حضور انور کے ساتھ ملاقاتیورپ (رپورٹس)

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصار اللہ جرمنی کی نیشنل عاملہ کی (آن لائن) ملاقات

اصل بات یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پہ نظر رکھیں تو پھر ترقی ہوتی ہے۔ صرف خوش فہمیوں میں مبتلا ہو جائیں تو ترقی نہیں ہوتی۔

قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنی کمزوریوں پہ نظر رکھتی ہیں اور اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہیں

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 19؍ ستمبر2021ء کو ممبران نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ جرمنی اور ناظمین اعلیٰ علاقہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔

حضور انور نے اس ملاقات کو اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق بخشی جبکہ ممبران مجلس عاملہ مجلس انصار اللہ جرمنی نے اس آن لائن ملاقات میں مسجد بیت السبوح کمپلیکس، فرانکفرٹ جرمنی سے شرکت کی۔

اس ملاقات کے دوران جملہ اراکین نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ کو حضور انور سے راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا جبکہ حضور انور نے اراکین نیشنل عاملہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ان کے شعبہ جات میں بہتری لانے کے لیے ہدایات سےنوازا۔

حضور انور نے نائب صدر صاحب صف دوم سے سائیکلنگ کے حوالہ سے استفسار فرمایا جس پر انہوں نے بتایا کہ ملک بھر کے 3947 صف دوم کے انصار میں سے اس وقت 1433 انصار سائیکلنگ کرتے ہیں۔

حضورِ انور نے ان کو ہدایت فرمائی کہ خدام صف دوم کا مطلب ہی یہی ہے کہ ذرا active رہیں وہ۔ جس طرح خدام الاحمدیہ میں ہوتے تھے اس طرح انصار میں آ کے ہو جائیں۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ مجھے یہ بتائیں کہ ان کی روحانیت بڑھانے کے لیے، ان کی صحت اچھی کرنے کے لیے، ان کو خدام الاحمدیہ سے زیادہ بہتر active کرنے کے لیے آپ نے کیا plan بنایا۔ وہی پرانی،گھسی پٹی باتیں کرتے رہتے ہیں آپ لوگ۔ کوئی نئی نئی باتیں نکالا کریں۔ زمانے کے لحاظ سے چلیں۔ عمر کے لحاظ سے چلیں۔ دیکھیں آپ نے کس طرح چلانا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں صف دوم کا کوئی کام نہیں بس ایک چل چلاؤ ہے۔ وہی حضرت مصلح موعودؓ والی بات کہ ایک خادم انصار میں قدم رکھتا ہے، چالیس سال اور ایک دن کے ہوتے ہی سمجھتا ہے کہ میں بس اب بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اب ایسے ہی ہے کہ میں جماعت کا بیکار عضو بن جاؤں حالانکہ بیکار عضو نہیں بننا، صف دوم بنائی ہی اس لیے گئی تھی کہ کارآمد عضو کو لمبا عرصہ چلایا جائے۔

بعد ازاں حضورِ انور نے قائد صاحب عمومی کو مخاطب ہو کر استفسار فرمایا کہ کیا وہ رپورٹس پر تبصرہ بھجواتے ہیں نیز یہ کہ کیا ہر شعبہ کے قائدین اپنا اپنا تبصرہ بھجواتے ہیں۔ پھر فرمایا باقی قائدین کو بھی کہیں ذرا خود بھی تو active ہوں۔ اور اس کے بعد پھر قائد عمومی کی طرف سے تبصرہ چلا جاتا ہے کہ صدر کی طرف سے جاتا ہے۔

قائد صاحب مال کو مخاطب ہو کر حضورِ انور نے فرمایا کہ مجالس کی طرف سے آنے والے بجٹ پر آپ کو تسلی ہے کہ صحیح طرح بن رہا ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کی کہ انہیں تسلی نہیں ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ گنجائش ہے ناں؟ اصل بات یہ ہے کہ اپنی کمزوریوں پہ نظر رکھیں تو پھر ترقی ہوتی ہے۔ صرف خوش فہمیوں میں مبتلا ہو جائیں تو ترقی نہیں ہوتی۔ قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو اپنی کمزوریوں پہ نظر رکھتی ہیں اور اس کو بہتر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

