تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جھوٹ کا الزام؟
غیر احمدی علماء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سینکڑوں صفحات پر پھیلی عالمانہ اور فاضلانہ تحریرات میں سے چند ایک مقامات کو لے کر یہ الزام لگاتے ہیں کہ (نقلِ کفر کفرنباشد) آپ علیہ السلام نے بعض مقامات پر سچائی سے کام نہیں لیا۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ تحریر فرمایا کہ ’’ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا ۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر21صفحہ 359)
تو اس پر غیر احمدی علماء کہتے ہیں یہ جھوٹ ہےاور کہتے ہیں کہ احادیث میں چودھویں صدی کا لفظ نہیں لکھا ہوا ۔
ایسا کہتے ہوئے وہ جان بوجھ کر ان تمام تر تفاصیل اور دلائل کو پیش نہیں کرتے ہیں جن کو بیان کرنے اور لکھنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تحریر فرمایا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیثیت ایک عالم ، فاضل کی ہے ،آپ علیہ السلام 85سے زائد کتب کے مصنف ہیں ۔ان تحریرات کا پھیلاؤ سینکڑوں صفحات پر ہے ۔حضورؑ نے بے شمار موضوعات پر نہایت محققانہ انداز میں قلم اٹھایا ہے ۔ایک موضوع کو کئی مواقع پر پوری شرح وبسط سے تحریر فرمانے کے بعد کوئی استدلال بیان فرماتے ہیں ۔اب یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ ہی اس موضوع کے حوالے سے تمام تردلائل اور شروحات لازماً درج کی جائیں بلکہ مضمون کے اعتبار سے ایک جگہ اختصار سے کام لیا جائے تو اسے جھوٹ کے زمرے میں کیسے شمار کیا جاسکتا ہے ؟ کسی محقق کی تحریر میں موجود حقائق کو سیاق وسباق میں بیان کردہ دلائل اور دیگر جگہوں پر موجود تفاصیل پڑھے بغیر سمجھا نہیں جاسکتا ۔اور سمجھے اور پڑھے بغیر ہی جھوٹ کہنا کسی لحاظ سے درست نہیں ۔
غیر احمدی علماء کے اس اصرار سے کہ من وعن وہی الفاظ نہ ہونے کی صورت میں ہر بات جھوٹ قرار پائے گی دینِ اسلام کی کئی تعلیمات کے ایک حصے پر سوالیہ نشان آجائے گا کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں جنہیں استدلال کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے جو نصوص یعنی قرآن وحدیث میں واضح الفاظ میں موجود نہیں ہوتیں ۔
صاحبِ علم احباب جانتے ہیں کہ قرآن وسنت سے استدلال کرنے کے چار مسلمہ اصول ہیں ۔عبارۃ النص،اشارۃالنص، اقتضاءالنص،دلالۃ النص۔ ان میں سوائے پہلی قسم یعنی عبارۃ النص میں الفاظ موجود ہوتےہیںورنہ باقی تینوں اقسام میں جو استدلال کیا جاتا ہے ضروری نہیں کہ اس کے الفاظ من و عن موجود ہوں ۔اس بات کو سمجھنے کے لیےان مسلمہ اصولوں کا جاننا ضروری ہے ۔اس کی تفصیل یہ ہے ۔
’’عبارۃ النص:نص سے جو معنی مقصود ہے ،نص اس کی واضح الفاظ میں صراحت کر دے ،جیسے
(وَاَحَلَّ اللّٰہُ البَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَوا)
میں اس بات کی دلالت کہ بیع حلال اور سود حرام ہے ۔کتاب وسنت کی اکثر دلالتیں اسی قسم کی ہیں اس کو دلالت النص بھی کہتے ہیں ۔
اشارۃ النص: نص کے الفاظ میں کوئی ایسا اشارہ پایا جائے جو اس کے معنی پر دلالت کرے ،جیسے
(وَشَاوِرْھُم فِی الْاَمْرِ)
اور معاملے میں ان سے مشورہ کیجیے اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امت میں ایک گروہ ہونا چاہیے جو امت کی نمائندگی کرے اور اس سےمعاملات کے بارے میں مشورہ کیا جائے ۔اس دلالت کو دلالتِ اشارہ بھی کہتے ہیں ۔
