امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ برطانیہ میں خدمت بجالانے والے مربیان سلسلہ کی (آن لائن) ملاقات
اصل چیز تو دعا ہے دعا سے کام ہونے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔
اپنے تعلق باللہ کو بڑھائیں تو یہی اصل چیز ہے ہمارے لیے۔ دعاؤں اور استغفار پہ زور دیں زیادہ۔
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 10؍جنوری 2021ء کو لندن کے ریجن (Greater London area)میں خدمت بجا لانے والے مربیان کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِانور اس ملاقات میں اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق افروز ہوئے جبکہ مربیان سلسلہ نے آن لائن شرکت کی۔
55 منٹ پرمشتمل اس ملاقات میں جملہ حاضرین کو حضور انور سے بات کرنے اور آپ سے دعائیں اور ہدایات لینے کا موقع نصیب ہوا۔
مکرم عطاء المجیب راشد صاحب مشنری انچارج برطانیہ نے بتایا کہ فیلڈ میں جو مبلغین کام کر رہے ہیں ان کی تعداد 31 ہے اور دفاتر میں کام کرنے والے دس ہیں تو کُل 41 مربیان ہیں۔ اور آج کی مجلس میں 18 حاضر ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جو دفاتر میں کام کر رہے ہیں وہ متعلقہ دفاتر کے ماتحت ہیں یا وہ بھی آپ کو کوئی رپورٹس دیتے ہیں۔ دفاتر میں جو کام کر رہے ہیں ان کو بھی بعض جگہ جہاں مشنریز نہیں ہیں یا جہاں نماز سینٹر ہیں اور وہاں صدر جماعت یا لوکل جماعت والے نماز سینٹر میں نماز پڑھاتے ہیں وہاں ان لوگوں کی بھی ڈیوٹی لگائیں، وہاں جایا کریں کم از کم ایک نماز وہاں پڑھا دیں۔ اورآجکل کے حالات کے مطابق جتنی پابندی سے کوئی درس ہے تو درس بھی دیا جاسکتا ہے۔ جب سے کووڈ کا مسئلہ شروع ہوا ہے آپ کے مساجد میں درس بالکل بند ہوچکا ہوا ہے۔ حالانکہ صبح کا درس پانچ سات منٹ کا تفسیر کا دیا جا سکتا ہے، کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم نے یہاں مسجد مبارک میں تو بند نہیں کیا۔ یہاں تو جامعہ کے جو پچھلے سال پاس ہوئے تھے طلباء ان میں سے دو دو دن ہر ایک کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے وہ تفسیرِ کبیر کا درس دیتے ہیں تو آپ لوگ بھی دے سکتے ہیں۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب congregationکے اوپر، worship place کے اوپر پابندی نہیں ہے تو ایک حد تک اس پروٹوکول کو سامنے رکھتے ہوئے، صحیح طرح restrictions کو observeکرتے ہوئے جتنا کام کر سکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے۔ بالکل ہی بیٹھ نہ جائیں کہ کل کو پتہ نہ لگے کہ درس بھی کوئی چیز ہوتی تھی۔
