ندائے شب و روز
جب انسان پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کے پیچھے سر جھکائے چلتا ہے تو گویا کامیابی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہوتا ہے
یہودونصاریٰ کے بگل و ناقوس اور مجوسیوں کی آگ میں وہ تپش نہ تھی جو ایک غلام حبشی کی دلکش میٹھی آواز میں تھی کیونکہ اس دلفریب آواز کے الفاظ آفاقی اور پیغمبر خدا کے دین کے اصل الاصول کا خلاصہ تھے ۔
ایک ایسی خوبصورت صدا جو صبح کے وقت وجود انسانی میں ایسا رعب ڈالتی ہے کہ بند آنکھوں کی پتلیاں اٹھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور انسان کاروبار زندگی میں رواں دواں ہو جاتا ہے پھر حرکت و عمل کے اوقات میں یہی صدا قدموں کو سستانے کے لیے خدا کی بارگاہ تک لاتی ہے تو شام کے ملگجے میں یہی صدا تھکے بوجھل قدموں کو لوری دلاتی ہوئی بیت اللہ کی آغوش میں فرحت و سکون بخشتی ہے ۔
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
پیغمبر خدا کا الٰہی پیغام جو چودہ سو سال پہلے حضرت بلالؓ کی خوبصورت آواز میں گونجا تو آج تک بندگان خدا کو اذان کی صورت میں شب و روز بلا رہا ہے۔
ایک دعوت ایک وعدہ جس کا اعلان انڈونیشیا کے مشرقی جزائر سے بصورت اذان شروع ہوتا ہے تو مختلف ممالک میں ٹائم کے فرق سے مسلسل مؤذن اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ یہ سلسلہ مغربی جزائر تک چلا جاتا ہے۔
مغربی جزائر کی فضاؤں کو گواہ بنانے کے بعد شمالی امریکہ لیبیا اور تیونس میں اذانیں شروع ہونے لگتی ہیں۔یوں فجر کی اذان جس کا آغاز انڈونیشیا کے مشرقی جزائر سے ہوا تھا ساڑھے نو گھنٹے کا طویل سفر طے کر کے بحر اوقیانوس تک پہنچنے سے پہلے مشرقی انڈونیشیا میں ظہر کی اذان کا وقت ہو جاتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض پر ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جہاں اس دلکش آفاقی جامع پیغام کا اعلان نہ ہوتا ہو۔
یہ وہ صدا ہے کہ دنیا کے سارے آلات موسیقی وہ تاثیر پیدا نہیں کر سکتے جو روح کو جھنجھوڑ سکیں۔ کتنا پُرمغز،بارعب،پُرہیبت اور گہرا پیغام ہے جس کی آواز تو انسانی ہے لیکن وعدہ آسمانی ہے جو خدا نے اپنے بندوں کو سکھایا بتایا اور نبھانے کے لیے ہر روز پانچ مختلف اوقات میں عرش سے فرش تک اپنی رحمتوں اور فضلوں کے در وا کرتا ہے اور بلاتا ہے کہ ہے کوئی جو کامیابی چاہے تو آئے۔کون عقل مند انسان ایسا ہو گا جو کامیابی اور خوشحالی نہ چاہے۔لیکن کامیابی کی خواہش رکھنے والا ضرور سوچے گا کہ جو نوید(اذان )وہ سن رہا ہے اس صدا کے پیچھے کون ہے کیا وہ کچھ دے بھی سکتا ہے یا نہیں ؟
جیسے انسان کامیابی اور دنیاوی فائدےکے حصول کےلیے درجےاور رتبے سے مرعوب ہوتا ہے اسی نفسیات کے پیش نظر اس(اذان ) میں وعدہ کرنے والا آغاز میں ہی اپنا تعارف اللہ اکبر سے کراتا ہے کہ مَیں ہوں وہ اعلیٰ و ارفع ذات جو کامیابی کی طرف بلاتا ہے لیکن یہ کامیابی نہ خوشامد سے حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی یہ عارضی فائدہ دیتی ہے۔اس کے حصول کے بھی کچھ قوانین ہیں۔ جیسے دنیا کے عارضی فائدوں کے حصول میں بہت سے قواعد و ضوابط وشرائط لاگو ہوتے ہیں جو خوشحالی کی ضمانت توسمجھے جا سکتے ہیں لیکن ’’یہ ہمیشہ کے لیے ہے ‘‘یہ ضمانت نہیں دی جاتی ۔لیکن خدا نے انسان کی کامیابی و خوشحالی کےایسے آسان ضابطے بتائے جن پر صرف محبت واطاعت کے قوانین لاگو ہوتے ہیں ۔