اقتضاء النص :اقتضاء کے لغوی معنی طلب کرنے یا تقاضا کرنے کے ہیں ۔اصولِ فقہ کی اصطلاح میں عبارت کے اندر کسی ایسے لفظ کو محذوف ماننا جس کے بغیر عبارت کا مفہوم درست نہ ہوتا ہو،جیسے
(وَسْئَلِ القَرْیَۃَ )
سوال کیجیے بستی والوں سے ۔یہاں قَریَۃ سے پہلے اَھلکا لفظ مقدر ہے ۔اس دلالت کو دلالت ِ اقتضاء بھی کہتے ہیں ۔
دلالتِ اولیٰ یا دلالۃ النص:کسی ایک مسئلہ میں نص کا حکم،کسی دوسرے مسئلہ میں اس کے حکم پر اَز خود دلالت کرے ۔جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
(فَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْ ھُمَا )
والدین کو اف تک نہ کہو اور نہ ان کو ڈانٹو۔اس میں اس بات کی دلالت ہے کہ ماں باپ کو مارنا یا گالی دینا بالاولیٰ حرام ہے ۔‘‘
(تفہیم اصول الشاشی از ابو نعمان بشیر احمد صفحہ 22تا23مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور )
قرآن کریم سےکسی حکم کا استدلال کیا جاتا لیکن اس حکم کے الفاظ اس طرح موجود نہیں ہوتے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ قرآن کریم میں والدین کو مارنایا گالی دینا حرام قرار دیا گیاہے تو مسلمہ اصولوں کے مطابق سو فیصد درست ہے حالانکہ قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ یہ بات اس طرح موجود نہیں ہے لیکن جو اصول ان غیر احمدی علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کے حوالے سے اپنایا ہوا ہے اس کے مطابق تو جب تک الفاظ نہیں دکھائے جائیں گے اس وقت تک یہ بات جھوٹ کے زمرے میں آئے گی یعنی اگر کسی نے یہ کہا کہ قرآن کریم نے والدین کو مارنے یا گالی دینے کو حرام قرار دیا ہے تو غیر احمدی علماء کے اصولوں کے مطابق ایساکہنے والے نے قرآن کی طرف جھوٹ منسوب کیا ہے ۔
ان چاروں مسلمہ اصولوں میں سے تیسرے اصول یعنی اقتضاء النص کے مطابق تو قرآن کریم میں ایک لفظ موجود ہی نہیں پھر بھی اسے تصور کرکے استدلال کیا جاتا ہے ۔مثلاً
وَسْئَلِ القَرْیَۃَ
قرآنی آیت کا حصہ ہے جب تک اس کو
وَسْئَل اَھْلَ القَرْیَۃِ
تسلیم نہ کیا جائے گا اس وقت تک صحیح استدلال نہیں ہوسکتا لیکن غیر احمدی علماء کے اصولوں کے مطابق تو یہ جھوٹ ہوگا جو قرآن کی طرف منسوب کیا جائے گا ۔
ان چاروں اصولوں کا علم غیر احمدی علماء کو ہے اور جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں ان کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔ختم نبوت کے حوالے سے اپنی طرف سے ننانوے آیتیں پیش کرنے کے بعد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کو خیال آیا کہ ان آیات میں تواس طرح ختم نبوت کا ذکر نہیں تو فی الفور ان کو یہ چاروں اصول یاد آگئے ۔وہ لکھتےہیں:
’’یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مذکورۃ الصدر ننانوے آیتیں جو ختم نبوت کے ثبوت میں پیش کی گئی ہیں ،ان میں سے بعض اس مقصد میں بالکل صریح اور عبارت النص ہیں اور بعض اشارۃ النص یا دلالۃ النص اور اقتضاء النص کے طور پر ہیں اور یہ چاروں طریق باتفاق علماء اصول استدلال کے قطعی اور یقینی طریق ہیں ۔‘‘
(ختم نبوت کامل ہر سہ حصہ از مولانا مفتی محمد شفیع صفحہ 198 مفتی اعظم پاکستان ادارۃ المعارف کراچی )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پڑھنے کے دوران غیر احمدی علماء کواستدلال کے چاروں اصول یاد نہیں آتے بلکہ وہاں ان کا اصرار ہوتا ہے کہ الفاظ دکھائیں ورنہ جھوٹ ہے ۔ اللہ تعالیٰ علماء کو حق بات سمجھنےاور کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭…٭…٭