مزید فرمایا کہ یا تو ایک طرف چلے جاتے ہیں یا دوسری طرف چلے جاتے ہیں۔ یا ہنے یا بنے۔ بیچ کا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مسجدوں میں ہیٹنگ کا نظام اچھا کریں یا جو نماز سینٹر ہیں ہیٹنگ کا نظام اچھا کریں لیکن ساتھ ہی تھوڑی سی کھڑکی بھی کھلی ہونی چاہیے تا کہ تازہ ہوا آتی رہے۔ آجکل سردی بہت ہے، آپ کے ہاں جو ٹمپریچر لندن میں ہے اس سے دو ڈگری کم ہی ہوتا ہے یہاں اسلام آباد میں لیکن پھر بھی تھوڑی سی، ہلکی سی کھڑکیاں کھول کے ہی رکھتے ہیں دفتروں کی، بہرحال احتیاط کرتے ہوئے۔ پھر مربیان جو ہیں جب درس دینے آتے ہیں یا پبلک میں آتے ہیں یہ بھی بتا دیں ان کو کہ ناک میں Vicks لگا کے اور ماسک پوری طرح پہن کے جو بھی گورنمنٹ کا مقرر شدہ پروٹوکول ہے اس کو observe کرتے ہوئے آیا کریں۔
نیز فرمایا کہ نمازیں تو پڑھی جاسکتی ہیں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ جب حکومت نے روکا تھا تب تک ٹھیک تھا۔ جب انہوں نے تھوڑی سی چھٹی دی ہے تو ہم بھی احتیاط کے ساتھ، احمدی کا یہی تو کام ہے کہ پوری طرح قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جو maximum فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھانا چاہیے نہ یہ کہ جو restrictions ہیں ان پہ بھی عمل نہ کریں۔ بازاروں میں نہیں پھرنا چاہیے۔ ہر مربی کو اپنے اپنے علاقے میں جماعت کے افراد کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے، بازاروں میں پھرنے سے روکنا چاہیے اور یہ کہ بلا وجہ سڑکوں پر نہ پھریں، گورنمنٹ نے منع کیا ہوا ہے۔ پارک میں جانا ہے تو وہاں بھی سوشل distance وغیرہ کی انہوں نے واضح طور پر ہدایات دی ہیں اس کے مطابق کام کریں۔ باقی یہ کہ نمازوں پہ تو آ سکتے ہیں اور وہاں آکے تو فاصلے سے پڑھنی ہیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ ٹھیک ہے۔ اپنی اپنی جائے نماز ساتھ لے کے آیاکریں یا کپڑا لے کے آیا کریں کم از کمسجدے کی جگہ پہ رکھنے کے لیے ۔
دوسرے یہ کہ مسجدوں میں جو کارپٹ ہیں ان کے اوپر روزانہ ہووَر (hoover)پھرنا چاہیے وہ بھی ڈیوٹی لگائیں کسی نہ کسی خادم کی کہ مسجدیں ان دنوں میں خاص طور پر روزانہ صاف ہوں اور مسجد میں روزانہ صبح کو یا شام کو، بہتر یہ ہے کہ شام کو دھونی دی جائے، رات کو جب عشاء کی نماز پڑھا لیں تو پھر دھونی دینے کا انتظام ہو۔ ہر مسجد میں دھونی دی جائے۔ مل جاتی ہے دھونی آج کل تو۔ آپ کے ایسٹ لنڈن میں توہر جگہ مل جاتی ہے، ساؤتھ آل میں مل جاتی ہے بلکہ۔ دھونی لے کے تو مسجد میں دھونی دینی چاہیے۔ دھونی دینے کے بعد اچھی طرح مسجد بند کریں۔ جہاں فائر اَلارم لگے ہوئے ہیں وہاں پہلے آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ فائر اَلارم ہیں اور دھونی دے رہے ہیں تو اس کا انتظام پہلے ہی کر لیں۔
