حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 22؍ ستمبر 2006ءمیں فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے جس کا اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ اس سے ہر ضرورت کے وقت مانگے اور اس کے لئے دعا کرے، حتی کہ جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہے تو خدا سے مانگے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین رہے، یہ احساس رہے کہ ہر بڑی سے بڑی چیز بھی اور ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اگر کوئی دینے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے فضل کے بغیر ہمیں کچھ نہیں مل سکتا۔ برائیوں سے بچنا ہے تو اس سے دعا مانگو کہ اے اللہ! مجھے برائیوں سے بچا۔ نیکیاں بجا لانی ہیں تو اس کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے توفیق مانگتے ہوئے نیکیاں بجالانے کی توفیق حاصل کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ ہم نیکیاں بجا لا سکتے ہیں، نہ برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہ ہم جہنم کی آگ سے بچ سکتے ہیں، نہ اس کے فضل کے بغیر ہم دنیا و آخرت کی جنت کے نظارے دیکھ سکتے ہیں۔ پس جب سب کچھ اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ملنا ہے تو کس قدر ضروری ہے کہ ہم ہر معاملے میں خدا کو یاد رکھتے ہوئے اس سے مانگیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَآؤُکُمْ(الفرقان :78)
کہ توُکہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا ربّ تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ خد اکے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت انہیں کے شامل حال ہوتی ہے، انہیں کو ملتی ہے’’کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعااور توحید کو اختیار کرتے ہیں۔ اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتا ر ہو جاتے ہیں ……خد اکو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے‘‘۔
(براہین احمدیہ ہرچہار حصص۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ564-563 بقیہ حاشیہ نمبر11)