کر دے گی۔ وقتی مجبوریاں زیادہ دیر تک مصنوعی چہرہ قائم نہیں رکھ سکتیں۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی حکومت ہے اور خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں کہ فلاں پابندی عائد کی جا رہی ہے اور فلاں کو سزا دی گئی ہے۔
تیسرے افغانستان کے بعض پڑوسی ممالک کی خواہش ہے کہ وہ افغانستان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوں اور بالخصوص افغانستان میں اپنے مخالف ممالک کا رسوخ ختم کر دیں۔ ان کے پیش نظر اپنے وقتی مفادات ہیں ۔ عصبیت ، خواہ مذہبی ہو خواہ سیاسی، کے جن کو بوتل سے نکالنا آسان ہے مگر واپس بوتل میں بند کرنا بہت مشکل۔چنانچہ ان ممالک کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ نہ صرف ان کے اپنے ہاں انتہا پسندی فروغ پائے گی بلکہ ان کو طالبان کی حرکتوں کا ذمہ دار بھی قرار دیا جائے گا۔ یہ عذر کہ طالبان آزاد ہیں اور ہمارے اختیار میں نہیں ، دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ۔ سب کو اچھی طرح علم ہے کہ کس ملک کا طالبان پر کتنا اثر و رسوخ ہے۔
مغرب میں بسنے والے مسلمانوں پر اثرات
افغانستان کے عوام کے بعد طالبان حکومت کے اقتدار سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگ مغرب میں آباد مسلمان ہیں۔ جب طالبان کی فطری ملائیت اپنا رنگ دکھانا شروع کرے گی تو میڈیا میں عورتوں، اقلیتوں پر مظالم، شخصی آزادیوں کے سلب کرنے، ظالمانہ کارروائیوں وغیرہ کی خبریں پھیلیں گی۔ اس کے نتیجے میں مغربی عوام میں اسلام کے متعلق خوف مزید گہرا ہو گا اور تحفظات بلکہ تعصبات بڑھیں گے۔ بہیمانہ ظلم و سختی کی خبریں بہت زیادہ اثر انگیز ہوتی ہیں۔ مثلاً امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے مشہور واقعہ کے چھ ماہ بعد یعنی مارچ 2002ء میں 25 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اسلام سب سے زیادہ تشدد پسند مذہب ہے۔ لیکن اس واقعہ کے بیس سال بعد اگست 2021ءمیں یہ تناسب 50 فیصد ہو چکا ہے (Pew research 2.9.2021)۔ یاد رہے کہ اس دوران امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا۔ اس بڑھوتی کی وجہ یہی ہے کہ مسلسل مسلمان کہلانے والوں کی جانب سے ہونے والی حرکتوں کو میڈیا میں جگہ ملی ۔ ہر دوسرے دن کوئی ایسا دہشت گردی یا انسانی حقوق کی پامالی کا واقعہ ہو جاتا ہے جو اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایسی پارٹیاں وجود میں آ کر پارلیمنٹ تک پہنچ چکی ہیں جن کا منشور ہی اسلام مخالفت پر مبنی ہے۔ کہیں نقاب پر پابندی لگائی گئی ہے تو کہیں مینار ممنوع ہو چکے ہیں۔
اس مسئلہ کا حقیقی حل
یہ خام خیالی ہے کہ مغرب میں بسنے والے مسلمان اس مسئلہ کا سد باب کر سکیں گے۔ تمام مسلمانوں کی مجموعی کوششوں سے جتنے لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں ان سے کہیں زیادہ کے ذہن میں تعصب بڑھ جاتا ہے۔ اسی بات کا نتیجہ امریکہ میں مذکورہ بالا 25 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد کی اسلام مخالف بڑھوتی ہے۔ ہر مغربی ملک کا قریباً یہی حال ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟
