امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نارتھ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ،کے 16 سے 19 سال کے خدام کی (آن لائن) ملاقات
میں مستقل دنیا کے لوگوں کو، سیاست دانوں کو اور راہنماؤں کو بتا رہا ہوں کہ انہیں خود کو بدلنا ہوگا اور دنیا میں عدل و انصاف کو قائم کرنا ہوگا اور اپنے خالق کے حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں کے بھی۔ ورنہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے
امام جماعت احمدیہ عالمگیرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11؍ستمبر 2021ء کو مجلس خدام الاحمدیہ نارتھ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے الے 16 تا 19 سال کی عمر کے خدام سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضور انور نے اس ملاقات کو اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق بخشی جبکہ طلباء نے مسجد دار الامان Manchester سے آن لائن شرکت کی۔
ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد خدام کو کو حضور انور سے اپنے عقائد اور حالاتِ حاضرہ وغیرہ پر مشتمل امور کے بارے میں سوالات پوچھنے اور راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ پیارے حضور جب آپ تہجد ادا کرتے ہیں تو کون سی دعائیں کرتے ہیں اور کس ترتیب سے کرتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں اپنے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامل شفا بخشے تاکہ میں پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکوں۔ پھر میں احبابِ جماعت کے لیے دعا کرتا ہوں، اپنے دوستوں کے لیے، اپنے بچوں کے لیے۔ اس طرح آپ کو بھی اپنے لیے دعا کرنی چاہیے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آنحضرتﷺکے مشن کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اسلام کا پیغام جلد اکنافِ عالم میں پھیلے، پھر اپنے بہن بھائیوں کے لیے، اپنے والدین کے لیے اور پھر دوسرے لوگوں کے لیے۔ یہ تو معمول کی ترتیب ہے مگر بسا اوقات اگر کوئی واقعہ رو نما ہو جائے تو میں اس کے لیے بھی دعا کرتا ہوں۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور انور گھانا میں قیام کے دوران سیر و تفریح کے لیے کیا کرتے تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ تفریح کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ ہر لمحہ جو میں نے وہاں گزارا ہے ، خواہ بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے، چلتے پھرتے یا کوئی کام کرتے ہوئے، وہ سب کا سب میرے لیے باعثِ تفریح تھا اور میں نے وہاں گزارے ہوئے ہر لمحہ کو enjoyکیا ہے۔ جیسی چیزیں آپ کو یہاں میسر ہیں، یہ وہاں اس وقت میسر نہ تھیں۔ ہمارے پاس ٹیلی وژن نہیں تھا، ہمارے پاس ریڈیو بھی نہیں تھا اور اکثر اوقات ہمارے پاس بجلی بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے جو چیز میں بطور تفریح کر سکتا تھا وہ کام سے واپسی پر فیملی کے ساتھ اور کتابیں پڑھنے میں وقت گزارنا تھا۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ قرآن کریم نے شہید کو زندہ کیوں قرار دیا ہے؟
حضور انور نے فرمایا:کیونکہ وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور انہیں اس کا اجر جنت میں عطا کیا جائے گا۔ اور شہدا کیونکہ اللہ کے دین کی خاطر جان قربا ن کرتے ہیں، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو پسند کیاہے اور ان کی تعریف فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ بھی ان کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کی بلندیٔ درجات کے لیے۔ اس لیے آپ ہمیشہ انہیں یاد رکھتے ہیں۔ اور ان کی یادوں سے صرف ان کے افراد خانہ ہی محظوظ نہیں ہوتے بلکہ دوسرے بھی ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اور انہیں اجر دیا جائے گا۔ کیونکہ مردہ تو وہ ہے جسے کوئی جانتا نہ ہو۔ اور مرنے کے بعد کوئی اسے نہیں جانتا سوائے اس کے قریبی رشتہ داروں کے۔ جہاں تک شہدا کا تعلق ہے تو ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ اور جنت میں بھی انہیں کسی بھی دوسرے انسان سے بڑھ کر اور بہترین اجر سے نوازا جائے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں مردے گمان نہ کرو تم انہیں اس دنیا میں مردہ خیال کرتے ہولیکن وہ جنت میں ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور وہی تمہاری آخری منزل ہے۔