ایک مربی صاحب نے عرض کیا کہ حضور ساؤتھ آل کی کونسل کی طرف سے خط آیا ہے کہ جتنی بھی عبادت گاہیں ساؤتھ آل میں ہیں ان کو بند کر دیا جائے کیونکہ وہاں گوردوارے بہت ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ اگر کونسل کی طرف سے یہ ہدایت آئی ہے کہ بند کر دیا جائے تو ٹھیک ہے بند کریں لیکن ان سے پوچھ لیں گورنمنٹ نے تو یہ اعلان ابھی نہیں کیا۔ جب گورنمنٹ کی طرف سے اعلان ہو گا تو پھر بند کر دیں لیکن پھر یہ ہے کہ فجر کے بعد یا تو ہر گھر میں درس کا انتظام ہو اور پتہ ہو کہ روزانہ کتنا حصہ درس کا دینا ہے۔ جن کے گھروں میں نمازیں ہوتی ہیں ہر ایک کو لکھ کے بھیج دیں کہ وہ یہ حصہ تفسیر کبیر کا اتنا حصہ درس کا دیا کریں روزانہ۔ اور جو نہیں دے سکتے ان کے لیے پھر آپ کا انتظام ہونا چاہیے کہ آپ بیٹھ کے دے دیں اور وہ آن لائن سن لیا کریں۔ اب تو فون پہ بھی سنا جا سکتا ہے اور انٹرنیٹ پہ بھی سنا جا سکتا ہے۔ آئی پیڈ وغیرہ پہ ہر جگہ سنا جا سکتا ہے اگر آپ کا آن لائن انتظام ہے۔ واٹس ایپ وغیرہ پہ آرام سے آپ کر سکتے ہیں انتظام ۔ اول تو جو دے سکتے ہیں وہ خود ہی دے لیں۔
فرمایا اگر گورنمنٹ یہ کہتی ہے کہ بند کر دیں تو بند کر دیں لیکن پہلے صحیح طرح اس کی تحقیقات کر لیں اور پتہ کر لیں کہ اس کیdetails کیا ہیں ۔ ٹھیک ہے؟ پھر کریں۔
شعبہ تبلیغ کے ایک مربی صاحب سے حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ آج کل آپ لوگ تبلیغ کس طرح کرتے ہو ۔ اس پر مربی صاحب نے بتایاکہ حضور آج کل تو ہم آن لائن ہی کر رہے ہیں۔ ہر ہفتے تبلیغ ٹریننگ ایونٹس ہوتے ہیں اور ماہانہ ریجنل تبلیغ ٹریننگ بھی ہو رہی ہے۔ پھر حضورِ انور نے استفسار فرمایا کہ اس سال کتنی بیعتوں کا ٹارگٹ رکھا ہوا ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا: حضور اس سال کا ٹارگٹ 150ہے اور ابھی جولائی سے دسمبر تک 64بیعتیں ہو گئی ہیں۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا: اچھا ماشاء اللہ۔ اس میں سے شادی کرانے والوں کی کتنی بیعتیں ہیں اور جو پڑھ لکھ کے سمجھ کے آئے ہیں ان کی بیعتیں کتنی ہیں؟ اس پر مربی صاحب نے جواب دیا کہ زیادہ تعداد وہی ہے جو پڑھ لکھ کے آئے ہیں۔
شعبہ تاریخ کے ایک مربی صاحب نے بتایا کہ انہیں یوکے جماعت کی تاریخ کی پہلی جلد تیار کرنے کی توفیق ملی ہے۔ نیز انہیں Voice of Islam ریڈیو میں بطور پریزنٹر پروگرامز پیش کرنے کی بھی توفیق مل رہی ہے۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ تبلیغ ڈیپارٹمنٹ میں بھی کچھ نہ کچھ کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ۔ اچھا ہے تحقیقی مضمون لکھتے رہا کرو۔ disappoint نہ ہونا، کوئی مضمون شائع ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، کسی کو پسند آتا ہے یا نہیں آتا۔ جس طرح تحقیق کر رہے ہو اپنی تحقیق کرو اور مضمون لکھتے رہا کرو۔
Hayesجماعت کے مربی صاحب سے حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کے ہاں کتنے لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ حضور آج کل پانچ سے آٹھ افراد ہیں جو آتے ہیں۔ وہی ہیں جو فجر پر بھی آتے ہیں، ظہر، عصر پر بھی، مغرب عشاء پر بھی۔ حضور انور نے فرمایا کہ نوجوانوں کو قریب لانے کی زیادہ کوشش کریں۔ ان دنوں میں کم از کم نوجوانوں کو نمازوں کا عادی بنا دیں۔ اور باقی کیا activities ہیں؟