پہلا قانون یہ لاگو ہوتا ہے کہ
اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ
کہ دل سےگواہ ہوجاؤ کہ صرف اسی کو معبود و مقصود مانو گےاور کامل توکل رکھو گے کہ یہ ذات کسی وزیر امیر افسر یا دنیا داری کے قانون کی مانند نہیں کہ خوشامد ،چاپلوسی، منافقت سے کام نکلوا لیا غرض دنیا ایک مطلب کا سودا ہے دل کیا تو طے کر لیا نہیں توترک کر دیا۔ لیکن یہاں کامیابی کی طرف بلانے والے کے ساتھ دل کا سودا طے کرنا مقصود ہے جس سے ترک تعلق ممکن نہیں۔
محبت اور اطاعت کا یہ مقام ہو کہ اس کی بندگی میں آکر تمام تر عبادتوں کا محور صرف اور صرف رب العالمین ہی ہو اور تمام ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے فقط اسی کے در کو کھٹکھٹاناہے جو رحمان اور رحیم ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ابن المبارک کہتے ہیں کہ اَلرَّحْمٰن وہ ہے کہ جس سے جب بھی مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے اور اَلرَّحِیْم وہ ہے کہ جس سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے۔ چنانچہ ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ لَّمْ یَدْعُ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ غَضِبَ عَلَیْہِ
یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا اور اس سے مانگتا نہیں اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الدعا باب فضل الدعا حدیث نمبر 3827)
ایک شاعر نے اس مضمون کو اپنے الفاظ میں یوں ڈھالا ہے۔
اَللّٰہُ یَغْضَبُ اِنْ تَرَکْتَ سُؤَالَہٗ
وَبُنَیّ اٰدَمَ حِیْنَ یُسْئَلُ یَغْضَبٗ
یعنی اللہ وہ ہے کہ اگرتُو اس سے سوال کرنا اور مانگنا چھوڑ دے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابل بعض انسانوں کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی ان سے مانگ بیٹھے تو اس پر ناراض ہو جاتے ہیں۔
تو دیکھ لیں یہی چیز ہوتی ہے۔ کوئی پیچھے پڑ جائے کوئی چیز مانگنے کے تو آخر تنگ آ کر دے تو دیتے ہیں۔ لیکن آگے سے پھر جھڑک بھی دیتے ہیں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍فروری 2007ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍مارچ2007ءصفحہ5)
سوال ہی ہے جو انسان کے لیے نئی راہیں کھولتا ہے لیکن ایسی کوئی دنیا کی ہستی نہیں جس کے پاس ہر سوال کا جواب ہو اور انسان کی ہر مانگ کو پورا کرنے کی صلاحیت ہو ۔صرف ایک ہی ذات رب کائنات کو ماننا اور دل کو گواہ بنانا ہوگا ۔گوکہ اسے ہماری گواہی کی ضرورت نہیں۔لیکن وہ ذات الظاہر والباطن ہےاور انسانی تمام ضروریات چاہے مادی ہوں یا روحانی خوب گہری نظر رکھنے والا ہے اس لیے انسان کو ہلاکت سے بچانا اور واحد لا شریک کا باریک نکتہ سمجھانا چاہتاہے ۔
دنیا میں کتنے ہی ممالک ہیں ان کو چلانے کے لیے سربراہ کے طور پر ایک ہی صدر یا ایک ہی وزیراعظم ہوتا ہے۔ اگر ان کی تعداد کو بڑھا دیا جائے تو بجائے ملک ترقی کرنے کے تنزل کا شکار ہو جائے گاکیونکہ ایک سربراہ کے فیصلے ملک کو دائیں طرف کھینچیں گے تو دوسرے سربراہ کے فیصلے ملک کو بائیں طرف۔یعنی ملک کی قوت دو ٹکڑے ہوجائے گی۔ یہ تو صرف ایک ہی ملک کی بات ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس کائنات کو چلانے والا ایک ہی مالک ہو جو انتہائی طاقتوں کا سرچشمہ ہو تبھی تو انسان کی کامیابی کی ضمانت ممکن ہے۔