نیز فرمایا کہ صرف یہ کہنا کہ ہم نے اتنا کر لیا ہے، اتنا کر لیا اور کسی نے اگر اعتراض کر دیا تو اس پہ غصہ میں آ گئے وہ بات کوئی نہیں بنتی۔ ہم نے ترقی کرنی ہے۔ ہم نے کام کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنا ہے اور اس لیے پھر حقائق کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ تبھی ہم صحیح طور پہ اپنا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہ کم ازکم ہر ایک ناصر کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ یہ لکھ دے کہ میں اپنی آمد کے مطابق چندہ نہیں دے سکتا، چندہ میں اتنے پہ دوں گا لیکن یہ کہنا کہ میری آمد اتنی ہے وہ غلط ہے۔ اس میں برکت نہیں ہوتی پھر۔ یہ بتانا بھی تربیت کے لحاظ سے ضروری ہے۔ اور انصار تو اس عمر پہ پہنچے ہوئے ہیںان کی تربیت اب کون کرے گا۔ ہر ایک نے اپنی تربیت خود ہی کرنی ہے۔ یہ تو آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ چندہ کی شرح اتنی ہے، میں اس شرح کے حساب سے دوں گا، یہ انصار کو اجازت لے لینی چاہیے۔ ہم زبردستی نہیں کرتے، ٹیکس نہیں لگاتے لیکن سچائی ضرور ہونی چاہیے۔

قائد صاحب تبلیغ کو مخاطب ہو کر حضورِ انور نے فرمایا کہ آپ نےبیعتیں کتنی کروائی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اس کی رپورٹ انہیں نہیں ملتی۔ اس پر حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ کیوں نہیں ملتی؟ انصار اللہ کے ذریعہ سے جو بیعتیں ہوتی ہیں اس کی رپورٹ ملنی چاہیے۔ نیز فرمایا کہ سوال یہ ہے کہ جب انصار نے بیعتیں کروائی ہیں تو مجالس سے رپورٹ منگوانا آپ کا کام ہے، لائحہ عمل میں لکھا ہو یا نہ لکھا ہو۔ کوئی اپنا بھی دماغ استعمال کر کے دیکھیں، کس طرح کیا بہتری کرنی ہے۔ ضروری تو نہیں لائحہ عمل کے اوپر لکیر کے فقیر کی طرح چلیں۔ لائحہ عمل تو ایک موٹی موٹی گائیڈ لائن ہے۔ اس کے علاوہ اس کی detail میں جانا، اس پر مزید کام کرنا، پروگرام بنانا، planning کرنا یہ آپ کا اپنا کام ہے۔

قائد صاحب ایثار (جن کے سپرد خدمتِ خلق کی ذمہ داری ہے) سے مخاطب ہو کر حضورِ انور نے فرمایا کہ انہیں افریقہ میں خدمتِ خلق کے حوالہ سے ہیومینٹی فرسٹ کے تحت وسیع پروجیکٹس پر کام کرنا چاہیے جیسے ماڈل ویلیجز کا بنانا ۔

قائد صاحب تعلیم القرآن جن کے سپرد قرآنِ کریم پڑھانے اور وقف عارضی کے تحت دو ہفتے تک قرآن سکھانے والے واقفین مہیا کرنے کی ذمہ داری ہے ،سے مخاطب ہو کر حضورا نور نے فرمایا کہ عاملہ کے ممبران کو خود کو وقف عارضی کے لیے پیش کرکے دوسروں کے لیے مثالی نمونہ بننا چاہیے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ جملہ ممبرانِ عاملہ خواہ وہ نیشنل سطح کے ہوں یا لوکل سطح کے، انہیں وقف عارضی کی سکیم میں حصہ لینا چاہیے۔ یہ ایک ایسا ٹارگٹ ہے جو آپ کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ ممبران عاملہ خود کو دو ہفتے کی وقفِ عارضی کے لئے پیش کریں۔

پروگرام کے اختتام پر مکرم صدر صاحب مجلس انصاراللہ جرمنی نے عرض کرتے ہوئے کیا کہ اگلے ماہ مجلس انصاراللہ جرمنی کا نیشنل اجتماع ہےحضورِ انور سے خطاب کرنے کی درخواست کی۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آج جو باتیں ہو گئی ہیں اسی کو خطاب سمجھ لیں۔ یوکے انصار کو جو میں نے خطاب کیا تھا ان کو وہ سنوا دیں۔

مکرم صدر صاحب نے عرض کیا کہ حضورِانور کے خطاب کے مختلف پوائنٹس سرکلر میں بھیجے جاتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ان میں سے پوائنٹس نکال کے ان کو بھیجیں۔ باقی جب تک عمل نہیں کریں گے سوال جواب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنی پوری کوشش کریں، عمل کریں اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کے بہتر نتائج پیدا کرے اور پھر معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیں۔ ہمارے ہاں کام کرنے کی بھی کمزوری ہے اور دعاؤں کی بھی کمزوری ہے۔ دونوں طرف کی کمزوریوں کو پہلے دور کر کے پھر ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کچھ کیا ہے۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا ’’چلیں پھر اللہ حافظ و ناصر ہو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button