مربی صاحب نے بتایا کہ حضور بچوں، خدام اور نومبائعین کی تعلیم و تربیت اسی طرح جاری ہے جس طرح لاک ڈاؤن سے پہلے بھی تھی۔ فرق یہ ہے کہ اب اللہ کے فضل سے آن لائن کرنے کی وجہ سے حاضری زیادہ ہوتی ہے اور زیادہ اطفال اور خدام کلاسز میں شامل ہو رہے ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اچھا ٹھیک ہے۔
اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق بنانے کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ آج کل تو وقت کافی مل جاتا ہے۔ آجکل کے حالات کے لیے ایک گھنٹہ تو کوئی مشکل نہیں۔ آپ لوگوں کو ایک گھنٹہ تو نفل پڑھنے چاہئیں صبح اور باقی عام دنوں میں بھی کوشش کر کے اس کو maintainرکھیں۔ اصل چیز تو دعا ہے۔ دعا سے کام ہونے ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اپنےتعلق باللہ کو بڑھائیں تو یہی اصل چیز ہے ہمارے لیے۔ دعاؤں اور استغفار پہ زور دیں زیادہ۔
وقفِ جدید کے چندے میں پہلے نمبر پر آنے پر حضورِ انور نے امیر صاحب یوکے کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ لوگ وقف جدید میں نمبر ایک آ ہی گئے اس دفعہ دوبارہ۔ کافی کوشش کی آپ لوگوں نے،کافی بڑی کلیکشن کی ہے جتنا فرق ڈالا ہے آپ لوگوں نے۔ ویسے جرمنی والوں نے بھی اتنی ہی تقریباً کولیکشن کر لی تھی اگر آپ تھوڑی کرتے تو شاید جرمنی اوپر آجاتا لیکن آپ کی اس دفعہ محنت زیادہ تھی اس کی وجہ سے جرمنی باوجود اپنی پوری کوشش کے پیچھے ہی رہا ہے، آپ سے کافی پیچھے رہ گیا۔ اس میں دیکھ رہا تھا لجنہ نے جو تحریک جدید کی کلیکشن کی تھی وہ چھ لاکھ نوے ہزار تھی اور وقفِ جدید کی کلیکشن سات لاکھ پانچ ہزار تھی تو لجنہ نے وقفِ جدید کا پایہ یہاں اونچا کر دیا۔ آپ لوگ رہ گئے لیکن لجنہ نے کافی محنت کی ہے۔ اس دفعہ لگتا ہے آپ لوگوں نے بھی لجنہ سے کچھ سیکھا ہے محنت کرنا۔ ایک چیز آپ لوگوں نے غلط کر دی تھی کہ جو شروع میں کہہ دیا تھا، ایک بیچ میں مہم چلائی تھی کہ IAAAE کو جو ہم دیتے ہیں اس میں سے فلاں دیتے ہیں وہ غلط تھا۔ ہاں ایک حصہ ان کو بھی مل جاتا ہے لیکن میں خطبہ میں بیان کر چکا ہوں کہ کیا کیا مقاصد ہیں۔ مسا جد ہیں، مشن ہاؤسز ہیں، تبلیغ ہے، اشاعت ہے۔ بہت ساری رقم جو افریقہ میں جاتی ہے اس میں سے بہت خرچ تو افریقہ میں ہوتا ہے لیکن یہ کہ specifically، خرچ IAAAE کے لیے ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا۔ چلیں ہو گیا۔ آپ کا مسجد بیت الفتوح کا کام کہاں تک پہنچا ہے؟
محترم امیر صاحب یوکے نے عرض کیا کہ حضور اللہ کے فضل سے کافی ایڈوانس چل رہا ہے۔ حضورِ انور نے اس پراجیکٹ کی تکمیل کے بارے میں استفسار فرمایا جس پر امیر صاحب نے عرض کیا کہ ہماری بلڈنگ کو مکمل طور پر تعمیر ہوتے ہوئے ابھی یہ سارا سال لگ جائے گا ،finishing شروع ہو گئی ہے۔
٭…٭…٭