گو میڈیا وغیرہ میں کوشش کرنا ضروری ہے مگر اس مسئلہ کا حقیقی اور پائیدار حل تین امور سے مشروط ہے ۔ اول یہ کہ مسلمانوں کا آبادی میں تناسب رفتہ رفتہ ایک حد تک بڑھ جائے۔ تعداد کا ایک اثر ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے بھی تعداد کا ذکر فرمایا ہے کہ اگر تم سو ہو گے تو دو سو پر غلبہ پا لو گے (الاعراف: 67) ۔ قانون قدرت اس بات کو لازم قرار دیتا ہے کہ معاشرہ پر مجموعی اور دیر پا اثر کے لیے کم از کم تناسب موجود ہو۔ لیکن صرف تعداد کافی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ہندوستان ہے جہاں مسلمانوں کا آبادی میں تناسب قریباً 20 فیصد ہے مگر صرف تعداد کا انہیں خاطر خواہ فائدہ نہیں۔ چنانچہ دوسری شرط کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ مسلمان مغربی معاشرہ کے ہر طبقہ میں سرایت کر جائیں۔ علمی اداروں، سائنس، تحقیق، مالی امور، صنعت، تجارت، فوج، سیاست وغیرہ۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ اگر کسی مغربی ملک کی 50 بڑی کمپنیوں کا جائزہ لیا جائے تو شاید ایک بھی مسلمانوں کی نہیں ہو گی۔ نہ ہی کسی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اکثریت چھوڑ دسواں حصہ بھی مسلمان ہوں گے۔ یہی حال یونیورسٹی پروفیسرز، سائنسدانوں، فوجی جرنیلوں، پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں، صحافیوں ، صنعتکاروں وغیرہ کا ہے۔ جب تک تمام طبقات کے لوگوں کا مسلمانوں سے ذاتی رابطہ نہیں ہو گا، ان میں موجود تعصب باقی رہے گا۔ تاہم اس طرح کے وسیع پیمانے کے تعلقات قائم ہونے میں یہ خطرہ ہے کہ مسلمان اپنی تعلیمات نہ بھلا بیٹھیں۔ کیونکہ تعلقات کا اثر دو طرفہ ہوتا ہے۔ اگر دوسرے مسلمانوں سے متاثر ہوں گے تو مسلمان بھی دوسروں سے متاثر ہوں گے۔ بلکہ زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ انسان سہل پسند ہے۔ دیگر مذاہب اور دہریوں میں اسلام سے زیادہ ظاہری آزادی پائی جاتی ہے۔ نہ عبادات کا وہ تسلسل، نہ روزہ کی سختی، نہ حلال و حرام کی احتیاطیں۔اس کا حل تیسری شرط ہے یعنی ایک ایسا نظام جو مسلمانوں کی مذہبی حالت کی نگرانی کرے اور ان کو بار بار راہ راست پر واپس لاتا رہے۔ اگر مسلمان ایسے نظام سے وابستہ نہیں ہوں گے تو مغرب میں سرایت کر جانے کے نتیجہ میں فائدہ اٹھانے کی بجائے خود مغربی معاشرہ کے زیر اثر آجائیں گے اور ان کا دین محض چند معاشرتی رسوم و رواج تک محدود رہ جائے گا۔ ایسا نظام، صرف نظام خلافت ہی ہے جو مسلمانوں کے لیے واجب الاطاعت ہے اور کسی بھی ملکی یا ذاتی مفاد سے بالا ہو کر حقیقی اسلامی تعلیم کی طرف راہنمائی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ نظام مسلمان خود نہیں بنا سکتے۔ اس بارے میں مغرب میں چلنے والی تحریکات کا مقصد مسلمانوں کی دنیاوی برتری قائم کرنا ہے۔ جبکہ دنیاوی برتری نہیں بلکہ روحانی ترقی کے لیے خلافت کی ضرورت ہے۔ اور ایسی خلافت وہی بنا سکتا ہے جو پہلے بھی بناتا آیا ہے اور جو لوگوں کے دلوں میں اس کی اطاعت کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے اور روحانی ترقی بھی عطا کرتا ہے۔ خود ساختہ انسانی نظام خلافت روحانی ترقی کی ضمانت کیونکر دے سکتا ہے؟ خلافت کے ذریعہ اتحاد قائم کرنا تو بہت دور کی بات ہے مسلمانوں کی بنائی ہوئی کوئی تنظیم اور کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی تقسیم در تقسیم نہ ہو رہی ہو۔ ان میں کسی مسجد کا انتظام کرنے کی قابلیت بھی نہیں اور آئے دن مسجد کمیٹیوں کی لڑائیوں اور تفرقہ کی خبریں سنی جاتی ہیں۔
پس میڈیا میں کوششوں کے ساتھ ساتھ تعداد میں اضافہ، وسیع اور ہمہ گیر تعلقات اور سب سے بڑھ کر نظام خلافت کی ڈھال کے پیچھے آنے سے ہی مغرب میں مسلمانوں کے خلاف تعصب ختم ہو سکتے ہیں۔ یا پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر دے جو مغربی اقوام میں موجود احساس ِبرتری اور تکبر کی بنیاد کو ختم کر دے۔
وَلَعَلَّ اللّٰہَ یُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰلِکَ اَمۡرًا۔
(نوٹ: ادارہ الفضل انٹرنیشنل کا اس مضمون کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)