اب اگر انسان اس کامل وارفع ذات کا تعارف حاصل کرلیتا ہےتو پھر کیا قانون و شرائط ہوں گی کہ اس اعلیٰ ذات سے رابطہ قائم کیا جا سکے۔ خود تک پہنچنے کے لیے خدا نے عین اپنے ذکر کے بعد اس محبوب کا ذکر کیا ہے جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَسُوْلُ اللّٰہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سےاپنے اعمال سےاور اپنے روحانی اور پاک قوی کے پُرزور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً وصدقاً وثباتا ًدکھلایا اور انسان کامل کہلایا…
وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی خاتم لانبیاءامام الاصفیاءختم المرسلین فخرالنبیین،جناب محمد مصطفٰےصلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘‘
(اتمام الحجۃ ،روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 308)
اس اقتباس سے خوب ظاہر ہوتا ہے کہ یہی پاک وجود ہے جو خدا اور اس کے بندے کے درمیان فرش سے عرش تک ربط کا کام بجا لا سکتا ہے۔ کیونکہ اس پاک وجود نے اپنے رب کے رنگ میں رنگین ہو کر اس کی صفات کو دنیا کے سامنے پیش کیااور رب العالمین نےرحمۃ للعالمین کو ماننا انسان پر لازم قرار دے دیا کہ میرا محبوب وجود ہی مجھ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔یعنی دل و جان سے اس بات پر گواہ ہونا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور اس کی اطاعت خدا کی اطاعت اور اس سے محبت خدا سے محبت ہے۔
جب انسان پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کے پیچھے سر جھکائے چلتا ہے تو گویا کامیابی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ
یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں‘‘
(الحکم جلد 6نمبر26 صفحہ 6 مورخہ 24؍جولائی 1902ء)
مخلوق خدا کی تکلیف کی تڑپ رکھنے والا عملی طور پر وہ طریق بتاتا ہے جس سے خدا کی رحمت کے در کھل جاتے ہیں اس کی تعلیم خداسے ملاتی ہے کہ حيّ علىٰ الصَّلوٰة آؤنماز کی طرف حيّ علىٰ الفلاح آو کامیابی کی طرف اور اپنی مشکلات ضرورتوں حاجتوں غرض جوتی کےتسمہ کی ضرورت بھی ہو تو آؤ اورمانگو ۔یہی وہ در ہے جہاں تمہاری کامیابی اور فلاح ممکن ہے ۔
اذان کے آخر میں اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لا الہ الا اللّٰہ کے الفاظ دوبارہ دہرائے جاتے ہیں کہ اے انسان! زمانے کی گردشوں میں بھول نہ جانا کہ تمہاری تمام تر ضرورتوں کو پورا کرنے والا صرف وہی ہے جو سب سے عظیم تر اور عبادت کے لائق ہے یہ نہ ہو کہ کامیابیاں اور مال و دولت تمہیں غافل کر دیں اس لیے ہر روز صبح یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ
الصَّلوٰةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ
کہ نماز بہتر ہے نیند سےاور تمہارا مال و دولت،اولاد زندگی ،سکون ،خوشیاں سب اسی کے در سے ہیں کہیں سستیوں میں اس درکو بند نہ کر بیٹھنا جیسے پہلے مذاہب کے لوگ یہ در کب کا بند کر چکے کیونکہ آلات انسانی کی آواز میں اتنی طاقت نہ تھی کہ بارگاہ الٰہی کا در کھول سکیں۔
اذان کے الفاظ خود اللہ تعالیٰ نےبتائے جس میں اللہ تعالیٰ انسان کو کامیابی کی کنجی سےباخبر کرتا ہے اور وہ ہے نماز۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۔الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ۔(المومنون:2تا3)
یقینا ًمومن کامیاب ہو گئے ۔وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں ۔
٭…٭…٭