پھر ایک اَور خادم نے سوال پوچھا کہ کیا جماعت احمدیہ مسلمہ پر ظلم و تعدی مستقبل میں بھی جاری رہے گی جبکہ کئی مغربی ممالک میں احمدیت پھیل رہی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ جب جماعت احمدیہ مسلمہ مغربی ممالک میں پھیل جائے گی یا بعض امیر ممالک میں جن سے پاکستانی حکومت امداد لیتی ہےیا غریب ممالک امداد یا مدد لیتے ہیں، تو انہیں احمدی مسلمانوں کے ساتھ بربریت سے رکنا پڑے گا۔ عیسائیوں پر بھی ظلم و تعدی کا بازار اس وقت تک گرم رہا جب تک رومن بادشاہ عیسائی نہیں ہوگیا اور اس کے عیسائیت کو قبول کرنے کے بعد عیسائیت کے ساتھ روا رکھی جانے والی ہر طرح کی ظلم و تعدی اور بربریت رک گئی۔ اسی طرح اگر مسلمان ممالک کے مسلمانوں نے خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا کہیں اور، مغربی ممالک سے پہلے احمدیت کو قبول نہ کیا تو پھر انہیں(اپنی ظلم و تعدی سے) رکنا پڑے گا۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ اس وقت بھی مسلمان ممالک کی اکثریت جو احمدیوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہے، ان مغربی ممالک پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اور اس وقت جب احمدیت ان مغربی ممالک میں پھیل جائے گی،یہ انہی مغربی ممالک پر ہی انحصار کرتے ہوں گے۔ جب تک یہ ان مما لک پر انحصار کرتے رہیں گے تو انہیں ان ممالک کی بات کو ماننا پڑے گا۔ ان کا ‘خدا’ واحد و لاشریک اور قادر نہیں ہے۔ اگرچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں لیکن در حقیقت ان کا ‘خدا’ یہ مغربی ممالک ہیں جن کی وہ تقلید کر رہے ہیں۔
ایک اور خادم نے جن کا تعلق سکاٹ لینڈ سے ہے پوچھا کہ حضور انور کا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ آیا سکاٹ لینڈ ایک خود مختار ملک بن جائے گا اور یہ بھی کہ حضور انور کی سکاٹ لینڈ میں پسندیدہ جگہ کون سی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ میں ایک سیاست دان نہیں ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ آج کے اس دور میں سکاٹ لینڈ، انگلینڈ، ویلز اور آئر لینڈ کی سلامتی اور تحفظ اکٹھے رہنے میں ہے تاکہ ایک جھنڈے تلے سب اکٹھے ہوں، یہی بہتر ہوگا۔
سکاٹ لینڈ میں اپنی پسندیدہ جگہ کے بارے میں حضور انور نے فرمایا کہ سکاٹ لینڈ کےHighlands میں ایک جگہ Portnellan ہے جہاں میں گیا تھا اور کچھ دیر کےلیے قیا م کیا تھا۔ مجھے یہ جگہ پسند ہے۔ پھر وہاں Pitlochry (شہر) ہے جہاں دریاہے اور کشتیاں ہیں اور Falkrik Wheel ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی Highlands میں بہت کچھ ہے۔ سکاٹ لینڈ ایک خوبصورت جگہ ہے۔ جہاں میں گیاہوں اور جو جگہیں میں نے دیکھی ہیں وہ سب خوبصورت جگہیں ہیں۔
ایک خادم نے پوچھا کہ حضور جب آپ کی عمر ہماری عمر کے برابر تھی یعنی 16 سے 19 سال تو آپ کے کیا مشاغل ہوتے تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ میرا کوئی مشغلہ تھا بھی یا نہیں۔ میں اس وقت کرکٹ اور بیڈ منٹن کھیلتا تھا۔ پھر کچھ عرصہ کے لیے مجھے یاد ہے کہ میں پرانی ٹکٹیں جمع کیا کرتا تھا۔ ڈاکخانہ کی ٹکٹیں۔ لیکن یہ مستقل نہیں تھا، کبھی کبھی جمع کر لیا کرتا تھا۔ اس لیے کوئی معین مشغلہ نہیں تھا۔ میں کھیل صرف مشغلہ کے طور پر کھیلتا تھا، اس کھیل میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے نہیں کھیلتا تھا۔
ایک طالب علم نے حضور انور سے دنیا کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ کی رائے دریافت کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہر جگہ آپ دیکھتے ہیں، ظلم و بربریت ہے، سفاکی اور ظلم ہو رہا ہے، خواہ وہ بڑی طاقتوں کی طرف سے غریب ممالک پر ہورہا ہو یا ممالک کے اندر ہو رہا ہو یا مسلم امہ میں برپا ہو یا چھوٹے ممالک کے مابین ہو۔ ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہو گا کہ ان کے فرائض (حقوق اللہ اور حقوق العباد) کیا ہیں۔ یہ احمدی مسلمان کا فرض ہے اور یہ ہمارے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ اسی لیے میں مستقل دنیا کے لوگوں کو، سیاست دانوں کو اور راہنماؤں کو بتا رہا ہوں کہ انہیں خود کو بدلنا ہوگا اور دنیا میں عدل و انصاف کو قائم کرنا ہوگا اور اپنے خالق کے حقوق ادا کرنے ہوں گے اور اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں کے بھی۔ ورنہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور جو نظر آرہا ہے وہ سخت اندھیرا اور اس دنیا کا تاریک اختتام ہے۔